امریکی سینیٹ نے ٹرمپ کے ٹیکس اور اخراجات بل کی منظوری دے دی، ملکی قرض میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
ریپبلکن پارٹی کی اکثریت رکھنے والی امریکی سینیٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ ٹیکس اور اخراجات کے بل کو صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور کرلیا، جس کے نتیجے میں ٹرمپ کی کئی اہم داخلی پالیسیوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی، تاہم اس کے ساتھ ہی امریکا کے قومی قرض میں مزید 3.3 ٹریلین ڈالر کا اضافہ متوقع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی کانگریس سے خطاب، پاکستان کا خاص شکریہ کیوں ادا کیا؟
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ بل 51 کے مقابلے میں 50 ووٹوں سے منظور ہوا، اور فیصلہ کن ووٹ نائب صدر جے ڈی وینس نے کاسٹ کیا۔ تاہم 3 ریپبلکن سینیٹرز، تھام ٹلس، سوزن کولنز اور رینڈ پال نے بل کی مخالفت کی اور ڈیموکریٹ پارٹی کے تمام 47 سینیٹرز کے ساتھ ووٹ دیا۔
نئے قانون کے تحت نہ صرف صدر ٹرمپ کی 2017 کی ٹیکس کٹوتیوں میں توسیع کی جائے گی بلکہ ٹِپس اور اوور ٹائم آمدنی پر بھی نئے ٹیکس ریلیف فراہم کیے جائیں گے۔
اس کے علاوہ فوجی اخراجات اور امیگریشن اداروں کے بجٹ میں اضافہ ہوگا، جب کہ غریب اور کم آمدنی والے افراد کے لیے صحت و خوراک کی اسکیموں میں کٹوتی کی جائے گی۔
یہ بل اب ایوان نمائندگان (ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز) کو بھیجا جائے گا جہاں اس کی حتمی منظوری درکار ہے۔ تاہم سینیٹ کی ترامیم کے باعث ریپبلکن پارٹی کے اندرونی اختلافات اس بل کی منظوری میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی کانگریس میں پیش بل کے پاکستان پر کوئی اثرات نہیں ہوں گے، سابق سفارتکار
صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ یہ قانون 4 جولائی یعنی امریکا کے یومِ آزادی سے قبل نافذ العمل ہو جائے جبکہ ایوان نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن نے بھی کہا ہے کہ وہ اس ڈیڈلائن کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکی صدر بل منظور ٹیکس اور اخراجات ڈونلڈ ٹرمپ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی صدر ٹیکس اور اخراجات ڈونلڈ ٹرمپ وی نیوز
پڑھیں:
ٹرمپ پوٹن سمٹ دوستانہ ماحول میں، مگر سیزفائر ڈیل نہ ہو سکی
ٹرمپ پوٹن سمٹ دوستانہ ماحول میں، مگر سیزفائر ڈیل نہ ہو سکی الاسکا سربراہی ملاقات سے متعلق چند اہم ضمنی حقائق الاسکا سربراہی ملاقات سے متعلق چند اہم ضمنی حقائق ماسکو میں کریملن کی طرف سے جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب جاری کردہ ایک بیان کے مطابق صدر پوٹن اور ان کے امریکی ہم منصب ٹرمپ کی امریکی ریاست الاسکا میں اینکریج کے مقام پر ایک ملٹری بیس پر ہونے والی ملاقات دو گھنٹے اور 45 منٹ تک جاری رہی اور اس میں اطراف کے وزرائے خارجہ اور سینیئر مشیر بھی موجود تھے۔ یہ صدارتی سمٹ فروری 2022ء میں یوکرین میں روسی فوجی مداخلت کے بعد سے آج تک ہونے والی امریکی اور روسی صدور کی پہلی براہ راست اور بالمشافہ ملاقات تھی۔(جاری ہے)
اس سمٹ کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے روسی صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے ہاتھ ملایا اور کہا کہ دونوں رہنما ’’جلد ہی پھر آپس میں بات کریں گے،‘‘ بلکہ ’’ہو سکتا ہے کہ دونوں جلد ہی آپس میں دوبارہ ملیں بھی۔
‘‘ امریکی صدر کے اس بیان پر روسی صدر پوٹن نے دوبارہ ملاقات کے امکان کے حوالے سے فوراﹰ کہا، ’’اگلی مرتبہ ماسکو میں۔‘‘ اس پر صدر ٹرمپ نے کہا، ’’یہ ایک دلچسپ خیال ہے۔ مجھے اس پر کچھ (سیاسی) تپش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن میں دیکھ سکتا ہوں کہ شاید ایسا ہو بھی سکتا ہے۔‘‘ اس ملاقات کے بعد دونوں صدور کے پاس چونکہ کسی بڑی پیش رفت کا اعلان کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا، اس لیے دونوں نے ہی پریس کانفرنس کے دوران اپنے بیانات میں قدرے مبہم انداز گفتگو اختیار کیا اور عمومی امید پسندی کا اظہار کیا۔ اینکریج سمٹ سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ممکنہ طور پر دونوں صدور کی جمعے کی شام ہونے والی ملاقات کے بعد ایک ایسی سہ فریقی ملاقات بھی ہو سکتی ہے، جس میں یوکرینی صدر زیلنسکی بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ لیکن سمٹ کے بعد کی پریس کانفرنس میں فریقین کی طرف سے اس بارے میں کچھ نہ کہا گیا کہ آیا تینوں ممالک کے صدور کی ایسی کسی ممکنہ ملاقات کے بارے میں کوئی فیصلہ کن بات بھی ہوئی۔ٹرمپ پوٹن سمٹ دوستانہ ماحول میں، مگر سیزفائر ڈیل نہ ہو سکی
امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پوٹن کی الاسکا میں جمعے کو ہوئی سربراہی ملاقات میں یوکرینی جنگ سے متعلق کوئی سیزفائر ڈیل نہ ہو سکی۔ طویل ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے کہا کہ دوستانہ ماحول میں یہ بات چیت تعمیری رہی۔
روس کی یوکرین میں فوجی مداخلت کے ساتھ شروع ہونے والی جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی ریاست الاسکا میں اینکریجکے مقام پر ایک فوجی اڈے پر ہونے والی اس ٹرمپ پوٹن ملاقات سے دنیا کو کافی زیادہ امیدیں تھیں کہ اس میں شاید امریکی اور روسی سربراہان مملکت جنگ بندی کے کسی نہ کسی معاہدے تک پہنچنے کا راستہ نکال لیں گے۔
سمٹ کے بعد 12 منٹ کی مشترکہ پریس کانفرنسلیکن کئی گھنٹے طویل یہ ملاقات ایسی کسی بڑی پیش رفت کی وجہ نہ بن سکی۔ ملاقات کے بعد دونوں صدور نے 12 منٹ تک میڈیا کے نمائندوں سے مشترکہ گفتگو کی، جس میں انہوں نے اس ملاقات کو تعمیری قرار دیا۔ بعد میں صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ یوکرینی جنگ کے خاتمے کے لیے ایک دیرپا سیزفائر معاہدہ قدرے قریب ہے مگر اس سمٹ میں اس معاہدے تک پہنچا نہیں جا سکا۔
اپنی ملاقات کے بعد دونوں صدور نے میڈیا سے جو گفتگو کی، اس میں انہوں نے اپنی علیحدگی میں ہونے والی اس ملاقات کی زیادہ تفصیلات بیان نہ کیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمپر پوٹن نے بس اتنا کہا کہ انہوں نے کئی اہم نکات پر اتفاق کیا ہے۔ مگر یہ ’اہم نکات‘ کیا ہیں، ان کی بھی انہوں نے کوئی تفصیلات نہ بتائیں۔
اس پریس کانفرنس کے دوران موقع پر موجود صحافیوں کو کوئی سوال پوچھنے کی اجازت نہیں تھی۔
انہوں نے بس وہی کچھ سنا، جو صدر ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب نے کہا۔ نیٹو اور صدر زیلنسکی کی بریفنگاس پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ صدر پوٹن کے ساتھ اپنی بات چیت کے نتائج سے یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی، یورپی یونین کے رہنماؤں اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے لیڈروں کو بریفنگ دیں گے۔
ساتھ ہی امریکی صدر نے کہا، ’’جب کوئی ڈیل ہو جائے گی، تب ہی کہا جا سکتا ہے کہ کوئی ڈیل ہو گئی ہے۔
حتمی طور پر یہ فیصلہ انہی کا ہو گا۔‘‘اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں اور امریکی صدر ٹرمپ کی میزبانی میں، میڈیا نمائندوں سے مختصر خطاب میں پہل روسی صدر نے کی۔ انہوں نے کہا، ’’ہماری یہ ملاقات بہت تعمیری رہی۔ اور کئی نکات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ صرف چند نکات ایسے ہیں، جن پر کوئی اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ ان میں سے بھی کچھ انتہائی اہم نہیں ہیں۔
‘‘صدر ولادیمیر پوٹن نے مزید کہا، ’’اس ملاقات میں ہم نے مسٹر ٹرمپ کے ساتھ اچھے براہ راست رابطے قائم کر لیے ہیں۔‘‘
اس سمٹ کے بعد نشتریاتی ادارے فوکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے کہا، ’’ہم یوکرین کے ساتھ روس کی جنگ میں ایک معاہدے کے بہت قریب ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے یوکرینی صدر زیلنسکی کو بھی کسی ممکنہ ڈیل پر آمادگی ظاہر کرنا ہو گی۔‘‘
ادارت: عاطف توقیر