ٹی ایل پی کا احتجاج، شیعہ قائدین کا ردعمل
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: شیعہ قائدین کی جانب سے ٹی ایل پی کے مارچ کی حمایت اور ظلم کیخلاف احتجاج یقیناً وحدت کے فروغ کی جانب شاندار قدم ہے، اسے سراہا جانا چاہیئے۔ ٹی ایل پی سمیت تمام دیگر مکاتب فکر کو بھی وحدت کے اس پیغام کو مثبت لیتے ہوئے مشترکہ طور پر حکمت عملی بنا کر تکفیریوں کا ملک سے صفایا کرنا ہوگا، تاکہ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکے۔ ملک میں قیام امن کیلئے تکفیریوں کو مائنس کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تحریر: تصور حسین شہزاد
پنجاب اور اسلام آباد پولیس کی جانب سے آپریشن کے بعد مریدکے میں تحریک لبیک کا احتجاج ختم ہوچکا ہے۔ قیادت گرفتار ہوچکی ہے، جبکہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک ایس ایچ او شہزاد شہید جبکہ 48 پولیس اہلکار زخمی ہوئے، جنہیں گولیاں ماری گئیں، جبکہ ٹی ایل پی کے 3 کارکن اور ایک راہگیر جاں بحق ہوا، جبکہ درجنوں کارکنوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ چالیس سرکاری و پرائیویٹ گاڑیوں کو نذرآتش کیا گیا۔ پولیس کی جانب سے اس آپریشن اور بیگناہ لوگوں کی ہلاکتوں پر تمام سیاسی و مذہبی قائدین نے حکومتی رویئے کی مذمت کی ہے۔ اس موقع پر ایک سنی جماعت پر ہونیوالے تشدد کی مذمت شیعہ قائدین کی جانب سے بھی کی گئی، جسے مثبت رویئے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اسے قومی وحدت کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ اور سینیٹر، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے غزہ ملین مارچ کے شرکاء پر ریاستی جبر براہ راست فائرنگ اور بیگناہ افراد کی شہادت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، نہتے شہریوں پر گولیاں چلانا کسی بھی مہذب، جمہوری اور اسلامی ریاست کے شایان شان نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعات ہمارے قومی ضمیر اور آئینی اصولوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے ناجائز اقتدار کے تحفظ کیلئے عوامی جانوں کو ارزاں سمجھ لیا ہے۔ سیکڑوں پاکستانیوں کے قتل عام اور مسلسل ریاستی جبر کے بعد یہ فارم 47 کی ذریعے مسلط کردہ حکومت اخلاقی اور سیاسی طور اپنے حقِ حکمرانی سے محروم ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب اس مظلوم قوم پر مزید تجربات کی کوئی گنجائش نہیں رہی، اس حکومت کو فوراً مستعفیٰ ہوکر گھر جانا چاہیئے۔
علامہ راجہ ناصر عباس کا کہنا ہے کہ کسی بھی باشعور، غیرتمند اور انسان دوست شخص کیلئے اس ظلم و بربریت پر خاموش رہنا ممکن نہیں، افسوس ہے کہ اقتدار کے نشے میں مست اور اسرائیل نواز عناصر ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ظلم کا دوام ممکن نہیں اور طاقت کا زوال ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یقین رکھیئے، ظلم کی یہ سیاہ رات زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ حق، عدل اور عوام کی آواز بالآخر غالب آئے گی اور وطن عزیز کے دشمن اپنی ہی سازشوں میں رُسوا ہوں گے۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے اس موقع پر ایک آرٹیکل لکھا ہے، علامہ جواد نقوی کا اپنے اس آرٹیکل میں کہنا ہے کہ حکومت کا یہ طریقہ درست نہیں کہ احتجاج کے خدشے پر پورے شہر بند کر دیئے جائیں۔ یہ طرزِعمل پہلے پی ٹی آئی کیساتھ بھی ہوتے ہوئے دیکھا گیا، جب وہ اسلام آباد کی کال دیتے تھے تو پورا شہر سِیل کر دیا جاتا تھا۔
علامہ سید جواد نقوی مزید لکھتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات سے صرف چند ہزار افراد کو روکنے کیلئے لاکھوں شہریوں کو اذیت پہنچتی ہے۔ کوئی یہ حساب نہیں لگاتا کہ کتنے مریض متاثر ہوئے، کتنے کاروبار بند ہوئے، کتنے اجلاس منسوخ ہوئے اور روزمرہ زندگی کس حد تک معطل ہوئی۔ صرف یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ طاقت ہے تو سڑک بند کر دینا ہی حل ہے۔ علامہ سید جواد نقوی نے لکھا کہ لاہور جیسے مصروف شہر میں لاکھوں لوگ محصور ہیں، صرف اس لیے کہ چند ہزار افراد غزہ کے مظلوموں کے حق میں مارچ نہ کرسکیں۔ یہ مارچ کسی ناجائز مقصد کیلئے نہیں، بلکہ ایک درست اور انسانی مقصد کیلئے ہے۔ جب غزہ میں جنگ بند ہوچکی اور ایک معاہدہ طے پا چکا ہے، تو اِس وقت فلسطین کے حق میں اظہارِ یکجہتی کو روکنا نہ صرف غیر مناسب بلکہ افسوسناک ہے۔
علامہ جواد نقوی لکھتے ہیں کہ تحریکِ لبیک پاکستان ایک بڑی مذہبی قوت ہے، جس کے پاس زبردست اسٹریٹ پاور موجود ہے۔ اس نے عملاً ثابت کیا ہے کہ اس کی کال پر لوگ نکلتے ہیں اور پُرجوش انداز میں شریک ہوتے ہیں۔ اگر یہ جماعت اپنے کارکنوں کو تربیت یافتہ اور منظم انداز میں لے آئے تو ان کا احتجاج نہ صرف زیادہ مؤثر بلکہ زیادہ محترم بن سکتا ہے۔ دوسری جانب ممتاز شیعہ عالم دین علامہ سید حسن رضا ہمدانی نے اپنے کارکنوں کو ٹی ایل پی کے زخمی ورکرز کو خون کا عطیہ دینے اور ان کیلئے اپنے دروازے کھولنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں ٹی ایل پی کے کارکنوں پر ریاستی تشدد کی مذمت کی اور ان کیساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ علامہ حسن رضا ہمدانی نے کہا کہ امامیہ کالونی سے مریدکے تک، جی ٹی روڈ کی تمام آبادیوں میں مقیم شیعہ حضرات ٹی ایل پی کے زخمی ورکرز کیلئے دروازے کھول دیں، انہیں طبی امداد فراہم کریں اور ان کو تحفظ دیں۔
اسی طرح مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ احمد اقبال رضوی نے بھی اپنے پیغام میں مجلس کے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ٹی ایل پی کے ورکرز کیساتھ تعاون کریں۔ انہوں نے ٹی ایل پی کے مارچ پر پولیس کے کریک ڈاون کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور اسے غیر آئینی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی اقدام قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کا حق سب کو ہے، آئین یہ آزادی دیتا ہے، اگر ٹی ایل پی کے ورکرز اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کیساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں تو یہ کون سا جرم ہے۔؟ انہوں نے کہا کہ کیا امریکہ و اسرائیل کو خوش کرنے کیلئے کارکنوں پر سیدھی گولیاں چلائی گئی ہیں۔؟ انہوں نے حکومت کے اس رویئے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ شیعہ قائدین کی جانب سے ٹی ایل پی کے مارچ کی حمایت اور ظلم کیخلاف احتجاج یقیناً وحدت کے فروغ کی جانب شاندار قدم ہے۔ اسے سراہا جانا چاہیئے۔ ٹی ایل پی سمیت تمام دیگر مکاتب فکر کو بھی وحدت کے اس پیغام کو مثبت لیتے ہوئے مشترکہ طور پر حکمت عملی بنا کر تکفیریوں کا ملک سے صفایا کرنا ہوگا، تاکہ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکے۔ ملک میں قیام امن کیلئے تکفیریوں کو مائنس کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی کے کی جانب سے علامہ سید جواد نقوی وحدت کے مذمت کی ہیں کہ اور ان
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی، سعودی عرب کا ردعمل بھی آگیا
سعودی عرب نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں حالیہ کشیدگی اور جھڑپوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
سعودی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق مملکت تمام فریقوں سے تحمل، تصادم سے گریز اور بات چیت و دانائی کو ترجیح دینے کی اپیل کرتی ہے تاکہ خطے میں امن واستحکام برقرار رہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان کی جارحیت: پاکستان کا جوابی کارروائی میں فضائی وسائل اور ڈرونز کا استعمال
سعودی عرب نے اپنے مستقل مؤقف کا اعادہ کرتے کہاکہ وہ علاقائی و بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کرتا ہے جو امن، سلامتی اور ترقی کے فروغ کے لیے کی جا رہی ہیں تاکہ پاکستانی اور افغان عوام کو استحکام وخوشحالی نصیب ہو۔
واضح رہے کہ افغانستان کی جانب سے بارڈر پر بلااشتعال جارحیت کے بعد پاک فوج کی جانب سے منہ توڑ جواب بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ اس دوران فضائی وسائل اور ڈرونز کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق پاک فوج کی جانب سے خارجیوں کی سہولت کار افغان پوسٹوں کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پاک افغان بارڈر پر افغانستان کی طرف سے بلا اشتعال فائرنگ کی گئی ہے، جس کا پاک فوج نے منہ توڑ جواب دیا ہے، اور درجنوں افغان فوجی اور خارجی ہلاک ہوگئے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق افغان فورسز نے پاک افغان بارڈر پر انگور اڈا، باجوڑ، کرم، دیر، چترال اور بارام چاہ (بلوچستان) کے مقامات پر بِلا اشتعال فائرنگ کی۔
ذرائع نے بتایا کہ فائرنگ کا مقصد فتنہ الخوارج سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں کو بارڈر پار کروانا بھی تھا۔ تاہم پاک فوج کی چوکس اور مستعد پوسٹوں کی جانب سے تیزی کے ساتھ بھرپور اور شدید جواب دیا گیا۔
سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ پاک فوج نے فوری طور پر شدید رد عمل دیتے ہوئے متعدد افغانی پوسٹوں کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کی بروقت کارروائی سے افغانستان کی متعدد بارڈر پوسٹیں تباہ اور درجنوں افغان فوجی اور خارجی ہلاک ہوگئے۔
سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ طالبان اپنی متعدد پوسٹیں چھوڑ کر فرار ہوگئے، جبکہ لاشیں بکھری ہوئی ہیں۔
پاکستان اس وقت افغانستان میں پاک افغان بارڈر کے قریب موجود خوارج اور داعش کے دہشتگرد کیمپوں کو بھی انتہائی مہارت سے نشانہ بنا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق افغان فورسز کئی علاقوں سے پسپائی اختیار کر چکی ہیں، جبکہ پاکستان کی طرف سے مؤثر اور شدید جوابی کارروائی جاری ہے۔
افغانستان کی جانب سے یہ جارحیت اس وقت کی جا رہی ہے جب افغان وزیر خارجہ ہندوستان کا دورہ کررہے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے آرٹلری، ٹینکوں، ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ داعش اور خارجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی وسائل اور ڈرونز کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان کی پاکستان میں بلااشتعال فائرنگ، پاک فوج کی جوابی کارروائی میں درجنوں افغان فوجی اور خارجی ہلاک
افغان فورسز کے اُن ہیڈ کوارٹرز کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے جو داعش اور فتنہ الخوارج کو پنا دیتے رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان افغانستان کشیدگی ردعمل آگیا سعودی عرب