بھارت نے کھیل کی روح کو مجروح کیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
بھارت نے تلک ورما کی شاندار بیٹنگ کی بدولت ایشیا کپ کے فائنل میں دلچسپ مقابلے کے بعد پاکستان کو 5 وکٹوں سے شکست دے دی، لیکن بھارتی ٹیم نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایشین کرکٹ کونسل کے صدر اور چیئرمین پی سی بی محسن نقوی سے ایشیا کپ کی ٹرافی لینے سے انکار کیا، یوں بھارتی ٹیم کو نہ تو میڈلز ملے اور نہ ہی چیمپئن کا بورڈ دیا گیا۔
دوسری جانب بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی ٹوئٹ میں کھیل کو ’’آپریشن سندور‘‘ سے تشبیہ دے کر واضح کیا کہ بھارت کے لیے یہ میچ کھیل نہیں، ایک جنگی بیانیہ تھا۔
یہ واقعہ اگرچہ اسپورٹس کی دنیا میں نمایاں حیرت کا باعث بنا ہے، مگر اس کے پسِ پردہ تہذیب، اخلاق، سیاست اور کھیل کی روح کے وہ موضوعات ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ بھارتی ٹیم کا ایشیائی کرکٹ کونسل (ACC) کے صدر اور پاکستان کرکٹ بورڈ (PCB) کے چیئرمین محسن نقوی سے ٹرافی لینے سے انکار ایک نہایت سنگین اور علامتی اقدام ہے، جس نے عالمی کرکٹ کی روایات اور کھیل کے اخلاق کو ایک بار پھر سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ یہ واقعہ صرف ایک انعامی تقریب سے زیادہ ہے، یہ اظہارِ عزائم، وقارِ قومی تشخص، سفارتی کشاکش اور کھیل کے اندر سیاست کی مداخلت کا شدید عکس ہے۔
بدقسمتی سے بھارت کی طرف سے کھیلوں کے میدان کو سیاست سے آلودہ کیا گیا۔ پاکستان کی طرف سے کبھی بھارت کے ساتھ کھیلنے سے انکار نہیں کیا گیا، تاہم ہندو انتہا پسند ایجنڈے پر عمل پیرا مودی حکومت نے پاکستان کی مخالفت اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے اور اس کے ذریعے وہ ہندو انتہا پسندوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے، اگر اندرونی سیاست میں پاکستان اور مسلمانوں کی مخالفت کو استعمال کرنے کی روش ترک کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلوں کے میدان میں میچز ہوں اور دونوں ممالک کے شائقین جو کھیل کو کھیل ہی رکھنے کے حق میں ہیں، اس موقع سے بھرپور لطف اندوز ہوں۔ تاہم جیسے پہلے کہا گیا اس معاملے میں ذمے داری بھارت پر ہی عائد ہوتی ہے جس نے کھیل کے میدانوں کو سیاست سے آلودہ کیا۔
ایشیا کپ میں کرکٹ کی تاریخ کا پہلا بدترین موقع ہے کہ ٹورنامنٹ جیتنے کے باوجود بھارتی ٹیم کی ہٹ دھرمی برقرار رہی، پورے ٹورنامنٹ میں بھارتی ٹیم کا پاکستان ٹیم کے ساتھ جو رویہ رہا وہ انتہائی نامناسب تھا، پہلے بھارتی کھلاڑیوں نے ہینڈ شیک نہیں کیا، پھر ٹرافی کے ساتھ فوٹو سیشن نہیں کیا، ٹورنامنٹ کے دوران بھارتی کپتان نے ایک سیاسی پریس کانفرنس کی، اس طرح وہ کرکٹ کی تاریخ میں پہلے بھارتی کپتان ٹھہرے، جو کھیل میں سیاست لے کر آئے ہیں۔
ٹورنامنٹ کے دوران بھارتی ٹیم کے کپتان سوریا کمار یادیو کو سیاسی پریس کانفرنس کرنے پر جرمانہ بھی ہوا لیکن انھوں نے فائنل میچ کے بعد ایک بار پھر پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ وہ ایشیا کپ میں کھیلے گئے اپنے تمام میچز کی فیس بھارتی فوج کو دینے کا اعلان کرتے ہیں۔ دوسری جانب بھارتی کانگریس رہنما اور سابق وزیر ششی تھرور نے ایشیا کپ میں پاک بھارت میچز میں ہینڈ شیک تنازع پر گفتگو کرتے ہوئے کھیل اور سیاست کو الگ الگ رکھنے کا مشورہ دے دیا۔
انھوں نے کہا ہے کہ 1999 میں کارگل جنگ ہو رہی تھی، سپاہی مر رہے تھے، تب بھی ہم نے انگلینڈ میں ورلڈکپ میں پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ ملائے تھے تو اب ایسا کیوں ہے؟ اگر ہم پاکستان کے بارے میں اتنا شدت سے محسوس کرتے ہیں تو ہمیں کھیلنا ہی نہیں چاہیے تھا اور اگر ہم کھیل رہے ہیں تو ہمیں کھیل کے جذبے سے کھیلنا چاہیے، ان سے ہاتھ ملانا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کھیل کا جذبہ اس سے مختلف ہے جو ممالک کے درمیان ہوتا ہے۔
دو ممالک کے درمیان کرکٹ کے میدان میں ہونے والا مقابلہ محض ایک کھیل نہیں رہا، بلکہ بھارتی قیادت اور میڈیا نے اسے جس انداز میں پیش کیا، اس سے کھیل کی روح مجروح ہوگئی ہے۔ جب وزیراعظم نریندر مودی نے اس میچ کو ’’آپریشن سندور‘‘ سے تعبیرکیا، تو یہ واضح پیغام تھا کہ کرکٹ جیسے کھیل کو بھی اب سیاسی اور عسکری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس بیان میں چھپی عسکریت پسندی اور جنگی ذہنیت نے کھیل کو اس کی اصل روح، یعنی رواداری، بھائی چارے اور اسپورٹس مین اسپرٹ سے دور کر دیا۔ دوسری جانب بھارتی ٹیم کو نہ تو کسی بڑے اعزاز سے نوازا گیا، نہ کوئی چیمپئن کا بورڈ ان کے ہاتھ آیا، نہ میڈلز، نہ کوئی ٹرافی۔ اس کے باوجود جس انداز سے اس میچ کو فتح سے تعبیر کیا گیا اور قوم پرستی کا رنگ دیا گیا، وہ خطرناک رجحانات کو جنم دے رہا ہے۔ کیا محض ایک کرکٹ میچ کسی قوم کی برتری کا ثبوت ہے؟ کیا کسی ہمسایہ ملک کے خلاف کھیل جیتنا جنگ جیتنے کے مترادف ہے؟ ایسے سوالات صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اٹھائے جا رہے ہیں، جہاں کھیل کو عالمی بھائی چارے کا نشان سمجھا جاتا ہے۔
نریندر مودی کے ’’آپریشن سندور‘‘ جیسے بیانات کا مقصد محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں بلکہ ایک بڑے بیانیے کا حصہ ہے، جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی سوچ کے مطابق، ہر قومی سطح کے معاملے کو ایک مذہبی، عسکری یا دشمن مخالف بیانیے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بیانیہ صرف پاکستان مخالف نہیں بلکہ خود بھارتی عوام کو بھی تقسیم کر رہا ہے۔ جب ایک وزیراعظم اپنے ملک کے کھلاڑیوں کو جنگجو بنا کر پیش کرتا ہے، تو وہ درحقیقت ان کی شناخت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ کھلاڑی جنھوں نے برسوں کی محنت سے کرکٹ کو سیکھا، اپنے فن کو نکھارا، ان کو ایک سیاسی ہتھیار بنانا ان کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور کھیل کے تقدس کے ساتھ بھی۔ اس رویے سے خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، لیکن کھیل ہی ایک ایسا شعبہ رہا جہاں دونوں ممالک کے عوام نے ایک دوسرے کے کھلاڑیوں کو سراہا، اپنایا اور ان سے محبت کی۔ اگر اس محبت کو سیاست کی آگ میں جلا دیا جائے تو پھر کھیل صرف نفرت کا آلہ بن کر رہ جائے گا۔
جب ایک کرکٹ میچ کو ’’آپریشن‘‘ کہا جائے گا تو پھر سرحدوں کے پار بیٹھے عوام صرف مخالف کھلاڑی کو نہیں بلکہ پورے ملک کو دشمن سمجھیں گے، اور یہی وہ ذہنی کیفیت ہے جس سے ایک مستقل نفرت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
دوسری جانب بھارتی ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھی ایک مخصوص دائرے میں محدود کر دیا گیا ہے۔ وہ محض کھیلنے والے کھلاڑی نہیں رہے، بلکہ ان سے ایسے بیانات اور رویے کی توقع کی جاتی ہے جو سیاسی بیانیے کے مطابق ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ بھارتی کھلاڑیوں کی زبان سے بھی ایسے جملے سننے کو ملے جو کھیل کے تقدس کے برعکس تھے۔ یہ رجحان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارتی کھیل کے ادارے بھی اب حکومتی بیانیے کے ماتحت ہو چکے ہیں، جہاں کھلاڑیوں کی تربیت صرف کھیل کے میدان میں نہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی کی جا رہی ہے کہ وہ کس بیانیے کا حصہ بنیں گے اور کس طرح میڈیا میں پیش آئیں گے۔
اسی ضمن میں یہ بھی اہم ہے کہ بھارت کے کئی سابق کھلاڑی، جنھوں نے کبھی کھیل کی خدمت میں زندگیاں صرف کیں، اب خاموش تماشائی بن چکے ہیں یا بی جے پی کے ترجمان بن گئے ہیں۔ وہ میدان کے باہر بیٹھ کر نہ صرف نفرت کو ہوا دیتے ہیں بلکہ اپنے بیانات سے اس بیانیے کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف جیت محض ایک اسپورٹس فتح نہیں، بلکہ قومی غیرت، وقار اور برتری کا معاملہ ہے۔ یہ رجحان مستقبل میں کرکٹ کے بین الاقوامی تعلقات کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے، کیونکہ جب کھیل میں سیاست غالب آ جائے تو فیئر پلے، مساوات اور اسپورٹس مین شپ جیسے اصول ختم ہو جاتے ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ عالمی ادارے اور کھیلوں کی تنظیمیں اس بیانیے کا نوٹس لیں جو کھیل کے تقدس کو پامال کر رہا ہے۔ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جائے، اسے سیاسی یا عسکری مفادات کا ایندھن نہ بنایا جائے۔ کیونکہ جب ایک قوم اپنے جذبات کو کھیل میں چھپے جنگی بیانیے سے جوڑتی ہے، تو پھر وہ نہ خود سکون میں رہتی ہے، نہ اپنے ہمسایوں کو سکون سے جینے دیتی ہے۔ کھیل، فتح اور شکست کے جذباتی لمحے اپنی جگہ، مگر جب اس کا استعمال تعصب، نفرت اور سیاسی بالادستی کے لیے ہو، تو یہ صرف کھیل نہیں رہتا، یہ ایک سوچنے والوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
ہمیں سوچنا ہو گا کہ کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کھیل کے ذریعے جوڑنا چاہتے ہیں یا توڑنا؟ کیا ہم کرکٹ کو دوستی، بھائی چارے اور امن کا نشان بنانا چاہتے ہیں یا اسے جنگی مشین میں تبدیل کر کے اپنے ہی خطے کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں؟ آج اگر خاموشی اختیار کی گئی، تو کل کھیل کے میدان بارود کے میدان بن جائیں گے، اور جب کھیل نفرت کا ذریعہ بن جائے تو پھر امن کی امید محض ایک سراب بن جاتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دوسری جانب بھارت بھارتی ٹیم کے درمیان نہیں بلکہ ہیں بلکہ کے میدان ایشیا کپ کہ بھارت اور کھیل نہیں کیا بھارت کے میں کھیل ممالک کے کھیل کی کھیل کے محض ایک کرتا ہے جو کھیل کرکٹ کو کو کھیل کے ساتھ جائے تو کھیل کو سے کھیل رہا ہے تو پھر کو بھی کپ میں کے لیے
پڑھیں:
ٹرافی تنازع پر بھارت کی برہمی، اے سی سی صدر محسن نقوی کو سازش کا نشانہ بنایا جانے لگا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور: ایشین چیمپئن بننے کے باوجود ٹرافی نہ ملنے پر بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) شدید برہمی کا شکار ہوگیا ہے اور اس معاملے پر ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے اندرونی اختلافات مزید گہرے ہوگئے ہیں۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ بی سی سی آئی کی جانب سے اے سی سی کے صدر اور چیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) محسن نقوی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایشین کرکٹ کونسل دو واضح گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک میں سے گلا دیش پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے، جبکہ سری لنکا بھارت کی حمایت کر رہا ہے۔ افغانستان کی پوزیشن غیر یقینی ہے جو کبھی پاکستان کے ساتھ دکھائی دیتا ہے اور کبھی بھارت کی طرف جھکاؤ اختیار کرلیتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ اور ایشین کرکٹ کونسل کے صدر محسن نقوی نے بھارتی میڈیا کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر بھارتی کپتان کو دفتر آکر ایشیا کپ کی ٹرافی وصول کرنے کی دعوت دی تھی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری اپنے بیان میں محسن نقوی نے کہا کہ میں نے نہ کوئی غلط کام کیا، نہ ہی بھارتی کرکٹ بورڈ سے معافی مانگی ہے اور نہ ہی کبھی بی سی سی آئی سے معافی مانگوں گا۔ یہ سب بھارتی میڈیا کی من گھڑت اور جھوٹی خبریں ہیں۔
محس نقوی کا مزید کہنا تھا کہ ایشین کرکٹ کونسل کے صدر کی حیثیت سے وہ ابتدا ہی سے چاہتے تھے کہ ٹرافی بھارتی ٹیم کو دے دی جائے، لیکن اب بھی اگر بھارتی کپتان چاہیں تو وہ ان کے دفتر آکر ٹرافی وصول کر سکتے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ میں آج بھی اسی عزت اور وقار کے ساتھ ٹرافی دینے کے لیے تیار ہوں، شرط صرف یہ ہے کہ بھارتی کپتان خود اے سی سی کےدفتر آئیں اور اسے لیں، میں انھیں خوش آمدید کہوں گا۔
ویب ڈیسک
دانیال عدنان