دارالحکومت تل ابیب کے ’ہوسٹیجز اسکوائر‘ میں حکومت مخالف مرکزی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سابقہ یرغمالی ایلی شرا بی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کا سنہری موقع ضائع نہ ہونے دیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے مختلف شہروں میں رات گئے حکومت مخالف مظاہرے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے احتجاجی ریلیاں منعقد ہوئیں، جن میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، احتجاجی جلسوں میں شریک مظاہرین نے حکومت کو جنگ جاری رکھنے اور یرغمالیوں کی رہائی میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

 

مظاہروں میں مقتولین کے لواحقین نے بھی نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا، حماس کی قید سے رہائی پانیوالے ایلی شرا بی نے صدر ٹرمپ سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ تمام 50 یرغمالیوں کو واپس لانے کا موقع ابھی ہے، جو زیادہ دیر نہیں رہے گا۔

ایک اسرائیلی اہلکار نے بتایا کہ اسرائیل نے قطر کی تجویز کردہ 60 روزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی ڈیل منظور کرلی ہے، لیکن حماس نے اسے مسترد کر دیا ہے۔ اختلاف کی بنیادی وجہ اسرائیل کی جانب سے غزہ سے فوجی انخلا اور کنٹرول سے متعلق نقشے ہیں، جن میں ایک تہائی غزہ کا علاقہ اسرائیل کے کنٹرول میں رہنا شامل ہے۔ حماس نے ان نقشوں کو مسترد کر دیا۔

اطلاعات ہیں کہ اسرائیل پیر کو نئی تجاویز اور نقشے پیش کرے گا، جبکہ حماس نے حفاظتی زون کی وسعت 700 میٹر سے ایک کلومیٹر تک بڑھانے پر رضامندی ظاہر کی ہے، لیکن اسرائیل اب بھی 2 کلومیٹر کا علاقہ چاہتا ہے۔

اگر معاہدہ طے پا جاتا ہے تو 60 روز کی جنگ بندی کے دوران 10 زندہ اور 18 مردہ یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آئے گی، اور جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات شروع ہوں گے۔

اس وقت بھی غزہ میں حماس اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے قبضے میں 50 یرغمالی موجود ہیں، اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے کم از کم 28 افراد کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے۔

اسی دوران، ہوسٹیجز اینڈ مسنگ فیملیز فورم نے جاری بیان میں حکومت کی ناکامی پر شدید تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا کہ موجودہ موقع گنوانا بڑی غلطی ہوگی۔ ایک سروے کے مطابق 74 فیصد اسرائیلی، جن میں سے 60 فیصد موجودہ حکومت کے حامی ہیں، یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ چاہتے ہیں۔

ادھر ایک مظاہرے میں مقتول لڑکی اوریا کے والد اَیران لِٹمان نے اپنی بیٹی کے قتل کا ذمہ دار براہِ راست اسرائیلی حکومت کو قرار دیا، اور اسے “انتہا پسندوں کی جنگ” قرار دیا۔ ایک اور مظاہرے میں یرغمالی فوجی نمرد کوہن کے والد نے وزیر اعظم نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ وہ اپنے خلاف بدعنوانی کے مقدمے سے بچنے کے لیے جنگ کو طول دے رہے ہیں۔

اسرائیلی ڈیفینس فورسز کے ہیڈکوارٹر کے باہر بھی ایک خاموش مظاہرہ بھی منعقد ہوا جس میں 400 کے قریب بائیں بازو کے کارکنان نے غزہ میں جاں بحق بچوں کی تصاویر اٹھا کر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل جنگ بندی حماس رہائی مذاکرات یرغمالی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل رہائی مذاکرات یرغمالی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے

پڑھیں:

غزہ میں جنگ بندی کیلئے حالات سازگار ہیں،اسرائیلی آرمی چیف

اسرائیلی چیف آف سٹاف نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے معاہدے کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے حالات سازگار ہیں۔
دوسری طرف قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں۔
ایال زامیر نے اسرائیلی ٹی وی پر خطاب میں کہا کہ ہم نے کئی اہم نتائج حاصل کیے ہیں، ہم نے حماس کی حکمرانی اور فوجی صلاحیتوں کو کافی نقصان پہنچایا ہے، ہم نے جس آپریشنل طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی بدولت یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک معاہدے کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے حالات اب سازگار ہیں۔
ادھر حماس کا کہنا ہے کہ وہ غزہ جنگ بندی کے حوالے سے دوحہ میں جاری مذاکرات میں بڑی لچک دکھا رہی ہے، حماس کے رہنما طاہر النونو نے ایک پریس بیان میں تصدیق کی کہ موجودہ مذاکرات کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، انہوں نے طے پانے والے کسی بھی معاہدے کے نفاذ کے لیے واضح بین الاقوامی ضمانتوں کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کے پاس دباؤ کے حقیقی لیور موجود ہیں جو زمین پر فرق پیدا کر سکتے ہیں، حماس کی پوزیشن مستحکم ہے اور اس میں مکمل انخلا اور دشمنی کا خاتمہ شامل ہے۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ 60 دن کی جنگ بندی اور آدھے مغویوں کی واپسی کا اچھا موقع ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون ساعر نے کہا کہ ہم غزہ میں جنگ بندی کے لیے سنجیدہ ہیں اور یہ قابل حصول ہے، انہوں نے سلوواکیہ کے دارالحکومت براٹیسلاوا کے اپنے دورے کے دوران بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو ہم غزہ میں مستقل جنگ بندی پر بات چیت کریں گے۔
امریکی ایلچی سٹیو وٹکوف نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس دوحہ میں قریبی بات چیت کے دوران چار میں سے تین بقایا مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو گئے، ہمیں امید ہے کہ اس ہفتے کے آخر تک کسی معاہدے تک پہنچ جائیں گے۔
اہم باقی ماندہ اختلاف غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا سے متعلق ہے، حماس مطالبہ کر رہی ہے کہ اسرائیلی فوج مارچ میں سابق جنگ بندی کے خاتمے سے قبل کی اپنی پوزیشنوں پر واپس چلی جائے تاہم اسرائیل اس سے انکار کر رہا ہے۔
اس دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اقوام متحدہ یا وہ بین الاقوامی تنظیمیں جو اسرائیل یا حماس سے وابستہ نہیں ہیں، ان علاقوں تک امداد پہنچائیں گی جہاں سے اسرائیلی فوج انخلا کرے گی، اس تجویز کی بنا پر اسرائیل اور امریکا کی حمایت سے کام کرنے والی غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن اپنے آپریشنز کو وسعت نہیں دے سکے گی اور اسے واپس جانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
حماس اس بات کی ضمانت کا مطالبہ کر رہی ہے کہ اسرائیل انخلا کرے گا اور مذاکرات کے دوران لڑائی دوبارہ شروع نہیں ہوگی اور اقوام متحدہ پرانے نظام کے مطابق امداد تقسیم کرے گی۔
واضح رہے کہ سات اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی اس جنگ میں اب تک 57 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا ہے اور المناک بات یہ ہے کہ مرنے والوں میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • تل ابیب میں بڑے پیمانے پر مظاہرے، غزہ جنگ بندی کا مطالبہ
  • تل ابیب میں ہزاروں افراد کا احتجاج، جنگ بندی اور یرغمالیوں کی واپسی کا مطالبہ
  • اسرائیل میں نیتن یاہو حکومت کے خلاف مظاہرے، غزہ جنگ بندی کا مطالبہ زور پکڑ گیا
  • غزہ میں حماس قبول نہیں‘ نیتن یاہو,قیدیوں کی رہائی کیلیے فوجی انخلا اور مستقل بمباری روکنا ہوگی‘ حماس مزید82فلسطینی شہید
  • غزہ پٹی سے حماس کا خاتمہ ہو گا، نیتن یاہو
  • چند دنوں میں یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ طے پا سکتا ہے، نیتن یاہو
  • یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ جنگ بندی کے لیے حالات سازگار ہیں: اسرائیلی آرمی چیف
  • جرمنی اور آسٹریا کا اسرائیل سے غزہ میں انسانی امداد بڑھانے کا مطالبہ
  • غزہ میں جنگ بندی کیلئے حالات سازگار ہیں،اسرائیلی آرمی چیف