Express News:
2025-07-05@12:24:20 GMT

قلنگی مرغ اور بازوئے شمشیر زن (حصہ اول)

اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT

پچھلے دنوں یہاں پشاور میں مدتوں بعد ایک خوبصورت تقریب دیکھنے سننے کو ملی۔پروگرام تیکنیکی اعتبار سے کیا تھا؟ کانفرنس سیمینار یا افتتاح یہ تو ہم کہہ نہیں پائیں گے کیونکہ ہم درمیان میں پہنچے تھے لیکن پروگرام بہرحال خوبصورت تھا۔اکادمی ادبیات کی سربراہ نجیبہ عارف بھی وہاں تھیں۔ بعض لوگ بڑھاپے میں اس سے کہیں زیادہ خوبصورت اور باوقار لگتے ہیں جتنے جوانی میں ہوتے ہیں۔بقول فراق گورکھپوری

ایک رنگینی ظاہر ہے گلستاں میں اگر

ایک شادابی پنہاں ہے بیابانوں میں

پروگرام کئی نشستوں پر مبنی کئی موضوعات پر مشتمل تھا میرے حصے میں ’’ادب اور فکشن یا اس خطے میں’’فکشن‘‘ آیا تھا۔اس میں تو جو بولنا تھا ہم بول گئے۔لیکن ہم سے پہلے جو نشست تھی وہ اس خطے میں’’ادب اور امن‘‘ پر تھی، شرکاء اس میں اچھا بولے لیکن اس موضوع پر وہ نہیں بولا گیا جو بولنا چاہیے تھا۔اور اسی موضوع پر ہمیں بولنا ہے اور بہت بولنا ہے۔یعنی یہ کہ اس خطے کو ہمیشہ ہمیشہ سے بدامنی کیوں لاحق ہے

تم سے مل کر مجھے رونا بہت رونا تھا

تنگی وقت ملاقات نے رونے نہ دیا

اس لیے اپنا’’رونا‘‘ اپنے کالم میں روتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ موضوعات کا انتخاب کرنے والوں نے اسی لیے اس موضوع کا انتخاب ہی اس لیے کیا تھا کہ’’امن‘‘ ہمیشہ سے صرف آج کل نہیں بلکہ صدیوں سے اس خطے کی ضرورت رہا ہے عام طور پر تو دور دور سے دیکھیے سننے والوں کو صرف اتنا پتہ ہے یا بتایا گیا ہے کہ پشتون ایک لڑاکو قوم ہے ہر وقت لڑائی جھگڑوں اور مرنے مارنے میں مصروف رہتی ہے بلکہ یہاں کوئی شریف اور امن پسند بندہ ہے ہی نہیں سارے پشتون لڑاکو مرغے ہیں، خونریز ہیں اور تشدد پسند ہیں اور اس کے علاوہ اور بھی بہت لکھا پڑھا اور کہا سنا جاتا ہے۔لیکن کسی نے کبھی اس پر غور نہیں کیا ہے کہ پشتون ایسے کیوں ہیں؟کیا ان میں کوئی پیدائشی یا خاندانی نقص ہے؟یا یہ کوئی بیماری ہے مرض ہے یا عارضہ ہے جو پشتونوں کو لاحق ہے آخر کیوں یہ لڑنے مرنے کے اتنے رسیا ہیں ؟ تو آج اس پر بات ہوہی جائے اگرچہ میں نے اپنی تاریخ کی کتابوں میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن کون پڑھتا ہے غم کے افسانے۔وہ تو جہالتوں، حماقتوں اور برائیوں میں اتنے مصروف ہیں کہ کچھ اور سوچتا ہی نہیں بلکہ اس پر برائیاں ڈال کر خوش ہولیتے ہیں اور بس۔لیکن یہ کبھی کسی نے سوچا تک نہیں کہ اس میں یہ ’’بُرائیاں‘‘ آئی کہاں سے؟کیونکہ انسان خود کبھی اچھا یا بُرا نہیں بنتا۔بلکہ اس کا ماحول اس کی ضرورتیں اس کی مجبوریاں اور محرومیاں ہی اسے’’بناتی‘‘ہیں۔

کہاوت ہے کہ کسی نے ’’تیر‘‘ سے پوچھا کہ تم اتنا تیز کیوں جا رہے ہو یا اُڑ رہے ہو۔ تو تیر نے کہا یہ جاکر تم’’کمان‘‘ کی ’’تانت‘‘ سے پوچھو۔میں تو بے جان تنکا ہوں، میرے پیچھے سارا زور کمان کا ہے، کمان کی تانت کا ہے۔پشتون ایسے کیوں ہیں؟یہ بات آپ کو اس کا جغرافیہ بتا دے گی اگر غور کریں تو۔ سب کو معلوم ہے کہ زمانہ قدیم سے ہندوستان ایک سونے کی چڑیا کے طور پر مشہور رہا ہے۔اور اس ’’سونے کی چڑیا‘‘کو شکار کرنے بھی طالع آزما آتے رہے ہیں ان کو ان پہاڑی سلسلوں سے گزرنا پڑا ہے جہاں یہ بدنصیب پشتون آباد ہیں۔خیبر تو سب کو معلوم ہے لیکن اور بھی بے شمار چھوٹے بڑے دروازے ہیں باجوڑ، کرم، گومل، وزیرستان ژوب اور چمن۔ اور سارے دروازوں میں یہی بدنصیب پڑے تھے۔

چنانچہ شکاری ابتدا انھی سے کردیتے تھے یا ان کا پہلا’’ٹاکرا‘‘ ان سے ہوجاتا تھا۔ بابر نے اپنی تزک میں لکھا ہے کہ’’اس دن ہم نے صبح سے شام تک ان نابکار افغانوں کو جہنم واصل کیا اور پھر شام کو شکرانے کی دو رکعت پڑھ کر ساری رات’’ناو نوش‘‘ میں مشغول رہے‘‘۔اسی طرح سب کرتے رہے، ایرانی، یونانی، مغل، ترک، عرب، ظاہر ہے کہ بے مہار افواج لوٹ مار،قتل و قتال اور آبروریزی کی ابتدا یہیں سے کردیتی تھیں۔تو یہاں کے بدنصیب باسی اور کیا کرتے؟لڑتے اور لڑتے لڑتے لڑاکو مرغ بن گئے یہ تو جاہل لکھت پڑھت اور عیاریوں سے نابلد سیدھے سادے لڑاکو مرغ ہوتے تھے اور جہاں دیدہ جہاں گشتہ لوگ بہت جلد ان کو ’’پہچان‘‘ لیتے تھے پھر ہاتھ پھیر کر اپنے ساتھ لے جاتے اور مختلف میدانوں میں لڑانے لگتے۔جیت جاتے تو فتح بادشاہ کی ہوتی اور مرجاتے تو دشمن تھا مر گیا۔

اصیل مرغوں کی لڑائی میں جب کوئی مرغ ہار جاتا ہے تو مالک چھری پھیر کر کھاجا بنا لیتا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ حکمرانوں اور اشرافیہ کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے اور میں اکثر ان کالموں میں تذکرہ بھی کرتا رہتا ہوں کہ اس اشرافیہ یا حکمرانیہ نے  ’’عوامیہ‘‘ کو ہمیشہ سے دماغ کے عدم استعمال اور جسم کی کثرت استعمال پر لگایا ہوا ہے اور خود کو دماغ کے کثرت استعمال اور جسم کے عدم استعمال کے لیے مختص کر رکھا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا اور نکل گیا کہ عوامیہ کے دماغ زنگ آلود ہوکر رفتہ رفتہ صفر ہوگئے اور حکمرانیہ دماغ انتہائی تیز چالاک اور عیار ہوگئے ہیں۔ پشتونوں کے ساتھ ہوا یوں کہ جب ان آنے والے ’’طالع آزما شکاریوں نے ان کو پہچان لیا کہ’’قلنگی مرغ‘‘ ہیں تو ان کی پیٹھ ٹھونک کر بہادر شجاع اور بازوئے شمشیرزن کے خطابات بھی عطا فرما دیے۔

(جاری ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پشتون ا ہے اور

پڑھیں:

انضمام سے ہجرت تک: تارکین وطن آخر کیوں جرمنی چھوڑتے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 جولائی 2025ء) ہجرت کر کے جرمنی آنے والے بہت سے غیر ملکی اپنے بہتر مستقبل اور سماجی استحکام کے خواب لیے یورپ کے قلب میں واقع اس ملک کا رُخ کرتے ہیں۔جرمن معاشرے میں ضم ہونے کی شرائط پوری کرنے کے باوجود ان میں سے اکثر خود کو معاشرے کے مرکزی دھارے میں نظر انداز ہوتا اور الگ تھلگ کر دیا گیا محسوس کرتے ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب بہت سے ایسے تارکین وطن کی کہانیوں میں ملتا ہے۔

''وہ سب کچھ جو مجھے جرمنی لے کر آیا وہ یہاں نہیں ہے۔ ایک وقت یہ آیا کہ میں نے سوچا بس اب کافی ہو گیا۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے، اگر کبھی ہوئے، اس ملک میں پروان چڑھیں۔‘‘ یہ الفاظ ہیں گیانس این کے، جنہوں نے اپنا آخری نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کی۔

(جاری ہے)

گیانس اٹھارہ سال کی عمر میں یونانی جزیرے ساموس کو چھوڑ کر جرمنی میں سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے آئے تھے۔ انہوں نے ترک وطن کا فیصلہ جرمنی میں ایک مضبوط سماجی انصاف کے نظام اور یہاں مستقبل کے بہتر مواقع کی شہرت سے مرعوب ہوکر کیا۔

2020ء میں، ماسٹر کی ڈگری ان کے ہاتھ آ چُکی تھی، لیکن پھر انہوں نے 16 سال بعد اپنے وطن واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔

انہوں نے مغربی جرمنی کے شہر ایسن میں پرائیویٹ سیکٹر میں پراجیکٹ مینیجر کے طور پر کام بھی کیا اور بعد ازاں ایک سول انجینئر کے طور پر پبلک سیکٹر میں پل کی تعمیر کا کام انجام دینے لگے۔ آخر کار انہیں فری لانسر کے طور پر اپنی قسمت آزمانا پڑی۔

39 سالہ گیانس این نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے وہاں (جرمنی ) میں زندگی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن میں مسلسل رکاوٹوں کا سامنا کرتا رہا۔

‘‘

گیانس نے ایک حیرت انگیز مثال دیتے ہوئے کہا، ''میں ایک تعمیراتی سائٹ پر کام کر رہا تھا۔ میرے کلائنٹ نے حتمی رسید ادا کرنے سے انکار کر دیا- یہ ایک لاکھ یورو کی خطیر رقم تھی۔ جب میں نے اُن سے اپنے کام کی یہ فیس طلب کی تو ان کا جواب تھا، میں تمہیں یہاں جرمنی میں امیر نہیں ہونے دوں گا۔‘‘

گیانس کے بقول یہ رویہ ان کے غیر ملکی پس منظر سے ناراضگی اور مخالفت کا اظہار تھا۔

انہیں شدت سے یہ احساس ہوا کہ انہیں کبھی بھی صحیح معنوں میں قبول یا تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ان کے اس احساس نے انہیں بالآخر جرمنی چھوڑنے پر مجبور کیا۔

گیانس نے یہ سمجھنے کے بعد کہ چاہے وہ جرمن معاشرے میں کتنا ہی مربوط اور ضم کیوں نہ ہوجائیں، انہیں ہمیشہ ایک''یونانی‘‘ کے طور پر دیکھا جائے گا۔

گیانس نے مزید کہا،''پہلے آپ یونیورسٹی میں سست یونانی کہلاتے ہیں، پھر کام پر کرپٹ یونانی۔

میں یونانی ہونے پر فخر کرتا ہوں، لیکن اس سوچ نے آخرکار میرے لیے زہر بننا شروع کر دیا۔‘‘ جرمن زبان میں مہارت کے بغیر 'بھوت‘کی حیثیت

تینتیس سالہ ترک نژاد اُتکو سین پیشے کے لحاط سے سائبر سکیورٹی انجینئر ہیں۔ انہوں نے بھی تین سال کے بعد جرمنی چھوڑ دیا - وہ بھی گیانس جیسے احساسات رکھتے ہیں۔ برلن میں اپنے پہلے سال کو ''ایک سہاگ رات‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے سین نے ڈوئچے ویلے ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں اس امر کا بھرپور ادراک تھا کہ جرمن زبان میں مہارت کے بغیر کسی بھی نئے غیر ملکی کے لیے جرمنی میں زندگی بسر کرنا کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں،''ایک ترک باشندے کے طور پر میں نے خود کو ہمیشہ ایک دوسرے درجے کے شہری کی طرح محسوس کیا۔ میں نے سوچا کہ جرمن کمیونٹی کا حصہ بننے میں کئی دہائیاں لگیں گی بلکہ شاید ایسا کبھی نہیں ہو پائے گا۔‘‘

سین جرمنی میں روزمرہ کے امتیازی سلوک کے بارے میں ترک زبان میں یو ٹیوب پر ایک ویڈیو پر پوسٹ کرنے کے فوراً بعد لندن چلے گئے۔

اس ویڈیو نے تقریباً نصف ملین ویوز حاصل کیے۔ جرمن زبان کی روانی بھی ہمیشہ مدد نہیں کرتی

بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی کالینا ویلیکووا کے مطابق جرمن زبان روانی سے بولنا جرمنی میں انضمام کی راہ میں رکاوٹوں کو ختم نہیں کرتا۔ 35 سالہ ویلیکووا نے بون میں نو سال تعلیم حاصل کرنے اور سماجی خدمات سر انجام دینے میں گزارے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی یونیورسٹی کے ابتدائی سالوں کے دوران ہی محسوس ہو گیا تھا کہ مہارت سے جرمن بولنے کے باوجود لوگ انہیں قریب نہیں آنے دیتے۔

وہ کہتی ہیں،'' میں ایک دن کسی سے بات کروں تو اگلے دن ایسا لگتا تھا کہ وہ مجھے پہچانتا ہی نہیں۔‘‘ وقت کے ساتھ ساتھ سماجی دوری کا احساس کالینا ویلیکووا کے لیے بڑھتا گیا۔

2021ء میں، ویلیکووا بون سے صوفیہ کے لیے روانہ ہوئیں، جہاں اب وہ بطور پراجیکٹ مینیجر کام کرتی ہیں۔

جرمنی کو کیا کرنا چاہیے؟

ان تمام کہانیوں کے پیچھے ایک مشترکہ احساس پایا جاتا ہے۔

یہ سچے کردار اس امر کا تقاضہ کر رہے ہیں کہ جرمنی کو سیاسی اور سماجی ہم آہنگی اور کھلے پن کو فروغ دینا ہوگا۔ تارکین وطن کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جرمن معاشرے میں وسیع پیمانے پر تعلیم او تربیت اشد ضروری ہے۔

اس ضمن میں نسل پرستی اور اجانب دشمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے حکومتی اداروں کو فعال کرنے کی ضرورت ہے نیز کم آمدنی والے افراد کے لیے انکم ٹیکس کی شرح میں کمی بھی متعارف کروائی جانا چاہیے۔ مذکورہ افراد کی کہانیاں جرمنی میں سماجی تبدیلی کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

ادارت : شکور رحیم

متعلقہ مضامین

  • شہبازشریف بیوروکریٹک حکومت چلاتے ہیں لیکن کل ناکام ہوئے تو ناکام سیاستدان ہوں گے: سہیل وڑائچ
  • پاکستان اور معاہدہ ابراہیمی
  • شہد طویل عرصے تک خراب کیوں نہیں ہوتا؟
  • تنہائی کا کرب
  • شوہر نے دوسری شادی کی لیکن پھر لوٹ آئے؛ سینیئر اداکارہ نے ’صبر آزما‘ داستان سنادی
  • عمران خان سے لاکھ سیاسی اختلافات لیکن اس کی پارٹی سے بہت زیادتی کی گئی
  • عمران خان کو 9 مئی کے مقدمات میں ضمانت کیوں نہیں دی جاسکتی؟ تحریری فیصلہ جاری
  • ’کیک پر لکھ دینا چھیپا صاحب کی طرف سے تحفہ ہے لیکن یہ مت بتانا میں نے دیا ہے‘
  • کسان کا بچہ کسان کیوں نہیں بننا چاہتا؟ ایک سماجی المیہ
  • انضمام سے ہجرت تک: تارکین وطن آخر کیوں جرمنی چھوڑتے ہیں؟