پاکستان میں موجود ایک لاکھ 10 ہزار پناہ گزینوں کو عالمی تحفظ کی ضرورت ہے، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے دفتر نے کہا ہے کہ پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ 10 ہزار پناہ گزین اور پناہ کے متلاشی افراد کی پروفائلز خطرے سے بھرپور ہیں اور انہیں بین الاقوامی تحفظ کی زیادہ ضرورت ہے، ان میں کم از کم 8 فیصد پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق یو این ایچ سی آر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان میں مخصوص یا مجموعی طور پر ایسی کمزوریاں بھی موجود ہیں جو انہیں دوبارہ آبادکاری کے لیے اہل بنا سکتی ہیں۔
پاکستان میں دوبارہ آبادکاری کا پروگرام 1980 کی دہائی سے فعال ہے اور یو این ایچ سی آر کے مطابق اب تک 20 ہزار سے زائد کمزور پناہ گزینوں کو تیسرے ممالک میں دوبارہ آبادکاری کے لیے بھیجا جا چکا ہے، تاکہ وہ محفوظ زندگی گزار سکیں اور نئی زندگی کی ابتدا کر سکیں۔
یہ معلومات یو این ایچ سی آر کی جانب سے پاکستان میں آپریشن کے حوالے سے جاری کردہ تازہ ترین فیکٹ شیٹ میں دی گئی ہیں۔
سنہ 2021 میں افغانستان کی صورتحال میں تبدیلی کے بعد بین الاقوامی برادری کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کی دوبارہ آبادکاری میں نئی دلچسپی سامنے آئی، جس کے نتیجے میں پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کے لیے دوبارہ آبادکاری کے کوٹے میں اضافہ ہوا۔
امریکا ان 9 ممالک کی فہرست میں سرفہرست رہا جنہوں نے افغان پناہ گزینوں کو دوبارہ آبادکاری کے لیے قبول کیا، امریکا نے 10 ہزار 823 افغان پناہ گزینوں کو قبول کیا، اس کے بعد آسٹریلیا (4 ہزار 362)، کینیڈا (2 ہزار 253)، برطانیہ (954)، نیوزی لینڈ (817)، ناروے (248)، سویڈن (182)، فن لینڈ (116)، اور اٹلی نے 72 افغان پناہ گزینوں کو قبول کیا۔
پاکستان اور ایران سے واپسی
انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈکراس (آئی ایف آر سی) کا کہنا ہے کہ ایک ماہ کے دوران 3 لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان اور ایران سے واپس افغانستان گئے یا ملک بدر کیے گئے۔
2021 کے بعد سے پاکستان میں کئی سفارتی مشنز نے ’محفوظ راہداری‘ کے پروگرام شروع کیے، تاکہ افغانستان میں اپنے سفارتی مشنز سے منسلک افغان شہریوں کے انخلا اور منتقلی کو آسان بنایا جا سکے، یو این ایچ سی آر نے واضح کیا کہ یہ پروگرام یو این ایچ سی آر کی دوبارہ آبادکاری کے فریم ورک سے باہر ہیں۔
یو این ایچ سی آر نے کہا کہ دوبارہ آبادکاری ایک منفرد اور پائیدار حل ہے، جو پناہ کے ملک سے کسی تیسرے ملک میں پناہ گزینوں کی منتقلی پر مشتمل ہوتا ہے۔
ترجیح دیے جانے والوں میں تشدد سے متاثرہ افراد، کمزور خواتین و لڑکیاں، خطرے سے دوچار بچے اور سنگین طبی مسائل کے شکار افراد شامل ہوتے ہیں۔
بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال
دوسری جانب انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈکراس (آئی ایف آر سی) نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران (جسے شدید غربت، خوراک کی کمی، اور کمزور صحت کے نظام جیسے مسائل درپیش ہیں) واپس آنے والوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے مزید زور پکڑ رہا ہے، جو زیادہ تر پاکستان کے ’غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی‘ کے منصوبے کے باعث ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے نے کہا کہ افغان شہریوں کی یہ آمد پہلے سے کمزور انفرااسٹرکچر پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے، اور ضرورت مندوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔
گزشتہ ماہ ریڈ کراس نے بڑھتی ہوئی انسانی ضروریات کے پیش نظر ایک ہنگامی عالمی اپیل جاری کی تھی، جس کے تحت فوری اور طویل مدتی امداد کے لیے ڈھائی کروڑ سوئس فرانک درکار ہیں۔
آئی ایف آر سی کے مطابق اپریل میں پاکستان سے ایک لاکھ 44 ہزار 500 سے زائد افراد واپس گئے، جن میں 29 ہزار 900 سے زائد افراد کو ملک بدر کیا گیا، اپریل کے دوران روزانہ 4 ہزار سے 6 ہزار افراد افغانستان واپس آرہے تھے۔
یہ واپسی، مسلسل قحط، پہلے سے موجود اندرونی نقل مکانی اور بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے باعث، پہلے سے دباؤ کی شکار خدمات پر زبردست دباؤ ڈال رہی ہے۔
اس دباؤ میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب ایران سے بھی افغان شہریوں کی واپسی میں تیزی آگئی، کیونکہ ایران کی پالیسیوں نے قانونی تحفظ تک رسائی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
20 مارچ سے 30 اپریل کے درمیان، ایران سے ایک لاکھ 70 ہزار 200 افغان واپس آئے، پاکستان اور ایران سے اپریل میں مجموعی طور پر 3 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کی واپسی نے افغانستان کے سرحدی علاقوں اور شہری مراکز پر ’شدید دباؤ‘ بڑھا دیا ہے، جو اتنے بڑے پیمانے پر نقل و حرکت کے لیے تیار نہیں ہیں۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دوبارہ آبادکاری کے افغان پناہ گزینوں یو این ایچ سی ا ر پناہ گزینوں کو افغان شہریوں پاکستان میں ایران سے ایک لاکھ کے لیے
پڑھیں:
برسی سربرنیکا قتل عام: دنیا نفرت اور تقسیم کے خلاف متحد ہو، گوتیرش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 09 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ عالمی برادری کو نفرت، تقسیم اور انسانوں پر ظلم ڈھانے کے واقعات سے انکار کے خلاف متحد ہو کر کھڑا ہونا ہو گا۔
سربرنیکا قتل عام کے متاثرین کی یاد میں منائے جانے والے عالمی دن پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ نسل کشی کے تمام متاثرین کی تکالیف کا احساس کر کے ہی باہمی مفاہمت، اعتماد اور پائیدار امن کا قیام ممکن ہے۔
دنیا کو یقینی بنانا ہو گا کہ اس قتل عام کے متاثرین کی آوازیں سنی جائیں اور ایسے واقعات سے انکار، انہیں توڑ موڑ کر پیش کرنے اور تاریخ میں تبدیلی کی کوششوں کو روکا جائے۔اس دن کی مناسبت سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منعقدہ تقریب کے موقع پر سیکرٹری جنرل کی جانب سے بات کرتے ہوئے ان کے دفتر کے سربراہ کورٹینی ریٹری نے اس قتل عام میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت اور ان کے خاندانوں کی ہمت کو سلام پیش کیا۔
(جاری ہے)
ان کا کہنا تھا کہ یہ سربرنیکا قتل عام کے متاثرین کو یاد کرنے اور ان واقعات میں زندہ بچ جانے والوں کی قوت، وقار اور مضبوطی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے۔
اس تقریب میں سربرنیکا قتل عام میں زندہ بچ جانے والے لوگوں اور اقوام متحدہ کے حکام نے شرکت کی جنہوں نے متاثرین کو مدد و تعاون مہیا کرنے اور پائیدار امن کو فروغ دینے کا عزم کیا۔
1995 میں بوسنیائی سرب فوج کے ہاتھوں سربرنیکا میں 8,372 مسلمان بوسنیائی مردوں اور لڑکوں کو قتل کیا گیا تھا۔ ان واقعات کے دوران ہزاروں لوگوں کو جان بچانے کے لیے نقل مکانی کرنا پڑی اور سربرنیکا میں پوری کی پوری آبادیوں کو تاراج کر دیا گیا۔
اس دوران نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے چند امن کار دستے بڑی تعداد میں بوسنیائی سرب فوج کو روکنے میں ناکام رہے۔
عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) اور سابق یوگوسلاویہ سے متعلق بین الاقوامی فوجداری ٹریبونل (آئی سی ٹی وائی) نے ان واقعات کو نسل کشی قرار دیا تھا۔2024 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 11 جولائی کو 1995 کے سربرنیکا قتل عام کے متاثرین کی یاد میں عالمی دن منانے کا اعلان کیا تھا۔
تقریب میں اقوام متحدہ کے حکام نے نسل کشی کے واقعات سے انکار اور جنگی جرائم میں ملوث افراد کو بطور ہیرو پیش کرنے کی کوششوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ایسے بیانیے تقسیم کو ہوا دیتے اور مفاہمت کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر فائلیمن یانگ کا کہنا تھا کہ تعلیم ایسے مظالم کی تاریخ کو یاد رکھنے اور ان کا اعادہ روکنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
کورٹینی ریٹری نے کہا کہ ماضی سے سبق حاصل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ سربرنیکا قتل عام کا سبب بننے والے عوامل آج بھی موجود ہیں۔ ان واقعات کے بعد دنیا نے عہد کیا تھا کہ دوبارہ ایسے واقعات کو ہونے نہیں دیا جائے گا لیکن آج پھر اظہار نفرت عروج پر ہے جس سے تفریق، انتہاپسندی اور تشدد کو ہوا مل رہی ہے۔