راولپنڈی پولیس کا منشیات فروشوں سے تعلقات اور پشت پناہی کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
راولپنڈی پولیس کا منشیات فروشوں سے تعلقات اور پشت پناہی کا انکشاف ہوا ہے۔
سی پی او سید خالد ہمدانی نے 17 پولیس افسران اور اہلکار برطرف کر دیے، برطرف افسران و اہلکاروں میں ایک سب انسپکٹر، 4 اے ایس آئی، 4 ہیڈ کانسٹیبلز اور 8 کانسٹیبلز شامل ہیں۔
پولیس کے مطابق منشیات کے خلاف کریک ڈاؤن میں پولیس افسران و اہلکاروں کی اسکروٹنی کی گئی، روابط سامنے آنے پر سینئر افسران پر مشتمل ٹیم نے معاملےکی تحقیقات کیں، برطرف افسران و اہلکاروں کے منشیات فروشوں سے روابط اور پشت پناہی کے شواہد سامنے آئے۔
ترجمان پولیس نے کہا کہ برطرف کیے گئے تمام پولیس اہلکار تھانہ نیوٹاؤن میں تعینات تھے، ایس ایچ او تھانہ نیوٹاؤن انوارالحق کو بھی نوکری سے برخاست کر دیا گیا ہے۔
سی پی او سید خالد ہمدانی کا کہنا تھا کہ تمام تر کارروائی پولیس کے محکمۂ احتساب کے میکانزم کے تحت کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ 500 سے زائد منشیات فروشوں کو سزا ہوئی جو 10 سے 20 سال کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: منشیات فروشوں
پڑھیں:
راولپنڈی: سرکاری اسپتال میں مریض خواتین کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات اور نازیبا ویڈیوز بنانے کا انکشاف
نیشنل سائبرکرائم انویسٹی گیشن ایجنسی راولپنڈی نے کارروائی کرتے ہوئے تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال کہوٹہ میں عملے کی غیر اخلاقی حرکات بے نقاب کردی۔
این سی سی آئی اے نے کہا کہ تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال کہوٹہ میں تعینات دو ملازمین کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال، سرکاری حدود میں غیر اخلاقی سرگرمیوں اور قابل اعتراض ویڈیو مواد بنانے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔
تحقیقات کا آغاز انکوائری نمبر 1541/25 کی بنیاد پر کیا گیا، جس کے دوران انکشاف ہوا کہ شکیل احمد (ریڈیولوجسٹ) اور زین العابدین (وارڈ سرونٹ) نے THQ اسپتال کہوٹہ میں اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک خاتون مریضہ کے ساتھ ریڈیالوجی وارڈ میں شدید غیر اخلاقی عمل کیا۔
واقعے کے دوران شکیل احمد نے خاتون مریضہ کے ساتھ ایکسرے روم میں غیر اخلاقی حرکات کیں جبکہ زین العابدین نے خفیہ طور پر موبائل فون سے ویڈیو ریکارڈ کی، تفتیش کے دوران برآمد شدہ الیکٹرانک آلات کا تجزیہ کیا گیا۔
ٹیکنیکل رپورٹ میں واضح طور پر قابل اعتراض مواد کی موجودگی اور دونوں ملزمان کے اس مواد کی تیاری اور ترسیل سے تعلق کی تصدیق ہوئی۔
ابتدائی شواہد کی بنیاد پر پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔
این سی سی آئی اے نے کہا کہ مقدمہ نہ صرف عوامی اعتماد کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ طبی اخلاقیات کی پامالی اور سرکاری وسائل کا بے دریغ اور غیر اخلاقی استعمال بھی ظاہر کرتا ہے۔