وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے 8 ججوں نے 12 جولائی کے فیصلے میں آئین کو دوبارہ تحریر کیا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عقیل ملک نے کہا کہ آئین کوئی موم کی ناک نہیں جسے ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق موڑ دیا جائے۔

ہم سے نشستیں لے کر مینڈیٹ چوروں کو دے دی گئیں: بیرسٹر گوہر

یرسٹر گوہر علی نے کہا کہ سپریم کورٹ فل بینچ بیٹھ کر ریویو کرتا تو ہمیں اعتراض نہ ہوتا، فرق صرف اتنا تھا کہ ان ارکان کے حوالے سے ہم مخصوص نشستیں مانگ رہے تھے

اس سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے نئے فیصلے کے بعد ہمارے ارکان سنی اتحاد کونسل کے تصور ہوں گے۔

اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران بیرسٹرگوہر کا کہنا تھا کہ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ 13 رکنی بینچ کا فیصلہ سات ججوں نے ختم کیا ہو۔

.

ذریعہ: Jang News

پڑھیں:

’عدلیہ میں بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں‘ جسٹس اطہر من اللہ کا چیف جسٹس کو لکھا خط منظر عام پر

مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے پس منظر میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام لکھا گیا اہم خط منظر عام پر آگیا ہے۔

اپنے خط میں انہوں نے عدلیہ کی تاریخ، کردار اور آزادی کے حوالے سے کھلے الفاظ میں خود احتسابی پر مبنی مؤقف اختیار کیا ہے۔

یہ خط 8 اکتوبر 2025 کو چیف جسٹس کو لکھا گیا تھا، جو 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف بڑھتی ہوئی بحث کے دوران سامنے آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ججوں کے خطوط عدلیہ کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں؛ صدر سپریم کورٹ بار

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے خط میں سپریم کورٹ کے کردار پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سپریم کورٹ اکثر طاقتور کے ساتھ کھڑی رہی، عوام کے ساتھ نہیں۔‘

انہوں نے اعتراف کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی پھانسی عدلیہ کا ناقابلِ معافی جرم تھی، جب کہ بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف کارروائیاں بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

جسٹس من اللہ نے لکھا کہ عمران خان کے ساتھ ہونے والا سلوک بھی اسی جبر کے تسلسل کا حصہ ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے 4 ججز کا چیف جسٹس کو خط، 10 فروری کے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس مؤخر کرنے کا مطالبہ

خط میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو عوامی اعتماد حاصل کرنے پر نشانہ بنایا گیا اوربہادر ججز کے اعترافات سپریم کورٹ کے ضمیر پر بوجھ ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے عدلیہ کے اندرونی خوف اور خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم سچ جانتے ہیں مگر صرف چائے خانوں میں سرگوشیوں تک محدود ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ عدلیہ میں بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں، ایک کھلی حقیقت ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس جمال مندوخیل کے نام بھی خط لکھ دیا

انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ جو جج سچ بولتا ہے، وہ انتقام کا نشانہ بنتا ہے، جب کہ جو نہیں جھکتا، اس کے خلاف ’احتساب کا ہتھیار‘ استعمال کیا جاتا ہے۔

سیاسی اور قانونی حلقوں نے جسٹس اطہر من اللہ کے اس خط کو عدلیہ کے اندر جاری بے چینی اور 27ویں آئینی ترمیم پر بڑھتے خدشات کی علامت قرار دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ خط ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آیا ہے جب عدلیہ کے اندر سے آزادیِ عدلیہ کے تحفظ کے مطالبات تیزی سے ابھر رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

27ویں آئینی ترمیم جسٹس اطہر من اللّٰہ جسٹس یحییٰ آفریدی خود احتسابی ذوالفقار علی بھٹو سپریم کورٹ

متعلقہ مضامین

  • ‏ خط لکھنے والے جج کی قانون اور آئین کی پاسداری کی تاریخ ذاتی طور پر جانتا ہوں، وزیردفاع
  • خط لکھنے والے جج کی قانون اور آئین کی پاسداری تاریخ میں ذاتی طور پہ جانتا ہوں،خواجہ محمد آصف
  • آج سوگ کا دن، 27ویں ترمیم کے بعد جمہوریت برائے نام رہ جائے گی، بیرسٹر گوہر
  • بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں، ایک کھلی حقیقت ہے: جسٹس اطہر من اللّٰہ کا چیف جسٹس کو خط
  • سپریم کورٹ نے ایف سی اہلکار حسن آفریدی کو بحال کردیا
  • ’عدلیہ میں بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں‘ جسٹس اطہر من اللہ کا چیف جسٹس کو لکھا خط منظر عام پر
  • 27ویں ترمیم سے سپریم کورٹ  کو شید ید خطرہ ، کنو نشن بلایا جائے 
  • 27ویں آئینی ترمیم پر ریٹائرڈ ججز کیا کہتے ہیں؟
  • 27 ویں ترمیم: ججز کے تبادلے کی ترمیم میں تبدیلی پر غور، چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر معاملات طے نہ پاسکے
  • 27ویں ترمیم:ملک میں بڑی آئینی تبدیلیوں کے لیے رواں ہفتہ اہم