Jasarat News:
2025-11-28@15:40:23 GMT

سرحد پار سے شرپسندی اور پاکستان کا دوٹوک جواب

اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT

سرحد پار سے شرپسندی اور پاکستان کا دوٹوک جواب

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

افغان فورسز کی جانب سے پاکستان کے سرحدی علاقوں پر حالیہ بلااشتعال فائرنگ نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کو کب تک پاکستانی حدود میں شرپسندی کی اجازت دیتا رہے گا؟ گزشتہ ہفتے انگور اڈا، باجوڑ، کرم، دیر، چترال اور بارام چاہ جیسے حساس سرحدی علاقوں میں افغان فورسز نے بلااشتعال فائرنگ کی۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق، اس فائرنگ کا مقصد مسلح دہشت گردگروہوں کو پاکستانی سرحد کے اندر داخل کرانے کی کوشش تھی تاکہ ملک کے اندر دہشت گردی کی نئی لہر پیدا کی جا سکے۔ تاہم پاکستانی فورسز نے نہ صرف افغان چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا بلکہ افغانستان کے اندر موجود ٹی ٹی پی کے تربیتی ٹھکانوں پر بھی بھرپور کارروائی کی۔ یہ حملے محض جوابی کارروائی نہیں بلکہ ایک واضح پیغام تھے کہ پاکستان امن کا خواہاں ضرور ہے مگر اپنی سرزمین کے دفاع میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ فضائیہ اور توپخانے کے ذریعے کیے گئے ان آپریشنز کے نتیجے میں کئی افغان پوسٹیں تباہ ہوئیں، درجنوں جنگجو مارے گئے اور طالبان اپنی چوکیوں اور لاشوں کو چھوڑ کر پسپا ہو گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق، افغان سرحدی علاقوں میں اب بھی کئی مقامات پر دہشت گردوں کی باقیات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جبکہ پاکستانی علاقے مکمل طور پر پاک فوج کے کنٹرول میں ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ افغانستان کی طرف سے ایسی اشتعال انگیزی کی گئی ہو۔ ماضی میں بھی ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور دیگر انتہا پسند گروہوں کو افغان سرزمین سے مدد ملتی رہی ہے۔ کابل حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ دوحا معاہدے کی روح کے مطابق اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ مگر بدقسمتی سے، طالبان حکومت نہ صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ کئی مواقع پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہی وہ طرزِ عمل ہے جو دونوں ممالک کے تعلقات میں بداعتمادی کو گہرا کر رہا ہے۔

پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ آج جب پاکستان اندرونی طور پر استحکام کی راہ پر گامزن ہے، ایسے میں بیرونی سرحدوں سے کی جانے والی اشتعال انگیزی ایک سازش کے سوا کچھ نہیں۔ یہ سازش نہ صرف پاکستان کے امن کو نقصان پہنچانے کے لیے ہے بلکہ پورے خطے کے استحکام کو دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔ تاریخی طور پر پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی، اقتصادی امداد، تعلیمی مواقع، اور سفارتی تعاون یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان نے کبھی بھی افغانستان کو دشمن نہیں سمجھا۔ مگر افسوس کہ جواب میں اکثر دشمنی اور بے اعتمادی ہی ملی۔ حالیہ فائرنگ اور دہشت گردی کی پشت پناہی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ بین الاقوامی اصول بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر کوئی ملک بار بار دوسرے ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرے تو دفاعی کارروائی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ پاکستان نے جوابی اقدام میں نہ تو کسی شہری آبادی کو نشانہ بنایا اور نہ ہی جارحانہ عزائم دکھائے، بلکہ صرف ان ٹھکانوں کو ہدف بنایا جہاں سے دہشت گرد کارروائیاں کی جا رہی تھیں۔ یہ ایک پیشہ ورانہ اور منظم عسکری ردعمل تھا، جس نے دشمن کو واضح پیغام دے دیا کہ پاکستانی افواج کی صبر آزما پالیسی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔

یہ حقیقت بھی قابل ِ غور ہے کہ سرحد پار موجود شرپسند گروہ صرف پاکستان کے نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ گروہ افغانستان کے امن کے بھی دشمن ہیں۔ ان کی سرگرمیاں نہ صرف کابل حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہیں بلکہ افغان عوام کے لیے بھی تباہی کا باعث ہیں۔ اس لیے اگر افغان حکمران دانشمندی کا مظاہرہ کریں تو انہیں پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت ِ عملی اپنانی چاہیے۔ پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسی ہمیشہ امن پر مبنی رہی ہے۔ تاہم، تاریخ یہ بھی گواہ ہے کہ جب کبھی کسی نے ہماری سرحدوں کو للکارا، پاک فوج نے ہمیشہ بھرپور اور مؤثر جواب دیا۔موجودہ صورتحال میں یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری بھی اس امر کا نوٹس لے کہ افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہ خطے کے امن کے لیے کس قدر خطرناک ہیں۔ پاکستان کی کارروائیاں دفاعی نوعیت کی ہیں اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق۔ ایسے وقت میں عالمی اداروں کو کابل حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہ نہ بننے دے۔

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کہ افغانستان اپنی سرزمین پاکستان کے کہ پاکستان پاکستان نے کے لیے

پڑھیں:

افغانستان سے تاجکستان کی سرحد پر ڈرون حملہ‘ 3 چینی شہری ہلاک

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251128-01-9
دوشنبہ (مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان سے تاجکستان کی سرحد پر ڈرون حملے میں 3 چینی شہری ہلاک ہوگئے۔تاجک حکام کے مطابق 26 نومبر کی رات افغانستان سے تاجکستان کی سرحد پر ڈرون حملہ کیا گیا، حملے میں 3 چینی شہری ہلاک ہوئے۔تاجک وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے تاجکستان کے جنوب میں ایک چینی کمپنی پر ڈرون حملہ کیا گیا۔تاجک وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ افغانستان سے ہونے والے حملے میں ہلاک ہونے والے چینی کمپنی کے ملازمین تھے۔غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق افغان عسکریت پسند تاجکستان کی سرحد کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں سرگرم ہیں۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • امریکا میں فائرنگ اور تاجکستان میں ڈرون حملے کی ذمہ دار افغان حکومت ہے، دفتر خارجہ
  • دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ
  • پاکستان نے افغانستان سے تاجکستان سرحد پر چینی شہریوں پرحملہ بزدلانہ فعل قرار دیدیا  
  • افغانستان سے تاجکستان کی سرحد پر ڈرون حملہ‘ 3 چینی شہری ہلاک
  • پاکستان کی تاجکستان میں چینی شہریوں کے قتل کی مذمت
  • وائٹ ہاوس پر فائرنگ، افغان طالبان رجیم پوری دنیا کے امن کیلئے سنگین خطرہ بن گئی
  • چمن سرحد کی طویل بندش، افغانستان کو ادویات اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا
  • عسکری قیادت کا دوٹوک موقف
  • فیض  حمید  کا کورٹ  مارشل  قانونی  معاملہ  ‘ قیاس  آرائی  نہ کی جائے : افغانستان  بلڈاور  بزنس  ساتھ  نہیں  چل  سکتے : ڈی جی آئی ایس  پی آر 
  • افغانستان پر حملہ کیا توسب کو بتایاتھا، فیض حمید سے متعلق قیاس آرائیاں بند کی جائیں، پاک فوج