Daily Ausaf:
2025-06-30@13:38:12 GMT

تہذیبوں کے تصادم کی آزمائش کا اندازہ کیسے لگائیں ؟

اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT

سر تا پا ندامت کے احساس میں ڈوبا انسان کیا ہی لکھ سکتا ہے ،دو دن قبل برادر محترم سمیع اللہ ملک نے لنک بھیج دیا تھا، اور دعوت نامہ بھی سوالوں کے سیشن میں شرکت کرنی ہے ۔میں آٹھ بجے سے ہی پروگرام سننے اور اس میں شرکت کاسامان(لیپ ٹاپ ،مائک) لئے بیٹھ گیا مگر پروگرام کے آغاز سے پہلے ہی کرسی پر بیٹھے بیٹھے سو گیا ،رات کی دوپہر آنکھ کھلی تو خجل ہوکر رہ گیا ،پھر تمام رات آنکھوں میں کٹی ،ایک ندامت ، ایک اضطراب میں۔
موضوع بہت اہم تھا ’’تہذیبی تصادم ، پاکستان کی آزمائش ‘‘ اور اب مجھے تنہا اس آزمائش کا سامنا ہے ۔تہذیبوں کے تصادم کی بحث پہلی بار امریکی ماہر تاریخ وسیاست سیموئل بنٹگن نے 1993 ء میں چھیڑی تھی ۔جن کے نظریہ کے مطابق ’’مستقبل کے عالمی تنازعات ریاستوں کے درمیان نہیں، بلکہ تہذیبوں کے درمیان ہونگے‘‘۔ اس نظریئے کے اثبات کے لئے دنیا کو مختلف تہذیبی بلاکس میں تقسیم کیا گیا،مثلاً مغربی ،اسلامی ، ہندی، چینی اور افریقی تہذیبوں کا مطالعہ پیش کیا گیا ۔بنٹگٹن کے مطابق ’’ اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے درمیان سب سے زیادہ خطرے کا تصادم ہے ‘‘
ہمارا نقطہ نظر یہ کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے جو 1947 ء میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئی،یہی مذہبی وتہذیبی نظریہ تھا جس نے جغرافیائی، سیاسی لور سماجی طور پر اسے تہذیبی کشمکش کا میدان بنادیا۔پاکستان کے حالات کے حوالے سے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘کی راہ ہموار ہوئی۔نظریاتی سطح پر پاکستان کا آئین اسلامی اصولوں کی اساس پر بنایا گیا۔جبکہ مغربی عالم سیکولرازم، لبرل ازم اور شخصی آزادی کا متقاضی تھا۔یوں میڈیا، نظام تعلیم اور سوشل میڈیا کے ذریعے مغربی فکر،زندگی کے طور طریقے اور مغربی اقدار نے پاکستانی معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیا جس کے نتیجے میں تہذیبی کشمکش فزوں تر ہوئی۔یہاں تک کہ مغربی ثقافتی یلغا ر ،مغربی پہناوے ،مغربی فلمز اور لٹریچر نسل نو کے لئے ایک چیلنج کی شکل اختیار کر گیا۔
پاکستان کا جدید تعلیم یافتہ شہری طبقہ مغربی تعلیم ہی نہیں مغربی تہذیب کا بھی اسیرہوکر رہ گیا۔جبکہ دیہی یا مذہبی طبقہ اسلامی اقدار و روایات کے تہذیبی نمائندے کی حیثیت سے اپنا الگ تہذیبی ،معاشی اور معاشرتی علم لے کر مقابلے کے لئے صف آراء ہوگیا ۔ایک ہی ملک اور ایک ہی ریاست کے دو طبقات کے درمیان افکار و نظریات اور اقدار و روایات کی اندرونی تہذیبی کشمش شروع ہوگئی۔ایک طرف مذہبی انتہا پرست مغرب اور مغربی اقدار کے زیر اثر لوگو ں کو اسلام دشمن اور پاکستان دشمن قرار دینے لگے تو دوسری جانب روشن خیال وترقی پسند طبقہ مغرب سے ہم آہنگی پر سختی سے مصر۔یہ وہ تضاد ہے جو پاکستانی معاشرے میں نظریاتی و تہذیبی ٹکرائو کا باعث بنا۔
پاکستان خارجہ پالیسی اس کی زد سے باہر نہ رہی ۔مغرب خصوصاً امریکہ کے ساتھ تعلقات سب سے بڑا تہذیبی کانٹا بن کر ابھرے ۔ایران ، افغانستان اور سعودی عرب اسلامی تہذیبی اثرات نمایاں ہوئے ۔پون صدی کے اس سفر کے طے ہوجانے کے باوجود بھی پاکستان ابھی تک اس کشمکش میں مبتلا ہے کہ یہ ایک جغرافیائی ریاست ہے یا ایک خالص نظریاتی،اسلامی اقدارو روایات کا گہوارہ۔مغربی تعلیم یافتہ اشرافیہ اور اسلامی سوچ رکھنے والوں کے بیچ یہ تضاد پایا جاتا ہے کہ ہماری قومی شناخت کیا ہے اور تعلیمی و ثقافتی حلقوں میں پائی جانے والی اسی الجھن نے ہمارے پالیسی سازوں کو کسی فیصلے تک پہنچنے نہیں دیا۔یوں ہماری ریاست تہذیبوں کے تصادم کے نظریئے کا عملی نمونہ دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے علمائے امت اور دانشوران گرامی اس بارے کیا فرماتے ہیں یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے ۔
مثلاً علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں ’’مشرق و مغرب کی کشمکش تہذیبی نہیں بلکہ روحانیت،اور مادیت کے بیچ جاری دائمی معرکہ ہے‘‘۔فیض احمد فیض نے کہا ’’ نہ مدح ہے نہ شکایت ،بس ایک عرض تمنا ہے ہمیں بھی حرف تمنا کی اک اجازت دے‘‘ یعنی ہم تصادم چاہتے ہیں نہ غلبہ ،بلکہ عزت اور تہذیبی خوداری کے ساتھ جینے کا حق چاہتے ہیں دوسری جانب تاریخ دان ڈاکٹر مبارک احمد کہتے ہیں ’’تاریخ کومذہب یا تہذیب کے خانوں میں بند کرنا سامراجی حکمت ہے تاکہ عوام کو تقسیم کیا جاسکے ‘‘ اور یہ کہ اصل تصادم تہذیبوں کے درمیان نہیں ہوتا ،اصل تصادم مفادات ،معیشت اور اقتدار کا ہوتا ہے جسے تہذیبی رنگ دے کر پیش کیا جاتا ہے ۔
ماہر عمرانیات ڈاکٹر احمد حسن دانی نے کہا تھا ’’برصغیر کی تہذیبوں نے ہمیشہ ایک دوسرے سے اثر قبول کیا ہے ،یہاں تصادم سے زیادہ تہذیبی امتزاج کی روایت مضبوط رہی ہے‘‘۔جاوید احمد غامدی صاحب کا کہنا ہے ’’ اسلام کا پیغام آفاقی ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تہذیبوں سے ٹکرا جائے۔‘‘ سابق صدر عارف علوی نے ایک بار کہا کہ ’’ ہمیں مغرب سے تصادم نہیں، بلکہ برابری اور اصولی مذاکرات کی بنیاد پر رشتہ استوار کرنا ہے۔ ‘‘ ان سب افکارو نظریات کی روشنی میں ہم پاکستان میں ’’تہذیبوں کے تصادم کی آزمائش ‘‘ کا صحیح اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں ؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: تہذیبوں کے تصادم کے درمیان

پڑھیں:

اسلام آباد کے ایوانوں میں اسلام کے نفاذ کی آواز بلند کی جائے‘ امیر العظیم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور( نمائندہ جسارت ) جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی پاکستان امیر العظیم نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کی پارلیمان میں موجودگی اسلام کے دروازے کھولنے کے مترادف ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام آباد کے ایوانوں میں اسلام کے نفاذ کی آواز بلند کی جائے اور حقیقی تبدیلی کی بنیاد رکھی جائے۔وہ جماعت اسلامی جوہر ٹاؤن لاہور کے زیرِ اہتمام ایک اہم تقریب سے خطاب کر رہے تھے جس میں جماعت اسلامی کے مقامی و مرکزی قائدین، الخدمت فاؤنڈیشن کے ذمہ داران اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ بیدار ہو چکی ہے اور دنیا بھر میں اسلامی انقلاب کی لہر اُبھر رہی ہے۔ عوام جس طرح الخدمت فاؤنڈیشن پر اعتماد کرتے ہیں، اسی طرح جماعت اسلامی پر بھی اعتماد کی ضرورت ہے تاکہ اس ملک کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بنایا جا سکے۔ امیر العظیم نے مزید کہا کہ جماعت اسلامی روزِ اوّل سے ملک و ملت کی بہتری کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اور عوامی مسائل کا اسلامی حل ہی پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔تقریب سے امیر جماعت اسلامی ضلع لاہور جنوبی مرزا عبد الرشید، زونل امیر سلمان ایوب ملک، الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے جنرل سیکرٹری سید وقاص انجم جعفری، جماعت اسلامی کے راہنما چوہدری ریاض فاروق ساہی اور الخدمت فاؤنڈیشن جوہر ٹاؤن کے صدر ظفر اقبال بسرا نے بھی خطاب کیا۔اس موقع پر سید وقاص انجم جعفری نے کہا کہ الخدمت فاؤنڈیشن نے گزشتہ برس 30 ارب روپے سے زائد کی خطیر رقم عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کی، اور آج غزہ میں بھی پاکستانی عوام کے تعاون سے امدادی کام جاری ہیں۔ یہ ہماری قوم کا فخر ہے۔تقریب میں مرد و خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی، اور مقررین نے ملک میں اسلامی نظام، خدمتِ خلق اور باہمی اتحاد و اخوت کو فروغ دینے پر زور دیا۔

متعلقہ مضامین

  • چین میں خاموش تصادم
  • برطانوی شہری کے دبئی میں کھونے والے ائیر پوڈز جہلم پولیس نے کیسے ڈھونڈے؟ دلچسپ کہانی جانیے
  • اسلام آباد کے ایوانوں میں اسلام کے نفاذ کی آواز بلند کی جائے‘ امیر العظیم
  • صدر نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان ،شمس الرحمن سواتی کے اعزاز میں استقبالیہ
  • مغرب میں دہریوں یا لامذہبوں کے بڑھنے کی ذمے دار مائیں
  • تصادم اور تغیر کا زمانہ
  • غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی مظالم
  • ڈی سیٹ کریں یا جرمانے لگائیں، ہم احتجاج کرینگے: ملک احمد بھچر
  • ’’دریائے سوات میں ڈوبنے والوں کو اندازہ نہ تھا جن کی ذمہ داری ہے ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں‘‘