سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کیا۔

فیصل صدیقی نے بینچ کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا بینچ ہے جس میں اکثریتی ججز نے اصل کیس نہیں سنا، اسی لیے وہ اپنا مقدمہ تفصیل سے بیان کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق 13 میں سے 11 ججز نے کہا تھا کہ یہ نشستیں تحریک انصاف کی بنتی ہیں، لہٰذا یہ فیصلہ صرف 8 ججز کا نہیں، بلکہ 11 ججز کا تھا۔ انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ نظرثانی درخواست صرف اقلیتی فیصلے کے خلاف دائر کی گئی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نظرثانی کی درخواست میں جسٹس مندوخیل کے فیصلے پر انحصار کیا گیا ہے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ 7 گزارشات عدالت کے سامنے رکھیں گے، جن میں پہلا نکتہ یہی ہے کہ اگر تحریک انصاف فریق نہیں تھی تو اسے ریلیف کیسے دیا گیا؟

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: مخصوص نشستیں کیس، لائیو نشریات اور بینچ پر اعتراضات زیر بحث

سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا انتخابی نشان نہ دینا الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا یا سپریم کورٹ کا، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا، سپریم کورٹ کے سامنے تو صرف انٹرا پارٹی انتخابات کا مقدمہ تھا۔ انہوں نے عدالت کے سامنے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کے پیراگراف بھی پڑھے۔

فیصل صدیقی نے واضح کیا کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات تسلیم نہ کرتے ہوئے تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لے لیا تھا، اور اسی بنیاد پر تنازع پیدا ہوا۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی کو بطور جماعت تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا اور امیدواروں کو آزاد قرار دیتے ہوئے مختلف نشان جاری کیے گئے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ کیا اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا؟ وکیل نے بتایا کہ سلمان اکرم راجا نے اسے چیلنج کیا اور معاملہ ہائیکورٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچا۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے خود ہی سمجھ لیا تھا کہ وہ ایک جماعت نہیں رہی۔

مزید پڑھیں: مخصوص نشستیں کیس: سنی اتحاد کونسل کی 3 متفرق درخواستیں دائر

وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بچی ہوئی مخصوص نشستیں دوبارہ انہی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ کیا، حالانکہ کمیشن کے ایک رکن نے اختلافی نوٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک آئینی ترمیم نہ ہو، یہ نشستیں خالی رکھی جائیں۔

سنی اتحاد کونسل نے یہ فیصلہ پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا، جہاں سے معاملہ سپریم کورٹ پہنچا۔ وکیل کے مطابق 13 جنوری 2024 انتخابی نشان الاٹ کرنے کی آخری تاریخ تھی اور اسی روز سپریم کورٹ میں انٹرا پارٹی الیکشن کا مقدمہ زیر سماعت تھا، جو رات گئے تک جاری رہا۔

فیصل صدیقی کے مطابق تحریک انصاف نے پی ٹی آئی نظریاتی سے ایک نام نہاد سیٹلمنٹ کی، لیکن نظریاتی کے سربراہ نے ٹی وی پر آ کر اس کی تردید کر دی۔

مزید پڑھیں: تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، فیصل واوڈا کا دعویٰ

عدالت کو بتایا گیا کہ سنی اتحاد کونسل، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی نے مخصوص نشستوں کے لیے درخواستیں دائر کیں، جن میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کو یہ نشستیں نہ دی جائیں، بلکہ ہمیں دی جائیں، حالانکہ ان جماعتوں کو ان کی متناسب نمائندگی کی بنیاد پر نشستیں مل چکی تھیں۔

فیصل صدیقی کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر 78 سیٹوں کا تنازع ہے، اور اگر یہ نشستیں دیگر جماعتوں کو دے دی گئیں تو حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی، جو متنازعہ تصور ہوگی۔

جسٹس مسرت ہلالی نے دوران سماعت سوال کیا ’آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں یا پی ٹی آئی کے؟ کیا آپ کو پی ٹی آئی نے اتھارٹی دے رکھی ہے کہ ان کی طرف سے بولیں؟‘ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ وہ پی ٹی آئی کے وکیل نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کو آسانی سے مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، شیر افضل مروت

فیصل صدیقی نے آرٹیکل 63 اے سمیت دیگر فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ نظرثانی کی درخواستیں ناقابل سماعت ہیں کیونکہ نظرثانی صرف ایسی صورت میں ممکن ہے جب اصل فیصلے میں واضح غلطی یا قانونی سقم ہو۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 29 مئی تک ملتوی کر دی، جس میں فیصل صدیقی دلائل جاری رکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پشاور ہائیکورٹ جسٹس امین الدین خان جسٹس محمد علی مظہر سپریم کورٹ سنی اتحاد کونسل فیصل صدیقی مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پشاور ہائیکورٹ جسٹس امین الدین خان جسٹس محمد علی مظہر سپریم کورٹ سنی اتحاد کونسل فیصل صدیقی مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل فیصل صدیقی نے الیکشن کمیشن مخصوص نشستیں تحریک انصاف مزید پڑھیں سپریم کورٹ کہ نظرثانی نظرثانی کی دیتے ہوئے یہ نشستیں پی ٹی آئی کے مطابق تھا کہ نے کہا کہا کہ

پڑھیں:

مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی درخواستیں منظور ہوتی ہیں تو تین طرح کی صورتحال ہو گی،وکیل سنی اتحاد کونسل نے آئینی بنچ کے سامنے بیان کردیں

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں مخصوص نشستوں کے کیس میں وکیل سنی اتحاد کونسل فیصل صدیقی نے کہاکہ نظرثانی درخواستیں منظور ہوتی ہیں تو تین طرح کی صورتحال ہو گی،پہلی تو یہ کہ الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے بحال ہو جائیں گے، دوسرا یہ کہ عدالت اقلیتی فیصلوں میں سےکسی فیصلہ پر پہنچ جائے،ان میں جسٹس جمال مندوخیل اور حسٹس یحییٰ آفریدی کے فیصلے ہیں، تیسرا یہ کہ عدالت فیصلہ کالعدم کرکے اپیلوں کی ازسرنوسماعت کرے۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حامد رضا نے اپنی پارٹی سے الیکشن کیوں نہیں لڑا، اس کے پیچھے کیا فلسفہ تھا کہ سنی اتحاد کونسل کے لوگ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں،جسٹس باقر نجفی نے کہاکہ کبھی کہتے ہیں یہ سنی اتحاد کے امیدوار ہیں، کبھی کہتے ہیں میرے امیدوار نہیں ہیں،آپ دونوں سیاسی جماعتوں میں کیا انڈر سٹینڈنگ ہے۔ 

سعود بن نعمان کی جرمنی میں پاکستانی سفیر سے ملاقات، پریس کونسلر حنا ملک بھی موجود تھیں

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کیا وہ امیدوار جنہیں آپ اپنا کہتے ہیں ان میں سے کوئی سامنے آیا، وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہاکہ میں اپنی اس دلیل کو معطل کرتا ہوں لیکن اسے کالعدم نہیں کرتا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ آپ کہتے ہیں آپ کے امیدواروں نے پی ٹی آئی کو جوائن کرلیا، تو پھر آپ کا حق دعویٰ کیسے بنتا ہے ، آپ کی دلیل کنفیوژنگ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ اکثریتی فیصلےمیں 41ارکان کو آپشن دیا وہ کسی سیاسی جماعت کو جوائن کر سکتے ہیں،وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہاکہ جی ، ان ارکان نے پھر  پی ٹی آئی کو جوائن کرنے کے بیان حلفی جمع کرا دیئے،جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ کیا پی ٹی آئی نے آپ کو اپنا وکیل کیا ہے کہ ان کا کیس لڑیں،کیا سنی اتحاد کونسل کو پتہ ہے کہ آپ ان کے ارکان کے مفاد کے خلاف بات کریں گے۔

یہ تفتیش بدنیتی پر مبنی ،پہلے جو گواہ اور ثبوت انہوں نے پیش کئے وہ عدالتوں نے نہیں مانے،عمران خان کے وکیل کےضمانت کی درخواست پر دلائل

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں ملنا چاہئیں،وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہاکہ جی میں اکثریتی فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں میری ہار میں میری جیت ہے۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • مخصوص نشستوں سے متعلق کیس: مسلم لیگ (ن) نے اضافی گزارشات سپریم کورٹ میں جمع کرادیں
  • مخصوص نشستوں پر نظرثانی کا کیس؛مسلم لیگ ن نے اضافی گزارشات سپریم کورٹ میں جمع کرادیں
  • عدالت نے انتخابی نشان کافیصلہ کیا، پی ٹی آئی نے خود سمجھ لیا وہ سیاسی جماعت نہیں رہی، ججز سپریم کورٹ
  • مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی درخواستیں منظور ہوتی ہیں تو تین طرح کی صورتحال ہو گی،وکیل سنی اتحاد کونسل نے آئینی بنچ کے سامنے بیان کردیں
  • مخصوص نشستیں نظر ثانی کیس: عدالت نے وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے پی ٹی آئی کی نمائندگی پر سوال اٹھا دیا
  • ججزتبادلہ کیس کی سماعت کل منگل تک ملتوی ،اٹارنی جنرل دلائل دیں گے
  • مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی براہ راست سماعت جاری
  • سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی براہ راست سماعت جاری
  • ججز کے تبادلوں میں 4 مراحل پر عدلیہ کی منظوری لازمی ہے: سپریم کورٹ