تہذیبوں کے تصادم کی آزمائش کا اندازہ کیسے لگائیں ؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
سر تا پا ندامت کے احساس میں ڈوبا انسان کیا ہی لکھ سکتا ہے ،دو دن قبل برادر محترم سمیع اللہ ملک نے لنک بھیج دیا تھا، اور دعوت نامہ بھی سوالوں کے سیشن میں شرکت کرنی ہے ۔میں آٹھ بجے سے ہی پروگرام سننے اور اس میں شرکت کاسامان(لیپ ٹاپ ،مائک) لئے بیٹھ گیا مگر پروگرام کے آغاز سے پہلے ہی کرسی پر بیٹھے بیٹھے سو گیا ،رات کی دوپہر آنکھ کھلی تو خجل ہوکر رہ گیا ،پھر تمام رات آنکھوں میں کٹی ،ایک ندامت ، ایک اضطراب میں۔
موضوع بہت اہم تھا ’’تہذیبی تصادم ، پاکستان کی آزمائش ‘‘ اور اب مجھے تنہا اس آزمائش کا سامنا ہے ۔تہذیبوں کے تصادم کی بحث پہلی بار امریکی ماہر تاریخ وسیاست سیموئل بنٹگن نے 1993 ء میں چھیڑی تھی ۔جن کے نظریہ کے مطابق ’’مستقبل کے عالمی تنازعات ریاستوں کے درمیان نہیں، بلکہ تہذیبوں کے درمیان ہونگے‘‘۔ اس نظریئے کے اثبات کے لئے دنیا کو مختلف تہذیبی بلاکس میں تقسیم کیا گیا،مثلاً مغربی ،اسلامی ، ہندی، چینی اور افریقی تہذیبوں کا مطالعہ پیش کیا گیا ۔بنٹگٹن کے مطابق ’’ اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے درمیان سب سے زیادہ خطرے کا تصادم ہے ‘‘
ہمارا نقطہ نظر یہ کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے جو 1947 ء میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئی،یہی مذہبی وتہذیبی نظریہ تھا جس نے جغرافیائی، سیاسی لور سماجی طور پر اسے تہذیبی کشمکش کا میدان بنادیا۔پاکستان کے حالات کے حوالے سے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘کی راہ ہموار ہوئی۔نظریاتی سطح پر پاکستان کا آئین اسلامی اصولوں کی اساس پر بنایا گیا۔جبکہ مغربی عالم سیکولرازم، لبرل ازم اور شخصی آزادی کا متقاضی تھا۔یوں میڈیا، نظام تعلیم اور سوشل میڈیا کے ذریعے مغربی فکر،زندگی کے طور طریقے اور مغربی اقدار نے پاکستانی معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیا جس کے نتیجے میں تہذیبی کشمکش فزوں تر ہوئی۔یہاں تک کہ مغربی ثقافتی یلغا ر ،مغربی پہناوے ،مغربی فلمز اور لٹریچر نسل نو کے لئے ایک چیلنج کی شکل اختیار کر گیا۔
پاکستان کا جدید تعلیم یافتہ شہری طبقہ مغربی تعلیم ہی نہیں مغربی تہذیب کا بھی اسیرہوکر رہ گیا۔جبکہ دیہی یا مذہبی طبقہ اسلامی اقدار و روایات کے تہذیبی نمائندے کی حیثیت سے اپنا الگ تہذیبی ،معاشی اور معاشرتی علم لے کر مقابلے کے لئے صف آراء ہوگیا ۔ایک ہی ملک اور ایک ہی ریاست کے دو طبقات کے درمیان افکار و نظریات اور اقدار و روایات کی اندرونی تہذیبی کشمش شروع ہوگئی۔ایک طرف مذہبی انتہا پرست مغرب اور مغربی اقدار کے زیر اثر لوگو ں کو اسلام دشمن اور پاکستان دشمن قرار دینے لگے تو دوسری جانب روشن خیال وترقی پسند طبقہ مغرب سے ہم آہنگی پر سختی سے مصر۔یہ وہ تضاد ہے جو پاکستانی معاشرے میں نظریاتی و تہذیبی ٹکرائو کا باعث بنا۔
پاکستان خارجہ پالیسی اس کی زد سے باہر نہ رہی ۔مغرب خصوصاً امریکہ کے ساتھ تعلقات سب سے بڑا تہذیبی کانٹا بن کر ابھرے ۔ایران ، افغانستان اور سعودی عرب اسلامی تہذیبی اثرات نمایاں ہوئے ۔پون صدی کے اس سفر کے طے ہوجانے کے باوجود بھی پاکستان ابھی تک اس کشمکش میں مبتلا ہے کہ یہ ایک جغرافیائی ریاست ہے یا ایک خالص نظریاتی،اسلامی اقدارو روایات کا گہوارہ۔مغربی تعلیم یافتہ اشرافیہ اور اسلامی سوچ رکھنے والوں کے بیچ یہ تضاد پایا جاتا ہے کہ ہماری قومی شناخت کیا ہے اور تعلیمی و ثقافتی حلقوں میں پائی جانے والی اسی الجھن نے ہمارے پالیسی سازوں کو کسی فیصلے تک پہنچنے نہیں دیا۔یوں ہماری ریاست تہذیبوں کے تصادم کے نظریئے کا عملی نمونہ دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے علمائے امت اور دانشوران گرامی اس بارے کیا فرماتے ہیں یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے ۔
مثلاً علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں ’’مشرق و مغرب کی کشمکش تہذیبی نہیں بلکہ روحانیت،اور مادیت کے بیچ جاری دائمی معرکہ ہے‘‘۔فیض احمد فیض نے کہا ’’ نہ مدح ہے نہ شکایت ،بس ایک عرض تمنا ہے ہمیں بھی حرف تمنا کی اک اجازت دے‘‘ یعنی ہم تصادم چاہتے ہیں نہ غلبہ ،بلکہ عزت اور تہذیبی خوداری کے ساتھ جینے کا حق چاہتے ہیں دوسری جانب تاریخ دان ڈاکٹر مبارک احمد کہتے ہیں ’’تاریخ کومذہب یا تہذیب کے خانوں میں بند کرنا سامراجی حکمت ہے تاکہ عوام کو تقسیم کیا جاسکے ‘‘ اور یہ کہ اصل تصادم تہذیبوں کے درمیان نہیں ہوتا ،اصل تصادم مفادات ،معیشت اور اقتدار کا ہوتا ہے جسے تہذیبی رنگ دے کر پیش کیا جاتا ہے ۔
ماہر عمرانیات ڈاکٹر احمد حسن دانی نے کہا تھا ’’برصغیر کی تہذیبوں نے ہمیشہ ایک دوسرے سے اثر قبول کیا ہے ،یہاں تصادم سے زیادہ تہذیبی امتزاج کی روایت مضبوط رہی ہے‘‘۔جاوید احمد غامدی صاحب کا کہنا ہے ’’ اسلام کا پیغام آفاقی ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تہذیبوں سے ٹکرا جائے۔‘‘ سابق صدر عارف علوی نے ایک بار کہا کہ ’’ ہمیں مغرب سے تصادم نہیں، بلکہ برابری اور اصولی مذاکرات کی بنیاد پر رشتہ استوار کرنا ہے۔ ‘‘ ان سب افکارو نظریات کی روشنی میں ہم پاکستان میں ’’تہذیبوں کے تصادم کی آزمائش ‘‘ کا صحیح اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں ؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: تہذیبوں کے تصادم کے درمیان
پڑھیں:
اوتھل میں مسافر کوچ اور ٹرک کے درمیان خوفناک تصادم، 6 افراد جاں بحق
کوئٹہ:بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں اوتھل سے تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوفناک حادثہ پیش آیا جہاں مسافر کوچ اور پتھر سے لدے ٹرک کے درمیان خوفناک تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں کم از کم 6 افراد جاں بحق اور 19 زخمی ہوگئے۔
زخمیوں اور لاشوں کو فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال ڈی ایچ کیو اوتھل منتقل کر دیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے 4 زخمیوں کی حالت کو تشویش ناک قرار دیا ہے، زخمیوں میں تین خواتین اور بچے بھی شامل ہیں اور ان کی فوری طبی امداد کا سلسلہ جاری ہے۔
حادثہ قومی شاہراہ پر اوتھل سے کچھ دور ایک کروڈنگ پوائنٹ کے قریب پیش آیا جہاں کوئٹہ سے کراچی جانی والی مسافر کوچ تیز رفتاری اور ممکنہ طور پر سڑک کی خرابی کی وجہ سے پتھر لے جانے والے ایک بھاری ٹرک سے ٹکرا گئی۔
کوچ میں تقریباً 40 سے زائد مسافر سوار تھے، جن میں خواتین، بچے اور عام مسافر شامل تھے۔ ٹرک کی بھاری لوڈنگ اور کوچ کی تیز رفتار نے تصادم کی شدت کو مزید بڑھا دیا، جس سے کوچ کا فرنٹ حصہ شدید متاثر ہوا اور کئی مسافر گھائل اور زخمی ہوگئے۔
ریسکیو ذرائع نے بتایا کہ حادثے کی اطلاع ملتے ہی مقامی پولیس، لیویز فورس اور ایمرجنسی ریسکیو سروسز 1122 کی ٹیمیں فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں۔ ریسکیو آپریشن کو کامیابی سے مکمل کر لیا گیا، تمام لاشوں اور زخمیوں کو ایمبولینسز کی مدد سے ڈی ایچ کیو اوتھل پہنچایا گیا۔
اسپتال ذرائع کے مطابق زخمیوں میں سے چار کی حالت نازک ہے جنہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہے اور انہیں ممکنہ طور پر کراچی کے بڑے اسپتالوں میں منتقل کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، زخمیوں میں تین خواتین اور دو بچوں کی حالت خاص طور پر تشویش ناک بتائی جا رہی ہے جبکہ باقی زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کر دی گئی ہے۔
حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کی ابتدائی شناخت ہو چکی ہے جن میں دو مرد، ایک خاتون اور دو بچے شامل ہیں۔ ان کی لاشیں اسپتال میں رکھی گئی ہیں اور پوسٹ مارٹم کے بعد رشتہ داروں کے حوالے کر دی جائیں گی۔ مقامی انتظامیہ نے حادثے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
ایس ایس پی لسبیلہ نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ابتدائی رپورٹس میں ٹرک کی اوور لوڈنگ، ڈرائیور کی لاپروائی اور سڑک کی خرابی کو بنیادی وجوہات قرار دیا گیا ہے، حادثہ تیز رفتاری اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہوا اور اس حوالے سے مزید تحقیقات جاری ہیں۔
دوسری جانب، بلوچستان میں ایسے حادثات کا سلسلہ مسلسل جاری رہنے کی وجہ سے ماہرین سڑکوں کی مرمت، ٹریفک قوانین کے سخت نفاذ اور ڈرائیوروں کی تربیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مقامی لوگوں نے حادثے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے اور انتظامیہ سے فوری انصاف، متاثرین کے خاندانوں کے لیے معاوضے، اور زخمیوں کے علاج کے اخراجات برداشت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
واقعے نے علاقے میں غم کی لہر دوڑا دی اور متاثر خاندانوں نے اجتماعی طور پر ہنگامہ آرائی کی جسے پولیس نے پرسکون کرنے کی کوشش کی۔ بلوچستان حکومت نے حادثے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور متعلقہ افسران کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔