معاشی پالیسیاں بنانا ماہرین صحت نہیں بلکہ ماہرین اقتصادیات کا کام ہے، امین ورک
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
معاشی پالیسیاں بنانا ماہرین صحت نہیں بلکہ ماہرین اقتصادیات کا کام ہے، امین ورک WhatsAppFacebookTwitter 0 20 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز ) فیئر ٹریڈ اِن ٹوبیکو کے چیئرمین، امین ورک نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ملک میں غیرقانونی تمباکو تجارت اور ٹیکس چوری کے خلاف مسلسل اور پرعزم کارروائیوں کو خوش آئند قرار دیا۔ انہوں نے ان اقدامات کو “انتہائی ضروری ” قرار دیا اور اس تسلسل کو بغیر کسی سمجھوتے کے جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ معاشی ترقی کے لیے ریونیو بڑھانا ضروری ہے۔ بغیر ریونیو کے نہ تو ملک اندرونی و بیرونی دشمن سے لڑ سکتا ہے اور نہ ہی ترقی کر سکتا ہے۔ معاشی پالیسی سازی عمل میں اقتصادی اور ٹیکس ماہرین کی معاونت ہونی چاہیے ۔ حکومت کو صحت کے نام پر این جی آوز کی فنڈڈ مہم کے سامنے بے بس نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا، “ہم ایف بی آر اور وفاقی حکام کی قانونی عملداری کی کوششوں کو سراہتے ہیں جو انہوں نے غیرقانونی سگریٹ تجارت کے خلاف کارروائی اور ٹیکس چوروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے دکھائی ہیں۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ اندازا پاکستان ہر سال تقریبا 400 ارب روپے غیرقانونی سگریٹ سازی اور مسلسل ٹیکس چوری کی وجہ سے کھو رہا ہے۔ ہمارے جیسا معاشی دبا کا شکار ملک اس نوعیت کے نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔”
امین ورک نے اس بات پر زور دیا کہ تمباکو کے سپلائی چین پر مثر اقدامات پاکستان کے اقتصادی مفادات کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہیں، تاکہ رجسٹرڈ اور قانون کے مطابق ٹیکس ادا کرنے والے کاروبار کو غیرقانونی اور غیر رجسٹرڈ عناصر سے بچایا جا سکے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار بھی کیا کہ کچھ مقامی ادارے اور ایکٹوسٹ سالانہ بجٹ سے چند ہفتے قبل اچانک نمودار ہو کر قانونی تمباکو مصنوعات پر ٹیکس بڑھانے کے لیے مہم چلاتے ہیں، جبکہ پورے سال غیرقانونی تجارت اور ٹیکس چوری پر خاموش رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا، “یہ نام نہاد صحت کے علمبردار، جن میں سے اکثر بیرونی فنڈنگ پر چلتے ہیں، پورے سال موجود نہیں ہوتے۔ مگر جیسے ہی بجٹ کا وقت قریب آتا ہے، ان کی مہمات تیز ہو جاتی ہیں، گویا وہ اپنے غیر ملکی ڈونرز کی ہدایات پر چل رہے ہوں۔ یہ تشویشناک روش ان کی غیر جانبداری اور پاکستان کے وسیع تر اقتصادی مفادات سے وابستگی پر سوالیہ نشان ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ مالیاتی پالیسی سازی ایک ریاستی خودمختار عمل ہے، اور یہ صرف ماہر اقتصادیات، قومی اداروں اور ایف بی آر کا دائرہ کار ہے۔
امین ورک نے کہا، “یہ این جی اوز یا آئی این جی اوز کا کام نہیں کہ وہ ٹیکس پالیسی کی سمت طے کریں۔ ٹیکس کا تعین اصولی اور اقتصادی بنیادوں پر ہونا چاہیے، نہ کہ بیرونی مفادات کے تحت۔ عوامی صحت یقینا اہم ہے، لیکن اسے ایسے فیصلوں کا جواز نہیں بنایا جا سکتا جو آخرکار مجرمانہ نیٹ ورکس کو طاقتور بنائیں اور قومی محصولات کو کمزور کریں۔” انہوں نے آسٹریلیا، برطانیہ، اور امریکہ کی مثالیں دیتے ہوئے خبردار کیا کہ ان ممالک میں قانونی تمباکو مصنوعات پر زیادہ ٹیکس عائد کرنے سے بہت بڑے بلیک مارکیٹس وجود میں آئے، جن کی مالیت درجنوں ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
“عالمی تجربہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ حد سے زیادہ ٹیکسیشن، قانون پر عمل درآمد کو کم کرتی ہے اور اسمگلنگ کو فروغ دیتی ہے۔ پاکستان اپنی موجودہ مالی کمزوریوں اور نفاذی حدود کے پیشِ نظر یہ غلطی دہرا نہیں سکتا۔” انہوں نے کہا۔ “قانونی تمباکو کمپنیاں پہلے ہی دبا کا شکار ہیں، اور مزید ٹیکسوں سے ان کی محصولات دینے کی صلاحیت مزید متاثر ہوگی۔” امین ورک نے اس موقع پر فیئر ٹریڈ ان ٹوبیکو کی طرف سے معیشت کو دستاویزی بنانے اور غیرقانونی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے حکومتی کوششوں کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ قانون کے مطابق کام کرنے والے کسان، صنعت کار اور تاجر ریاستی اداروں اور ریگولیٹری حکام کے ساتھ مکمل تعاون کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے آخر میں کہا، “پاکستان کا مستقبل اس میں ہے کہ ہم قانونی معیشت کو مضبوط کریں اور غیرقانونی عناصر کو سزا دیں، نہ کہ ان لوگوں کو نشانہ بنائیں جو پہلے ہی اس شعبے کا ٹیکس بوجھاٹھارہیہیں۔”
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربرطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی مذاکرات معطل کر دیے، غزہ کی صورتحال ناقابل قبول ہے:وزیر خارجہ برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی مذاکرات معطل کر دیے، غزہ کی صورتحال ناقابل قبول ہے:وزیر خارجہ آئی ایم ایف کی شرط پر پیٹرولیم مصنوعات پرلیوی مزید بڑھانے پر اتفاق فوج میں فیلڈ مارشل کا عہدہ کیا ہے،مراعات،اختیارات کیا ہیں؟تفصیلات سب نیوز پر حکومت کا ایئر چیف مارشل کی مدت ملازمت پوری ہونے پر ان کی خدمات جاری رکھنے کا فیصلہ اعزاز ملنے پر اللہ تعالی کا شکر گزار ،پوری قوم، افواجِ پاکستان، خاص کر سول اور ملٹری شہدا اور غازیوں کے نام وقف کرتا... حکومت نے جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دے دی
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: قانونی تمباکو اور ٹیکس انہوں نے سب نیوز کے لیے
پڑھیں:
مودی کی ناکام زرعی پالیسیاں
ریاض احمدچودھری
بھارت میں کسانوں کی خودکشیوں سے متعلق نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی تازہ رپورٹ نے مودی حکومت کی ناکام زرعی پالیسیوں کا پردہ چاک کر دیا۔اعداد و شمار کے مطابق 2014 سے 2023 کے درمیان بھارت میں ایک لاکھ گیارہ ہزار سے زائد کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ صرف سال 2023 میں ریاست مہاراشٹرا میں سب سے زیادہ اموات ریکارڈ ہوئیں، جہاں 10 ہزار سے زائد کسانوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔بین الاقوامی تحقیقاتی جریدے انٹرنیشنل جرنل آف ٹرینڈ ان سائنٹیفک ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے مطابق بھارتی کسانوں کی خودکشیوں کی بنیادی وجوہات میں 38.7 فیصد قرض اور 19.5 فیصد زرعی مسائل شامل ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی کے نام نہاد ‘شائننگ انڈیا’ کے پیچھے دیہی علاقوں میں بڑھتی مایوسی، غربت اور ناانصافی نے کسانوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ زرعی بحران پر حکومت کی خاموشی اور ناکام پالیسیوں نے مودی کابینہ کو شدید تنقید کی زد میں لا دیا ہے۔
مودی حکومت کی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں روزانہ تقریباً 31 بھارتی کسان خودکشی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کسانوں کو دگنی آمدنی کا وعدہ اور فصل بیمہ اسکیموں کی ناکامی نے لاکھوں کسانوں کو قرض کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔بھارت کے مختلف علاقوں میں زرعی بحران کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس بحران کا مرکزہ اجناس کی مسلسل گرتی ہوئی قیمتیں اور پھر بدحالی سے دل برداشتہ ہو کر خودکشی کرنے والے ہزارہا کسان بتائے جاتے ہیں۔بھارت کے زرعی بحران کے تناظر میں ایک بڑی پیش رفت مختلف علاقوں کے کسانوں کا ملکی دارالحکومت نئی دہلی کی جانب نومبر 2018 کے آخری ایام میں احتجاجی مارچ بھی تھا۔ اس احتجاج کے دوران ملک کے مختلف حصوں سے ایک لاکھ سے زائد غریب کسان نئی دہلی پہنچے اور حکومتی ایوانوں تک اپنی صدائے احتجاج پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ مظاہرین وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت سے اپنی مشکلات کے ازالے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
وجیشری بھگت انتیس برس کی ایک خاتون کسان ہے اور اْس کا تعلق مغربی بھارتی ریاست مہاراشٹر سے ہے۔ وہ ایک بیوہ ہے کیونکہ اْس کے شوہر پرشانت نے بھی زرعی مفلوک الحالی کی وجہ سے خودکشی کر لی تھی۔ اس ریاست کے کسانوں کو بھی اپنی زیر کاشت زمین سے کافی فصل نصیب نہیں ہو رہی اور ان پر بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضوں کا حجم مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ غربت کے بوجھ تلے انہیں مرنا آسان اور جینا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ مجموعی طور پر اس علاقے کے کسانوں کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے اور اسی باعث ان کے لیے زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ایسے حالات کا سامنا صرف وجے شری کو ہی نہیں، بلکہ خودکشی کرنے والے کسانوں کی لاکھوں بیواؤں کو بھی کم و بیش انہی حالات کا سامنا ہے۔ دو ماہ قبل اْس نے 80 دیگر بیواؤں کو لے کر مہاراشٹر کے ریاستی دارالحکومت ممبئی میں اختجاج بھی کیا تھا۔ وہ مثبت سماجی سکیورٹی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ اْن کے اس مظاہرے کو ایک سرگرم تنظیم مہیلا کسان ادھیکار منچ (MAKAAM) یا ‘مکام’ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس تنظیم کے مطابق یہ مظاہرہ حقیقت میں اْن کی ذات کی سلامتی کے حق میں بھی ہے۔ سرگرم کارکنوں کے مطابق ایسے مظاہروں سے یقینی طور پر حالات میں تبدیلی پیدا ہو گی۔
وجے شری بھگت جیسی کئی خواتین ہیں، جن کے شوہر خودکشیاں کر چکے ہیں اور اب انہیں شدید معاشی مشکلات اور معاشرتی بدحالی کا سامنا ہے۔ زرعی بحران کے حوالے سے آواز اٹھانے والے سرگرم کارکنوں کی ایک تنظیم سے تعلق رکھنے والی سوراجیہ مترا کا کہنا ہے کہ کھیتوں میں اسّی فیصد کام خواتین کرتی ہیں اور اس کے باوجود ریاست اْن کی مشقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ ان بیوہ خواتین کی حالت زار کا صحیح اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔ یہ تنظیم مہاراشٹر کے علاقے امراوتی میں فعال ہے اور اسی علاقے میں کسان سب سے زیادہ خودکشیاں کرتے ہیں۔
ڈھائی سال قبل بھی کسانوں کے احتجاج کے باعث دہلی میں خاصی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کا ایک بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ مختلف اہم فصلوں کی امدادی قیمتِ خرید بڑھائی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ فصلوں کی بیمہ کاری کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ موسم کے ہاتھوں فصلیں تلف ہونے پر کسان کسی نہ کسی طور کام جاری رکھ سکیں۔مذاکرات کے دوران مودی حکومت نے کسانوں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ حکومت 5 سالہ معاہدے کے تحت کسانوں سے اناج خریدے گی تاہم احتجاجی کسانوں کی طرف سے کہا گیا کہ حکومتی پیشکش ‘ہمارے مفاد میں نہیں۔’کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پر اب بھی قائم ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت انھیں تمام 23 اناج ‘منیمم سپورٹ پروگرام’ کے تحت خریدنے کی ‘قانونی گارنٹی’ دے۔بھارتی کاشت کاروں نے 2021 میں بھی ایسا ہی احتجاج کیا تھا، کاشت کار یوم جمہوریہ کے موقعے پر رکاوٹیں توڑتے ہوئے شہر میں داخل ہو گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔