کراچی: عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ پر مقدمے کے اندراج کی درخواست مسترد کر دی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: سیشن عدالت کراچی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کرنے کی درخواست ابتدائی سماعت پر ہی ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دی ہے۔
عدالت نے تحریری حکم نامے میں مؤقف اختیار کیا کہ ویانا کنونشن 1961ء کے تحت کسی بھی ریاست کے سربراہ کو قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے، اس لیے یہ درخواست قانون کے دائرہ کار میں نہیں آتی۔
سرکاری وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مذکورہ واقعہ ایران کی سرزمین پر پیش آیا، جب کہ مقدمہ پاکستان میں درج کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو قانونی منطق کے برعکس ہے، یہ درخواست محض شہرت حاصل کرنے اور بدنیتی پر مبنی ہے۔
دوسری جانب درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ان کے مؤکل نے درخواست میں مقدمے کی دفعات بھی واضح کی ہیں اور لاکھوں پاکستانی شہری سابق امریکی صدر کے اقدامات سے متاثر ہوئے ہیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد گرفتاری نہیں بلکہ صرف مقدمے کے اندراج کی اپیل تھی۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد قرار دیا کہ معاملہ پاکستانی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، لہٰذا درخواست ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کی جاتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
وفاقی آئینی عدالت نے پہلے دن کام کا آغاز کس طرح سے کیا؟
13 نومبر کو صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے 27 ویں آئینی ترمیم کے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور شدہ مسوّدے پر دستخط کر کے اُسے آئینِ پاکستان کا حصّہ بنا دیا۔ اور اُسی روز وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس، جسٹس امین الدین خان کے نام کی بطور چیف جسٹس منظوری دے دی گئی۔
گزشتہ روز اپنی تشکیل کے پہلے روز وفاقی آئینی عدالت نے نجی کمپنیوں کی جانب سے مزدوروں کے برطرفی، کراچی کے عوامی پارکس کے تجارتی استعمال، کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور زندگی بچانے والی ادویات سے متعلق مقدمات کی سماعت کی۔ آج بھی وفاقی آئینی عدالت نے نئی گج ڈیم سے متعلق مقدمے کی سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیے: وفاقی آئینی عدالت: کراچی میں عوامی پارکس کے تجارتی استعمال پر سندھ ہائیکورٹ کا حکم معطل
جسٹس ارشد حسین شاہ اور جسٹس روزی خان کے حلف کے بعد وفاقی آئینی عدالت کے ججوں کی تعداد 7 ہو گئی جبکہ اِس ہفتے کے لئے وفاقی آئینی عدالت کے تین بنچز تشکیل دئیے گئے ہیں۔
گزشتہ روز اپنے تشکیل کے پہلے روز وفاقی آئینی عدالت نے تی3ن اہم فیصلے دیے۔ اپنے پہلے فیصلے میں وفاقی آئینی عدالت نے خیبر پختونخوا حکومت کو اولین ریلیف دیتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے حکم امتناع جاری کر دیا۔
وفاقی آئینی عدالت نے غریب مزدوروں کے حقوق سے متعلق کیس میں اہم پیش رفت کرتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت کی اپیل پر حکم امتناع جاری کر دیا۔
یہ بھی پڑھیے: وفاقی آئینی عدالت نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری کیخلاف درخواست نمٹا دی
جسٹس حسن رضوی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے ہائیکورٹ کی جانب سے نجی ادارے کو سیکیورٹی ڈیپازٹ جمع کرائے بغیر اپیل کا حق دینے کے فیصلے کو معطل کر دیا۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل نے مؤقف اپنایا کہ قانون کے مطابق نجی ادارہ اگر مزدور کو نکالے تو پہلے واجبات ادا کرے، اور اگر اپیل کرے تو واجبات بطور سیکورٹی جمع کرانا لازم ہے۔عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم امتناع برقرار رکھنے کا فیصلہ دے دیا۔
اپنے دوسرے فیصلے میں وفاقی آئینی عدالت نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری کے خلاف درخواست نمٹا دی۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا تھا لیکن 8 سال تک سماعت کے لیے مقرر ہی نہ ہو سکا۔
یہ بھی پڑھیے: وفاقی آئینی عدالت: 2 نئے ججز جسٹس روزی خان اور جسٹس ارشد حسین شاہ نے حلف اٹھا لیا
کیس میں درخواست گزار افتخار احمد نے وائس چانسلر اسد اسلم کی تقرری کو چیلنج کیا تھا، جبکہ لاہور ہائیکورٹ نے اسد اسلم کو کام جاری رکھنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ بعد ازاں ہائیکورٹ نے پرو وائس چانسلر کو ہدایت دی تھی کہ وہ مستقل تقرری تک وائس چانسلر کے اختیارات سنبھالیں۔
آئینی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران کوئی بھی فریق پیش نہ ہوا۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اگر عدالتی حکم سے کوئی فریق متاثر ہو تو وہ عدالت میں درخواست دے سکتا ہے۔
وفاقی آئینی عدالت میں زندگی بچانے والی ادویات کا معاملہوفاقی آئینی عدالت نے زندگی بچانے والی ادویات کی دستیابی سے متعلق کیس میں ڈریپ سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ 41 زندگی بچانے والی ادویات کی رجسٹریشن سے متعلق درخواست دائر کی گئی تھی جن میں سے 30 رجسٹرڈ ہو چکی ہیں۔ تاہم آج بھی کئی ادویات کی دستیابی کے بارے میں معلومات موجود نہیں اور ڈریپ کی ویب سائٹ پر اپڈیٹ ڈیٹا فراہم نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: زندگی بچانے والی ادویات: آئینی عدالت نے ڈریپ سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی
چیف جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار عوامی مفاد میں عدالت آیا ہے اور حکومت کو ادویات کی فراہمی کا جائزہ لینا چاہیے۔ عدالت کے طلب کرنے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان پیش ہوئے۔
ڈریپ کے وکیل نے مؤقف دیا کہ شوگر سمیت مختلف ادویات کی قیمتیں کنٹرول ہو رہی ہیں اور زندگی بچانے والی ادویات کی معلومات ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ درخواست گزار نے ویب سائٹ ڈیٹا کو اپڈیٹ کرنے کی ہدایت دینے کی استدعا کی۔
عدالت نے ڈریپ سے ادویات کی دستیابی کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی عدالت سماعت کیسز مقدمہ