لندن(اوصاف نیوز) پنجاب کا طالبعلم ایف بی آئی کی نظروں میں اچانک کیسے آگیا اور کیوں گرفتار ہوا۔ چار سال قبل گرفتار ہونے والے پاکستانی طالبعلم کی گرفتاری کی داستان برطانوی خبررساں ادارے بی بی بی سی اردو نے شائع کرکے نئے سوالات اٹھادیئے ۔

خبر رساں ادارے کے مطابق آج سے لگ بھگ چار سال قبل پاکستان سے ’ابنِ عبداللہ الپاکستانی‘ نامی ایک انسٹاگرام صارف نےعراق میں موجود ایک دوسرے صارف سے ’گھر بیٹھے بم بنانے کی ترکیب‘ جاننے کے لیے بات چیت کی۔

انسٹاگرام پر جب وہ ’پروفیشنل کوک 67‘ نامی صارف سے امونیم نائیٹریٹ، سلفر، امونیم پاؤڈر، چارکول اور دیگر اجزا وغیرہ کے استعمال سے ’بم بنانے کی ابتدائی تربیت لینے کی کوشش کر رہے تھے‘ تو انھیں یقینا یہ نہیں معلوم تھا کہ کوئی اور بھی ان کی گفتگو پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

اس بات کا علم صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال کے رہائشی اس نوجوان طالب علم کو پہلی مرتبہ اس وقت ہوا جب اس گفتگو کے چند ماہ بعد لاہور سے فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی کے انسداد دہشت گردی وِنگ کے اہلکاروں نے لبرٹی مارکیٹ کے علاقے سے انھیں گرفتار کر لیا۔

ان کے دو فون ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیرارزم (یعنی انسداد دہشت گردی) ونگ کے اہلکاروں نے موقع پر ہی قبضے میں لے لیے اور نارروال یونیورسٹی میں ہیومن ریسورس مینیجمنٹ کے اس طالب علم کو تفتیش کے لیے تھانے منتقل کیا گیا۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے جاننا چاہتے تھے کہ یہ نوجوان طالب علم بم بنانے کی ترکیب کیوں جاننا چاہتا تھا؟ اس نے ان معلومات کے ساتھ کیا کیا؟ کیا اس کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے تھا اور کیا اس نے حاصل کی گئی معلوم کسی اور شخص تک بھی پہنچائی ہیں؟

ایف آئی اے کو ’ابن عبداللہ الپاکستانی‘ نامی صارف کی اس بات چیت کا کیسے معلوم ہوا جو انسٹاگرام پر ایک پرائیویٹ چیٹ پر کی گئی تھی اور یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہی اس فرضی نام کے اکاونٹ کے مالک تھے؟

اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے آفیسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر اظہر ریاض نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان سے پوچھ گچھ کے دوران طالب علم نے یہ تسلیم کیا کہ وہی اس انسٹاگرام اکاؤنٹ کے مالک تھے۔

ان کے مطابق یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ ’انھوں نے عراق میں موجود ایک انسٹاگرام اکاونٹ سے بم بنانے کی ترکیب کے بارے معلومات حاصل کی تھیں۔‘

ایف آئی اے اہلکار کے مطابق انھوں نے جو معلومات حاصل کیں ان میں بم بنانے میں استعمال ہونے والے اجزا کے علاوہ یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ بلاسٹنگ سوئچ کہاں نصب کرنا ہو گا۔

دوران تفتیش ایف آئی اے کو طالب علم نے بتایا کہ وہ یہ معلومات ’تعلیمی مقاصد‘ کے لیے حاصل کر رہے تھے۔ تاہم ایف آئی اے نے ان کی یونیورسٹی میں ان کے اساتذہ سے بھی معلومات لیں جہاں وہ بی بی اے آنرز کی ڈگری میں مارکیٹنگ کی تعلیم لے رہے تھے۔

اساتذہ نے تحقیق کاروں کو بتایا کہ ان کی ڈگری کے لیے انھیں اس نوعیت کی کسی معلومات کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی انھیں ایسی کوئی اسائنمنٹ دی گئی تھی۔ ابتدائی تحقیقات مکمل ہونے پر طالب علم کو جیل بھیج دیا گیا تاہم بعد میں وہ ضمانت پر رہا ہو گئے۔

ان کے خلاف تحقیقات اور عدالت میں مقدمہ چلتا رہا جس کے دوران وہ اپنے بیان پر قائم رہے کہ وہ صرف ’تعلیمی مقصد‘ کے لیے یہ معلومات لے رہے تھے۔
پاکستان کا ایک اور بڑا معرکہ / نوجوان باکسر بانو بٹ کی بھارتی حریف پر تاریخی فتح
ایک بزنس سٹڈیز کے طالب علم کو اچانک بم بنانے میں دلچسپی کیوں ہوئی؟ کیا ان کا کسی تنظیم یا کسی تیسرے شخص سے کوئی رابطہ تھا؟ ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیرارزم ونگ نے اپنی تحقیقات مکمل کر کے عدالت میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی۔

حال ہی میں لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے طالب علم کے خلاف جرم ثابت ہونے پر انھیں ڈھائی برس قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ملزم کو ’کم سے کم سزا اس لیے سنائی گئی ہے کہ ان کے خلاف صرف ممنوعہ معلومات حاصل کرنے کا جرم ثابت ہوا۔ یہ ثابت نہیں ہوا کہ انھوں نے ان معلومات کو آگے پھیلایا یا ان کا استعمال کرنے کی کوشش کی۔‘

ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر نے عدالت کو بتایا کہ انھیں امریکہ کی فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن یعنی ایف بی آئی کی طرف سے ملزم کے خلاف شکایت موصول ہوئی۔

ایف بی آئی نے پاکستان میں امریکی سفارتخانے کی مدد سے یہ شکایت پاکستان کی وفاقی حکومت تک پہنچائی جس نے ایف آئی اے کو اس کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا۔

ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر اظہر ریاض نے بی بی سی کو بتایا کہ ’امریکی ایف بی آئی نے ملزم کی عراق سے چلائے جانے والے اکاؤنٹ کے ساتھ گفتگو کی تفصیلات اور جس ای میل ایڈریس سے ان کا انسٹاگرام اکاؤنٹ ابن عبداللہ الپاکستانی بنایا گیا تھا وہ پاکستانی حکام کو فراہم کیا۔‘

’ہم نے پہلے تصدیق کی کہ وہ ای میل ایڈریس کس کے استعمال میں اور کہاں سے استعمال ہوا۔ جب ملزم کو گرفتار کیا گیا تو ان کے زیرِ استعمال دونوں فون قبضے میں لیے گئے۔ ان کو فرانزک تجزیے کیے لیے بھجوایا گیا۔‘

تحقیقاتی افسر کے مطابق فرانزک تجزیے نے یہ ثابت کیا کہ وہی طالب علم ہی اس ای میل ایڈریس کے مالک تھے۔ ’انھوں نے اس کی مدد سے انسٹاگرام پر مذکورہ اکاؤنٹ بنایا اور پھر اس اکاؤنٹ سے ہی بم بنانے کا طریقہ جاننے کے لیے معلومات حاصل کیں۔‘

ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر اظہر ریاض نے بتایا کہ طالب علم کے موبائل فوننز کے فرانزک تجزیے کے دوران کچھ دیگر معلومات بھی سامنے آئیں۔

’تجزیے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ انھوں نے یوٹیوب پر بم بنانے کی ویڈیوز بھی دیکھیں۔ اس کے ساتھ ہی آن لائن خریداری کی امریکی ویب سائٹ ایمازون پر انھوں نے بم بنانے کے ان اجزا کو بھی تلاش کیا جو انھوں نے انسٹاگرام اکاونٹ سے حاصل کی تھیں۔‘

’انھوں نے ایسے کسی اجزا کی خریداری نہیں کی، صرف اسے ایمازون پر ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ اسی طرح ہمیں ایک لنک یوٹیوب کا ایسا ملا جس میں انھوں نے بم بنانے کا طریقہ دیکھنے کی کوشش کی۔‘

تاہم اظہر ریاض کا کہنا تھا کہ دوران تحقیقات انھیں اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ طالب علم نے حاصل کی گئی معلومات استعمال کر کے کوئی دھماکہ خیز مواد بنانے کی کوئی کوشش کی تھی۔

ایف آئی اے کے مطابق انھیں طالب علم کے خلاف شکایت امریکی تحقیقات ادارے ایف بی آئی کی طرف سے موصول ہوئی جس کے بعد انھوں نے مقامی سطح پر تحقیقات کے بعد انھیں گرفتار کیا۔

تو سوال یہ ہے کہ ایف بی آئی کو طالب علم کی انسٹاگرام پر ہونے والی چیٹ کی گفتگو کو کیسے علم ہوا؟

ڈیجیٹل حقوق کی تنطیم ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اور ڈیجیٹل سکیورٹی کے علمبردار اسامہ خلجی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس بات کے امکانات ہو سکتے ہیں کہ امریکی تحقیقاتی ادارہ ان کی اس کمیونیکیشن سے واقف تھا۔

’ایک تو انسٹا گرام پر چیٹ وغیرہ انکرپٹڈ یعنی خفیہ نہیں ہوتیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خفیہ ایجنسیوں یا اداروں کی اس تک رسائی ہو سکتی ہے۔‘

اسامہ خلجی نے بتایا کہ وکی لیکس کے بانی جولیئن اسانج جو دستاویزات منظر عام پر لائے تھے اس سے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ ’ایران کے بعد پاکستان وہ دوسرا ملک تھا جس میں ڈیجیٹل جاسوسی سب سے زیادہ رہی تھی۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’انسٹاگرام کی مالک کمپنی یعنی میٹا کا تعلق امریکہ سے ہے۔ وہاں کے قوانین کے مطابق ایف بی آئی اور دیگر تحقیقاتی ادارے ایسی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جو پبلک کے لیے خطرناک تصور کی جائیں۔‘

’اگر اس شخص نے ایسی معلومات حاصل کرنے کے لیے انسٹاگرام پر چیٹ کا استعمال کیا تو عین ممکن ہے کہ انھوں نے جو الفاظ لکھے وہ ان ’کی ورڈز‘ (مخصوص اصلاحات) میں شامل تھے جن کے لکھنے پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز الرٹ ہو جاتے ہیں۔‘

اسامہ خلجی کے مطابق ’عین ممکن ہے کہ ان مخصوص اصلاحات کی وجہ سے انسٹاگرام ایف بی آئی یا تحقیقاتی اداروں کو خبردار کیا اور اس کے بعد ایف بی آئی نے از خود جائزہ لینے کے بعد پاکستان میں حکام کو خبردار کیا۔‘

’اس نے محض تجسس میں یہ معلومات لینے کی کوشش کی‘
ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اظہر ریاض کے مطابق انھوں نے اس بات کی مکمل چھان بین کی کہ سزا پانے والے طالب علم کے کسی انتہا پسند تنظیم یا شخص کے ساتھ کو روابط تو نہیں تھے۔

’ہم نے نارووال میں پولیس کے کاونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے بھی ان کی مکمل تحقیقات کروائیں۔ سی ٹی ڈی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ طالب علم کے ایسے کسی رابطے کی تصدیق نہیں ہوئی اور نہ ہی ماضی میں ان کا اس قسم کا کوئی ریکارڈ سامنے آیا ہے۔‘

سی ٹی ڈی کی رپورٹ کے بعد ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ ’طالب علم نے محض تجسس میں یہ ممنوعہ معلومات حاصل کیں۔ انھیں شاید اندازہ نہیں تھا کہ اس کی وجہ سے ان کے لیے قانونی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔‘

ایف آئی اے کے افسر کے مطابق یہی وجہ تھی کہ عدالت نے انھیں کم سزا دی۔

انھیں صرف پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے ان قوانین کی خلاف ورزی پر سزا دی گئی جن کے مطابق اس قسم کی ممنوعہ معلومات کا حصول جرم ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ سزا 10 سال ہو سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: معلومات حاصل کی انسٹاگرام اکاو تحقیقاتی افسر ایف ا ئی اے کے انسٹاگرام پر طالب علم کے بم بنانے کی طالب علم کو طالب علم نے کی تحقیقات ایف بی ا ئی کی کوشش کی کے مطابق ا اظہر ریاض معلوم ہوا بتایا کہ انھوں نے اکاو نٹ کے خلاف کے ساتھ رہے تھے کے لیے تھا کہ اس بات کے بعد یہ بھی

پڑھیں:

واٹس ایپ چیٹ نے کروڑوں پاؤنڈز کا منشیات کا دھندا ٹھپ کروادیا، جانیے جرم و سزا کی یہ کہانی

برطانیہ میں پولیس نے واٹس ایپ پر کی گئی چند چیٹس کی مدد سے ایک ایسے منشیات فروش کا سراغ لگایا جو بظاہر ایک عام سا شہری تھا لیکن حقیقت میں وہ جنوبی ویلز میں کوکین اور ہیروئن کے کروڑوں پاؤنڈز کے کاروبار کا ماسٹر مائنڈ نکلا۔

بی بی سی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 34 سالہ رابرٹ اینڈریوز جونیئر نیوپورٹ میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک سادہ سے گھر میں رہتا تھا۔ نہ مہنگی گاڑیاں، نہ برانڈڈ کپڑے اور نہ ہی کسی مجرمانہ پس منظر کی نشاندہی لیکن پولیس کے خفیہ آپریشن نے ثابت کر دیا کہ سادگی کے اس پردے کے پیچھے ایک منظم جرائم پیشہ نیٹ ورک کام کر رہا تھا۔

واٹس ایپ چیٹ نے پردہ فاش کیا

رابرٹ اینڈریوز پولیس کی نظروں میں اس وقت آیا جب کیرِی ایوانز نامی ایک اور منشیات فروش کی گرفتاری کے بعد اس کے فون سے چیٹ برآمد ہوئی۔ ان چیٹس میں وہ اور اینڈریوز مزاحاً لکھتے ہیں کہ وہ یا تو ’کروڑ پتی بنیں گے یا جیل میں سیل شیئر کریں گے‘۔

یہی چیٹس پولیس کے لیے ایک سراغ بن گئیں اور جیسے ہی اینڈریوز پر خفیہ نگرانی شروع ہوئی سارا نیٹ ورک کھل کر سامنے آ گیا۔

خفیہ نگرانی، ’دی کلیئرنگ‘ اور کیمرے کی آنکھ

پولیس نے آپریشن مے لینڈ کے تحت اینڈریوز کی خفیہ نگرانی کی جس میں اسے دن دیہاڑے بھاری مقدار میں کوکین اور ہیروئن کے سودے کرتے دیکھا گیا۔ ایک مقام پر تو اسے ایک لاکھ پاؤنڈ نقدی سپر مارکیٹ کے شاپنگ بیگ میں دیتے ہوئے فلمایا گیا۔

اہم ملاقاتیں عموماً ’دی کلیئرنگ‘ نامی ایک ویران جنگلی علاقے میں ہوتی تھیں، جو  ایم 4 موٹر وے کے قریب واقع تھا۔ یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں کوئی اتفاقیہ نہیں جاتا بلکہ مخصوص ہدایات کے بغیر وہاں پہنچنا ہی ناممکن تھا۔

2 کلو کوکین اور ٹیکسی ڈرائیور

ایک موقعے پر پولیس نے دی کلیئرنگ سے نکلنے والے ایک ٹیکسی ڈرائیور محمد یامین کو گرفتار کیا جس کی گاڑی سے 2 کلو خالص کوکین برآمد ہوئی۔ اس کی مالیت تقریباً 2 لاکھ پاؤنڈ تھی۔ یامین کو ساڑھے 6 سال قید کی سزا ہوئی۔

نوٹ کا سیریل نمبر بطور ’ٹوکن‘

اینڈریوز رقم کی منتقلی کے لیے بھی ہوشیار طریقے اپناتا تھا۔ ایک موقعے پر اسے ایک اجنبی شخص سے صرف 5 پاؤنڈ کا نوٹ ملا اور وہ اس نوٹ کا سیریل نمبر دیکھ کر پہچان گیا کہ یہ شخص اس کے سپلائر کا نمائندہ ہے۔ بعد میں اسی شخص سے ایک لاکھ 9 ہزار پاؤنڈ برآمد ہوئے۔

سادگی کے پیچھے چھپی عیاشی

رابرٹ اینڈریوز کے گھر پر چھاپے کے وقت وہ اپنا فون الماری پر پھینک کر پولیس کو گمراہ کرنا چاہتا تھا لیکن پولیس نے وہ فون برآمد کر لیا جس میں تفصیل سے منشیات کے آرڈرز، بقایا جات اور سپلائرز کو دی گئی رقوم کا ریکارڈ موجود تھا۔

اگرچہ اس کے طرز زندگی میں کوئی خاص نمود و نمائش نہ تھی، لیکن جب پولیس نے اس کی تعمیر شدہ نئی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا، تو 60 ہزار پاؤنڈ کی لاگت سے بنا باورچی خانہ اور دیگر قیمتی سازوسامان دیکھ کر واضح ہوگیا کہ یہ عام آمدن سے ممکن نہیں۔

سزا اور پیغام

اینڈریوز نے کوکین اور ہیروئن کی فراہمی سے متعلق 2 الزامات تسلیم کیے اور سنہ 2024 میں اس پر مقدمہ چلا۔ رواں ماہ اسے 14 سال 8 ماہ قید کی سزا سنائی گئی اور اب وہ آدھی سزا وہ جیل میں گزارے گا اور باقی پیرول پر۔

دیگر شریک ملزمان میں ساموئیل تاکاہاشی (8 سال قید)، ناتھن جونز (18 سال قید) اور راحیل مہربان (10 سال 9 ماہ قید) شامل ہیں۔

پولیس کا بیان

ڈیٹیکٹیو چیف سپرنٹنڈنٹ اینڈریو ٹَک کا کہنا ہے کہ یہ کیس ایک واضح پیغام ہے کہ ہمارے معاشروں میں منشیات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہیں اور انجام قید ہے۔

اس طرح خفیہ واٹس ایپ چیٹ سے شروع ہونے والی تفتیش نے دن دہاڑے لاکھوں پاؤنڈز کے منشیات کے سودوں کو بے نقاب کیا اور سادگی کا لبادہ اوڑھے امیر ترین مجرموں کی گرفتاری ممکن ہوئی۔ 9 ماہ کی نگرانی، درجنوں گرفتاریاں اور ایک منشیات سلطنت کا خاتمہ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

برطانیہ منشیات کا گینگ واٹس ایپ میسجز

متعلقہ مضامین

  • امریکا کا فلسطین نواز طالبِ علم محمود خلیل کو جلاوطن کرنے کا حکم
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • نبی کریمﷺ کی تعلیمات پرعمل کرکے امن قائم کیاجاسکتا ہے،مولاناعتیق
  • کراچی پولیس نشانے پر، رواں سال میں اب تک افسر سمیت 14 جوان شہید
  • امریکی وزیر خارجہ اسرائیلی دورے سے واپسی پر دوحا پہنچ گئے،امیر قطر اور وزیراعظم سے ملاقات
  • جسٹن ٹروڈو اور کیٹی پیری نے رومانوی تعلقات کو خفیہ رکھا ہے؟
  • صدر ٹرمپ سرکاری دورے پر برطانیہ پہنچ گئے، احتجاجی مظاہرے متوقع
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سرکاری دورے پر لندن پہنچ گئے، کن اہم امور پر گفتگو ہوگی؟
  • امریکی وزیر خارجہ اسرائیلی دورے سے واپسی پر عجلت میں دوحہ پہنچ گئے؛ اہم پیغام پہنچایا
  • واٹس ایپ چیٹ نے کروڑوں پاؤنڈز کا منشیات کا دھندا ٹھپ کروادیا، جانیے جرم و سزا کی یہ کہانی