data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (اسٹاف رپورٹر)ملی یکجہتی کونسل سندھ کے تحت ادارہ نورحق میں کونسل کے مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ کی زیر صدارت منعقدہ’’ یکجہتی فلسطین‘‘ سیمینار میںمقررین نے مسلم حکمرانوں پر زور دیا ہے کہ وہ ٹرمپ کے نام نہاد امن معاہدے کے نام پر ٹریپ ہونے کے بجائے غزہ کے مظلوم مسلمانوں اور حماس کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور 2 سال سے جاری جارحیت و دہشت گردی اور انسانیت سوز مظالم پر امریکا و اسرائیل کی مذمت کریں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کے دل اہل غزہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں غزہ کے مظلوموں کے حق میں احتجاج نے سب کی آنکھیں کھول دیں ہیں۔2 ریاستی حل گریٹر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا اورپھرکشمیر سے بھی دستبردارہونا پڑے گا۔ فلسطین فلسطینیوں کا ہے، ریاست صرف ایک آزاد فلسطین ہے۔طوفان الاقصیٰ کامیاب اور حماس بیانیہ کی جنگ بھی جیت چکی ہے جس کے اثرات آج پوری دنیا میں نظر آنے لگے ہیں۔قوم اسرائیل کو کبھی تسلیم کرنے نہیں دے گی۔سیمینار سے کونسل کے صوبائی صدراسداللہ بھٹو،علامہ قاضی احمد نورانی ، علامہ ناظرعباس تقوی،مفتی اعجازمصطفی،ڈاکٹر صابر ابومریم ،مسلم پرویز،محمد حسین محنتی ،مولانا صادق جعفری،مولانا عبدالوحید اخوانی ،علامہ اصغرحسین شہیدی ،مہدی اسحاق،شیخ سجاد حسین حاتمی ،مولانا عبدالماجد فاروقی نے بھی خطاب کیا ۔ لیاقت بلوچ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ کیمپ ڈیوڈ، ابراہم اکاررڈ سے لے کر ٹرمپ کا 20 نکاتی امن معاہدہ اسرائیل کا ناجائز وجود تسلیم کرانے کی کوشش ہے،اسرائیل ایک ناسور ہے، یہ جب تک قائم رہے گا اس وقت تک دنیا میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ بانی پاکستان نے اس کو امریکا کا ناجائز بچہ قرار دیا تھا۔ قطر پر حملے سے واضح ہوگیا ہے کہ امریکا کسی کا دوست نہیں ہے وہ صرف اپنے مفادات اورخواہشات کا اسیر ہے۔لاہورکراچی میں تاریخی مارچ اورارض فلسطین میں شہادتوں سے امت میں بیداری کی ایک لہر پیدا ہوگئی ہے۔اسرائیل سمجھتا تھا کہ وہ امریکا وبرطانیہ کی سرپرستی اوراسلحہ وگولہ بارود کی طاقت سے سب کچھ مٹاکر اپنا قبضہ مستحکم کرے گا مگر حماس کے شاہینوں اورفلسطینی عوام کی قربانیوں سے وہ ناکام ہوگیا اب وہ ٹرمپ کے ذریعے خود کو دلدل سے نکالنے کی بھیک مانگ رہا ہے۔مسلم حکمرانوں کو حماس وحزب اللہ اوراخوان المسلمون سے خوف کھانے کے بجائے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔9اکتوبر لاہور اور14اکتوبر کواسلام آباد میں’’ یکجہتی فلسطین ‘‘سمینار کا انعقاد کیا جائے گا۔انہوں نے علما کرام سے اپیل کی کہ وہ جمعہ 10 اکتوبر کو منبرومحراب کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو اُجاگر اورغزہ میں انسانیت کے قتل عام پر مذمتی قراردادیں منظور کرائیں۔ کونسل کے صوبائی صدراسداللہ بھٹو نے کہاکہ مسلم وغیر مسلم پوری دنیا کے عوام یکجہتی ٔ فلسطین کر رہے ہیں۔مسلم حکمرانوں پراپنے عوام کا بڑا دباؤ ہے مگر وہ امریکا واسرائیل سے ڈرتے ہیں۔ان شاء اللہ عوام کی جدوجہد ضرور کامیاب ہوگی۔علامہ قاضی احمد نورانی نے کہاکہ ملی یکجہتی کونسل گلدستہ ہے جس نے امت کے ہرمسئلے پرآواز اٹھائی ہے۔طوفان الاقصیٰ کے بعد غزہ پر سفاکی اور درندگی کے2سال مکمل ہونے کے باوجود اقوام متحدہ سمیت عالمی ضمیر نیتن یاہو کو ناک میں نکیل ڈالنے میں ناکام رہے۔ علامہ ناظرعباس تقوی نے کہاکہ حماس مسئلہ فلسطین کو اُجاگرکرنے میں کامیاب اوراسرائیل ناکامی کے راستے پر ہے اب وہ اپنی بقا کے لیے سہارے تلاش کر رہا ہے۔پورا یورپ لاکھوں کی تعداد میں غزہ میں ظلم کے خلاف اورفلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہا ہے۔مفتی اعجازمصطفی نے کہاکہ صہیونیت کے منصوبے گریٹراسرائیل میں خانہ کعبہ بھی شامل ہے۔2ریاستی حل کا مطلب ہی گریٹر اسرائل کا راستہ ہموار کرنا ہے۔مسلم حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں۔ڈاکٹر صابر ابومریم نے کہاکہ طوفان الاقصیٰ نے پوری دنیا کو مسئلہ فلسطین کے حق میں کھڑا کردیا ہے جو حماس کے بیانیے کی جیت ہے۔مسلم پرویز نے کہاکہ مزاحمت میں ہی زندگی ہے جہاد ہی عزیمت کا راستہ ہے فلسطینی عوام کی جدوجہد ضرور ایک دن رنگ لائے گی۔محمد حسین محنتی نے کہاکہ جہاد مومن کی معراج ہے حق وباطل کے معرکہ غزہ سے ظالم ومظلوم کا فرق دنیا کے سامنے آگیا ہے۔مولانا صادق جعفری نے کہاکہ کراچی میںجماعت اسلامی کا غزہ مارچ قابل تحسین اورسابق سینٹر مشتاق احمد خان کے ایمانی جذبہ قابل قدر ہے۔مولانا عبدالوحید اخوانی نے کہاکہ فلسطین کے حوالے سے پوری امت متحد ہے۔جنگی جرائم کے مرتکب نیتن یاہو نے غزہ کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا ہے لیکن قحط ،پیاس اور بھوک کے باوجود سرفروشوں کا جذبہ جہاد ختم نہیں کرسکا ہے اب وہ اپنی ناکامی کی خفت مٹانے کے لیے ٹرمپ کے ذریعے امن معاہدے کی باتیں کر رہا ہے۔علامہ اصغرحسین شہیدی نے کہاکہ مسلم حکمران غیروں کی غلامی کے بجائے اپنی تمام پالیسیاں عوام کے جذبات کے مطابق بنائیں۔مہدی اسحاق نے کہاکہ صہیونیوں نے فرعون سے بھی بڑھ کر غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم کیا ہے،مسلم حکمرانوں کی خاموشی بے حمیتی وبے حسی کی انتہا ہے۔شیخ سجاد حسین حاتمی نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ خون ناحق پرعالمی ضمیر کی خاموشی شرمناک ہے۔غزہ کے مظلوموں کا ساتھ دینے والے مشتاق احمد خان پاکستانی ہیرو اورایران کا کردار بھی قابل تعریف ہے۔مولانا عبدالماجد فاروقی نے کہاکہ ہرکامیابی قربانی مانگتی ہے۔75ہزار شہدا کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔

کراچی : مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ ملی یکجہتی کونسل سندھ کے تحت ادارہ نورحق میں یکجہتی فلسطین سیمینار سے خطاب کررہے ہیں

اسٹاف رپورٹر سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ملی یکجہتی کونسل پوری دنیا نے کہاکہ ہے مسلم رہا ہے غزہ کے

پڑھیں:

ٹرمپ، نیتن یاہو اور مسلم دنیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251009-03-2
یہ بات پہلے بھی کہی جاتی رہی ہے کہ مسلم دنیا اور بالخصوص عرب ممالک کا بڑا سیاسی انحصار امریکا پر رہا ہے اور عرب دنیا کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے دفاع میں امریکا بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا میں امریکا کی مخالفت اور مسلم حکمرانوں میں امریکا سے محبت دیکھنے کو ملتی ہے۔ امریکا کی جانب سے فلسطین، غزہ اور اسرائیل کے تناظر میں پیش کردہ اکیس نکاتی امن معاہدہ بنیادی طور پر ایسا لگتا ہے کہ مسلم دنیا امریکا اور اسرائیل کے ہاتھوں سیاسی طور پر ٹریپ ہوئی ہے۔ یہ امن معاہدہ مسلم ممالک ومسلم حکمرانوں کے ساتھ ایک سنگین مذاق لگتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے بقول یہ امن معاہدہ وہ نہیں ہے جو چھے اسلامی ممالک کے سربراہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے پیش کیا تھا۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے بقول پیش کردہ معاہدے میں ایسی ترامیم کی گئی ہیں جو ہمیں قبول نہیں۔ جبکہ امریکی صدر کا موقف ہے کہ اسی معاہدے پر اسلامی ممالک کے سربراہوں نے دستخط کیے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی امریکا نے چھے اسلامی ممالک کے سربراہان کی ملاقات میں طے ہونے والے امن معاہدے سے انحراف کیا یا اس میں ان کو اعتماد میں لیے بغیر تبدیلیاں کی گئی ہیں تو اس پر پاکستان سمیت ان اسلامی ممالک کے سربراہان نے امریکا کے ساتھ بھرپور احتجاج کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا کہ ہمیں اعتماد میں لیے بغیر اس معاہدے میں تبدیلی کرکے امریکا نے اعتماد سازی کو نقصان پہنچایا۔ اس کے برعکس ماشاء اللہ مسلم حکمران بشمول پاکستان امریکا اور ٹرمپ کی حمایت میں پیش پیش ہیں اور پاکستان نے تو ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے بھی نامزد کیا ہے۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ امریکا مسلم ممالک کے لیے مثبت جذبات رکھتا ہے اور غزہ میں امن لانا اس کی اہم ترجیحات کا حصہ ہے۔ اس امن معاہدے پر اسلام آباد اور لاہور میں بڑے بڑے پوسٹرز پر پاکستان کے حکمران اور سیاسی طاقت ور شخصیات نے ٹرمپ کی تصاویر لگا کر امریکا سے محبت کا بھرپور ثبوت دیا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ مسلم حکمرانوں امریکا پر کس حد تک سیاسی انحصار کرتے ہیں۔ انہی مسلم حکمرانوں بشمول پاکستان نے غزہ میں ہونے والے اسرائیلی مظالم پر ایک لفظ کی مذمت بھی امریکا کی طرف سے نہیں کہلوائی بلکہ امریکا کے بقول اگر اس امن معاہدے کو حماس نے قبول نہ کیا تو وہ ہر صورت میں اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ امن معاہدہ بنیادی طور پر امریکا اور اسرائیل کا باہمی گٹھ جوڑ ہے اور اس میں ان دونوں ملکوں کا اپنا ایجنڈا بشمول گریٹر اسرائیل اور مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔ یہ کیسا معاہدہ ہے جس میں فلسطین کا کنٹرول امریکا کی سرپرستی میں چلے گا اور جب امریکا کہا جاتا ہے تو ہمیں امریکا اور اسرائیل کے باہمی تعلق کو بنیاد بنا کر حالات کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ اسرائیل کے غزہ سے مکمل انخلا پر یہ معاہدہ خاموش ہے اور حماس نے اس معاہدے کی چند بڑی شرائط کو تسلیم کرکے اس کی حمایت ضرور کی ہے لیکن حماس نے کمال ہوشیاری سے امریکا کے اس معاہدے کی حمایت کرکے اس تاثر کی نفی کردی کہ حماس مسائل کا حل بات چیت سے کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ لیکن حماس نے ایک طرف اس معاہدے کی حمایت کی ہے تو دوسری طرف کھل کر غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا اور دوسری جانب فلسطین کا کنٹرول کسی غیر ملکی قوت کے مقابلے میں فلسطین کی نامزدہ کردہ کمیٹی کے سپرد کرنے کا اعلان کیا ہے جو یقینی طور پر امریکا کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ اگرچہ اس امن معاہدے کے باوجود ابھی تک اسرائیلی فوج غزہ پر مسلسل حملے کررہی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ امن کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہیں۔ دوسری جانب یہ خبریں بھی چل رہی ہیں کہ مسلم ممالک پر بڑا دبائو ہے کہ وہ اسرائیل کو قبول کریں اور پاکستان میں کچھ لوگ اسرائیل کی حمایت میں سامنے بھی آگئے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے تو ہمارے پاس بھی اس کو قبول کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ یہ خبریں بھی موجود ہیں کہ اس امن معاہدہ میں مسلم ممالک کے حکمرانوں کے بغیر جو تبدیلیاں کی گئی ہیں اس میں اسرائیل کے نقاط کو اہمیت دی گئی اور اسی بنیاد پر امن معاہدے میں ترمیم سامنے آئی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو مسلم حکمرانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امریکا مسلم دنیا کے ساتھ نہیں بلکہ اسرائیل کے ساتھ کل بھی کھڑا تھا اور آج بھی کھڑا ہے۔ یہ جو اسرائیلی وزیر اعظم نے قطر کے سربراہ سے قطر پر حملے کی معافی مانگی ہے یہ بھی امریکی صدر کی مسلم ممالک کے حکمرانوں کی حمایت کے حصول کی حکمت عملی نظر آتی ہے۔ مسلم دنیا یہ سوال کیونکر امریکا سے نہیں پوچھ رہی کہ کیوں اسرائیل کے ایما پر امن معاہدے میں ردوبدل کیا گیا اور کیونکر اس امن معاہدہ کے اعلان سے قبل فلسطینی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس امن معاہدے سے امریکا اور اسرائیل کے سیاسی مقاصد مسلم دنیا سے مختلف ہیں اور اس کو چھپایا جارہا ہے۔ ایک طرف حماس کو غیر مسلح کرنا امریکا کی ترجیحات کا حصہ ہے تو دوسری طرف ایک بے لگام گھوڑے کی طرح اسرائیل کو سب کچھ کرنے اور غزہ میں مظالم ڈھانے کی مکمل آزادی ہے اور اس پر مسلم دنیا کی خاموشی مجرمانہ غفلت یا ذاتی مفادات کی سیاست سے جڑی نظر آتی ہے۔ اگر حماس اور الفتح اس امن منصوبے کو مکمل طور پر قبول نہیں کرتے تو پھر اس امن معاہدے کی کیا حیثیت باقی رہ جائے گی اور قبول نہ کرنے کی صورت میں امریکا کی جانب سے کھلم کھلا دھمکی کو مسلم ممالک نے کیونکر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور اگر اسی طرز پر امریکا کی دھمکیاں چلنی ہیں تو پھر اس امن معاہدے کی کامیابی کی کوئی ضمانت نظر نہیں آتی۔ یہ جو مسلم دنیا میں امریکا کے لیے اندھی محبت میں مزید شدت آئی ہے اس کا یقینا تجزیہ ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ کیونکر ہورہا ہے اور کن شرائط پر ہورہا ہے اور اس سارے عمل سے مسلم ممالک اور بالخصوص غزہ میں ہونے والے اہم اقدامات سے مسلم دنیا کو کیا فائدہ ہوگا۔ اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا امریکا حماس کے اس مطالبے کو تسلیم کرے گا کہ غزہ کا انتظام فلسطینی کمیٹی کو دیا جائے اور کیا اسرائیل اس فیصلے پر امریکا کے ساتھ کھڑا ہوگا اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم اس معاہدے کے لیے پھر کہاں کھڑے ہوں گے۔ یہ بھی لگتا ہے کہ خود حماس کو اندازہ ہے کہ ان تمام معاملات میں خود امریکا کس حد تک سنجیدہ ہے لیکن اس نے مذاکرات کے نام پر امریکا کو بات چیت کے عمل میں شامل کرکے خاصہ وقت لیا ہے جو خود حماس کے حق میں ہوگا۔ مسلم ممالک جو بھی فیصلہ کریں اسے ایک بڑے تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ مسلم دنیا میں امریکا سمیت ان بڑی طاقتوں کے خلاف جو تحفظات پائے جاتے ہیں ان کا اظہار بھی اس طرز کے امن معاہدے میں سامنے آنا چاہیے۔ مسلم ممالک کے سربراہ ضرور امریکا کے ساتھ کھڑے ہوں مگر ان کے سامنے اصل ترجیح مسلم دنیا کے مفادات اور امن کی مکمل ضمانت کے ساتھ مشروط ہونا چاہیے وگرنہ اس طرز کے امن معاہدے سے مسلم دنیا میں جہاں امریکا کے خلاف ردعمل ہوگا وہیں مسلم حکمرانوں کے خلاف بھی اس کا ردعمل دیکھا جائے گا۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ، نیتن یاہو اور مسلم دنیا
  • قابض رجیم کا اصل چہرہ پوری دنیا کے سامنے عیاں ہو چکا ہے، علامہ علی حسنین
  • کراچی، تحریک بیداری امت کے تحت عالمی یومِ طوفانِ الاقصیٰ پر یکجہتی غزہ مارچ کا انعقاد
  • ملی یکجہتی کونسل سندھ کے زیرِ اہتمام یکجہتی فلسطین سیمینار
  • فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی، حیدرآباد میں تجدیدِ عہد و یومِ مقاومت
  • اسرائیلی جارحیت کے 2 برس ، جماعت اسلامی کے صہیونی مظالم کیخلاف ملک گیر احتجاج و مظاہرے ‘اہل غزہ اور حماس سے اظہار یکجہتی
  • غزہ جنگ کے 2 سال مکمل، یورپ سمیت دنیا بھر میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی، مارچ، ریلیاں، مظاہرے
  • بھارت نے دوبارہ حرکت کی تو پہلے سے زیادہ رسوا ہوگا‘ خواجہ آصف
  • جماعت اسلامی کراچی کا غزہ مارچ، لاکھوں عوام شریک، حافظ نعیم کا خطاب