مفت لیپ ٹاپ حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا کے لئے اہم خبر
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) مفت لیپ ٹاپ حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا کو ایک اور سنہری موقع مل گیا، جس سے وہ پرائم منسٹر لیپ ٹاپ اسکیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پرائم منسٹر لیپ ٹاپ اسکیم میں رجسٹریشن کی آخری تاریخ یکم جون 2025 تک بڑھانے کا اعلان کردیا گیا۔
جس کے تحت پاکستان بھر کے طلباء کو مفت لیپ ٹاپ کے لیے درخواست دینے کے لیے اضافی وقت دیا گیا ہے۔
پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے ایک اہلکار نے بتایا کہ یہ توسیع “طلبہ کے لیے اپنی ڈیجیٹل خواندگی اور تعلیمی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے مواقع کی ایک نئی کھڑکی کھولتی ہے۔”
گزشتہ ماہ، وفاقی حکومت نے باضابطہ طور پر 2025 کے لیے وزیر اعظم یوتھ لیپ ٹاپ اسکیم کو دوبارہ شروع کیا، جس کا مقصد ملک بھر میں اعلیٰ کامیابیاں حاصل کرنے والے طلباء کو 100,000 لیپ ٹاپ تقسیم کرنا ہے اور درخواست کی آخری تاریخ 20 مئی 2025 مقرر کی گئی تھی۔
اسکیم جو وزیراعظم کے یوتھ پروگرام کا حصہ ہے، ملک بھر کے طلبا کی جانب سے پذیرائی ملی اور ہزاروں طلباء نے کامیابی کے ساتھ اپنی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔.
نئی ڈیڈ لائن کے ساتھ وہ طلباء جو ابتدائی موقع سے محروم ہوگئے تھے، اب درخواست دے سکتے ہیں اور پروگرام سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اہلیت کے طریقہ کار
حکومت نے لیپ ٹاپ ڈسٹری بیوشن اسکیم کے لیے اہلیت کے طریقہ کار کا بھی اعلان کیا جس کے مطابق پی ایچ ڈی، ایم ایس/ایم فل، بیچلر، یا ماسٹر کے پروگراموں میں داخلہ لینے والے طلباء درخواست دینے کے اہل ہیں۔
درخواست دہندگان کو کم از کم تعلیمی معیار پر پورا اترنا چاہیے: 2.80 یا 60% نمبروں کا CGPA۔ پہلے سال کے طلباء کو HSSC کے نتائج جمع کروانے کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ MS/PhD طلباء کو اپنے پہلے سمسٹر میں اپنی پچھلی ڈگری کی ٹرانسکرپٹس فراہم کرنی ہوتی ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ جو پہلے ہی گریجویشن کر چکے ہیں وہ اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے حقدار نہیں ہیں۔
لیپ ٹاپس شفاف انتخاب کے عمل کے بعد محکموں اور ڈگری پروگراموں میں میرٹ کی بنیاد پر دیئے جائیں گے۔
طلباء پرائم منسٹرز ڈیجیٹل یوتھ ہب ایپ کے ذریعے رجسٹر ہو سکتے ہیں یا پرائم منسٹرز یوتھ پروگرام کی آفیشل ویب سائٹ www.pmyp.gov.pk پر جا سکتے ہیں، جو اب لائیو اور آپریشنل ہے۔
4 مزیدپڑھیں:تنخواہوں کے برابر بونس: بجٹ سے قبل ملازمین کے لئے بڑی خبر
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سکتے ہیں طلباء کو لیپ ٹاپ کے لیے
پڑھیں:
آئی ایس او پاکستان، طلباء تنظیم سے ملک گیر قومی پلیٹ فارم(1)
اسلام ٹائمز: اس تنظیم نے انقلاب اسلامی ایران اور اسکے بانی امام خمینی (رض) کی حمایت اسوقت کی، جب انقلاب اسلامی کی جدوجہد میں امام خمینی، فرانس میں جلا وطن تھے۔ پاکستان کے ہمسائے ایران میں امام خمینی رضوان اللہ کی قیادت میں شہنشاہیت کیخلاف تحریک انقلاب زوروں پر تھی تو اس تنظیم کے باشعور اور بلند فکر دور اندیش نوجوانوں نے 1978ء میں انقلاب سے قبل انقلاب اسلامی کے قائد امام خمینیؒ کی حمایت میں لاہور کے مال روڈ پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور رہبر انقلاب امام خمینی رضوان اللہ، جو فرانس میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہے تھے، ان سے یکجہتی کا اظہار و حمایتی خط بھی ارسال کیا، جو اس بات کی شہادت ہے کہ اس دور میں بھی جب ان نوجوانوں نے کسی سے بھی ولایت فقیہ کا درس نہیں لیا تھا، اس کاروان کا ہر فرد ولی فقیہ امام خمینی کی بلند معرفت رکھتا تھا اور انہیں رہبر و رہنما تصور کرتا تھا۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پاکستان میں مکتب تشیع کے پیروان کی قومی سطح پر ملک گیر جماعت یا پلیٹ فارم نہیں تھا، مدارس کے نظام کی طرف دیکھیں تو یہ بھی مخالفین کے مقابل نہ ہونے کے برابر تھے۔ علماء کرام بھی محدود تعداد میں تھے۔ ظاہر ہے جب مدارس محدود تھے تو علماء نے تو محدود ہونا ہی تھا۔ اس وقت قم المقدسہ کا حوزہ ہمارے لوگوں کا مسکن نہیں ہوتا تھا۔ نجف اشرف میں دینی تعلیم کے حصول کیلئے رجوع کیا جاتا تھا۔ البتہ بعض خطباء کا کافی نام تھا، یہ زمانہ دراصل مناظرانہ سوچ، فکر اور چیلنجز کا دور تھا۔ اس وقت تبلیغات ایسے ہی ہوتی تھیں، مجالس و محافل میں ایک دوسرے کے مولویوں کو للکارا جاتا تھا، لہذا اہل تشیع کے بھی کچھ نامور مناظر و خطیب قومی سطح پر نام کما چکے تھے۔ البتہ اسی دور میں شیعہ مطالبات کمیٹی کے نام سے ایک تحریک چل رہی تھی، جبکہ قبل ازیں تحریک ختم نبوت، علماء کے بائیس نکات اور کچھ دیگر قومی سطح کے ایشوز میں شیعہ و سنی و دیگر مکاتیب فکر مشترک جدوجہد کرچکے تھے۔
اس دور کی قومی سیاست کے منظرنامہ کو دیکھیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں نظریاتی سیاست کا غلغلہ اور زور تھا، چونکہ یہ دور سویت یونین اور امریکہ کی سخت چپقلش کا دور تھا۔ سویت یونین کمیونزم اور مارکسزم یا سوشلزم کا نظریاتی ملک تھا جبکہ امریکہ کیپٹلزم کا داعی تھا، لہذا دنیا ان دو بلاکوں میں منقسم تھی۔ عمومی طور پر انہیں لیفٹ اور رائیٹ ونگ کہا جاتا تھا۔ اسی تقسیم کے اثرات ہماری قومی سیاست پر بھی نمایاں تھے۔ لہذا اس دور میں کالجز و یونیورسٹیز کے طلباء میں بھی اس نظریاتی سیاست کا رنگ غالب دکھائی دیتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب پاکستان کے سیاسی افق پر طلباء تنظیمیں بھی بہت فعال و متحرک رہتیں اور طلباء کو اپنی جانب لانے کیلئے انقلابی نظریات کیساتھ ساتھ کارکردگی بھی دکھاتی تھیں۔ ایوب خان کیخلاف طلباء بھی تحریک کا حصہ تھے، طلباء بھی دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم کا شکار تھے۔ اس زمانے میں سوشلسٹ نظریات کالجز و یونیورسٹیز میں تیزی سے پھیل گئے تھے۔
یہی وہ زمانہ ہے، جب مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے طلباء جو کہیں شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے نام سے کام کر رہے تھے تو کسی دوسرے کالج میں امامیہ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے جدوجہد میں مصروف تھے۔ ان شیعہ طلباء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور باہم جوڑنے کیلئے 22 مئی 1972ء کے دن انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں کاروان امامیہ کا تاسیسی اجلاس ہوا۔ اسی اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا اور طے پا گیا کہ آئندہ شیعہ طلباء مختلف ناموں کے بجائے مشترکہ طور پر جدوجہد کریں گے۔ اس حوالے سے دستور العمل اور اصول و ضوابط طے کرنے کیلئے 11 جون کو میو ہسپتال میں واقع ڈاکٹر ماجد نوروز عابدی کے گھر پر اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس اجلاس میں بزرگ علماء قبلہ مولانا مرتضیٰ حسین صدرالافاضل، قبلہ آغا علی الموسوی، قبلہ صفدر حسین نجفی، قبلہ صادق علی نجفی بھی شریک ہوئے۔
اس اجلاس میں یہ طے ہوگیا کہ تمام تنظیموں کو ایک ہی نام سے ایک ہی دستور کے تحت کام کرنا ہوگا۔ یہ نام علماء نے استخارہ کے ذریعے منتخب کیا، جو امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان تھا۔ اس اجلاس میں تنظیم کا عبوری سیٹ اپ بھی چنا گیا۔ برادر سید مرغوب حسین زیدی جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے طالبعلم تھے، ان کو عبوری مدت کیلئے صدر منتخب کیا گیا۔ (مرغوب حسین زیدی بعد ازاں آرمی کی میڈیکل کور میں بطور بریگیڈیئر خدمات دیتے رہے) جبکہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے طالبعلم علی رضا نقوی مرکزی جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے، جو اس پیش رفت میں بھی پیش پیش تھے۔ یوں اس کاروان الہیٰ نے اپنا رخت سفر باندھا اور پھر "حی علیٰ خیر العمل" کی صدائوں میں آگے ہی بڑھتا رہا۔
لاہور کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے آغاز سفر کرنے والے نوجوانوں نے علماء کی رہنمائی میں خدا کی راہ میں اپنے نصب العین کو سامنے رکھتے ہوئے قدم بڑھائے تو ہر سو پیاسے اور تشنہ دہن اس دریائے اخوت و بھائی چارہ میں غوطہ زن ہوتے گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ طلباء کی نظریاتی، دینی اور شعور کی بیداری کی تحریک لوگوں کے دلوں میں گھر کرگئی، پھر وہ وقت جلد آگیا کہ وادی مہران سندھ کے امن، محبت اور خلوص کے گیت گانے والے جفاکش مخلصین، صوبہ سرحد (کے پی کے) کے قبائلی و میدانی علاقہ جات میں دشمنانِ دین میں گھِرے موالیان حیدر کرارؑ، بلوچستان کے چٹیل میدانوں میں بسیرا کرنے والے سخت زندگی کے عادی پُرخلوص و باایمان مومنین، جن میں بلوچ و ہزارہ بھی تھے۔ شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کے بلند و بالا کہساروں کی سرزمین پر ہمالیہ کا عزم رکھنے والے دین و مذہب سے عشق کرنے والے عوام، کشمیر کی سرسبز و شاداب وادیوں میں پیغام اہلبیتؑ کے علمبردار اور پاکستان کے دل پنجاب پر حسینیت کا پرچم لہرانے والے حق کے طرفداروں کی نگاہوں میں جھانک کے دیکھا گیا۔۔
دلوں کو کھنگالا گیا۔۔۔ سوچوں کو پڑھا گیا۔۔ تو ہر ایک کے دل میں آئی ایس او پاکستان کیلئے محبت دکھائی دی، ہر ایک کی آنکھ میں اُمید کی جو کرنیں ابھرتی دکھائی دیں۔۔ انہوں نے ایک ہی نام دیکھا۔۔ وہ آئی ایس او پاکستان تھا۔۔۔۔ لوگوں کی سوچوں پر جو نام حاوی تھا، اسے عرفِ عام میں دنیا آئی ایس او ہی پکارتی ہے۔۔۔۔ لہٰذا یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آئی ایس او ہی وہ واحد کاروان ہے، جو بلوچستان کے چٹیل میدانوں، کراچی کے ساحلوں، پنجاب کے دشوار گذار علاقوں، کرم ایجنسی پیواڑ کی افغان سرحد، جموں و کشمیر کے سرسبز و شاداب پہاڑوں اور شمالی علاقہ جات گلگت و بلتستان کے بلند و بالا کہساروں اور سنگلاخ چٹانوں کے بسنے والے کربلا کے پیروان کی اُمید اور آرزو یہی الہیٰ کاروان ٹھہرا۔۔ ایک کاروان، ایک نام سنا، پڑھا اور دیکھا گیا، جو اپنا 53واں یوم تاسیس مناتے ہوئے اپنے روشن کردار، تابندہ تاریخ پر فخر کرسکتا ہے۔
یہ ایک طلباء تنظیم ہے، اس کا دستور طلباء تنظیم کا ہے، مگر اس میں جو روایات، اس کا جو کردار، اس کی خدمات کا دائرہ یقیناً ایک قومی پلیٹ فارم بلکہ جتنے بھی پاکستان کے قومی پلیٹ فارم وجود رکھتے ہیں یا ماضی میں فعال رہے ہیں، ان سب سے زیادہ قومی خدمات اسی کاروان کی ہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا قیام کسی سیاسی و سماجی تنظیم یا تحریک کے زیر سایہ نہیں ہوا، اس لیے کسی بھی جماعت کی دم چھلا کبھی نہیں بنی بلکہ طلباء تنظیم ہوتے ہوئے اس تنظیم نے قومی قیادت کرنے والی جماعتوں کو ہمیشہ اپنے تربیت یافتہ اور مخلص لوگ دیئے ہیں، جنہوں نے ان قومی و ملی پلیٹ فارمز پر بے پناہ خدمات سرانجام دیں اور دے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ تربیت ماحول سے گذر کے آنے والے روایتی سیاسی جماعتوں کے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں دقت محسوس کرتے ہیں، چونکہ روایتی سیاسی جماعتوں میں خوشامد اور چاپلوسی کی بنیاد پر لوگ مرکزی قیادتوں کے قریب ہو جاتے ہیں، جبکہ امامیہ برادران کی تربیت اس کے بالکل الٹ ہوئی ہوتی ہے۔
قومی جماعتوں اور پلیٹ فارمز کیساتھ ساتھ پاکستان میں دینی مدارس کے نیٹ ورکس میں بھی انقلابی و و فکری نیز زمانہ حال کے تقاضوں کے مطابق تعلیم دینے والے حوزہ جات کے قیام میں شاندار کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ سینیئرز نے اپنی دنیاوی تعلیم مکمل کرکے حوزہ علمیہ قم المقدسہ میں دینی تعلیم کے حصول کیلئے رجوع کیا۔ یوں پاکستان میں یہ ایک تاریخ اور ریکارڈ بن گیا کہ جہاں آٹھ جماعت یا میٹرک پاس بچے دینی تعلیم کیلئے بھیجے جاتے تھے، وہاں ماسٹر ڈگری و ڈاکٹریٹ کرنے والے دینی تعلیم کیلئے حوزہ میں بھیجے گئے، جن سے آج ہمارا معاشرہ بھرپور مستفید ہو رہا ہے۔ ایسے ہی بہت سے شہروں میں اس تنظیم سے فارغ التحصیل برادران نے اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے، اسکولز و کالجز بنا کر عام معاشرے کو تعلیم و تربیت کے شعبہ میں بہترین خدمات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ بالخصوص وہ شیعہ اکثریتی ایریاز میں اس کے بہت ہی مثبت اثرات دیکھے جا رہے ہیں۔
طلباء تنظیم ہونے کے ناتے اس تنظیم نے ہمیشہ طالبعلموں کی تعلیمی، فکری اور روحانی تربیت کا ساماں کرنے میں سخت کوششیں کی ہیں۔ تعلیمی حوالے سے اس تنظیم کی خدمات اور کارہائے نمایاں کو دیکھا جائے تو اس تنظیم نے ہر ڈویژنل اور یونٹ سطح پر امتحان سے پہلے امتحان کا خوبصورت آئیڈیا دیا ہے، جس سے طالبعلم امتحانی پیٹرن پر فائنل امتحان سے پہلے ہی اپنی کارکردگی کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ہی وہ پلیٹ فارم ہے، جس کا نیٹ ورک پورے پاکستان میں ہے اور جو پاکستان بھر کے طلباء کی بہبود، فلاح اور مدد میں رہنمائی کیلئے ہمیشہ سرگرم عمل ہے۔ تعلیمی سیمینارز، کیریئر گائیڈنس کیساتھ ساتھ طلباء کو اسکالر شپ اور قرض کا وسیع نیٹ ورک ہے، جس کے تحت ہر ماہ لاکھوں روپے ذہین طلباء کو دیئے جاتے ہیں۔ یوں یہی طلباء اپنی عملی زندگی میں یہ اسکالرشپ اور تعلیمی فلاح قرض، ادارے کو واپس کرتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کا پہلا دور جو اپنے قیام 1972ء سے لیکر انقلاب اسلامی کی کامیابی تک ہے، یہ بالکل ایک نوزائیدہ پلیٹ فارم جسے توسیع اور وسعت کی ضرورت تھی، جسے تعارف درکار تھا، اسی میں گذر گیا۔ اس کے باوجود اس تنظیم نے انقلاب اسلامی ایران اور اس کے بانی امام خمینی (رض) کی حمایت اس وقت کی، جب انقلاب اسلامی کی جدوجہد میں امام خمینی، فرانس میں جلا وطن تھے۔ پاکستان کے ہمسائے ایران میں امام خمینی رضوان اللہ کی قیادت میں شہنشاہیت کیخلاف تحریک انقلاب زوروں پر تھی تو اس تنظیم کے باشعور اور بلند فکر دور اندیش نوجوانوں نے 1978ء میں انقلاب سے قبل انقلاب اسلامی کے قائد امام خمینیؒ کی حمایت میں لاہور کے مال روڈ پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور رہبر انقلاب امام خمینی رضوان اللہ، جو فرانس میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہے تھے، ان سے یکجہتی کا اظہار و حمایتی خط بھی ارسال کیا، جو اس بات کی شہادت ہے کہ اس دور میں بھی جب ان نوجوانوں نے کسی سے بھی ولایت فقیہ کا درس نہیں لیا تھا، اس کاروان کا ہر فرد ولی فقیہ امام خمینی کی بلند معرفت رکھتا تھا اور انہیں رہبر و رہنما تصور کرتا تھا۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ہی وہ پلیٹ فارم ہے، جو کئی کالجز و یونیورسٹیز میں مساجد میں اپنے نماز باجماعت کا اہتمام کرتا آرہا ہے، اس کیلئے بہت قربانیاں بھی دی ہیں، جبکہ ایام محرم میں یوم حسین ؑ کے عنوان سے پروگرام بھی کرواتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے بہت سی جگہوں پر سخت اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جبکہ یہ بات طے ہے کہ اس کے کارکنان جو ایک نظم کے پابند ہوتے ہیں، ان کو کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ تشدد کے مقابلہ میں تشدد کی راہ اپنائیں۔ جس کے باعث کئی ایک تعلیمی اداروں کا ماحول اس کثافت و آلودگی سے بچ گیا ہے، جس کو کئی دیگر عناصر خراب کرکے اپنا الو سیدھا رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل فخر ہے کہ اس تنظیم کا تعلق طلباء تنظیموں کے اتحاد متحدہ طلباء محاذ سے بھی گہرا ہے، ماضی میں اس کی صدارت بھی اس کارروان کے ایک مرکزی صدر کے پاس رہی ہے، اس محاذ میں آئی ایس او ایک فعال تنظیم کے طور پر موجود ہے۔ متحدہ طلباء محاذ میں موجود تمام طلباء تنظیموں سے برادرانہ تعلقات بہت سے مسائل کے حل میں معاون و مدد گار رہتے ہیں۔
اگرچہ موجودہ مضبوط پرائیویٹ تعلیمی نظام اور امتحانی درجہ بندی کے سسٹم کے باعث طلباء سیاست اور سرگرمیوں میں کافی کمی محسوس ہوتی ہے، مگر اس حوالے سے آئی ایس او یا کسی بھی دیگر نظریاتی طلباء تنظیم کیلئے یہ بات پریشان کن نہیں ہے کہ طالبعلم ان کے پاس نہیں آرہے اور ان میں نئی کھیپ کا اضافہ نہیں ہو رہا۔ نظریاتی تنظیموں کے نظریات اگر جامد نہ ہوں تو یہ فرق نہیں پڑتا۔ آئی ایس او پاکستان ان عالمی اسلامی تحریکوں اور نہضتوں سے مربوط ہے، جنہیں امت مسلمہ کے نوجوان اپنے دل و دماغ میں بسائے ہوئے ہیں، بالخصوص فلسطین کی اسلامی تحریک، لبنان کی مزاحمت اسلامی، انقلاب اسلامی ایران، یمنی اسلامی مقاومت اور مختلف اسلامی ممالک میں اسلام حقیقی کی ترویج و تبلیغ کیلئے کوشاں تحریکوں کی جدوجہد اس کے کارکنان کیلئے نظریاتی کشش کا باعث ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔