بیگم کو گھر سے بے دخل کرنے پر قید کاٹنا ہو گی، قومی اسمبلی میں بل پیش
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
—فائل فوٹو
قومی اسمبلی کے اجلاس میں بل پیش کر دیا گیا کہ بیگم کو گھر سے بے دخل کرنے پر قید کاٹنا ہو گی۔
تعزیراتِ پاکستان کی مختلف شقوں میں ترامیم کا بل قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی رکن شرمیلا فاروقی کی جانب سے پیش کیا گیا۔
بل کو فوجداری قانون ترمیمی بل 2025ء کا نام دیا گیا ہے، جسے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔
جرم کے مرتکب فرد کو 3 سال قید، 10لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ شوہر یا گھر کے کسی فرد کی جانب سے خاتون کو گھر سے نکالنا جرم قرار دیا جائے۔
مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ خاتون کو گھر سے نکالنے پر 3 سے 6 ماہ قید کی سزا دی جائے گی، جرم کا ارتکاب کرنے پر 2 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق خاتون کو گھر سے نکالنے کے مقدمات کی سماعت کا مجاز فرسٹ کلاس کا مجسٹریٹ ہو گا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: قومی اسمبلی کو گھر سے
پڑھیں:
سینیٹ سے منظوری کے بعد 27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی میں پیش
اسلام آباد (نیوزڈیسک) سینیٹ سے منظور ہونے والی 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔
قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27 ویں آئینی ترمیم کا بل منظوری کیلئے پیش کیا۔
اس سے پہلے سینیٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور ہوئی، آئینی ترمیم کے حق میں 64 ارکان نے ووٹ دیا، ترمیم کی مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا،27 ویں آئینی ترمیمی بل کی 59 شقوں کی مرحلہ وار منظوری دی گئی۔
واضح رہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں نے سینیٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کا بائیکاٹ کیا، پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور جے یو آئی کے سینیٹر احمد خان نے آئینی ترمیم کی حمایت کی۔
پیپلزپارٹی کے 25،ن لیگ 20 اور 6 آزاد سینیٹرز نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، بی اے پی کے 4، ایم کیو ایم اور اے این پی کے 3،3 ارکان نے بھی حمایت کی تھی۔
علاوہ ازیں پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل، ایم ڈبلیو ایم اور جے یو آئی ف نے ترامیم کی مخالفت کی تھی، سینیٹ میں اپوزیشن ارکان نے شدید ہنگامہ آرائی بھی کی تھی۔
آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کے دوران جعلی اسمبلی اور جعلی حکومت نا منظور کے نعرے لگاتے ہوئے اپوزیشن ارکان نے سینیٹ اجلاس سے واک آؤٹ کر دیا تھا۔
قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن
قومی اسمبلی کا ایوان 336اراکین پر مشتمل ہے، 10 نشستیں خالی ہونے کے سبب ایوان میں اراکین کی تعداد 326 ہے، آئینی ترمیم کے لئے 224 اراکین کی حمایت درکار ہے۔
حکومتی اتحاد کو پیپلز پارٹی سمیت اس وقت 237 اراکین کی حمایت حاصل ہے، مسلم لیگ ن 125اراکین کے ساتھ حکومتی اتحاد میں شامل سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، پیپلز پارٹی کے 74 اراکین ہیں، ایم کیو ایم کے 22 ق لیگ کے 5،آئی پی پی کے 4اراکین ہیں۔
مسلم لیگ ضیاء، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ایک ایک رکن کے علاوہ 4آزاد اراکین کی حمایت بھی حاصل ہے، قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کی تعداد 89 ہے، اپوزیشن بنچوں پر 75 آزاد اراکین ہیں۔
جے یو آئی ف کے 10 اراکین ہیں، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین، بی این پی مینگل اورپختونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن بھی اپوزیشن بنچوں پر موجود ہے۔