وفاقی حکومت اور خیبرپختونخواہ حکومت میں این ایف سی ایوارڈ سے متعلق معاملات طے پاگئے
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔ 20 مئی 2025ء )وفاقی حکومت اور خیبرپختونخواہ حکومت میں این ایف سی ایوارڈ سے متعلق معاملات طے پاگئے ہیں۔ میڈیا کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت اور خیبرپختونخواہ حکومت میں این ایف سی ایوارڈ سے متعلق معاملات طے پاگئے، اگست میں این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی ہوگی، اس حوالے سے تمام صوبوں کو خط لکھ دیئے گئے ہیں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ نے این ایف سی نظرثانی معاملے پر ممبر کا بھی نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔
خیبرپختونخواہ سے این ایف سی پرنظر ثانی کیلئے ممبر کا نام مانگا گیا تھا۔ علی امین گنڈاپور نے تصدیق کی کہ این ایف سی سمیت سی سی آئی میں جو معاملات رکھے تھے انہیں منوایا ہے۔ دوسری جانب نیوزایجنسی کے مطابق نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تحت جاری مالی سال کے پہلے 9ماہ میں وفاق کی جانب سے صوبوں کومجموعی طورپر50 کھرب، 4ارب، 74 کروڑ روپے کے فنڈز کی منتقلی عمل میں لائی گئی ہے۔(جاری ہے)
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری اعدادوشمارکے مطابق جولائی سے لے کر مارچ 2025 تک کی مدت میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاق کی جانب سے صوبوں کو 50 کھرب، 4ارب، 74 کروڑ روپے منتقل کئے گئے، گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو مجموعی طور پر 38 کھرب، 15ارب، 14 کروڑ، 80 لاکھ روپے کے فنڈز منتقل کئے گئے تھے۔ جاری مالی سال کے پہلے 9ماہ میں این ایف سی ایوارڈکے تحت پنجاب کو 24 کھرب، 89 ارب، 66 کروڑ، 50لاکھ روپے، سندھ کو 12کھرب، 79ارب، 50کروڑ،60لاکھ روپے، خیبرپختونخوا کو 8 کھرب، 24ارب، 86 کروڑ، 40لاکھ روپے اور بلوچستان کو4 کھرب ، 90ارب، 33 کروڑ، 90 لاکھ روپے کے فنڈز منقل کئے گئے۔ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت پنجاب کو 18کھرب، 65 ارب، 8 کروڑ، 80لاکھ روپے، کروڑ روپے، سندھ کو 9 کھرب، 46 ارب، 83 کروڑ، 20 لاکھ روپے، خیبرپختونخوا کو6 کھرب، 23 ارب، 94 کروڑ، 70لاکھ روپے اوربلوچستان کو 3 کھرب، 79 ارب، 28 کروڑ، 10لاکھ روپے کے فنڈز منتقل کئے گئے تھے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں این ایف سی ایوارڈ ایوارڈ کے تحت روپے کے فنڈز مالی سال صوبوں کو
پڑھیں:
اے پی پی میگا کرپشن کیس، 13 ملزمان کی ضمانت خارج، 7 ملزمان احاطہ عدالت سے گرفتار
اے پی پی میگا کرپشن کیس میں 13 ملزمان کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری خارج ہوگئی، ایف آئی اے نے 7 ملزمان کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق منگل کو اسپیشل جج سینٹرل ہمایوں دلاور نے مقدمے کے نامزد ملزمان فرقان راؤ، معظم جاوید کھوکھر، ارشد مجید چوہدری، محمد غواث، اظہر فاروق، اعجاز مقبول، ثاقب کلیم، خرم شہزاد، ادریس احمد، شاہد لطیف، غلام مرتضیٰ، طاہر گھمن، ساجد علی، عمران منیر اور عدنان اکرم باجوہ کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران ملزمان کی حاضری لگائی گئی۔
ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ شفاف تحقیقات کے بعد مقدمہ درج کیا گیا ہے اور تمام ملزمان کے خلاف ٹھوس دستاویزی شواہد موجود ہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق کئی ملزمان کے اکاؤنٹس میں غیر قانونی طور پر رقوم منتقل ہوئیں، جن کی برآمدگی ضروری ہے۔ مزید بتایا گیا کہ ملزمان نے پراویڈنٹ فنڈ اور سیلری اکاؤنٹس سے رقوم نکلوائیں۔
ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر(لیگل) خوشنود بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان تنخواہیں بھی لیتے رہے اور پنشن بھی وصول کرتے رہے، ملزمان کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ پنشن شیٹ میں اپنا نام بھی شامل کرلیتے تھے اور جب پنشن جاری کی جاتی تو اضافی رقم اپنے اکاؤنٹس میں منتقل کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ پراویڈنٹ فنڈ ملازمین کی تنخواہوں سے کٹتا ہے جو ادارے کے پاس ان کی امانت ہوتی ہے، ملزمان پراویڈنٹ فنڈ کی رقم ہالی ڈے ان ہوٹل میں واقع بینک کے اکاؤنٹ میں منتقل کرتے اور وہاں سے کیش کی صورت نکلواتے اور دیگر اکاؤنٹس میں منتقل کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ارشد مجید چوہدری 2021ء سے لے کر2024ء تک ڈی ڈی او رہا، اس دور میں اس نے اپنے اکاؤنٹ میں 6 کروڑ 61 لاکھ روپے منتقل کئے جبکہ 18کروڑ اور 24 کروڑ کے چیکس ان کے دستخطوں سے بینک سے کیش کرائے گئے۔
ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ ملزم اظہر فاروق جو کہ کیشیئر تھا اور تمام پیسے بینک میں جا کر خود نکلوانے میں ملوث ہے، اظہر فاروق کے ذاتی اکاؤنٹ میں 8 کروڑ روپے منتقل کئے گئے۔
ایف آئی اے نے بتایا کہ عدنان اکرم باجوہ جو کہ اے پی پی کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر (ای ڈی ) رہے، مالی معاملات کے واؤچرز پر ان کے تصدیق شدہ دستخط موجود ہیں، انہوں نے بطور ای ڈی کئی واؤچرز اور چیکس پر غیر قانونی دستخط کیےہیں۔
انہوں نے بتایا کہ غواث خان نے بھی بطور ای ڈی 7 کروڑ روپے کا چیک جو کہ تنخواہ کی مد میں تیار کیا گیا، اس پر دستخط کئے جبکہ ادارے کے ملازمین کی اس وقت تنخواہ صرف 3 کروڑ روپے بنتی تھی، 4 کروڑ روپے اضافی غیرقانونی طریقے سے منتقل کئے گئے۔ ایف
ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ ادریس چوہدری اور طاہر گھمن دونوں آڈٹ انچارج رہے ہیں، ان کی ذمہ داری تھی کہ ہر ماہ آڈٹ رپورٹ تیار کرتے، انہی کے دور میں ایک ملزم کو 90 لاکھ روپے تنخواہ دی گئی جس کا انہوں نے کوئی آڈٹ نہیں کیا جس سے ان کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے۔
ایف آئی اے کے تفتیشی آفیسر محمد جنید نے عدالت کو بتایا کہ ملزم ثاقب کلیم کے اکاؤنٹ میں 61 ہزار روپے سے زائد رقم پنشن کے اکاؤنٹ سے ٹرانسفرکی گئی۔ ایف آئی اے نے بتایا کہ ملزم عمران منیر پی ایف سیکشن کے انچارج تھے ، انہوں نے پی ایف اکاؤنٹس سے 5 کروڑ روپے کی رقم ہالی ڈے ان بینک برانچ میں جمع کرائی اور پھر وہاں سے تین الگ الگ چیکس کے ذریعے مذکورہ رقم نکلوالی۔
انہوں نے بتایا کہ تقریباً 21کروڑ روپے کے چیکس ہالی ڈے ان بینک برانچ سے کیش کرائے گئے جس کے حوالے سے ڈیپارٹمنٹل انکوائری کی گئی ہے، ملزم عمران منیر نے 2کروڑ 84 لاکھ روپے کے تین چیکس مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بغیر ٹرانسفر کئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم اعجاز مقبول نے دو چیکس اس وقت کے منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی ) کے نام پر وصول کئے جس پر ہم نے تحقیقات اورریکارڈ سے یہ پتہ لگایا ہے کہ کسی ایم ڈی نے نہ ہی ان کی منظوری دی اور نہ ہی اعجاز مقبول کو وہ چیکس وصول کرنے کا کہا ۔
ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ تفصیلی انکوائری کرکے مقدمہ درج کیا گیا ہے جس کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں ، ہم ملزمان کی گرفتاری چاہتے ہیں ، کئی ملزمان کے اکائونٹس میں براہ راست رقم منتقل ہوئی۔
اسپیشل جج سینٹرل ہمایوں دلاور نے اے پی پی میگا کرپشن کیس میں اہم فیصلہ سناتے ہوئے 13 ملزمان کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری خارج کرتے ہوئے ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کرنے کے احکامات جاری کر دیئے جس پر ایف آئی اے نے 7 ملزمان کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔