ہم نے وہ کر دکھایا جو ناممکن سمجھا جا رہا تھا، ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ ایک نئے تاریخی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جو نہ صرف اسرائیل بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک بڑی کامیابی کی علامت ہے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اسرائیل نے وہ تمام اہداف حاصل کر لیے ہیں جو قوت اور استقامت کے بل پر ممکن تھے۔
صدر ٹرمپ نے زور دیا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ میدانِ جنگ میں حاصل کی گئی کامیابیوں کو خطے میں دیرپا امن اور خوشحالی میں بدلا جائے۔ ان کے مطابق یہ عمل پورے مشرق وسطیٰ کے لیے امن کا راستہ کھول سکتا ہے۔
اپنے خطاب میں ٹرمپ نے ایران کے لیے بھی مثبت اشارے دیے اور کہا کہ دوستی اور تعاون کی پیشکش ہمیشہ موجود رہی ہے۔
انہوں نے یرغمالیوں کی بازیابی کو ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے وہ کام کر دکھایا جو کبھی ناممکن سمجھا جاتا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیل حماس جنگ اسرائیلی پارلیمنٹ امریکی صدر امن معاہدہ خطاب ڈونلڈ ٹرمپ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل حماس جنگ اسرائیلی پارلیمنٹ امریکی صدر امن معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ وی نیوز کے لیے
پڑھیں:
اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے میں نیا آپریشن شروع کر دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251127-01-21
غزہ /رملہ /تل ابیب /قاہرہ (مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیلی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی علاقے میں ایک نئی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ فوج اور داخلی سیکورٹی سروس کی مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ یہ کارروائی شمالی سمرہ کے علاقے میں کی جا رہی ہے، جو مغربی کنارے کے ایک حصے کے لیے اسرائیل کا بائبلی حوالہ ہے۔ فوج کے مطابق یہ آپریشن نیا ہے اور جنوری2025ء میں شروع کی گئی کارروائی کا حصہ نہیں ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کا مرکزی ہدف فلسطینی پناہ گزین کیمپ ہیں جہاں مبینہ طور پر مسلح گروہ موجود ہیں۔اکتوبر 2023ء میں غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے مغربی کنارے میں کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ 10 اکتوبر سے غزہ میں جنگ بندی موجود ہے لیکن مغربی کنارے میں مسلسل جھڑپیں جاری ہیں۔فلسطینی وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج یا آبادکاروں کے ہاتھوں ایک ہزار سے زاید فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔غزہ میں شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال نے پہلے سے بے گھر فلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ سیلابی پانی نے ہزاروں خیموں کو ڈبو دیا ہے جس کے باعث مقامی خاندان شدید سردی میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق غزہ کی تقریباً 20 لاکھ آبادی میں سے بڑی تعداد اسرائیلی حملوں کے دوران اپنے گھروں سے محروم ہو چکی ہے۔ بے گھر فلسطینی خاتون ام احمد عوضہ نے کہا کہ سردیوں کا آغاز ہے مگر بارشوں اور سیلاب نے حالات مزید خراب کر دیے ہیں۔ فلسطینی این جی اوز نیٹ ورک کے سربراہ امجد الشوا کے مطابق تقریباً 15 لاکھ بے گھر افراد کے لیے کم از کم 3 لاکھ نئے خیموں کی فوری ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ وہ سرد موسم کے مطابق امداد پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے، تاہم اسرائیلی پابندیوں کے باعث امدادی ٹرکوں کی تعداد محدود ہے۔غزہ کے حکام اور امدادی اداروں کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل ضروری اشیا کو داخل ہونے سے روک رہا ہے ۔ دوسری جانب غزہ وزارت صحت کے مطابق اسرائیل نے15 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کر دیں ہیں۔ گزشتہ روز القسام بریگیڈز اور سلامی جہاد کے عسکری ونگ نے ایک اسرائیلی قیدی کی لاش قابض اسرائیل کے حوالے کردی۔قابض فوج نے تصدیق کی کہ بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے عملے نے یہ لاش وسطی غزہ میں وصول کی۔ قابض اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کے نتیجے میں بدھ کے روز مشرقی خان یونس اور غزہ کے وسطی علاقے میں اسرائیلی فائرنگ کے باعث 3 شہری شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ اس سے قبل ایک فلسطینی شہری اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش کر گیا تھا۔ اسی دوران قابض اسرائیلی طیاروں نے رفح پر بمباری کی اور مشرقی علاقوں پر گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھا۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد و بحالی کی نگران ایجنسی”انروا’’ نے خبردار کیا کہ غزہ کی پٹی میں جبراً بے گھر کیے گئے ہزاروں فلسطینی نئی سرد لہر کے سامنے بے یار و مددگار ہیں جبکہ قابض اسرائیل کی 2 برس سے جاری جنگ کے تباہ کن اثرات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔اسی سلسلے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے خبردار کیا کہ خراب موسم نے لوگوں کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے جبکہ قابض اسرائیل کی پابندیاں نہایت ضروری امداد کی ترسیل اور ریلیف کے کاموں میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ جرمنی کے میکس پلانک انسٹیٹیوٹ برائے ڈیموگرافک ریسرچ MPIDR کی ایک نئی تحقیق میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ غزہ میں قابض اسرائیل کی نسل کشی کے دوران شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ یہ ادارہ یورپ اور عالمی تحقیقاتی مراکز میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ تحقیق کے مطابق سات اکتوبر سنہ 2023ء سے سنہ 2024 کے اختتام تک غزہ میں جنگ کے براہ راست اثرات کے نتیجے میں 78 ہزار 318 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ بدھ کی صبح قابض اسرائیلی فوج نے جنوبی الخلیل میں الرماضین اور الظاہریہ کی بلدات کے درمیان واقع متعدد تجارتی مراکز اور بازرا وحشیانہ کارروائی میں مسمار کرنا شروع کر دیے۔ اس دوران علاقے کو سخت فوجی ناکہ بندی میں جکڑ دیا گیا۔سناد نیوز ایجنسی کے مطابق قابض اسرائیلی مشینری نے الرماضین کے داخلی راستے پر واقع ان دکانوں کو منہدم کر دیا جو ظاہریہ کی طرف جانے والی مرکزی سڑک پر قائم تھیں ۔مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ قاہرہ غزہ کی پٹی میں ابتدائی بحالی اور تعمیر نو کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ اقدام مصر کی ان مسلسل کوششوں کا حصہ ہے جن کا مقصد فلسطینی عوام کی ثابت قدمی کو سہارا دینا اور جنگ کے ہولناک اثرات کا ازالہ کرنا ہے۔ اسلامی تحریک مزاحمت “حماس’’ کے ترجمان حازم قاسم نے یقین دلایا کہ قابض اسرائیل کے ایک فوجی قیدی کی لاش کی حوالگی حماس کی جانب سے قیدیوں کے تبادلے کی فائل کو مکمل طور پر ختم کرنے کے پختہ عزم اور اس کے لیے مسلسل اور کٹھن جدوجہد کا حصہ ہے، حالانکہ اس راہ میں بے شمار رکاوٹیں موجود ہیں۔اپنے بیان میں عازم قاسم نے کہا کہ حماس اس اصولی عہد پر قائم ہے مگر اس کے بدلے میں ثالثوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قابض اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ وہ غزہ کی پٹی پر جنگ بندی کے تقاضوں کو پورا کرے اور اپنی مسلسل خلاف ورزیوں کو روکے۔