ہندوستان ایک زخمی لومڑی کی طرح پلٹا کھا رہا ہے؛ احسن اقبال
اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT
سٹی 42: وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا افغانستان کے وزیر خارجہ کا دورہ بھارت؛ سرحدپر حملہ ؛مذہبی جماعت کالانگ مارچ: کڑیاں ملائیں تو بچہ بھی سمجھ سکتاہے کس کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں ۔
شکرگڑھ میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے نورکوٹ میں کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ایک زخمی لومڑی کی طرح پلٹا کھا رہا ہے ۔بھارت جو چالیں چلتا رہا پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے معرکہ حق نے اس کا میک اپ دنیا کے سامنے اتار دیا .
قبائلی عوام نےافغانستان کے حمایت یافتہ دہشتگردوں کیخلاف ہتھیار اٹھانے کا اعلان کردیا
بھارت کوجب شکست ہوئی تو اس نے پاکستان کے اندر سے بد امنی پیدا کرنے کے لیے اپنے سہولت کاروں کو سرگرم کر دیا اورتحریک طالبان پاکستان جو کہ پاکستان میں دہشت گردی کر رہی ہے جن کو عمران خان کی حکومت نے لا کر پاکستان میں دوبارہ بسایا تھا آج ان کے خلاف بھی ہماری مسلح افواج دہشت گردی کا بہادری سے مقابلہ کر کے قلعے کما کر رہے ہیں۔آپ کو یہ بھی یاد ہے کہ 2013 کے بعد جو آپریشن ضرب عضب ہوا تھا اس کے نتیجے میں ہم نے ان دہشت گردوں کو پاکستان سے مکمل طور پہ خاتمہ کر کے بھگا دیا تھا اور ملک میں امن قائم ہو گیا تھا لیکن عمران خان کے دور حکومت میں ان لوگوں کو دوبارہ افغانستان سے لا کر پاکستان میں بسایا گیا اور انہوں نے پھر دہشت گردی کا عمل شروع کیا
پاک افغان سرحد پر افغانستان کی بلا اشتعال فائرنگ، سعودی عرب کا اظہارِ تشویش
احسن اقبال نے کہا جیسے ہم نے پہلے انہیں شکست دی تھی ہم پھر ان کو انشاءاللہ تعالی شکست دیں گے اورآپ دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان کے وزیر خارجہ کا بھارت کا جو دورہ ہے اور اس دورے کے نتیجے میں افغانستان کی سرحد سے پاکستان پہ حملہ کرنا اور ایک مذہبی جماعت کا اسی کے ساتھ اسی ٹائمنگ کے ساتھ اپنا لانگ مارچ شروع کر دینا یہ تانے بانے اور یہ ساری کڑیاں ملائی جائیں تو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ کون کروا رہا ہے یہ کس کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ میں سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ دو سال سے غزا کے اندر بمباری ہو رہی تھی تو آپ کے پیٹ میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی تب گھروں میں بیٹھے رہے اب جب غزا کے اندر امن ہو گیا ہے جس میں پاکستان نے مثبت کردار ادا کیا ہے۔آج غزا کے اندر لوگ مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں لوگ اپنے گھروں میں جا رہے ہیں لوگ خوشیوں کے ساتھ اپنی دوبارہ گھروں کی تعمیر کر رہے ہیں اور حماس بھی اس امن کے معاہدے کو قبول کر چکی ہے جو کہ وہاں نمائندہ تھی جو کہ وہاں پر جنگ لڑ رہی تھی امن کی تو اپ غزہ کا نام لے کر پاکستان میں بدامنی کر رہے ہیں
فورسز چوکس ہیں،افغانستان کو اینٹ کا جواب پتھر سے دےرہےہیں،محسن نقوی
احسن اقبال نے کہا آپ ماؤں کے بیٹوں کو مروا رہے ہیں چاہے وہ پولیس کے اندر ہوں چاہے و ہ آپ کے کارکن ہوں یہ تشدد کی سیاست اور یہ بدامنی اس موقع پر کہ جب ہندوستان پاکستان میں بدامنی پیدا کرانے کے لیے دہشت گردی کر رہا ہے تو کیا یہ دہشت گردی کے زمرے میں نہیں اتا،ان لوگوں کے چہروں کو پہچانیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے 2018 میں جنرل فیض کے کہنے پر فیض آباد میں دھرنا دیا ان کا ماسٹر تھا یہ جماعت پیداوارجنرل فیض کی اور ان کو 2018 میں بنایا گیا تھا مسلم لیگ ن کا بریلوی مکتبہ ووٹ کا ووٹ کاٹنے کے لیے تاکہ مسلم لیگ ن کو 2018 کے الیکشن میں ہرایا جا سکے۔
فیض اباد میں انہوں نے جو دھرنا دیا اس کا نتیجہ کیا نکلا کہ اس دھرنے کے بعد پاکستان گرے لسٹ کے اندر شامل ہو گیا ہمیشہ انہوں نے وہ کام کیا ہے کہ جس نے پاکستان کے مفاد کو نقصان پہنچایا کوئی تحریک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس اور ان کے حرمت کی ٹھیکداری نہیں ہے۔ ہر مسلمان جس نے کلمہ پڑھا ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت آپ کی ناموس اور اپ کی حرمت کا وہ محافظ ہے اور وہ اس کا چوکیدار ہے کسی ٹھیکیدار کی ضرورت نہیں ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمت اللعالمین ہیں ۔
درجنوں آزاد ارکان اسمبلی کو پشاور کےوزیراعلیٰ ہاؤس میں قید کر دیاگیا
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: احسن اقبال نے پاکستان میں کے ساتھ کے اندر رہے ہیں رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
طالبان خطے اور دنیا کیلئے مسئلہ بن رہے ہیں
اسلام ٹائمز: یورپی یونین کے تمام ممالک، خطے کے تمام ممالک اور اب امریکہ بھی بڑی تعداد میں افغانستانیوں کو نکالنے کی تیاری کر رہا ہے۔ پاکستان میں جلد "کے پی کے" سے بھی بڑی تعداد میں افغانستانیوں کی واپسی شروع ہو جائے گی، جن کو سنبھالنا اور روزگار فراہم کرنا طالبان حکومت کے لیے مشکل تر ہوتا جائے گا۔ افغان طالبان کو دوست بڑھانے چاہیں، مگر افسوس انہوں نے اپنے واحد دوست ملک پاکستان کو دشمن بناکر ٹی ٹی پی کو چنا اور انڈیا سے دوستی کی پینگیں ڈالنا شروع کی ہیں۔ ویسے طالبان قیادت کو ارشد مدنی کا بیان ضرور سنوانا چاہیئے، جس میں وہ شکوہ کر رہے ہیں کہ یہاں مسلمان چانسلر تک نہیں لگ سکتا۔ ہم بنئے کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں، جب وہ ڈز لگائے گا تو تم گھر کا راستہ بھول جاو گے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
پاکستان سمیت خطے کے ممالک کے لیے بڑی خوشی کی خبر تھی کہ امریکہ خطے سے نکل رہا ہے۔ قارئین کرام یہ بات یاد رکھیں کہ کوئی بھی ملک یہ پسند نہیں کرتا کہ دنیا کی کوئی بھی سپر پاور اس کے بارڈر پر بیٹھی ہو۔ امریکہ کا معاملہ اس حوالے سے اور بھی خطرناک ہے کہ وہ اپنا نام نہاد ورلڈ آورڈر رکھتا ہے اور اسے لالچ، دھونس، حقوق اور جب کوئی نہ مانے تو پابندیوں اور جبر یہاں تک کہ حملوں کے ذریعے منوانا چاہتا ہے۔ اس لیے جب امریکہ افغانستان پر حملے کے لیے پر تول رہا تھا تو افغانستان میں اس وقت کی طالبان حکومت کو بہت سمجھایا گیا کہ حکمت سے کام لیں، کچھ لوگوں کے لیے پورے ملک اور خطے کو آگ میں نہ جھونکیں۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو لے کر امریکی رائے عامہ مکمل طور پر تیار کر لی گئی تھی کہ جہاں مرضی حملہ کر لیا جائے، کوئی مقامی مخالفت نہیں ہوگی اور بیرونی مخالفت کی امریکیوں کو پرواہ نہیں تھی۔
عام فہم الفاظ میں یہ طالبان کی اس وقت کی حکومت کی سادگی تھی کہ امریکہ کو خطے میں آنے کا موقع فراہم کیا اور مسلسل بیس سال خطہ جنگ کی آگ میں جھلستا رہا۔ خطے نے تاریخی مزاحمت کی اور امریکہ کو بے آبرو ہو کر خطے سے نکلنا پڑا۔ امریکی افواج کے جانے پر ہر آزادی پسند نے خوشیاں منائیں کہ جان چھوٹ گئی، اب خطے میں امن آئے گا اور جنگ و جدال کے بجائے روابط قائم ہوں گے۔ روس تک سارا خطہ باہم منسلک ہو جائے گا اور اقبال نے جس افغانستان کو ایشیا کا دل کہا تھا، اب وہ وقت آگیا ہے کہ دل درست انداز میں کام کرے اور ایشیاء یورپ و امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کرے۔ آج بھی پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا ٹویٹ ریکارڈ کا حصہ ہے، جس میں انہوں نے امریکہ کے نکلنے پر لکھا تھا: "طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے۔" یہ اس بات کا اعلان تھا کہ پاکستان خطے میں امریکی موجودگی کو پسند نہیں کرتا تھا اور اب دنیا کی سپر پاور کے دعویدار کو جانا پڑ رہا ہے تو اس بات کی علامت ہے کہ اصل طاقت خدا والوں کی ہے۔
خیر جیسے ہی افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوئی، پاکستان میں شدت پسند حملے بڑھ گئے، شروع شروع میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ بھی بارڈر پر چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ پاکستان میں فیصلہ سازوں کا خیال رہا ہے کہ انڈیا ہمیں افغانستان میں الجھانا چاہتا ہے، اس لیے ہم نے ہر صورت میں افغانستان میں اپنی دوست حکومت کو سپورٹ کرنا ہے۔ پوری دنیا پاکستان کو طالبان کا سپورٹر کہہ کر پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیتی تھی، مگر پاکستان اسی خیال سے ڈٹا رہا کہ ہم نے افغانستان میں امریکہ کے لیے زمین گرم کرنی ہے اور وہاں طالبان کی صورت ایک دوست حکومت قائم کرنی ہے۔ ایک بنیادی بات یہ بھی تھی کہ افغان طالبان کا نعرہ وطنیت کی بجائے مذہب تھا، پاکستان کا ریاستی بیانیہ بھی مذہبی ہے، اس لیے خیال یہ تھا کہ ایک مذہبی ریاست کو دوسری مذہبی ریاست سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ مگر ساری امیدیں ٹوٹ گئیں اور سہانے خوابوں پر پانی پھر گیا، جب حملوں کی تعداد دن بدن بڑھنے لگے۔
پھر اچانک ایسا ہوا کہ افغانستان سے ایک آدھ حملہ آور کی بجائے پچاس پچاس، سو سو افراد کی تشکیلیں آنے لگیں۔ حالات تباہی کی طرف جانے لگے۔ پاکستان میں موجود ایسے علمائے کرام جو طالبان کے ہمدرد تھے، انہیں بھجوایا گیا، مگر مسئلہ جوں کا توں رہا، بلکہ آئے دن بڑھتا رہا۔ اب صورتحال یہ ہوگئی کہ پاکستان پر افغانستان کے بڑے عہدیداروں کے قریبی عزیز حملوں میں مارے جانے لگے۔ پاکستانی فیصلہ ساز ادارے اس نتیجے پر پہنچے کہ افغانستان نئے انداز میں پاکستان پر حملہ کرچکا ہے، اس لیے پاکستان نے اس کا جواب دینا شروع کیا، جس سے باقاعدہ جنگ کی صورتحال پیدا ہوگئی، جس میں قطر اور ترکی نے اپنا کردار ادا کیا اور جنگ رک گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وہی خواجہ آصف جو کل تک اس کامیابی کو خدا کی طاقت سے تعبیر کر رہے تھے، اب کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کابل سے کوئی امید نہیں رہی اور جس انداز میں افغان طالبان نے انڈیا کے دورے کیے ہیں اور ہر طرح سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں، جسے نظر انداز کر دیا جائے۔
اب پاک افغان تعلقات کو ریورس گئر لگ چکا ہے، اب تمام تجارتی راستے پاکستان نے یہ کہہ کر بند کر دیئے ہیں کہ خون اور تجارت ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔ اس کے ساتھ لینڈ لاک ممالک کے لیے جس راہ داری کے خواب دیکھے جا رہے تھے، وہ اپنی موت آپ مرتی نظر آرہی ہے۔ افغانستان کا پاکستان پر انحصار ہے اور پاکستان ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرکے بھی افغانستان کو ٹرانزٹ کی سہولت فراہم کر رہا تھا، مگر اب لگتا ہے کہ یہاں بھی کچھ فیصلے دو جمع دو چار کی طرح لے لیے گئے ہیں۔ پاکستان کی ریاست کی پالیسی سافٹ سے ہارڈ سٹیٹ کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، ہر طرح کی مخالفت کرنے والے اور ریاست کو بلیک میل کرکے مطالبات منوانے والوں کے دن جا چکے ہیں۔ افغان طالبان کے آنے سے افغانستانیوں کو جن اچھے دنوں کی امید لگی تھی، اب لگتا ہے کہ طالبان کے دشمن ساز رویئے سے دور جا چکے ہیں۔ پاکستان کی ریاست اور ریاستی ادارے بڑے طاقتور ہیں۔ پاکستان کے لیے افغان بارڈر پر ایک لاکھ مزید فوج تعینات کرنا مشکل ضرور ہے، مگر کر گزریں گے اور فوج میں اتنے اہلکاروں کا اضافہ جلد کر دیا جائے گا۔ ٹیکنالوجی بالخصوص ڈرون ٹیکنالوجی معاملات کو کافی آسان کر رہی ہے۔
دنیا افغان طالبان کے مقابل پاکستان کی پالیسی کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس پر حملے کے بعد تمام افغانوں کے لیے جاری امیگریشن پالیسی بند کر دی ہے۔ لاکھوں وہاں پہنچ جانے والے اور ہزاروں یہاں مقیم اس سے متاثر ہوں گے۔ یورپی یونین کے تمام ممالک، خطے کے تمام ممالک اور اب امریکہ بھی بڑی تعداد میں افغانستانیوں کو نکالنے کی تیاری کر رہا ہے۔ پاکستان میں جلد کے پی کے سے بھی بڑی تعداد میں افغانستانیوں کی واپسی شروع ہو جائے گی، جن کو سنبھالنا اور روزگار فراہم کرنا طالبان حکومت کے لیے مشکل تر ہوتا جائے گا۔ افغان طالبان کو دوست بڑھانے چاہیں، مگر افسوس انہوں نے اپنے واحد دوست ملک پاکستان کو دشمن بناکر ٹی ٹی پی کو چنا اور انڈیا سے دوستی کی پینگیں ڈالنا شروع کی ہیں۔ ویسے طالبان قیادت کو ارشد مدنی کا بیان ضرور سنوانا چاہیئے، جس میں وہ شکوہ کر رہے ہیں کہ یہاں مسلمان چانسلر تک نہیں لگ سکتا۔ ہم بنئے کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں، جب وہ ڈز لگائے گا تو تم گھر کا راستہ بھول جاو گے۔