’’عجیب وغریب‘‘ کی تشبیہہ اگر کلی طورپر کسی علاقے پر صادق آسکتی ہے تو وہ یہ ہمارا صوبہ خیر پخیر عرف کے پی کے ہے ،اس کے بارے میں کہاجاسکتا ہے بلکہ یہ خود بھی کہہ سکتا ہے کہ
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
اسے چیونٹی کاگھر بھی کہہ سکتے ہیں جو ماتم سے خالی نہیں ہوتا اوراندھے کی بیوی بھی جس کاحافظ اللہ ہی ہوتا ہے ۔عجیب وغریب اس لیے ہے کہ اس میں غریب ہمیشہ ’’سواری ‘‘ ہوتے ہیں اورعجیب ان پر سوارہوتے ہیں اورجو سوار ہوتے ہیں وہ ظاہرہے کہ ہوا میں ہوتے ہیں اور ہوا ہی سے باتیں کرتے ہیں اوروہ باتیں اتنی بالا اوربلند ہوتی ہیں جو صرف ’’سواروں‘‘ کی سمجھ میں آتی ہیں ۔
اب مثال کے طور پر موجودہ صورت حال کو لے لیجیے جیسے اگر ’’سواروں‘‘ کی اطلاعات سنیں تو ہم اس وقت جنت الفردوس میں ہیں، ہرطرف باغ وبہار ہے ،گل وگل زار ہے، چہروں پر نکھار ہے اورگھر گھر میں جھنکار ہے ، دودھ اورشہد کی نہریں بہہ رہی ہیں ، باغوں میں جھولے جھول رہے ہیں ، خیموں میں حوروغلمان جام بدست کھڑے ہیں اورجنتی ریشم وکمخواب کے گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے شیوخ سو رہے ہیں ۔
اردو میں ایک محاورہ ہے ’’عقل کے اندھے گانٹھ کے پورے‘‘ اورایسا ہونا بھی چاہیے جو گانٹھ کے پورے ہوتے ہیں ان کو عقل کی کیا ضرورت کہ گانٹھ ہی ان کے لیے کافی شافی ہوتی ہے اورآج کے گانٹھ پورے تو کچھ زیادہ ہی گانٹھ کے پورے ہیں، اس لیے ہرگانٹھا پوری گانٹھا پور ہے ، اس لیے ایسے ’’بول‘‘ ان کے منہ سے نکل رہے ہیں کہ سن کر عقل میں گانٹھیں پڑجاتی ہیں، ان میں جو سب سے بڑا گانٹھا پور ہے، اس نے ’’سبزباغوں ‘‘ کو عوام کی دہلیز پر لانے کے بعد ’’کالے باغ‘‘ کاگانا یعنی صوبے کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کی ابتدابھی کی ہے ، کیوں کہ کالے باغ کا نقصان تو شمالیوں کو ہے جنوبیوں کو نہیں۔ اوروہ جنوبی ہے یعنی شمال میں کوئی مرے یا جئے، مجھے اس سے کیا۔میں تو اس سے دور بیٹھا جنوبی ہوں۔
ہمیں نہ تو کالے باغوں سے کچھ لینا دینا ہے اورنہ سبزیا نیلے پیلے باغوں سے ۔کہ ہم تو کالانعام ہیں، دہشت وبیابان میں گزربسر کرنے والے ، ہربگولے کے پیچھے دوڑنے والے ،کہ ہربگولے میں نظر آتا ہے تیرا محمل ۔ وہ ایک بے در بے گھر گداگر کی طرح کہ جب گاؤں پر سیلاب آیا تو اس نے اپنی چٹائی لپیٹی، بغل میں دبائی اور بولا، اے پیاری آج تو ہی میرے کام آئی ۔
ایک پشتو کہاوت ہے کہ مجھے بہار سے کیا لینا دینا کہ نہ چرانے کے لیے نہ گائے کے لیے نہ بیل نہ بچھڑے کٹڑے کے لیے ۔اس لیے باغوں کے بارے میں باغبان ہی جانیں۔ ایک پرانا پشتو گیت یادآیا:
لیلو باغ داباغوان دے
مونگہ شنہ طوطیان یو نن دلے سبا بہ زونہ
ترجمہ: لیلو باغ تو باغبان کاہے ہم سبز طوطے ہیں، آج ہیں تو کل نہ جانے کہاں ہوں گے۔
ایک اورٹپہ یاد آیا
زمونگ پہ دے وطن کے سہ دی
لکہ مرغئی پہ ڈکو شپے سباکوونہ
ترجمہ: ہمارا اس وطن میں کیا ہے ، پرندوں کی طرح درختوں پر بسیرا کرتے ہیں ۔
دراصل اردو کا جو محاورہ ہم نے عرض کیا ہے اسے سمجھا ہی نہیں گیا ، گانٹھ کے پورے اورعقل کے اندھے۔ ایک نہیں ہیں دو الگ الگ لوگ ہوتے ہیں جو گانٹھ کے پورے ہوتے ہیں ،وہ ہمیشہ ’’عقل کے اندھوں‘‘کا دیا کھاتے ہیں بلکہ یہ عقل کے اندھوں کی برکات ہیں لیکن لوگ خالی چادر لاتے ہیں اور ان میں گانٹھ باندھ کر ’’گانٹھ پورے‘‘ ہوجاتے ہیں اور اب کے جو چادروں والے آئے ہیں ان کا تو دعویٰ بھی ہے کہ یہ ملک ہمارا اورہمارے ’’بانی بانیان جہاں‘‘ کا ہے، ہم جو چاہیں بولیں، کریں اورکرائیں جہاں چاہیں کالے باغ اگائیں جہاں کہیں سبز باغ لہلہاہیں ’’کیچ می ایف یو کین‘‘۔
آخر ہم مینڈیٹ کی چادرلائے ہیں ہمارا حق ہے جو باندھیں اورجتنی گانٹھ باندھ کرجائیں ۔
ویسے اگر انصاف بلکہ تحریک انصاف کی بات کریں تو کچھ زیادہ قصوروار بھی نہیں کہ بیانات کے لیے کوئی نیا موضوع ڈھونڈیں کیوں کہ جو بھی موضوعات تھے ان پر تو بیانات دے کر ان کا کچومر نکال دیا گیا ہے، ہرصبح بیان شام بیان، کہ اپنا تو ہے کام بیان۔ لیکن پھر بھی آخر کب تک کوئی بیانات کے لیے موضوعات ڈھونڈیں حالانکہ اس مرتبہ بیانات کی تالیف وتصنیف کے لیے ایک ڈیپارٹمنٹ قائم کیا گیا ہے جس میں ایک ماہر بیانات کے زیر نگرانی بیانات اوربیانات کے لیے موضوعات پیدا کرنے والے مصروف رہتے ہیں بلکہ اس ڈیپارٹمنٹ میں ایک شعبہ ایسا بھی ہے جو پڑوسی صوبے اور مرکز کے لیے گالیاںایجاد کرتا ہے ۔
اپنے صوبے میں تو بیانات کے جتنے موضوعات تھے ان پر تو اتنے بیانات دیے جا چکے ہیں کہ ان کے تلے خود وہ موضوعات بیچارے دب کر رہ گئے ہیں ، اس لیے بیانات کے لیے موضوعات ڈھونڈنا اولین ترجیح۔اس اولین ترجیح پر جو اب تک پاکستان میں ہونے والی حکومتوں کی اولین ترجیح رہی ہے پر ہماری رگ ترجیح پھڑک اٹھی ہے لیکن فی الحال اسے موخر کیے دیتے ہیں، اس لیے کہ ہم نے ’’چارمنشی‘‘بٹھا دیے ہیں جو پہلے پاکستان میں پہلی ترجیح کے اعدادوشمار کریں گے کہ اب تک اس ملک میں کتنی اولین ترجیحات پیدا ہوئی ہیں اور بن کھلے مرجھاچکی ہیں ، ہمیں تو صرف ان پہلی ترجیحات کاعلم ہے جو موجودہ حکومت نے بتائی ہیں ، یہ تقریباً نوہزار نو سو ننانوے بنتی ہیں اگر ہم سے کوئی بھول چوک نہ ہو رہی ہوتو۔
بہرحال اصل مسئلہ گانٹھ کے پوروں کا ہے ، بیچارے کیا کریں جب تک گانٹھیں پوری نہ ہوں ، بیانات تو دینے پڑیںگے چاہے سبزباغوں کے ہوں یاکالے باغوں کے ۔
ویسے اسمبلی سے بھی کچھ بازگشتیں سنائی دے رہی ہیں کہ خود اپنے ممبران شاکی ہیں کہ آخر ہم بھی تو مینڈیٹ کی چادریں لائے ہیں ، ہمیں بھی کچھ باندھ بوندھ کرنے کا موقع دیاجائے :
اے خانہ براندازچمن کچھ تو ادھر بھی
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بیانات کے لیے اولین ترجیح کالے باغ باغوں کے ہوتے ہیں ہیں اور ہیں کہ اس لیے عقل کے ہیں جو
پڑھیں:
ایدھی فلم پر بھی تنازع، سندھ حکومت اور فیصل ایدھی کے متضاد بیانات
فیصل ایدھی نے شرجیل میمن کے بیان کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ دراصل ایدھی فاؤنڈیشن کی اپنی کاوش ہے، جس پر وہ پچھلے ایک سال سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے عظیم سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کی زندگی پر بننے والی فلم کے حوالے سے ایک عجیب صورتحال پیدا ہوگئی ہے، جہاں ایک طرف سندھ حکومت نے اس منصوبے پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، وہیں دوسری جانب ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے اسے اپنا ذاتی منصوبہ قرار دے کر حکومتی دعوؤں کو مسترد کر دیا۔ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے حال ہی میں ایک تقریب میں اعلان کیا تھا کہ صوبائی حکومت معروف فلم ساز ستیش آنند کے اشتراک سے ایدھی صاحب کی زندگی پر فلم بنا رہی ہے، تاہم فیصل ایدھی نے اس بیان کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ دراصل ایدھی فاؤنڈیشن کی اپنی کاوش ہے، جس پر وہ پچھلے ایک سال سے کام کر رہے ہیں۔ فیصل ایدھی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے پہلے ہی ایک معروف ڈرامہ اداکار و پروڈیوسر کے ساتھ معاہدہ کر لیا تھا، ستیش آنند نے بعد میں رابطہ کیا تو انہیں مطلع کر دیا گیا کہ یہ منصوبہ پہلے ہی کسی اور کے ساتھ طے پا چکا ہے۔‘‘
فیصل ایدھی نے زور دے کر کہا کہ فلم کا تمام تر تخلیقی کنٹرول فاؤنڈیشن کے پاس ہوگا۔ اس فلم کا اسکرپٹ معروف مصنفہ تہمینہ درانی کی کتاب ’ایدھی: آ مرر ٹو دی بلائنڈ‘ پر مبنی ہوگا، جس میں ایدھی صاحب نے خود اپنی زندگی کے اہم واقعات قلمبند کیے تھے۔ فیصل ایدھی کے مطابق، فلم میں ایدھی کی والدہ اور اہلیہ بلقیس ایدھی کے کرداروں کو خصوصی اہمیت دی جائے گی، کیونکہ ان خواتین نے ایدھی کی شخصیت کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ فلم کی شوٹنگ کیلئے ایدھی صاحب سے منسلک تمام اہم مقامات کا انتخاب کیا گیا ہے، جن میں ان کا آبائی گاؤں بانٹوا (گجرات، بھارت) بھی شامل ہے۔ فیصل ایدھی نے واضح کیا کہ اگر بھارت میں شوٹنگ ممکن نہ ہو سکی تو اس مقام کو اسٹوڈیو میں ہی تیار کیا جائے گا۔
جب فیصل ایدھی سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ خود اپنے والد کا کردار ادا کریں گے، تو انہوں نے انتہائی سادگی سے جواب دیا: ’’میں اداکار نہیں ہوں، اس لیے یہ کردار نبھانا میرے لیے ممکن نہیں، یہ فیصلہ فلم کے ہدایتکار اور پروڈیوسر کریں گے کہ ایدھی صاحب کا کردار کون ادا کرے گا۔‘‘ فیصل ایدھی نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ فلم نہ صرف ایدھی صاحب کی بے مثال خدمات کو خراج تحسین پیش کرے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک مثال بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ فلم عالمی معیار کی ہو، تاکہ آنے والی نسلیں ایدھی صاحب کی قربانیوں اور خدمات سے آگاہ ہو سکیں۔‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تنازع کے بعد فلم بنانے کا اصل حق کسے ملتا ہے اور کون اس عظیم انسان کی زندگی کو پردہ سیمیں پر پیش کرنے کا حق دار ٹھہرتا ہے۔