اسلام آباد : سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ واحدٹرمپ ہی ہے جو اس بدمعاش نیتن یاہو کو لگام ڈال سکتا ہے کیونکہ ٹرمپ ہی اسے فیس سیونگ دے رہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سینیٹر مشاہد حسین سید نےنجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ واحد ڈونلڈ ٹرمپ ہی وہ شخص ہیں جو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو لگام ڈال سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کل 7 اکتوبر کو غزہ جنگ کو دو سال مکمل ہوجائیں گے، نیتن یاہو نے جنگ کے آغاز پر اعلان کیا تھا کہ وہ حماس کو ختم کر دے گا، مگر آج حالات یہ ہیں کہ وہ اسی حماس سے مذاکرات کر رہا ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ اگر غزہ میں جنگ بندی ہو جاتی ہے تو نسل کشی اور قبضے کی پالیسی کا خاتمہ ممکن ہوگا، اور غزہ کے بھوکے پیاسے فلسطینیوں کو امداد کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ مغربی ممالک کے عوام بڑی تعداد میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں اور اب مغربی دنیا میں اسرائیل کی حمایت مخالفت میں تبدیل ہو رہی ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے حماس کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وہ آج بھی قائم و دائم ہے، فلسطینی ریاست کےقیام سےامن ممکن ہے، مسلم ممالک بھرپور مدد کریں گے، غزہ میں اسلامی ممالک کی افواج کی تعیناتی اہم ہے اس سے فائدہ ہوگا ، غزہ میں اسلامی ممالک کی افواج اپنےفلسطینی بھائیوں کی حفاظت کرے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نیتن یاہو پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، وہ ماضی میں بھی کئی معاہدے توڑ چکے ہیں، نیتن یاہو کو اگر کوئی قابو میں رکھ سکتا ہے تو وہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ ہیں، کیونکہ ٹرمپ کے بغیر نیتن یاہو کچھ نہیں، اور آج بھی ٹرمپ ہی اسے فیس سیونگ دے رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سینیٹر مشاہد حسین نیتن یاہو کو ٹرمپ ہی

پڑھیں:

آئینی عدالتیں اور پاکستان کے عدالتی نظام کا نیا موڑ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251120-03-3

لکیر پیٹنے ’’کا مطلب ہے تجدّد (Innovation) اور تبدیلی کی مخالفت کرنا۔ یہ ایک ایسے شخص یا رویے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو تخلیقی صلاحیتوں سے عاری ہو اور ماضی میں اٹکا رہے۔ اس لیے یہ محاورہ ترقی اور بہتری کے راستے میں رکاوٹ کو ظاہر کرتا ہے۔ اب جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا۔ یہ زمینی حقائق ہیں کہ پاکستان میں ایک آئینی عدالت بن چکی ہے جس کے چیف جسٹس کا حلف جسٹس امین الدین خان نے اٹھا لیا ہے۔ اب ہم آگے بڑھتے ہیں اور اس کی کچھ دنیا کے دیگر ممالک سے تقابلی اور تاریخی جائزہ لیتے ہیں۔ اب پاکستان بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہو چکا ہے جہاں عدالت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ ایک مستقل آئینی عدالت قائم کی گئی ہے۔ یہ فیصلہ بظاہر عدالتی نظام میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ پاکستان میں آئینی عدالت کے قیام کا سب سے بڑا فائدہ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ آئینی مقدمات تیزی سے نمٹ سکیں گے۔ عدالت عظمیٰ کے سامنے پہلے ہی اپیلوں، سروس کیسز، کرمنل اپیلوں اور متعدد انتظامی امور کا بوجھ ہے۔ ایسے میں آئینی تشریحات، سیاسی تنازعات اور بنیادی حقوق سے متعلق درخواستیں اکثر طویل عرصے تک زیرِ التوا رہتی ہیں۔ نئے ماڈل سے توقع کی جا رہی ہے کہ آئینی نوعیت کے معاملات اب ایک تخصصی فورم پر زیادہ جلد اور زیادہ توجہ کے ساتھ سنے جائیں گے۔

دنیا کی پہلی آئینی عدالت: اگرچہ امریکا کی عدالت عظمیٰ نے 1803 میں تاریخی مقدمہ Marbury v. Madison کے ذریعے Judicial Review کا تصور دیا اور آئین کی تشریح کا اختیار حاصل کیا، مگر اس کے باوجود امریکا میں الگ آئینی عدالت قائم نہیں کی گئی۔ دنیا کی پہلی مکمل طور پر علٰیحدہ آئینی عدالت کا قیام آسٹریا میں 1920 میں ہوا، جس کے معمار مشہور قانونی فلسفی ہانس کیلسن تھے۔ یہی ماڈل بعد میں یورپ، مشرقی یورپ، افریقا اور لاطینی امریکا میں پھیل گیا۔

یورپ میں دوسری بڑی مثال جرمنی کی 1949 میں قائم ہونے والی آئینی عدالت ہے جو آج دنیا کی سب سے طاقتور آئینی عدالت کہلاتی ہے۔ اس وقت دنیا کے 80 سے زائد ممالک میں آئین کی تشریح کے لیے علٰیحدہ عدالت یا ٹریبونل قائم ہے۔ یورپ تقریباً مکمل طور پر اسی ماڈل پر منتقل ہو چکا ہے۔ افریقا میں جنوبی افریقا، مصر، مراکش، الجزائر، تیونس اور ایتھوپیا نمایاں مثالیں ہیں۔ لاطینی امریکا میں برازیل، میکسیکو، کولمبیا، چلی، پیرو اور بولیویا اس نظام پر چل رہے ہیں۔ ایشیا میں جنوبی کوریا، منگولیا، انڈونیشیا، نیپال، سری لنکا، افغانستان، ایران اور وسطی ایشیائی ملک بھی اسی طرز پر ہیں۔ ان سب ممالک میں اہم بنیادی اصول ایک ہی ہے: آئین کی تشریح عام عدالتوں کا نہیں بلکہ ایک خصوصی اور مختص ادارے کا کام ہے۔

پاکستان کا قدم: ایک نئی سمت کا آغاز؛ پاکستان میں عرصہ دراز سے عدالت عظمیٰ ہی آئینی و سیاسی نوعیت کے مقدمات سنتی رہی۔ 184(3) کے مقدمات، پارلیمنٹ سے متعلق تنازعات، بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے کیس، الیکشن سے متعلق درخواستیں سب عدالت عظمیٰ کے پاس جمع ہو جاتے تھے۔ اس بھاری بوجھ نے عدالت کے کردار کو حد سے زیادہ سیاسی بنا دیا۔ آئینی عدالتیں بننے کے بعد پاکستان نے وہ راستہ اختیار کیا ہے جس پر جرمنی، اٹلی، اسپین، پرتگال، جنوبی افریقا اور لاطینی امریکا پہلے ہی چل رہے ہیں۔

یعنی؛ پاکستان کی نئی آئینی عدالت: صرف آئین کی تشریح کرے گی۔ وفاق اور صوبوں کے تنازعات کا فیصلہ کرے گی۔ بنیادی حقوق کے مقدمات کا حتمی فورم ہوگی۔ آئینی ترامیم یا بااختیار اداروں سے متعلق تنازعات کا جائزہ لے گی۔ عدالت عظمیٰ کا سیاسی بوجھ کم کرے گی۔ فیصلہ سازی میں تخصص (specialization) پیدا کرے گی۔

عدالت عظمیٰ کا دائرہ: اپیلیں، سول اور کریمنل مقدمات، انتظامی تنازعات، عدالتی نظرثانی، آئینی عدالت کے علاوہ تمام عدالتی نظام کا آخری فورم۔ اس طرح پاکستان کا عدالتی ڈھانچہ دوہرا ہو گیا ہے۔ بالکل ویسا جیسے جرمنی اور اٹلی میں ہے۔ زیادہ تر یورپی ناٹو ممالک میں الگ آئینی عدالتیں موجود ہیں۔

جرمنی: Federal Constitutional Court (1951)

اٹلی: Constitutional Court (1956)

اسپین: Constitutional Court (1978)

پولینڈ: Constitutional Tribunal (1986)

چیک رپبلک: Constitutional Court (1993)

سلواکیہ، ہنگری، کروشیا، سلوینیا، یونان، پرتگال سب میں الگ آئینی عدالتیں ہیں۔ یہ ممالک زیادہ تر یورپی Continental Law Tradition پر چلتے ہیں اس میں عدالت عظمیٰ اور آئینی عدالت الگ ہوتی ہیں۔ پاکستان کی نئی آئینی عدالت ایک تاریخی اقدام ہے، جس سے عدلیہ میں اصلاحات ممکن ہیں اور آئینی مسائل تیز تر حل ہو سکتے ہیں۔ لیکن انتظامیہ کی طرف سے ججوں کے تقرر اور عدالت عظمیٰ کے کردار کی محدودیت اس اقدام کو عالمی معیار کے مطابق چیلنجنگ بناتی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کے تجربات بتاتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی اور شفافیت کے بغیر عدالت کا حقیقی اثر اور اعتماد برقرار رکھنا مشکل ہے۔ پاکستان نے آئینی عدالت کے قیام کے ذریعے عدلیہ میں اصلاحات، سیاسی تنازعات کے تیز حل، اور آئینی تشریح میں تخصص کا ایک موقع حاصل کیا ہے۔

تاہم یہ اقدام انتہائی نازک بھی ہے کیونکہ قانونی، سیاسی اور فوجی اثرات عدالت کی آزادی اور فیصلوں کی شفافیت پر براہِ راست اثر ڈال سکتے ہیں۔

تاریخ یہ فیصلہ کرے گی کہ یہ قدم پاکستان کے عدالتی نظام کو مضبوط کرے گا یا نئے بحرانوں کا آغاز کرے گا۔ پاکستان کے عدالتی اور سیاسی ماہرین، وکلا، اور سول سوسائٹی کی نظر اب اس نئے نظام پر مرکوز ہے، اور آنے والے مہینے اس کے عملی اثرات واضح کریں گے۔

امیر محمد خان کلوڑ سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • واٹس ایپ میں بڑی خامی کی نشان دہی، اربوں صارفین خطرے میں
  • خشک آلوبخارہ دن میں کس وقت کھانا زیادہ مفید ہو سکتا ہے؟ حیران کن فوائد جانیے
  • روس یوکرین جنگ کا واحد حل مذاکرات ہے جنگ نہیں، پاکستان
  • قائداعظم اور علامہ اقبال کو دعائیں دینا چاہییں کہ اس وقت ہم ایک آزاد ملک ہیں، مشاہد حسین
  • امریکہ پر اعتماد ایک تباہ کن غلطی
  • پاکستان 5 برس میں اصلاحات پر عمل کر لے تو جی ڈی پی میں 26 ارب ڈالر اضافہ ہو سکتا ہے: آئی ایم ایف رپورٹ
  • آئینی عدالتیں اور پاکستان کے عدالتی نظام کا نیا موڑ
  • امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کو اہم نان نیٹو اتحادی قرار دے دیا
  • چربی والے جگر کی وہ خطرناک علامات جنہیں ہرگز نظرانداز نہ کریں
  • بھارتی آرمی چیف کا بیان نظرانداز نہیں کر سکتے، بھارت حملہ کر سکتا ہے: خواجہ آصف