پی ڈی ایم اے نے پختونخوا میں بارشوں سے ہونے والے نقصان کے اعداد و شمار جاری کردیے WhatsAppFacebookTwitter 0 16 August, 2025 سب نیوز

پشاور(آئی پی ایس) پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) خیبر پختونخوا نے گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے جانی و مالی نقصان کی تفصیلات جاری کر دیں۔
پی ڈی ایم اے کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق بارش اور سیلاب کے باعث حادثات میں اب تک 307 افراد جاں بحق ہوئے، جاں بحق افراد میں 279 مرد، 15 خواتین اور 13 بچے شامل ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق مختلف حادثات میں 23 افراد زخمی بھی ہوئے، زخمیوں میں 17 مرد، 4 خواتین اور دو بچے شامل ہے۔

ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق بارشوں اور سیلاب کے باعث مجموعی طور پر 74 گھروں کو نقصان پہنچا، 63 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ 11 گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے۔
پی ڈی ایم اے کا بتانا ہے کہ حادثات سوات، بونیر، باجوڑ، تورغر، مانسہرہ، شانگلہ اور بٹگرام میں پیش آئے۔
پروونشل اتھارٹی کے مطابق متاثرہ اضلاع کیلئے مجموعی طور پر50 کروڑ روپے جاری کر دیے گئے ہیں، جس میں سے بونیر کیلئے 15 کروڑ روپے جاری کیےگئے جبکہ باجوڑ، بٹگرام اور مانسہرہ کے لیے 10، 10 کروڑ روپے اور اور سوات کے لیے 5 کروڑ روپے جاری کیے گئے۔
سب سے زیادہ اموات بونیر میں ہوئیں، بیرسٹر سیف
مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف کا اس حوالے سے بتانا ہے کہ صوبے کے 11 اضلاع کلاؤڈ برسٹ اور سیلاب سے متاثر ہوئے، سیلاب سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 3 ہزار817 ہے۔
بیرسٹر سیف نے بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں 32 افراد تاحال لاپتا ہیں جن کی تلاش جاری ہے، 545 ریسکیو اہلکار اور90 گاڑیاں اور کشتیاں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سب سے زیادہ بونیر میں 159 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 100 افراد کو زندہ بچالیا گیا، باجوڑ میں 20 افراد جاں بحق جبکہ ایک شخص لاپتا ہے، بٹگرام میں 11 افراد کی لاشیں ملی ہیں جبکہ 10 افراد لاپتا ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرٹرمپ اور پیوٹن کی ملاقات یوکرین میں جنگ بندی معاہدے کے بغیر ختم ٹرمپ اور پیوٹن کی ملاقات یوکرین میں جنگ بندی معاہدے کے بغیر ختم جےیوآئی کا وفاقی وزیر داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور دیگر کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کرانے کا فیصلہ فیلڈ مارشل کی پاک فوج کو سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے خصوصی ہدایات،پاک فوج کی ایک دن کی تنخواہ اور راشن خیبر پختونخوا کے.

.. عوام کیلئے اچھی خبر، آئندہ 15 روز کیلئے پٹرول کی قیمت برقرار، ڈیزل 12 روپے 84 پیسے فی لیٹر سستا سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ غیر متزلزل تعاون کا اعادہ، صحت و توانائی منصوبوں کیلئے 121ملین ڈالر کے معاہدے وزیراعلی پنجاب مریم نواز کا علی امین گنڈاپور کو ٹیلیفون، تعاون کی یقین دہانی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: پی ڈی ایم اے

پڑھیں:

سیلاب سے معاشی نقصان

پاکستان میں سیلاب سے محصولات میں کمی ہوگی نہ بڑا معاشی نقصان، یہ آئی ایم ایف کا خیال ہے۔ مزید کہا گیا کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب نے معیشت کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچایا۔اور میں سوچ رہا تھا کہ کاش یہ حساب کتاب لگانے والے کبھی اس گاؤں میں جاتے، جہاں گھرکا دروازہ آج بھی ملبے کے نیچے ہے، جہاں اناج کے ڈھیر کی جگہ پانی کیچڑ ہے، جہاں رات کے کھانے میں بچے ماں کی آنکھوں کو دیکھتے ہیں، پلیٹ کو نہیں اور ماں دور اندھیرے میں اپنے شوہرکا انتظار کر رہی ہوتی ہے جو اب پلٹ کر نہیں آئے گا۔

اخبارات یہی کہتے ہیں کہ یہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ عوام کہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ بے شمار نقصان ہوا ہے، مرنے والے بہت سے عزیز و اقارب، زیر آب آنے والی فصلیں، مکانات کا ملبہ، اگر کوئی چھوٹا کسان اپنے مال مویشی کھو دے تو وہی اس کا سب سے بڑا نقصان ہے، اگر کوئی کسان پہلے ہی قرضوں میں ڈوبا ہو تو یہ پانی کے اونچے اونچے ریلے اسے کیا ڈبوئیں گے۔ پہلے ہی وہ قرض میں ڈوبا ہوا ہے پھر اسے اخبار کی سرخیوں میں یہ پڑھنے کو مل جائے کہ بڑا معاشی نقصان نہیں ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے تو اس کے دل پرکیا گزری ہوگی۔

اگر بڑے نقصان کا مطلب مجموعی معیشت میں نمایاں کمی ہے تو آئی ایم ایف اور حکومت اس کو ایک نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ جو اندازے اور ماڈلزکا ڈیٹا انھیں بتائے، لیکن اگر ’’بڑے نقصان‘‘ کا معیار زندگی، انسانی معیشت، غربت، بقا اور معاشرے میں معاشی عدم توازن ہو تو پھر ہر جان، ہر مویشی، ہر فصل، ہرگھرکا نقصان بڑا ہوا ہے۔

کہا گیا کہ حکومت سیلاب سے متعلق اخراجات کو ہنگامی پول سے پورا کرسکتی ہے۔ شرح نمو کا یہ ہدف4.2 فی صد تھا جو اب 4 فی صد کے قریب ہی رہ سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئی ایم ایف نے کسی مدد امداد سے صاف ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ نقصان کو معمولی قابل برداشت قرار دے کر راہ فرار اختیار کر لی ہے۔ کہا گیا کہ نقصان اعشاریہ تین فی صد جی ڈی پی کا ہے۔ تو حکومت چاہتی ہے کہ اسے قابل انتظام نقصان قرار دے اور معاشی استحکام کو خطرے میں نہ ڈالے۔ اس کا مطلب ہے کہ معاشی نمو برقرار رہے گی، مگر مزید کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کی نظر میں بڑا نقصان ہوا ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر آئیں چلتے ہیں پیر والا کے کسی دیہات میں، ایک چھوٹا کسان جس نے اپنی دھان کی فصل کھو دی ہے یہ اس کا سب سے بڑا نقصان ہے۔

اس دیہاتی کے خالی باڑے کو دیکھیے جہاں جابجا جانور باندھنے کے کھونٹے ابھی بھی قائم ہیں لیکن وہ کہانی سنا رہے ہیں کہ غریب کسان کے سارے جانور پانی بہا کر لے گیا اور اس کی معیشت بھی دریا برد ہو کر صفر ہو گئی ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات جاری ہیں، ان مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کو دو قسطوں کے اجرا کی امید ہے۔ یہ قسطیں دو مختلف قرضوں کے پروگراموں کے تحت مجموعی طور پر ایک ارب 20 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں کل معاشی نقصانات کا تخمینہ تقریباً 360 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ البتہ ابھی مزید نقصان کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔

2022 میں سندھ میں آنے والے نقصانات کا اندازہ 10 ارب ڈالر لگایا گیا تھا جو کہ اگرچہ کم ہے پھر بھی اس وقت ڈالر ریٹ 300 کے قریب کے لحاظ سے 3 ہزار ارب روپے نقصان بنتا ہے اور فی الحال نقصان کا اندازہ جوکہ 2022 کے مقابلے میں 5 سے 7 گنا زیادہ ہے۔ان تمام باتوں سے فی الحال یہی نظر آ رہا ہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں معاشی اعداد و شمار اور انسانی حقیقت میں نمایاں فرق ہے۔ نقصان تو غریب کا ہوا ہے، ایسا معلوم دیتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ انسانی دکھ، بدحالی، فاقہ کشی کو اعداد و شمار میں صفائی کے ساتھ چھپا دیتا ہے۔

ایک ملک کی مجموعی معیشت کو دیکھتے ہیں، لیکن اس حقیقت کو نہیں کہ دیہی معیشت ڈوب گئی ہے اور بہت سے لوگ بچھڑ گئے۔جب رات کے اندھیرے میں ماں خالی نگاہوں سے دور سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہے اور بچہ سامنے رکھی ہوئی پلیٹ کو نہیں دیکھتا۔ ایک بیوی کو اپنے شوہر کا انتظار ہے جو سیلابی پانی کو چیرتا ہوا گیا تھا کہ گھر کے کچھ قیمتی سامان کو لے آؤں۔ آج وہ بھوکی پیاسی حسرت بھری نگاہوں سے اس کے انتظار میں بیٹھی ہے۔ اس کا تو سب کچھ نقصان ہوگیا۔ سب کچھ برباد ہو گیا۔ وہ انتظار کرتی ہے اور اپنے بچے کے بھوک سے ستائے ہوئے چہرے کو دیکھتی ہے۔ بچے کو بھی اپنی بھوک پیاس کی پرواہ نہیں۔ وہ سوال کرتا ہے تو روٹی پانی کا نہیں پوچھتا۔ اپنی ماں سے روتے ہوئے پوچھتا ہے’’ اماں! بابا کب آئیں گے؟‘‘

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ پنجاب کا جامعہ حنفیہ بوریوالا کے میڑک کے امتحان میں پوزیشنز حاصل کرنے والے طلبا اور اساتذہ کیلئے 10 لاکھ روپے کا انعام
  • سیلابی صورتحال میں پاکستان ریلوے کو نقصان، بحالی کیلئے 14 کروڑ روپے کا تخمینہ
  • غیرت کے نام پر 7 افراد کو قتل کرنے والے مجرم کو 7 بار سزائے موت دینے کا فیصلہ
  • پنجاب میں مزید بارشوں کا امکان‘ بھارت سے دریاؤں میں دوبارہ سیلابی پانی چھوڑے جانے کا خدشہ
  • افغانستان میں عدم استحکام کے باعث خیبر پختونخوا میں امن و امان کے مسائل ہیں، علی امین گنڈا پور
  • آئی ایم ایف سیلاب کیلئے بجٹ میں 500 ارب روپے کی ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دینے کو تیار
  • فلپائن: زلزلے میں 72 افراد ہلاک، 20 ہزار زیادہ بے گھر
  • کراچی، کورنگی نمبر 4 میں نماز کی ٹوپی بنانے والے کارخانے میں آتشزدگی، 7 افراد بحفاظت ریسکیو
  • وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر سیلاب متاثرین کا سروے تیزی سے جاری، ہر فرد کے نقصان کا ازالہ کیا جائے گا
  • سیلاب سے معاشی نقصان