(گزشتہ سے پیوستہ)
برطانیہ میں تارکینِ وطن ابتدا میں اپنے خاندانوں کو پاکستان سے ہی چلاتے رہے، پھر وقت کے ساتھ انہیں بھی برطانیہ بلوا لیا۔ بعض نے خوب پونڈ کمائے اور پاکستان میں بلا ضرورت خرچ کر دیئے۔ آج آپ میرپور آزاد، کشمیر یا جہلم جائیں تو دیکھیں گے کہ وہاں بلا مصرف کروڑوں اور اربوں روپے کے بنگلے ویران پڑے ہیں۔ برطانیہ آنے والوں نے دو براعظموں کی تہذیبوں کے درمیان پل باندھنے کی کوشش کی، لیکن سوچوں میں اتنا فاصلہ تھا کہ دونوں کناروں پر مضبوط ستون نہیں اٹھ سکے۔ یہ نسل اپنے بچوں کو انگریزی بولتا دیکھ کر خوش بھی ہوتی رہی، اور خود کو تنہا بھی پایا۔ اس کشمکش میں وہ اندر ہی اندر خوف زدہ رہے اور دو تہذیبوں کے بیچ بے گھر ہو گئے۔ نہ پاکستان میں کچھ رہا نہ برطانیہ میں کچھ حاصل ہوا۔
برطانیہ میں آج پاکستانی نژاد افراد کی آبادی تقریباً 1.
2023 ء کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق، کئی علاقوں میں پاکستانی نژاد نوجوانوں کی تعلیمی کارکردگی قومی اوسط سے نیچے رہی۔ خاص طور پر بریڈفورڈ اور اولڈھم میں نئی برٹش پاکستانی نسل میں نہ تعلیم، نہ ملازمت اور نہ ہی تربیت ہے۔ اس کی شرح تشویش ناک ہے۔مزید یہ کہ کچھ نوجوان جرائم، گینگز، اور منشیات کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ پیٹربرو میں کمیونٹی لیڈران آپ کو انہی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے ملیں گے کہ کیسے نوجوانوں کو ان گینگز سے نکالا جائے، اور دوسرے نوجوانوں کو ان کے راستے پر چلنے سے روکا جائے۔ لیکن کسی کے پاس بھی کوئی حتمی رائے یا حل نہیں ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ خرابیاں بطور کمیونٹی نہیں، بلکہ برطانوی نظام کی ناکامی ہے، یہ وہ نوجوان ہیں جو یہاں ہی پیدا ہوئے، یہاں ہی پلے پوسے، ان میں اکثریت ایسوں کی ہے جو کبھی پاکستان گئے ہی نہیں اور گئے بھی ہیں تو ایک دو بار۔ اگر یہ خرابی کی طرف گئے بھی ہیں تو اپنے برٹش ہم رکابوں کے اکسانے پر۔ یہ سارا بوجھ نظام پر نہیں ڈالا جا سکتا، والدین کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں، یہ نوجوان اعلی تعلیم یافتہ بھی نہیں اور نہ ہنر مند ہیں، بس انگریزی بول لیتے ہیں، وہ تعلیم اور ہنر تو نہ ہوا۔ ان کا انگریزی لہجہ بھی بڑا عجیب+ و غریب اور ’’سلینگ‘‘ سا ہوتا ہے۔ پاکستانی برٹش بارن انگریزی بولتے وقت کچھ اور نسل ہی لگتے ہیں۔ نہ وہ دیسی پاکستانی معلوم ہوتے ہیں اور نہ وہ پکے انگریز دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں ’’کاٹھے انگریز‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ جب تعلیم و ہنر اور محنت کا جذبہ نہیں ہو گا تو باعزت روزگار نہیں ملے گا، تو اس نے خرابیوں کی طرف جانا ہی جانا ہے۔
2021 ء میں مانچسٹر، لیڈز اور بریڈفورڈ کی پولیس رپورٹس میں چاقو زنی، منشیات کی ترسیل، اور گینگ وائلنس میں ملوث نوجوانوں میں پاکستانی نژاد افراد کا ذکر نمایاں ملے گا۔پھر وہ بدنام زمانہ ’’گرومنگ گینگز‘‘ اسکینڈل سامنے آیا، روتھرم، ٹیلفورڈ، ہڈرزفیلڈ، روچڈیل، اوکسبرج، اور نیوکاسل جیسے شہروں میں ایسے دل خراش انکشافات ہوئے جن میں پاکستانی نژاد نوجوانوں کے ملوث ہونے سے پوری کمیونٹی کی ساکھ متاثر ہوئی۔ حالانکہ یہ چند افراد کے انفرادی جرائم تھے، مگر میڈیا اور بھارتی لابیوں نے اسے پوری قوت کے ساتھ پاکستانی کمیونٹی کے خلاف استعمال کیا۔نتیجتاً پاکستانی نوجوانوں کے خلاف نفرت، سوشل میڈیا مہمات، حتی کہ’’اسلاموفوبک‘‘ حملوں میں اضافہ ہوا۔ سیاسی ایوانوں میں مخالفانہ تقریریں ہوئیں اور سڑکوں پر مظاہرے بھی ہوئے۔پریس کی سرخیاں ہوں یا عوامی تاثرات، ’’ایشین گینگ‘‘، ’’منشیات فروش‘‘، اور ’’ریپ کلچر‘‘ جیسے الفاظ پوری کمیونٹی پر بدنما داغ بن کر چپک گئے، خاص طور پر کنزرویٹو ذہنیت کے گورے پاکستانیوں کے لئے واپس بھیجو کی مہم چلاتے رہے اور وقتا فوقتا اس میں تشدد بھی شامل ہو جاتا تھا جو تشویش ناک ہے۔ جس پر وہاں سنجیدہ حلقوں کو آج بھی خاصی تشویش ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی ان وجوہات پر غور کیا جنہوں نے ان بچوں کو اس راہ پر دھکیلا؟ کیا یہ صرف ان کی کوتاہی ہے یا برطانوی نظام کی ناکامی؟ کیا کبھی پاکستانی سفارت خانے نے کمیونٹی مسائل پر سنجیدہ غور کیا۔ کمیونٹی کے نمائندوں سے کبھی ملاقات کی، ان کے مسائل سنے، یا انہیں کبھی سمجھانے کی کوشش کی؟جن نوجوانوں نے یہاں آنکھ کھولی، انگریزی میں سوچا، وہ آج بھی شناخت کے بحران میں مبتلا ہیں۔ وہ نہ مکمل ’’برٹش‘‘ ہیں، نہ’’پاکستانی‘‘ ہیں۔ اسکولوں میں نسلی تعصب، سڑکوں پر ’’واپس جائو‘‘ کی آوازیں، اور گھروں میں ثقافتی ٹکرائو انہیں الجھن میں ڈال دیتا ہے۔
اس مد میں پاکستانی فیملیوں کو بچوں کی شادیوں کا مسئلہ لاحق ہے جن میں 70فیصد تک طلاق ہو جاتی ہے۔ لندن اور نوٹنگھم کے پارکوں میں واک کے دوران نکلو تو رات گیارہ بجے کے بعد ٹرام بند ہو جاتی ہے تو وہاں گینگسٹرز کا راج قائم ہو جاتا ہے، جن میں ہمارے ایشیائی نوجوان بھی شامل ہیں۔ برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں مستقل ہجرت کرنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہئے۔ وہاں بہت سے لوگ ’’نسل پرستی‘‘ کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ وہاں ’’مگنگ۴۴ اور چاقو زنی بھی ہوتی ہے اور کالے لوگ راہ گیروں پر بھی حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ اور وہاں جسم فروشی بھی ہوتی ہے۔
ایک دفعہ ایک پاکستانی نوجوان سے لندن کناری وارف میں ملاقات ہوئی، جو فٹبال ٹیم کے ساتھ آیا تھا۔ میں نے اس سے سوال کیا، تو وہ کہنے لگا، ’’میرے والدین مجھے پاکستانی بنانا چاہتے ہیں، اسکول والے مجھے برٹش نہیں مانتے، اور میں خود کو کچھ بھی نہیں سمجھتا۔‘‘ یہی شناخت کا بحران، یہی خلا، کئی ذہنوں کو اندھیرے میں لے جاتا ہے۔ پہلی نسل کی قربانیوں کی حفاظت کے لیے دوسری نسل کو تعلیم، تربیت اور رہنمائی دینا ضروری ہے لیکن توازن کے ساتھ۔ انہیں مجرم نہیں، ایک بگڑے ہوئے خواب کی تعبیر سمجھ کر سنوارنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ورنہ ہجرت کی یہ داستان ایک اور ادھورا باب بن کر تاریخ کے ملبے تلے دب جاتی ہے۔
جہاں خواب تو تھے، تعبیر نہ ملی، نسلیں تھیں، مگر زبانیں جدا۔ خیر ایسا سب کے ساتھ نہیں ہوتا۔ بہت سے ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کی تقدیر بدل گئی۔ وہ وہاں آج بھی اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ بس ساری بیماریوں کا ایک ہی حل ہے کہ نوجوانوں کو یونیورسٹیوں تک پہنچایا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ برطانیہ میں تارکین وطن کے لئے یہ وقت صرف افسوس یا شکوے کا نہیں، بلکہ اقدام کا ہے۔ اسکولوں، کمیونٹی سینٹرز اور مساجد کو مل کر نئی نسل کی ذہنی رہنمائی، تربیت اور ترقی کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔ بدقسمتی سے پاکستانی کمیونٹی میں نہ کوئی مشترکہ تنظیم ہے اور نہ ہی اتحاد کی فضا۔ مسلک پرستی نے یہاں بھی، بالکل پاکستان کی طرح، کمیونٹی کو تقسیم در تقسیم کر دیا ہے۔ میں دیکھتا تھا کہ مولوی حضرات نے لوگوں کو جوڑنے کی بجائے پارہ پارہ کر دیا۔ ایک دفعہ ایک کمیونٹی اجلاس میں جس میں پیٹربرو کا سابق مئیر اور اس وقت کا ایک کونسلر بھی موجود تھا، جن میں ایک سابق کونسلر ایسا بھی تھا جو 1965 میں برطانیہ آیا تھا، ایک دوسرے کو صرف اس وجہ سے کوس رہے تھے کہ یہاں چھ ہزار ہندوں نے اپنے لئے کمیونٹی سینٹر لے لیا لیکن 30 ہزار مسلمانوں کے لئے ابھی تک کمیونٹی سینٹر نہیں بنا۔ لندن کی ایک بڑی مسجد میں عیدالاضحی کے روز دو گروپوں کے درمیان دھینگا مشتی بھی دیکھی۔ اگلے جمعہ کے روز، جب ہم چند دوست وہاں تھے، تو دیکھا کہ مسجد کے منبر سے گزشتہ واقعات کی مذمت کی جا رہی تھی۔
دوسرے یورپی ممالک کی طرح، برطانیہ میں مسجد کی تلاش میں دور دراز جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ خاص طور پر لندن میں جگہ جگہ مسجدیں ہیں۔ سنٹرل لندن، سٹریٹ فورڈ، ال فورڈ، لیٹن سٹون، لیٹن، سینٹرل لندن، پیکاڈلی اور والتھم سٹو وغیرہ کی تقریبا تمام مساجد میں جمعہ پڑھنے کا موقع ملا۔ ماشااللہ ایک ہی گلی یا محلے میں دو دو مساجد بھی دیکھیں، اور وہاں تقریباً ہر مسلک کی نمائندگی نظر آتی ہے۔ خاص طور پر پیٹربرو کو مسجدوں کا شہر بھی کہا جا سکتا ہے۔لیکن یہ مساجد دین کی اشاعت کی بجائے مسلکی تفریق کی علامت بن چکی تھیں۔ ہر محلے میں ایک مولوی ایسا ضرور موجود تھا جو اپنی تقریر سے مسلمانوں کی تعداد کم کرنے پر تلا ہوا لگتا تھا۔ میں جس مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرتا، وہاں کے خطیب اردو اور پنجابی میں تقریر فرما رہے ہوتے تھے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے اہم عالمی مسلم مسائل سے صرفِ نظر کر کے وہ بار بار’’منافق‘‘ کی تعریف بیان کر رہے ہوتے تھے۔ ان کی مثالوں اور اندازِ بیان سے صاف ظاہر ہو رہا ہوتا تھا کہ وہ کس فرد یا طبقے کو مخاطب کر رہے ہیں۔ مسجد میں نمازیوں کی تعداد بظاہر سینکڑوں میں ہوتی تھی، لیکن ان کی گفتار، لباس اور عمومی بود و باش سے یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ کسی ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں علم، تہذیب، سائنس و ٹیکنالوجی اور فکری قیادت کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ نماز کے بعد جب میں مسجد سے باہر نکلتا تھا تو گلی کے دوسرے کونے پر اسی مسلک کی ایک اور مسجد نظر آتی تھی۔ ایک ہی مسلک کی دو الگ الگ مساجد بھی نظر آتی تھیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ میں اب مسجدیں مسالک سے بھی آگے نکل گئی ہیں، چوہدریوں کی مسجد، راجوں کی مسجد جاٹوں کی مسجد، وغیرہ وغیرہ اور تب اسی پر تلخی بھی ہوتی دیکھی اور لڑائیاں بھی۔
اس صورت حال کے پیش نظر آج بھی سوچتا ہوں کہ اگر پاکستان میں باعزت روزگار ہے تو قید تنہائی کاٹنے سے اپنا ملک، اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی قربت ہی بہتر ہے کہ وہاں جا کر میں اکثر فکر مند رہتا تھا کہ برطانیہ میں پیسہ تو اکٹھا کر لیا مگر بہت کچھ کھو بھی دیا۔ بہت سے ایسے رشتے اس 9 سال کے عرصے میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ کئی بار پریشان ہوتا تھا تو سوچتا تھا کہ پونڈوں کا بھرا بریف کیس ’’دریائے تھیمز‘‘ میں پھینک کر واپس پاکستان چلا جائوں مگر پھر پاکستان کی غربت اور بے روزگاری یاد آتی تھی، نہ لندن رہنے کو جی کرتا تھا اور نہ واپس پاکستان آنے کو۔ یہ دنیا داری اور امیر بننے کی خواہش ایسی ذہنی کشمکش تھی جو ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘ سے ملتی جلتی ہے۔ انگلینڈ میں رہنے کو یاد کرتا ہوں تو آج بھی ایک عجیب و غریب سی ذہنی بیگانگی محسوس ہوتی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کہ برطانیہ میں پاکستانی نژاد میں پاکستانی پاکستان میں بھی ہوتی کے ساتھ آج بھی ہے اور اور نہ کے لئے تھا کہ
پڑھیں:
یورپ شدید گرمی کی لپیٹ میں، ایفل ٹاور بند، برطانیہ میں ہیٹ ویو الرٹ جاری
برطانیہ سمیت یورپ کے کئی ممالک ان دنوں شدید گرمی کی لپیٹ میں آ گئے ہیں۔ فرانس، اٹلی، اسپین، پرتگال اور یونان میں درجہ حرارت خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے، جس کے باعث حکام نے ہنگامی اقدامات کا اعلان کر دیا ہے۔
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا، جس کے بعد شہر کا معروف ایفل ٹاور شہریوں اور سیاحوں کے لیے بند کر دیا گیا۔ شہریوں کو گھروں میں رہنے اور غیر ضروری سرگرمیوں سے گریز کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
برطانیہ میں بھی درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا ہے، جس پر محکمہ موسمیات نے ہیٹ ویو الرٹ جاری کر دیا ہے۔ اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور عوام کو دھوپ سے بچنے اور پانی کا زیادہ استعمال کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
ادھر اٹلی، اسپین، پرتگال اور یونان میں بھی شدید گرمی کے باعث اسکول بند کر دیے گئے ہیں، متعدد علاقوں میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ حکام نے گرمی سے متاثرہ افراد کے لیے ہیلپ لائنز اور کولنگ مراکز قائم کر دیے ہیں۔
ماہرین موسمیات کے مطابق یہ گرمی کی لہر موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے جو مستقبل میں مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔
Post Views: 4