پاک افغان انگور اڈہ بارڈر 2 سال بعد کھول دیا گیا،گاڑیوں کی آمدورفت شروع
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
ویب ڈیسک :جنوبی وزیرستان کی تحصیل برمل میں 2 سال سے بند انگور اڈہ بارڈر کو کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے کھول دیا گیا۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق آج یکم اکتوبر سے پاکستان اور افغانستان دونوں جانب سے تجارتی گاڑیوں کی آمد و رفت شروع ہو جائے گی۔
بارڈر کے دوبارہ کھولے جانے کے موقع پر ایک پُروقار افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈپٹی کمشنر، رکن قومی اسمبلی، سول و عسکری حکام سمیت قبائلی عمائدین، علماء کرام اور اسکولوں کے بچوں نے شرکت کی۔
’’اپنے ہتھیار ہمارے حوالے کر دو‘‘
اس موقع پر تاجر برادری کا کہنا تھا کہ انگور اڈہ بارڈر کے دوبارہ کھلنے سے معیشت بہتر ہو گی، لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
انگور اڈہ بارڈر کی بندش کے باعث تاجروں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا، اب معاشی بدحالی کی روک تھام میں مدد ملے گی۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: انگور اڈہ بارڈر
پڑھیں:
بون میں افغانستان قونصل خانے کے عملے نے استعفیٰ کیوں دیا؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) بون میں واقع افغانستان کے قونصل خانے کے عملے نے جرمنی کی جانب سے طالبان حکومت کے مقرر کردہ دو نمائندوں کو منظوری دینے کے اقدام کو جرمنی میں مقیم افغان شہریوں کی حساس معلومات کے لیے خطرہ قرار دیا۔
ابھی تک صرف روس نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے، جس نے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالا تھا، جب امریکی قیادت میں افواج نے 20 سالہ جنگ کے بعد افغانستان سے افراتفری میں انخلاء کیا۔
تاہم، جولائی میں جرمنی کی جانب سے دو سفارت کاروں کو منظوری دینا دوطرفہ تعلقات میں ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔
جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن کورنیلیئس نے اس وقت کہا تھا کہ یہ تقرری افغان حکام کے ساتھ مجرم افغان شہریوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے سے متعلق مذاکرات کے بعد ہوئی۔
(جاری ہے)
یہ ملک بدریاں اگست 2024 سے دوبارہ شروع ہوئیں۔
ان نئے نمائندوں کو آئندہ ملک بدری کی پروازوں کی ہم آہنگی میں مدد دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، کیونکہ جرمنی تارکین وطن پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔
جرمنی میں تارکین وطن ایک ایسا سیاسی موضوع ہے جس نے بہت سے ووٹرز کو انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت پر مجبور کیا ہے۔
اجتماعی استعفے کا اعلانبون میں افغان قونصل خانے کے قائم مقام قونصل، حامد ننگیالے کبیری، نے قونصل خانے کی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو میں عملے کے اجتماعی استعفے کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا، ''طالبان کی غیر قانونی حیثیت اور افغان عوام کے بنیادی حقوق کی وسیع خلاف ورزیوں کے پیشِ نظر، یہ فیصلہ ناقابل قبول ہے اور شہریوں کے حساس دستاویزات اور معلومات کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
‘‘انہوں نے کہا کہ تمام دستاویزات، سامان اور دیگر اثاثے جرمن وزارتِ خارجہ کے حوالے کر دیے جائیں گے۔
کبیری نے مزید کہا، ''ہم پرامید ہیں کہ جلد ایک آزاد افغانستان دیکھنے کو ملے گا، جو قانون کی حکمرانی کے تحت ہوگا اور عوام کی مرضی سے ابھرے گا۔‘‘
جرمنی کا ردعملجرمن وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے رائے دینے سے انکار کیا، جبکہ برلن میں افغان سفارت خانے سے بھی فوری طور پر رابطہ نہیں ہو سکا۔
جرمنی میں تقریباً 4 لاکھ 42 ہزار افغان شہری مقیم ہیں، جہاں حال ہی تک تارکینِ وطن کے لیے نسبتاً کھلا دروازہ اور وسیع پناہ گزین ڈھانچہ موجود رہا ہے۔
روس نے جولائی میں طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم کیا، جو طالبان انتظامیہ کے لیے اپنی عالمی تنہائی کو کم کرنے کی ایک اہم پیش رفت تھی۔
چین، متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور پاکستان پہلے ہی کابل کے لیے سفیروں کا تقرر کر چکے ہیں، جو طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کیے جانے کی طرف ایک قدم ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین