بلوچستان کی سرکاری گاڑی پر سیر و تفریح: ’غریب عوام ٹیکس دے اور اشرافیہ عیش کرے؟‘
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں بلوچستان کی سرکاری گاڑی کو سیر و تفریح کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور گاڑی استعمال کرنے والے افراد دوسروں کو ویڈیو بنانے سے منع کر رہے ہیں۔
ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو صارفین کی جانب سے سرکاری گاڑی استعمال کرنے والے افراد کے خلاف فوری کاروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ صارفین نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ گاڑی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے لی گئی ہے اور اس کا استعمال ذاتی سیرو تفریح کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ایک صارف نے ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بلوچستان نے کوئی چیک اینڈ بیلنس رکھا ہوا ہے کہ قوم کے ٹیکس سے خریدی گاڑیوں کا استعمال کیسے ہو رہا ہے؟ انہوں نے گاڑی استعمال کرنے والے افراد پر تنقید کرتے ہوئے مزید لکھا کہ یہ لوگ آگے سے بدمعاشی کررہے ہیں کہ ویڈیو نا بناو۔
یہ گاڑی ان کے باپ کی ھے یا ماں جہیز میں لائی تھی؟حکومت بلوچستان نے کوئی چیک اینڈ بیلنس رکھا ھوا ھے کہ قوم کے ٹیکس سے خریدی گاڑیوں کا استعمال کیا ھورھا ھے؟آگے سے بدمعاشی کررھے ھیں کہ ویڈیو نا بناو۔ pic.
— صحرانورد (@Aadiiroy2) July 7, 2025
گلگت بلتستان ٹورزم نامی پیج نے لکھا کہ غریب عوام کے ٹیکس کے پیسے سے اشرافیہ کی عیاشیاں جاری ہیں، کیا پاکستان میں قانون صرف غریب کے لیے ہے؟ کیا غریب صرف ٹیکس دینے کے لیے پیدا ہوا ہے؟
انہوں نے لکھا کہ پاکستان کے غریب عوام ہر چیز پر ٹیکس دیں اور عیش کرے یہ اشرافیہ؟ بس بہت ہو گیا، اب سوشل میڈیا خاموش نہیں رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس ویڈیو میں نظر آنے والی سرکاری گاڑی کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔
غریب عوام کے ٹیکس کے پیسے سے اشرافیہ کی عیاشیاں! ????
کیا پاکستان میں قانون صرف غریب کے لیے ہے؟
تو سوال یہ ہے:
کیا گلگت بلتستان سمیت پورا پاکستان صرف اشرافیہ کے لیے ہے؟
کیا غریب صرف ٹیکس دینے کے لیے پیدا ہوا ہے؟
یہ ویڈیو ملاحظہ کیجئے:
ایک سرکاری ملازم کے بچے حکومت کی گاڑی میں… pic.twitter.com/ftid0aURVF
— Gilgit Baltistan Tourism. (@GBTourism_) July 8, 2025
شمع جونیجو نے ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ مالِ مفت دل بے رحم۔
مالِ مُفت دلِ بے رحم
pic.twitter.com/9EYWhHd0S1
— Dr Shama Junejo (@ShamaJunejo) July 8, 2025
ایک صارف نے لکھا کہ سرکاری گاڑیوں کی نمائش اور ان کا غلط استعمال سندھ بلوچستان میں اپنے عروج پر ہے۔
https://Twitter.com/tmcheemas/status/1942439565676986820
جہاں کئی صارفین سرکاری گاڑی کے استعمال پر تنقید کرتے نظر آئے وہیں چند صارفین کا کہنا تھا کہ سرکاری گاڑیاں جن کو ملی ہوتی ہیں ان کے بچے ان کو استعمال کرتے ہیں۔ گاڑی ان کے سرکاری کام اور ذاتی کام دونوں کے لیے استعمال ہوتی ہے اور اجازت بھی ہوتی ہے۔
صارف نے کہا کہ اگر وہ سرکاری گاڑی میں گھومنے گئے ہوئے ہیں تو اس میں ان کی کیا غلطی ہے۔ کچھ محکموں میں سرکاری ملازمین کو آن پیمنٹ سرکاری گاڑی دستیاب ہوتی ہے۔
جناب سرکاری گاڑیاں جن کو ملی ہوتی ہیں ان کے بچے ان کو استعمال کرتے ہیں گاڑی ان کے سرکاری کام اور ذاتی کام دونوں کے لیے استعمال ہوتی ہے اور اجازت بھی ہوتی ہے اب اس میں کون سی غلطی ہے ان کی اگر ٹور پر گھومنے گئے ہوئے ہیں کچھ محکموں میں ان پیمنٹ سرکاری گاڑی دستیاب ہوتی ہے ان سرکاری…
— Raja Jawad Jalap (راجہ جوادجالپ) (@JalapJawad) July 7, 2025
حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے کہا کہ چیف سیکریٹری بلوچستان شکیل قادر خان نے معاملے کا نوٹس لےکر متعلقہ حکام کو مجاز آفیسر جنہیں یہ گاڑی فراہم کی گئی تھی عہدے سے ہٹا کر ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی ہدایت کردی ہے۔
چیف سیکریٹری بلوچستان شکیل قادر خان نے معاملے کا نوٹس لیکر متعلقہ حکام کو مجاز آفیسر جنہیں یہ گاڑی فراہم کی گئی تھی عہدے سے ہٹا کر انکے خلاف محکمانہ کارروائی کی ہدایت کردی ہے https://t.co/oo1jWo9HQC
— Shahid Rind (@ShahidRind) July 7, 2025
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان سرکاری گاڑی سیاحتی مقاماتذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان سرکاری گاڑی سیاحتی مقامات سرکاری گاڑی غریب عوام کرتے ہوئے یہ گاڑی کے ٹیکس لکھا کہ کے خلاف ہوتی ہے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
خوشحالی کے دعوے اور زمینی حقائق
بجٹ بنانااوراسے پاس کروا لینا شایدکسی حکومت کے لیے مشکل نہیں ہوتا،ہمارے یہاں ہر حکومت نے یہ کام مکمل کامیابی سے کرکے دکھایا ہے۔ موجودہ حکمراں جس سابقہ حکومت کو ایک ناکام حکومت قرار دیتے رہے ہیں اس حکومت نے بھی اپنے تین چار سالہ دور میں جتنے بھی بجٹ پیش کیے وہ سب کے سب نہ صرف پارلیمنٹ سے پاس اور منظور بھی ہوگئے بلکہ اُن پر عملدرآمد بھی ہوگیا۔
یہ سالانہ بجٹ دراصل حکومتی اخراجات کے لیے بنایاجاتاہے تاکہ وہ اگلے ایک برس کے لیے مطلوبہ وسائل حاصل کر سکے۔اس مقصد سے اسے عوام پر ٹیکسوں کابوجھ ڈالنے کے طریقے وضع کرنا پڑتے ہیں۔
کچھ ٹیکسوں میںکمی اورکچھ میں اضافہ اورساتھ ہی ساتھ نئے ٹیکس بھی متعارف کرواکرعوام پر لاگو بھی کیے جاتے ہیں۔گزشتہ برس زرعی ٹیکس سے متعلق یہ کہاگیا کہ یہ IMF کی ایک بڑی شرط ہے اوراسے لاگو کرناہماری مجبوری ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی جو اس ٹیکس کی ہمیشہ خلاف رہی ہے وہ بھی نجانے کیوں اس زرعی ٹیکس پر راضی اوررضامند ہوگئی۔بہرحال نئے بجٹ سے ایک دوماہ پہلے IMF کو خوش کرنے کے لیے یہ ٹیکس عائد کردیا گیا۔ مگر ابھی اس مد میں ایک پیسہ بھی وصول نہیں کیاگیاتھا کہ وزیراعظم نے اس ٹیکس کو واپس لینے کا عندیا دے ڈالا۔
سمجھ نہیں آرہا کہ دو چار ماہ میں ایسا کونساکرشمہ ہوگیا کہ IMF ٰیہ ٹیکس نہ لگانے پرخوش دلی سے مان گیا،وہ IMF جو اپنی کڑی شرائط کے ساتھ عام عوام کو کوئی ریلیف دینے کو تیار نہیں ہوتا وہ اتنی آسانی سے زرعی ٹیکس واپس لینے پرکیونکر رضامند ہوگیا۔ہم اب یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ بجٹ سازی صرف اعدادوشمار کا گورکھ دھندا ہوتا ہے ۔یہ نہ صرف عوام کی آنکھوں میںدھول جھونکنے کے لیے بنایا جاتا ہے بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کو بھی’’ ماموں‘‘ بنانے کے لیے بنایاجاتا ہے۔
حالیہ بجٹ کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ یہ بجٹ IMFکا تیار کردہ ہے ۔ حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔مگر اس بجٹ میں پارلیمنٹیرین اوراُن کے سربراہوں کے ماہانہ مشاہروں میں بے تحاشہ اضافے پر کسی کے ماتھے پر بل نہیں پڑے جب کہ عوام کی تنخواہوں میں معمولی اضافہ پر بھی کہا جاتا ہے کہ IMF راضی نہیں ہے۔
اسی ہوشیاری اورشاطر بازی کا نام ہی ہے بجٹ سازی۔جسے اس طرح بنایا جاتا ہے کہ کسی کی سمجھ میں بھی نہ آئے اور اپنا کام بھی ہوجائے۔جب بجٹ پیش کیا گیا تو مخالف بنچوں سے بڑی آوازیں آئیں اور جس میں پاکستان پیپلزپارٹی جو بظاہر حکومت کا حصہ ہے اس نے بھی اس کی مخالفت میں عوام کو مطمئن کرنے کے لیے اپنا حصہ ضرور ڈالا۔مگر پھر اچانک کیا ہوا کہ چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے غیر ملکی دورے سے واپسی پروزیراعظم سے ایک ملاقات کی اور یہ بجٹ منظور ہوگیا۔
موجودہ حکومت اس عارضی حکومت کا تسلسل ہے جو سابقہ حکومت کے خلاف کامیاب عدم اعتماد تحریک کے بعد معرض وجود میں آئی تھی۔اس وقت بھی یہی دو بڑی پارٹیاں حکومت کا حصہ تھیں اورآج بھی ہیں۔ مگر اس سولہ ماہ کی عارضی حکومت کی کارکردگی اس قدر خراب تھی کہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں خودکشیاں کرنے پرمجبورہوگئے تھے اوراس کا نتیجہ ہم نے فروری 2024 کے انتخابات میں بھی دیکھ لیا ۔
عوام نے اپنی ناراضی کا اظہار ووٹ کی شکل میں دے دیا۔ ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کے لیے مسلم لیگ کی قیادت اُمیدوار بن گئی اور اسے اپنی سابقہ غلطیوں کو سدھارنے کا ایک بہترین موقعہ ہاتھ آگیا۔ جو بدنامی انھوں نے اپنے سابقہ سولہ ماہ کی حکومت میں اپنے نام کی تھی اسے دھونے اورمٹانے کا ایک نادر موقعہ حاصل ہوگیا۔ شروع شروع میں تو ایسا لگ رہا تھاکہ واقعی وہ ملک کے معاشی حالات سدھارنے کی انتھک کوششیں کررہے ہیں لیکن اب یہ تاثر اپنا اثرکھوتا دکھائی دینے لگاہے۔
مہنگائی کی کمی کے دعوے صرف زبانی جمع خر چ کے سوا کچھ نہیں ۔ سوائے گندم کے آٹے کے کوئی شہ کی قیمت بھی کم نہیں ہوئی ہے ۔ چینی کو ہی لے لیجیے جس کی قیمت 180اور دوسو روپے تک پہنچ گئی ہے مگر وزیراعظم خاموش ہیں۔ اسی طرح جب پٹرول عالمی مارکیٹ میں سستے داموں مل رہا ہے تو اپنے یہاں اس میںاضافہ کیوں کیا گیااس کا جواز بھی پیش نہیںکیاگیا۔ ڈالر رفتہ رفتہ پھر مہنگاہورہا ہے اور279 سے بڑھ کر 284 تک پہنچ گیامگر حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر اگر کچھ مستحکم ہوئے ہیںتو وہ بھی عارضی بنیادوں پر۔ جس دن چین ، سعودی عرب اورمتحدہ امارت نے اپنے دکھاوے کے لیے رکھے گئے ڈالرواپس مانگ لیے یہ ساری خوشحالی کابھانڈایکدم پھوٹ جائے گا۔کمزور بنیادوں پراستوار کی گئی معیشت کبھی بھی شکست وریخت سے دوچار ہوسکتی ہے۔
وزیراعظم نے اپنے اس ایک ڈیڑھ سال میں نجانے کتنے غیرملکی دورے کرڈالے ہیں اورہردورے کے بعد قوم کویہ باورکیاجاتا ہے کہ دوملین ڈالر یا تین ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے میمورینڈم سائن ہوگئے ہیں۔ لگتا ہے یہ میمورینڈم صرف کاغذوں پرہی رہیں گے ، ان پر عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیںدے رہے۔
یہاں فیکٹریاں لگانے یا قوم کو مستقل روزگار فراہم کرنے کا کوئی بھی منصوبہ اس وقت حکومت کے زیرغور نہیںہے۔بس قرضے لینے اورانھیں ری شیڈول کروانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ جو قرض لیے جارہے انھیں اپنے پارلیمنٹرین بھائیوںکو نوازنے پراستعمال کیاجارہا ہے۔
وہ پارلیمنٹرین جواشرافیہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ کوئی اتنے بھی غریب اورمفلوک الحال نہیںہیںکہ بجلی، گیس اورتمام مراعات کے بعد بھی اُن کی تنخواہیں بیس بیس لاکھ کردی جائیں۔جس دن پٹرول یہاں مہنگا کیاگیا اس کے دوسرے ہی دن ریلوے کے کرائے بھی بڑھادیے گئے ۔
جب خود حکومت ہی اس طرح کرے گی تو پھر عام تاجروں اوردکانداروں سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی چیزوں کے دام نہیں بڑھائیں گے۔لگتا ہے حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کوئی سنجیدہ نہیں ہے ۔اسی طرح وہ ملک کو خود مختار اورخوش حال بنانے کے بھی صرف زبانی دعوے کررہی ہے ۔ زمینی حقائق اس کے دعوؤں کی مکمل نفی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔