ابن عبدالباکستانی امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی کے نشانے پر ،جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
لندن(اوصاف نیوز) پنجاب کا طالبعلم ایف بی آئی کی نظروں میں اچانک کیسے آگیا اور کیوں گرفتار ہوا۔ چار سال قبل گرفتار ہونے والے پاکستانی طالبعلم کی گرفتاری کی داستان برطانوی خبررساں ادارے بی بی بی سی اردو نے شائع کرکے نئے سوالات اٹھادیئے ۔
خبر رساں ادارے کے مطابق آج سے لگ بھگ چار سال قبل پاکستان سے ’ابنِ عبداللہ الپاکستانی‘ نامی ایک انسٹاگرام صارف نےعراق میں موجود ایک دوسرے صارف سے ’گھر بیٹھے بم بنانے کی ترکیب‘ جاننے کے لیے بات چیت کی۔
انسٹاگرام پر جب وہ ’پروفیشنل کوک 67‘ نامی صارف سے امونیم نائیٹریٹ، سلفر، امونیم پاؤڈر، چارکول اور دیگر اجزا وغیرہ کے استعمال سے ’بم بنانے کی ابتدائی تربیت لینے کی کوشش کر رہے تھے‘ تو انھیں یقینا یہ نہیں معلوم تھا کہ کوئی اور بھی ان کی گفتگو پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
اس بات کا علم صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال کے رہائشی اس نوجوان طالب علم کو پہلی مرتبہ اس وقت ہوا جب اس گفتگو کے چند ماہ بعد لاہور سے فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی کے انسداد دہشت گردی وِنگ کے اہلکاروں نے لبرٹی مارکیٹ کے علاقے سے انھیں گرفتار کر لیا۔
ان کے دو فون ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیرارزم (یعنی انسداد دہشت گردی) ونگ کے اہلکاروں نے موقع پر ہی قبضے میں لے لیے اور نارروال یونیورسٹی میں ہیومن ریسورس مینیجمنٹ کے اس طالب علم کو تفتیش کے لیے تھانے منتقل کیا گیا۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے جاننا چاہتے تھے کہ یہ نوجوان طالب علم بم بنانے کی ترکیب کیوں جاننا چاہتا تھا؟ اس نے ان معلومات کے ساتھ کیا کیا؟ کیا اس کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے تھا اور کیا اس نے حاصل کی گئی معلوم کسی اور شخص تک بھی پہنچائی ہیں؟
ایف آئی اے کو ’ابن عبداللہ الپاکستانی‘ نامی صارف کی اس بات چیت کا کیسے معلوم ہوا جو انسٹاگرام پر ایک پرائیویٹ چیٹ پر کی گئی تھی اور یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہی اس فرضی نام کے اکاونٹ کے مالک تھے؟
اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے آفیسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر اظہر ریاض نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان سے پوچھ گچھ کے دوران طالب علم نے یہ تسلیم کیا کہ وہی اس انسٹاگرام اکاؤنٹ کے مالک تھے۔
ان کے مطابق یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ ’انھوں نے عراق میں موجود ایک انسٹاگرام اکاونٹ سے بم بنانے کی ترکیب کے بارے معلومات حاصل کی تھیں۔‘
ایف آئی اے اہلکار کے مطابق انھوں نے جو معلومات حاصل کیں ان میں بم بنانے میں استعمال ہونے والے اجزا کے علاوہ یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ بلاسٹنگ سوئچ کہاں نصب کرنا ہو گا۔
دوران تفتیش ایف آئی اے کو طالب علم نے بتایا کہ وہ یہ معلومات ’تعلیمی مقاصد‘ کے لیے حاصل کر رہے تھے۔ تاہم ایف آئی اے نے ان کی یونیورسٹی میں ان کے اساتذہ سے بھی معلومات لیں جہاں وہ بی بی اے آنرز کی ڈگری میں مارکیٹنگ کی تعلیم لے رہے تھے۔
اساتذہ نے تحقیق کاروں کو بتایا کہ ان کی ڈگری کے لیے انھیں اس نوعیت کی کسی معلومات کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی انھیں ایسی کوئی اسائنمنٹ دی گئی تھی۔ ابتدائی تحقیقات مکمل ہونے پر طالب علم کو جیل بھیج دیا گیا تاہم بعد میں وہ ضمانت پر رہا ہو گئے۔
ان کے خلاف تحقیقات اور عدالت میں مقدمہ چلتا رہا جس کے دوران وہ اپنے بیان پر قائم رہے کہ وہ صرف ’تعلیمی مقصد‘ کے لیے یہ معلومات لے رہے تھے۔
پاکستان کا ایک اور بڑا معرکہ / نوجوان باکسر بانو بٹ کی بھارتی حریف پر تاریخی فتح
ایک بزنس سٹڈیز کے طالب علم کو اچانک بم بنانے میں دلچسپی کیوں ہوئی؟ کیا ان کا کسی تنظیم یا کسی تیسرے شخص سے کوئی رابطہ تھا؟ ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیرارزم ونگ نے اپنی تحقیقات مکمل کر کے عدالت میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی۔
حال ہی میں لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے طالب علم کے خلاف جرم ثابت ہونے پر انھیں ڈھائی برس قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ملزم کو ’کم سے کم سزا اس لیے سنائی گئی ہے کہ ان کے خلاف صرف ممنوعہ معلومات حاصل کرنے کا جرم ثابت ہوا۔ یہ ثابت نہیں ہوا کہ انھوں نے ان معلومات کو آگے پھیلایا یا ان کا استعمال کرنے کی کوشش کی۔‘
ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر نے عدالت کو بتایا کہ انھیں امریکہ کی فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن یعنی ایف بی آئی کی طرف سے ملزم کے خلاف شکایت موصول ہوئی۔
ایف بی آئی نے پاکستان میں امریکی سفارتخانے کی مدد سے یہ شکایت پاکستان کی وفاقی حکومت تک پہنچائی جس نے ایف آئی اے کو اس کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا۔
ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر اظہر ریاض نے بی بی سی کو بتایا کہ ’امریکی ایف بی آئی نے ملزم کی عراق سے چلائے جانے والے اکاؤنٹ کے ساتھ گفتگو کی تفصیلات اور جس ای میل ایڈریس سے ان کا انسٹاگرام اکاؤنٹ ابن عبداللہ الپاکستانی بنایا گیا تھا وہ پاکستانی حکام کو فراہم کیا۔‘
’ہم نے پہلے تصدیق کی کہ وہ ای میل ایڈریس کس کے استعمال میں اور کہاں سے استعمال ہوا۔ جب ملزم کو گرفتار کیا گیا تو ان کے زیرِ استعمال دونوں فون قبضے میں لیے گئے۔ ان کو فرانزک تجزیے کیے لیے بھجوایا گیا۔‘
تحقیقاتی افسر کے مطابق فرانزک تجزیے نے یہ ثابت کیا کہ وہی طالب علم ہی اس ای میل ایڈریس کے مالک تھے۔ ’انھوں نے اس کی مدد سے انسٹاگرام پر مذکورہ اکاؤنٹ بنایا اور پھر اس اکاؤنٹ سے ہی بم بنانے کا طریقہ جاننے کے لیے معلومات حاصل کیں۔‘
ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر اظہر ریاض نے بتایا کہ طالب علم کے موبائل فوننز کے فرانزک تجزیے کے دوران کچھ دیگر معلومات بھی سامنے آئیں۔
’تجزیے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ انھوں نے یوٹیوب پر بم بنانے کی ویڈیوز بھی دیکھیں۔ اس کے ساتھ ہی آن لائن خریداری کی امریکی ویب سائٹ ایمازون پر انھوں نے بم بنانے کے ان اجزا کو بھی تلاش کیا جو انھوں نے انسٹاگرام اکاونٹ سے حاصل کی تھیں۔‘
’انھوں نے ایسے کسی اجزا کی خریداری نہیں کی، صرف اسے ایمازون پر ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ اسی طرح ہمیں ایک لنک یوٹیوب کا ایسا ملا جس میں انھوں نے بم بنانے کا طریقہ دیکھنے کی کوشش کی۔‘
تاہم اظہر ریاض کا کہنا تھا کہ دوران تحقیقات انھیں اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ طالب علم نے حاصل کی گئی معلومات استعمال کر کے کوئی دھماکہ خیز مواد بنانے کی کوئی کوشش کی تھی۔
ایف آئی اے کے مطابق انھیں طالب علم کے خلاف شکایت امریکی تحقیقات ادارے ایف بی آئی کی طرف سے موصول ہوئی جس کے بعد انھوں نے مقامی سطح پر تحقیقات کے بعد انھیں گرفتار کیا۔
تو سوال یہ ہے کہ ایف بی آئی کو طالب علم کی انسٹاگرام پر ہونے والی چیٹ کی گفتگو کو کیسے علم ہوا؟
ڈیجیٹل حقوق کی تنطیم ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اور ڈیجیٹل سکیورٹی کے علمبردار اسامہ خلجی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس بات کے امکانات ہو سکتے ہیں کہ امریکی تحقیقاتی ادارہ ان کی اس کمیونیکیشن سے واقف تھا۔
’ایک تو انسٹا گرام پر چیٹ وغیرہ انکرپٹڈ یعنی خفیہ نہیں ہوتیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خفیہ ایجنسیوں یا اداروں کی اس تک رسائی ہو سکتی ہے۔‘
اسامہ خلجی نے بتایا کہ وکی لیکس کے بانی جولیئن اسانج جو دستاویزات منظر عام پر لائے تھے اس سے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ ’ایران کے بعد پاکستان وہ دوسرا ملک تھا جس میں ڈیجیٹل جاسوسی سب سے زیادہ رہی تھی۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’انسٹاگرام کی مالک کمپنی یعنی میٹا کا تعلق امریکہ سے ہے۔ وہاں کے قوانین کے مطابق ایف بی آئی اور دیگر تحقیقاتی ادارے ایسی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جو پبلک کے لیے خطرناک تصور کی جائیں۔‘
’اگر اس شخص نے ایسی معلومات حاصل کرنے کے لیے انسٹاگرام پر چیٹ کا استعمال کیا تو عین ممکن ہے کہ انھوں نے جو الفاظ لکھے وہ ان ’کی ورڈز‘ (مخصوص اصلاحات) میں شامل تھے جن کے لکھنے پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز الرٹ ہو جاتے ہیں۔‘
اسامہ خلجی کے مطابق ’عین ممکن ہے کہ ان مخصوص اصلاحات کی وجہ سے انسٹاگرام ایف بی آئی یا تحقیقاتی اداروں کو خبردار کیا اور اس کے بعد ایف بی آئی نے از خود جائزہ لینے کے بعد پاکستان میں حکام کو خبردار کیا۔‘
’اس نے محض تجسس میں یہ معلومات لینے کی کوشش کی‘
ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اظہر ریاض کے مطابق انھوں نے اس بات کی مکمل چھان بین کی کہ سزا پانے والے طالب علم کے کسی انتہا پسند تنظیم یا شخص کے ساتھ کو روابط تو نہیں تھے۔
’ہم نے نارووال میں پولیس کے کاونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے بھی ان کی مکمل تحقیقات کروائیں۔ سی ٹی ڈی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ طالب علم کے ایسے کسی رابطے کی تصدیق نہیں ہوئی اور نہ ہی ماضی میں ان کا اس قسم کا کوئی ریکارڈ سامنے آیا ہے۔‘
سی ٹی ڈی کی رپورٹ کے بعد ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ ’طالب علم نے محض تجسس میں یہ ممنوعہ معلومات حاصل کیں۔ انھیں شاید اندازہ نہیں تھا کہ اس کی وجہ سے ان کے لیے قانونی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔‘
ایف آئی اے کے افسر کے مطابق یہی وجہ تھی کہ عدالت نے انھیں کم سزا دی۔
انھیں صرف پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے ان قوانین کی خلاف ورزی پر سزا دی گئی جن کے مطابق اس قسم کی ممنوعہ معلومات کا حصول جرم ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ سزا 10 سال ہو سکتی ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: معلومات حاصل کی انسٹاگرام اکاو تحقیقاتی افسر ایف ا ئی اے کے انسٹاگرام پر طالب علم کے بم بنانے کی طالب علم کو طالب علم نے کی تحقیقات ایف بی ا ئی کی کوشش کی کے مطابق ا اظہر ریاض معلوم ہوا بتایا کہ انھوں نے اکاو نٹ کے خلاف کے ساتھ رہے تھے کے لیے تھا کہ اس بات کے بعد یہ بھی
پڑھیں:
بھارت نے ملک کے جدید ترین اسٹیلتھ فائٹر جیٹ کی تیاری کے لیے فریم ورک کی منظوری دے دی
نئی دہلی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 27 مئی ۔2025 )بھارتی وزارت دفاع نے ملک کے جدید ترین اسٹیلتھ فائٹر جیٹ کی تیاری کے لیے ایک فریم ورک کی منظوری دے دی ہے جس کا اعلان منگل کے روز کیا گیا یہ اقدام پاکستان کے ساتھ حالیہ عسکری کشیدگی کے بعد جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی اسلحہ کی دوڑ کے تناظر میں سامنے آیا ہے. برطانوی نشریاتی ادارے کا بھارتی وزارت دفاع کے حوالے سے کہنا ہے کہ ریاستی ادارے ایرو ناٹیکل ڈیویلپمنٹ ایجنسی (اے ڈی اے) کو اس منصوبے پر عملدرآمد کا ذمہ دار بنایا گیا ہے جو جلد ہی اس طیارے کے پروٹوٹائپ کی تیاری کے لیے دفاعی کمپنیوں سے ابتدائی دلچسپی کی درخواست جاری کرے گا یہ جیٹ دو انجنوں پر مشتمل پانچویں جنریشن کا اسٹیلتھ فائٹر ہو گا.(جاری ہے)
یہ منصوبہ بھارتی فضائیہ کے لیے انتہائی اہم ہے جس کے اسکواڈرنز کی تعداد روسی اور سابق سوویت طیاروں پر انحصار کے باعث 42 سے گھٹ کر 31 رہ گئی ہے جبکہ چین تیزی سے اپنی فضائی طاقت میں اضافہ کر رہا ہے پاکستان پہلے ہی چین کا جدید ترین جنگی طیارہ J-10 اپنے فضائی بیڑے میں شامل کر چکا ہے. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جوہری طاقت کے حامل ہمسایہ ممالک بھارت اور پاکستان کے درمیان اس ماہ کے آغاز میں چار دن تک شدید عسکری جھڑپیں ہوئیں جن میں دونوں جانب سے لڑاکا طیاروں، میزائلوں، ڈرونز اور توپ خانے کا استعمال کیا گیا یہ پہلا موقع تھا کہ دونوں ممالک نے وسیع پیمانے پر ڈرونز کا استعمال کیا گیا جس کے بعد جنوبی ایشیا میں ایک نئی ڈرون وار شروع ہو چکی ہے. یہ بات” رائٹرز “کو دیے گئے سیکورٹی حکام، صنعت کاروں اور تجزیہ کاروں کے انٹرویوز میں سامنے آئی ہے وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت اس اسٹیلتھ فائٹر پروگرام میں مقامی کمپنی کے ساتھ شراکت کرے گا اور نجی یا ریاستی ملکیتی ادارے تنہا یا جوائنٹ وینچر کی شکل میں بولی دے سکیں گے. رواں سال مارچ میں ایک بھارتی دفاعی کمیٹی نے نجی شعبے کو فوجی طیارہ سازی میں شامل کرنے کی سفارش کی تھی تاکہ بھارتی فضائیہ کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جا سکے اور ریاستی کمپنی ”ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ“ (ہال) پر بوجھ کم کیا جا سکے جو زیادہ تر بھارتی فوجی طیارے تیار کرتی ہے. بھارتی ایئر چیف مارشل امر پریت سنگھ پہلے ہی ”ہال“ پر ہلکے لڑاکا طیارے ”تیجس“ کی سست فراہمی پر تنقید کر چکے ہیں جس کا الزام ہال نے امریکی کمپنی جنرل الیکٹرک کی جانب سے انجن کی سپلائی میں تاخیر پر عائد کیا جو کہ اس وقت سپلائی چین کے مسائل سے دوچار ہے.