کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ بلدیات سندھ نے کہا کہ سیپرا ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دے دی گئی ہے، فرانزک لیب کے ڈی جی کی تقرری کے لیے وزیرِ اعلیٰ کو اختیار دیا گیا، رشید ترابی روڈ اور کریم آباد انڈر پاس کے لیے رقم کی منظوری دی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیرِ بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ سندھ حکومت نے ایسے ادارے بنائے ہیں جو دوسرے صوبوں میں کام کریں، ہماری کامیابی کو دیکھ کر دیگر صوبوں میں بھی گھر بن رہے ہیں۔ وزیرِ بلدیات سندھ سعید غنی نے وزیرِ ایکسائز سندھ مکیش چاؤلہ کے ہمراہ کراچی میں پریس کانفرنس کی۔ اس دوران سعید غنی نے کہا کہ سندھ کابینہ نے آج افواج پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایکسائز اور ٹیکسیشن کے لیے عدالتیں قائم کرنی تھیں، سندھ کابینہ میں آج عدالتوں کے قیام کا ایجنڈا تھا، 7 عدالتیں قائم ہوں گی، اس حوالے سے آج فیصلہ نہیں ہوسکا۔ سعید غنی کا کہنا ہے کہ سیپرا ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دے دی گئی ہے، فرانزک لیب کے ڈی جی کی تقرری کے لیے وزیرِ اعلیٰ کو اختیار دیا گیا، رشید ترابی روڈ اور کریم آباد انڈر پاس کے لیے رقم کی منظوری دی ہے۔

سعید غنی نے کہا کہ بورڈ آف ریونیو سسٹم کو نادرا سے لنک کیا گیا ہے، شاہراہ بھٹو کے ساتھ ہمارے پاس کافی زمین ہے، کابینہ نے 88 ایکڑ زمین خصوصی افراد کے لیے مختص کی ہے، گجر خان میں ہمیں ایس آئی یو ٹی بنانا ہے، ایس آئی یو ٹی کو 9 ارب روپے وفاق دے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک کمیٹی بنائی ہے جو ٹریفک حادثات کا جائزہ لے گی، 37 ہزار رکشے رجسٹرڈ ہیں، سڑکوں پر ایک لاکھ رکشے چل رپے ہیں، مختلف سڑکوں پر رکشوں کی بندش سے صورتحال بہتر ہوئی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کی منظوری نے کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

بس اب بہت ہوگئی

خبریں سب ہی سنتے ، پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ ہر خبر کی تاثیر مختلف ہوتی ہے۔ ہر خبر مختف ڈھنگ سے سماج کو متاثر کرتی ہے۔ خبر کے لیے وقت اہم ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے بعد وہی خبر ردی کا ٹکڑا  بن جاتی ہے۔

یہ وقت فیصلہ کرتا ہے کہ خبر بریکنگ نیوز بنتی ہیں، یا اخبارات کے صفحوں میں گم ہو جاتی ہیں یا پھر دلوں کو چیر جاتی ہیں۔

یہ خبر سب نے سنی کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا۔ یہ خبر سب کی نظروں سے گزری کہ وفاقی وزرا کے معاوضوں میں ہوش ربا بڑھوتری ہوئی۔ یہ بات سب تک پہنچی کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی تنخواہ لگ بھگ 21 لاکھ روپے ہو گئی۔ یہ اضافہ موصوف نے خود فرمایا ہے۔

ان سب خبروں کی تاثیر اور اثر مختلف رہا۔ یوں لگا کسی نے رستے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہو۔ یوں لگا جیسے کسی نے اس ملک کے غریب کو گالی دی ہو، یوں لگا کہ جیسے کوئی فاقہ کش کسی بدمست ٹرک کے نیچے آ گیا ہو۔

ایوان نمائندگان سے لوگوں سے بھرا پڑا ہے، لکشمی جن کے قدموں میں ڈھیر رہتی ہے، جن کے پاس اپنی دولت کا حساب رکھنا مشکل ہوتا ہے، جن کے کاروبار کئی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جن کے ذرائع آمدن کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ غریب کے منہ پر تھپڑ ہوتا ہے، اس کی مفلسی کے ماتم کے مقابل جشن ہوتا ہے۔

ایک لمحے کو سوچیں ایک ایسے شخص کے بارے میں جس کی سارے مہینے کی تگ و دو کا مرکز و محور وہ بجلی کا بل ہو جو اس سے ادا نہیں ہوتا۔

ایک لمحے کو اس شخص کے بارے میں سوچیں جس نے اپنے بچوں کو اسکول سے اٹھا لیا ہو کیونکہ نہ اس کے پاس فیس کے پیسے ہیں نہ کتابوں کا خرچہ اور نہ ہی بچوں کو اسکول پہنچانے کا کوئی ذریعہ۔

ایک لمحے کو سوچیں اس شخص کے بارے میں جس کے بچے بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے بھوکے سوئے، جس کی ماں کو دوائی میسر نہ ہوئی، جس  کے پاس موٹر سائیکل میں پیٹرول ڈلوانے کے پیسے نہیں رہے، جس کے پاس بس میں سفر کرنے کا کرایہ نہیں رہا، اس نے اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ 21 لاکھ روپے کیے جانے کی خبر کو  کیسے پڑھا ہو گا؟ کسے سنا ہوگا؟ کیسے سمجھا ہوگا؟ اس کے دل پر کیا گزری ہو گی؟

سوچیں ذرا!  دنیا کے سب ملکوں میں پیٹرول سستا ہو رہا ہے۔ عالمی منڈی پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کو نوید سنا رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کاروباری حالات بہتر ہو رہے ہیں لیکن اپنے ہاں اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ پیٹرول کی قیمت بڑھنے کی خبر سانپ بن کر سینوں پر لوٹ رہی ہے۔ قیمتوں میں کمی کی ذرا سی امید لگتی ہے تو حکومت بڑے طمطراق سے اس امید کو پیروں تلے مسل دیتی ہے۔ کوئی نہیں سوچتا غریب کے بارے میں۔ کوئی اس کے دکھ کی خبر نہیں لیتا، کوئی اس کو سینے سے نہیں لگاتا۔

ایک وزیر خزانہ ہیں ان کے پاس ایک ہی رٹ ہے کہ اس ملک کے بدبخت،  جاہل اور احمق   لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ وہ بڑے زعم سے اعلان کرتے ہیں کہ اِس پر بھی ٹیکس لگا دو اور اُس کو ٹیکس نیٹ میں لے آؤ۔ ان کو کوئی یہ خبر نہیں دیتا کہ ماچس بنانے والے سے لے کر بس کا کرایہ وصول کرنے والے تک ہر کوئی اس ٹیکس کا بوجھ غریب پر منتقل کرتا ہے۔ غریب پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے اور اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ چیخ نہیں پا رہا، اس کی آواز بھی گم ہو گئی ہے،  اور وہ اس سارے نظام سے لاتعلق ہوگیا ہے۔

لوگ اب یہ سوال بھی نہیں پوچھتے کہ ٹیکس کے بدلے ہمیں حکومتیں کیا دیتی ہیں؟ کون سی سہولتیں ہمارا مقدر بنتی ہیں؟ کون سے منصوبے ہمارے لیے شروع ہوتے ہیں، کن اسکیموں کے ثمرات ہم تک پہنچتے ہیں؟

لوگ اب سوال نہیں پوچھتے، جواب نہیں مانگتے، حق نہیں مانگتے۔ لوگ خاموش رہتے ہیں یا چیخ پڑتے ہیں۔

چند ماہ پہلے کی بات ہے، بہت سے ایسے تھے جو عمران خان کا نعرہ لگاتے تھے، بہت سے ایسے تھے جو نواز شریف کا دم بھرتے تھے، بہت سے ایسے تھے جو مولانا کے گیت گاتے تھے۔ بہت سے ایسے تھے جو  آج بھی بھٹو کے ترانے بجاتے تھے۔ لیکن اس مفلسی نے سب کی تخصیص ختم کردی ہے۔

اب کوئی کسی سیاسی جماعت کا نعرہ نہیں لگا رہا، کوئی کسی کو نجات دہندہ نہیں مان رہا۔  اب نہ جماعت کی تخصیص رہی نہ لیڈروں میں کوئی فرق رہا۔ نہ کسی کے منشور سے وابستہ امیدیں رہیں نہ کسی کی شخصیت سے توقع رہی۔ سب مفلسی کی زنجیر میں بندھ گئے۔ اب کارکن نہیں رہے، اب سب غریب بن گئے ہیں۔ اب یہ معاشرہ کئی طبقات میں منقسم نہیں رہا۔

اب صرف 2 طبقے ہو گئے ہیں۔ ایک وہ جو حکومت میں اپنی مرضی سے اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو ان کی چمکتی گاڑیوں کی دھول میں حسرتیں پالتے رہتے ہیں۔

ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ کراچی میں ایک بوسیدہ بلڈنگ گر گئی۔ مرنے والوں کی تعداد اراکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ کوئی اس حادثے کی ذمہ داری نہیں لے گا، کوئی استعفیٰ نہیں دے گا، کوئی نہیں پوچھے گا کہ مدتوں سے کراچی پر راج کرنے والی جماعتیں کہاں ہیں؟ سندھ کے مسیحا کہاں ہیں؟ اب صرف کراچی میں چھیپا کی ایمبولینسوں کے سائرن گونجتے ہیں۔ یہی اس نظام نے 2 کروڑ کی آبادی والے شہر کو دیا ہے۔  اسی نظام کے ملبے تلے دبی لاشیں ہمار مقدر ہیں۔

ہمار المیہ یہ ہے کہ ہم نے ہر زمانے اور ہر عہد میں کسی نہ کسی سے سب امیدیں وابستہ کیں۔ کسی کو مسیحا مانا،  کسی کو مالک تسلیم کیا، کسی شخص کے قصیدے پڑھے،  کسی جماعت  کے نعرے لگائے،  کسی انقلاب کا انتظار کیا لیکن سب کا نتیجہ ایک رہا۔ سب نے خواب دیکھنے والوں کے خواب چکنا چور کیے۔ سب نے محروموں کی  محرومیوں میں  اضافہ ہی کیا۔ سب نے اپنے مفاد کے بارے میں سوچا اور عوام کی امیدوں، چاہتوں اور تمناؤں کو کراہت سے پس پشت ڈال دیا۔

یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ایک پوری قوم اشرافیہ کے اس تماشے سے مایوس ہو چکی ہے۔ اور یاد رکھیں کہ دہائیوں سے مایوس لوگوں سے زیادہ خطرناک کوئی نہیں ہوتا۔ ایسے میں مایوسی بڑھ جائے تو لوگ دیوار سے سر ٹکرا دیا کرتے ہیں۔

اب معاملہ یہ ہے کہ غربت میں پسے لوگ مسائل کا فوری حل چاہتے ہیں، ان کو وضاحتیں مطمئن نہیں کرتیں۔ ان کا پیٹ اب نصیحتوں سے نہیں بھرتا۔ ان کے دلدر نعروں سے دور نہیں ہوتے۔ خالی پیٹ تو وہ خوشحالی کے خواب بھی نہیں دیکھ پاتے۔ یہ ملک مفلس لوگوں کا آتش فشاں بن چکا ہے۔ یاد رکھیں!  مہنگائی کی مزید کسی خبر سے یہ آتش فشاں پھٹ بھی سکتا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • امن وامان کی مکمل بحالی کیلئے حکومت گلگت بلتستان اور تمام تر ادارے متحرک ہیں، امجد ایڈووکیٹ
  • ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرنا ہم سب کا فرض ہے، سعدیہ دانش
  • کاشف سعید شیخ کا لیاری عمارت حادثے پر اظہار افسوس
  • بس اب بہت ہوگئی
  • وزیراعلی سندھ نے لیاری میں رہائشی عمارت گرنے کا نوٹس لے لیا،خستہ حال عمارتوں کی فوری تفصیلات مانگ لیں
  • وزیر اعظم کی چوہدری نثار کی ن لیگ میں واپسی کیلئے کوششیں جاری، نواز شریف کی منظوری باقی
  • بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار
  • راشد نسیم آج اندرون سندھ مختلف تقاریب سے خطاب کریں گے
  • ایران نے آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگیں بچھانے کی تیاری کرلی تھی
  • ریاست اور ادارے خیبر پختونخوا حکومت گراکر دکھائیں: علی امین گنڈاپور کا چیلنج