برطانیہ میں سیاسی پناہ کے خواہاں افراد میں پاکستانی پہلے نمبر پر آگئے
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
برطانیہ میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی فہرست میں پاکستانی شہریوں نے پہلا مقام حاصل کرلیا ہے۔
برطانوی وزارت داخلہ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ برس 11 ہزار 48 پاکستانی شہریوں نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں، جو مجموعی طور پر 1 لاکھ 9 ہزار 343 درخواستوں کا ایک بڑا حصہ ہے۔
یہ اعداد و شمار ایک دلچسپ موڑ کی نشاندہی کرتے ہیں، کیونکہ 2023-24 کے دوران پاکستانی شہری سیاسی پناہ کے خواہاں افراد میں تیسرے نمبر پر تھے۔ اس سال ان کا پہلے نمبر پر آنا ایک قابل ذکر تبدیلی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چھوٹی کشتیوں کے ذریعے خطرناک سمندری سفر کرکے برطانیہ پہنچنے والے مہاجرین میں سے 33 فیصد نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ یہ اعداد و شمار مہاجرین کے لیے ان خطرناک سفروں کی سنگینی کو اجاگر کرتے ہیں۔
افغان شہریوں نے 8 ہزار 69 درخواستوں کے ساتھ دوسرا نمبر حاصل کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی مشکلات مہاجرت کے اہم محرکات ہیں۔
ماہرین کے مطابق، پاکستانی شہریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کئی عوامل کا نتیجہ ہوسکتی ہے، جن میں ملک میں معاشی عدم استحکام، سیاسی کشیدگی اور روزگار کے محدود مواقع شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے سماجی و اقتصادی حالات پر ایک اہم تبصرہ پیش کرتے ہیں۔
برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ہر درخواست کا انفرادی طور پر جائزہ لیں گے اور انصاف پسندی سے فیصلہ کریں گے۔ تاہم، یہ اعداد و شمار یورپی ممالک کے لیے مہاجرت کے بحران سے نمٹنے کے لیے جامع پالیسیاں بنانے کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یہ اعداد و شمار سیاسی پناہ کرتے ہیں
پڑھیں:
بھارت دنیا بھر میں ٹارگٹ کلنگ کی سرپرستی کرتا ہے، سلامتی کونسل میں پاکستانی سفیر
NEWYORK:اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی مندوب صائمہ سلیم نے بھارت کے جارحانہ بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی سرپرستی کررہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کھلے مباحثے کے دوران ہندوستان کے بیان پر پاکستانی مندوب صائمہ سلیم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرا وفد ہندوستانی وفد کے ریمارکس کے جواب میں بات کرنے پر مجبور ہوا ہے، ہندوستان نے ایک بار پھر گمراہ کن معلومات، انحراف اور انکار کا سہارا لیا ہے۔
صائمہ سلیم نے کہا کہ میں ہندوستانی نمائندے کو یاد دلانا چاہتی ہوں کہ یہ کھلا مباحثہ مسلح تنازعات میں شہریوں کے تحفظ پر ہے، کسی بھی قسم کی گول مول باتیں ان حقائق کو نہیں چھپا سکتیں۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان مقبوضہ جموں و کشمیر میں شہریوں کو بےدریغ قتل اور زخمی کرتا ہے، پاکستان پر بلا اشتعال حملے کرکے جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بناتا ہے اور نہ صرف میرے ملک بلکہ دنیا بھر میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی سرپرستی کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے یہاں تک کہ دریاؤں کے بہاؤ روکنے کی کوشش کی ہے جو پاکستان کے 24 کروڑ عوام کے لیے زندگی کی علامت ہیں، پانی زندگی ہے، جنگ کا ہتھیار نہیں۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ پاکستان نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر پہلگام واقعے کی مذمت کی، اگر ہندوستان کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں تھا تو اسے چاہیے تھا کہ وہ اس واقعے کی غیر جانب دار، معتبر اور آزادانہ تحقیقات پر رضامند ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس ہندوستان مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کے ذریعے کشمیری عوام کی جائز آزادی کی جدوجہد کو دبانے میں مصروف ہے۔
صائمہ سلیم نے مباحثے میں کہا کہ 6 تا 10 مئی کے دوران ہندوستان نے پاکستان کے خلاف کھلی جارحیت کا ارتکاب کیا، بلااشتعال حملے کرکے معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا، جس میں 40 شہری شہید ہوئے، جن میں 7 خواتین اور 15 بچے شامل ہیں، 121 افراد زخمی ہوئے جن میں 10 خواتین اور 27 بچے شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کو شہریوں کے تحفظ پر دوسروں کو درس دینے کا کوئی اخلاقی جواز حاصل نہیں، پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششیں اور قربانیاں عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں اور ہم اس ناسور کے خاتمے کے لیے اپنے عالمی شراکت داروں کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری جانب ہندوستان مسلسل دہشت گرد گروہوں کو مالی اور عملی مدد فراہم کرتا ہے، جن میں کالعدم ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ شامل ہیں، جن کا مقصد پاکستان میں معصوم شہریوں کا قتل ہے۔
پاکستانی مندوب نے بتایا کہ صرف دو دن قبل بلوچستان کے ضلع خضدار میں ایک اسکول بس پر بزدلانہ حملے میں معصوم بچوں کی جانیں لی گئیں اور درجنوں زخمی ہوئے، اگر ہندوستان واقعی امن، سلامتی اور اچھے ہمسائیگی کے اصولوں پر کاربند ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ریاستی دہشت گردی بند کرے، کشمیری عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ ختم کرے، بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے منشور اور دوطرفہ معاہدوں کی پاسداری کرے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بھارت جموں و کشمیر کے تنازع کے پرامن حل کے لیے بامعنی مذاکرات کا آغاز کرے جیسا کہ سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہے۔