Express News:
2025-10-13@17:36:48 GMT

دہشت گردی: ابہام کا خاتمہ ضروری ہے

اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT

پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے جمعے کو اہم پریس کانفرنس سے خطاب کیا اورصحافیوں کے سوالات کے جوابات دیے ہیں ۔اپنے خطاب اور صحافیوں کے سوالات میں انھوں نے پاکستان کو درپیش دہشت گردی کے چیلنج کے حوالے سے انتہائی اہم اور فیصلہ کن باتیں کی ہیں۔

انھوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے جسے مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی۔

پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی نے جہاں غیر ملکی عناصراور سرمایہ کار فرما ہے وہاں داخلی طور پر بھی ایسے طبقے موجود ہیں جو انتہائی چالاکی اور عیاری کے ساتھ دہشت گردوںکی پشت پناہی بھی کرتے ہیں اور انھیں گلوریفائی بھی کراتے ہیں‘اس حوالے سے بڑی عیاری کے ساتھ ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے جس کے ذریعے چوں کہ چنانچہ اور اگر مگر کے ذریعے دہشت گردوں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے جب کہ اپنے ملک اور اس کے سیکیورٹی اداروں کو معطون کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں دائیں بازوکی سیاسی جماعتوں خصوصاً مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے حوالے سے ہمیشہ مبہم اور غیر واضح موقف اختیار کیا اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے یہ کوئی بہت بڑا یا سنگین مسئلہ نہیں ہے۔

آج بھی مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل سیاسی گروہ ‘مذہبی طبقے ‘نام نہاد دانشور اسی راہ پر گامزن ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا بیانیہ فروغ پاتا رہا ہے۔ داخلی طور پر دہشت گردوں کی فنانشل لائف لائن کو بھی برقرار رکھنے میں مخصوص مائنڈ سیٹ جو سیاست میں داخل ہوا ‘نے اہم رول ادا کیا ہے۔

دہشت گردوں کے سرپرستوں اور ہینڈلرز نے غیر قانونی دولت اکٹھی کرنے کے لیے مجرمانہ سرگرمیوں کو سپورٹ کیا۔ یوں پاکستان کا انتظامی ڈھانچے اور سیاست میں کرپشن کا وائرس داخل ہوا جس نے پورے ملک کے نظام کو بوسیدہ کر دیا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی میں اضافے کی مختلف وجوہات ہیں جس میں نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل نہ ہونا بھی شامل ہے۔

2014 میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد سیاسی و عسکری لیڈر شپ نے ایک مشترکہ نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا لیکن آج تک اس پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا بلکہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کی جاتی ہے۔انھوں نے سوال اٹھایا کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہی ہے؟اگر دہشت گردوں سے مذاکرات ہی کرنا ہوتے ہیں تو پھر جنگیں کبھی نہ ہوتیں۔

دہشت گردوں کے ساتھ بات چیت کے بیانیے کا جہاں تک تعلق ہے تو اس بیانیے کو بھی کئی دہائیوں سے مسلسل پھیلایا جا رہا ہے۔ آج بھی اس بیانیے کی وکالت کی جاتی ہے۔ لیکن حقائق کو دیکھا جائے تو یہ بیانیہ اپنی اہمیت برسوں پہلے کھو چکا ہے۔

پاکستان میں جو گروہ دہشت گردی کر رہا ہے اور دہشت گردوں کے ہینڈلرز کا مائنڈ سیٹ مذاکرات والا ہے ہی نہیں ‘یہ انتہائی مکارانہ اور دغا بازی پر مبنی ایک حکمت عملی ہے جس کا مقصد ایک آرگنائزڈ اسٹیٹ اور اس کی آرگنائزڈ مشینری کو مذاکرات میں الجھا کر رکھنا ہے تاکہ دہشت گردوں کو سانس لینے کا موقع ملتا رہے۔

یہ حکمت عملی کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔اس معاملے میں افغانستان کے طالبان نے بھیعیارانہ سفارتکاری کر کے ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنزکوبچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج دہشت گردوں کے سارے گروہ افغانستان کی سرزمین میں آزادانہ طور پر نقل و حرکت کر رہے ہیں اور افغانستان میں اپنے کاروبار کر رہے ہیں۔

بڑی ہی چالاکی کے ساتھ یہ تاثر گہرا کیا گیا جیسے ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان کے شہری ہیںحالانکہ اس حوالے سے بھی کئی شکوک و شبہات موجود ہیں۔ٹی ٹی پی کے پلیٹ فارم سے لڑنے والے سارے لوگ افغانستان کے باشندے ہیں جو جعلی شناختی کارڈ حاصل کر کے پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں رہتے رہے ہیں۔

ان کا پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب معاملات بہت واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے اقتدار پر قابض طالبان اور نام نہاد پاکستانی طالبان کے چہرے سے نقاب اتر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود وہ مخصوص گروہ بھی بے نقاب ہو رہا ہے جو ریاست پاکستان اور اس کے عوام کے اجتماعی مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے۔

یہ ایسا گروہ اور طبقہ ہے جو ریاست پاکستان کے وسائل کو استعمال کر رہا ہے۔پاکستان میں کاروبار کر کے پیسے کما رہا ہے۔سرکاری عہدے بھی لے رکھے ہیں‘ملک کا انفرااسٹرکچر بھی استعمال کر رہا ہے۔لیکن پاکستان کے عوام کے مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے۔

پاک فوج کے ترجمان نے دو ٹوک الفاظ میں خبر دار کیا ہے کہ کسی کو بھی ریاست پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کے اقدام کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہم دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں نہ کریں تو کیا کریں جو لوگ اس کے خلاف بیانیہ بنارہے ہیں دراصل وہ ریاست کے خلاف بیانیہ بنانے میں مصروف ہیں، اگر کسی کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ قراردیاجاتاہے تو اسٹیبلشمنٹ توریاست کا نام ہے اور کیا کوئی ریاست کے خلاف ہوتو وہ چل سکتاہے؟

بھارت افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کر رہا ہے جب کہ دوحہ معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ا سے اب روکنا ہوگا کیونکہ آخر کب تک اسے برداشت کیاجائے گا۔

امریکا 7.

2ارب ڈالر کے ہتھیار افغانستان میں چھوڑ گیا جو دہشت گردوں کے ہاتھ لگے اور یہی اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے اپنی سیاست کو دہشت گردی پر مقدم کر دیا ہے،سیاسی مافیا کے لیے ہزاروں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اہم ہیں ،بنیادی طور پر پولیس کا کام بھی فوج کو کرنا پڑا رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے سی ٹی ڈی کی تعداد ہی 3200 رکھی ہوئی ہے تو پھر نتائج کیسے برآمد ہوں گے۔

اگر اسمگلنگ ہوتی رہے گی تو اس کے ساتھ دہشت گردی اور دھماکا خیز مواد بھی آئے گا، یہاں ہونے والی اسمگلنگ کا الزام بھی فوج پر لگا دیا جاتا ہے۔صوبے کی گورنس سے متعلق کوئی بات نہیں کی جاتی۔

کیا فوج کے جوان اپنے سینوں پر اس لیے گولیاں کھا رہے ہیں کہ ان کی سیاست چلتی رہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا، آج یہ بیانیہ کہاں سے آگیا کہ افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھیجنا؟

انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے زمین تنگ کر دی جائے گی، جو خارجیوں کی سہولت کاری کرے گا وہ انجام کو پہنچے گا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ سہولت کاروں کے پاس صرف تین چوائس ہیں۔

سہولت کار خود خارجیوں کو ریاست کے حوالے کر دیں۔سہولت کار خارجیوں کے خلاف ریاست کے ساتھ مل کر لڑیں۔اگر ایسا نہیں کرنا تو سہولت کار پاک فوج کے ایکشن کے لیے تیار ہو جائیں۔ جو خارجیوں کی سہولت کاری کرے گا وہ انجام کو پہنچے گا۔

لہٰذا خارجیوں کے ناسور کو انجام تک پہنچانے کے لیے عوام ساتھ دیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ سعودی عرب سمیت دیگر ممالک نے افغانستان کو سمجھانے کی کوشش کی، افغانستان میں ہر دہشت گرد گروہ کی کوئی نہ کوئی شاخ موجود ہے۔

یہاں دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کی گئی اور معاملے کو الجھایا گیا،دہشت گردی کے 70فیصد واقعات کے پی میں ہوئے ہیں، لوگوں کو الجھایا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کا حل آپریشن نہیں ہے۔

پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی قیادت کا کردار بہت بڑھ گیا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ملک کی مین اسٹریم سیاسی قیادت کو دو ٹوک اور واضح الفاظ میں سیاسی موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

افغانستان پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے ۔لیکن اگر کوئی ہمسایہ حدود سے تجاوز کر جائے تو اس کے ساتھ تعلقات کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں سیاست کرنے والوں کو یہ حقیقت مد نظر رکھنی چاہیے کہ ان کے قول و فعل کا تضاد ‘نظریاتی کنفیوژن اور کم علمی ملک کو بہت بھاری پڑ رہی ہے۔

افغانستان سے کسی قسم کا کوئی گلہ یا شکوہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس ملک کی قیادت کی پالیسی اور ذہنیت قیام پاکستان سے لے کر اب تک تبدیل نہیں ہوئی ہے۔اس لیے اس حوالے سے پاکستانی پالیسی میں ابہام نہیں ہونا چاہیے۔

پاکستان کا کاروباری طبقہ ہو ‘مذہبی سیاست کرنے والے ہوں ‘مین اسٹریم سیاستدان ہوں یا اہل علم ہوں ‘ان کی پہچان پاکستان ہے ‘اگر کوئی گروہ ‘طبقہ یا شخص پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کے برعکس کام کرتا ہے تو اس سے ایسا کرنے کی آئین اور قانون اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ملکی سلامتی اور اس کا اقتدار اعلیٰ اس کی اجازت دیتا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے دہشت گردی کے پاکستان میں پاکستان کے سہولت کار کر رہا ہے حوالے سے ریاست کے انھوں نے کے ساتھ کے خلاف نہیں ہے کی جاتی رہے ہیں جاتی ہے کہ دہشت فوج کے کیا ہے اور ان اور اس

پڑھیں:

دہشت گردوں کیلئے معافی یا سزا میں کمی کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں، بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ

کوئٹہ:

بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک اہم اور تاریخی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء (ATA) کے تحت سزا یافتہ قیدی کسی بھی قسم کی خصوصی یا عام معافی کے قانونی حق دار نہیں، دفعہ 21-ایف کے تحت دہشتگردی کے مجرموں کے لیے معافی یا سزا میں کمی کی کوئی گنجائش موجود نہیں اور اس شق میں کسی قسم کی تشریح یا نرمی نہیں جاسکتی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس محمد کامران خان ملاخیل اور جسٹس نجم الدین مینگل پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 2023ء اور 2024ء میں دائر متفرق آئینی درخواستوں پر مشترکہ فیصلہ سناتے ہوئے تمام پٹیشنز خارج کر دیں۔

فیصلے کے مطابق درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 45 کے تحت صدرِ مملکت کی معافی اور پاکستان جیل قوانین 1978 کے تحت عام یا خصوصی رعایت کا حق حاصل ہے تاہم عدالت نے قرار دیا کہ 2001 میں دفعہ 21-ایف کے اضافے کا مقصد ہی یہ تھا کہ دہشت گردی کے مجرموں کو ہمیشہ کے لیے معافی کے دائرے سے خارج کیا جائے۔

عدالت نے قرار دیا کہ یہ قانون سازی عوامی سلامتی کے تحفظ اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں شعوری اور دانستہ طور پر کی گئی تھی۔ عدالت کے مطابق انسدادِ دہشت گردی ایکٹ ایک خصوصی قانون ہے جو عام قوانین، بشمول جیل ایکٹ 1894، پر فوقیت رکھتا ہے۔

عدالت نے اس موقف کو بھی مسترد کر دیا کہ دہشت گردی کے مجرموں کو معافی سے محروم رکھنا آئین کے آرٹیکل 25 (قانون کے سامنے مساوات) کی خلاف ورزی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے تمام مجرم ایک علیحدہ قانونی طبقہ تشکیل دیتے ہیں، اس لیے ان پر یکساں قانون کا اطلاق امتیازی نہیں بلکہ معقول درجہ بندی ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے معروف مقدمات  شیروانی کیس، حکومتِ بلوچستان بنام عزیز اللہ اور ڈاکٹر مبشر حسن بنام فیڈریشن آف پاکستان  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ معقول بنیاد پر کی گئی درجہ بندی آئینی طور پر درست ہے۔

فیصلے میں محکمہ داخلہ، انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات اور متعلقہ سپرنٹنڈنٹس کو ہدایت کی گئی کہ قانون کے منافی دی گئی تمام معافیاں فوری طور پر واپس لی جائیں اور متعلقہ قیدیوں کی سزاؤں کا ازسرِنو تعین کیا جائے۔

عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ کسی بھی معافی یا رعایت کے اجرا میں تمام قانونی تقاضوں کی مکمل پاس داری کی جائے، بصورتِ دیگر ذمہ دار افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

دو رکنی بینچ کے معزز ججز نے ہدایت دی کہ فیصلے کی مصدقہ نقول سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری قانون و انصاف، ایڈووکیٹ جنرل، پراسیکیوٹر جنرل، سیکرٹری داخلہ و قبائلی امور، سیکرٹری قانون بلوچستان اور آئی جی جیل خانہ جات کو فوری طور پر ارسال کی جائیں تاکہ عدالتی احکامات پر بلا تاخیر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔

عدالت نے ہدایت کی کہ تمام سزا یافتہ قیدی  خواہ وہ عمرقید کے ہوں یا قلیل مدتی سزا والے، اپنی بنیادی سزا کا کم از کم دو تہائی حصہ لازمی کاٹیں، یہ اصول پاکستان جیل قوانین 1978ء کے قاعدہ 217 کے تحت لازم ہے اور اس سے صرف وہی قیدی مستثنیٰ ہوں گے جنہیں قانون کے مطابق غیر معمولی معافی دی گئی ہو۔

عدالت نے آئی جی جیل خانہ جات بلوچستان کو یہ بھی ہدایت کی کہ قیدی عجب خان کو دی گئی بی کلاس سہولت کا دوبارہ جائزہ لیا جائے اور صوبے بھر میں بی کلاس حاصل کرنے والے تمام قیدیوں کی فہرست عدالت میں پیش کی جائے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ بعض قیدیوں کو دی گئی قبل از وقت رہائیاں اور برائے نام فہرستیں من مانی، امتیازی اور غیر قانونی ہیں، جو آئین کے آرٹیکل 4، 9 اور 25 کی صریح خلاف ورزی ہیں۔

عدالت نے سپریم کورٹ کے فیصلوں عبدالمالک بنام ریاست (PLD 2006 SC 365) اور نذر حسین کیس (PLD 2010 SC 1021) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ صدرِ پاکستان کو آرٹیکل 45 کے تحت سزا معاف یا کم کرنے کا اختیار حاصل ہے، مگر یہ اختیارات اسلامی اصولوں اور ریاستی پالیسی سے ہم آہنگ ہونے چاہئیں۔

عدالت نے قرار دیا کہ ریاست مخالف سرگرمیوں، قتل، زنا، دہشت گردی، اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی جیسے سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کو معافی کے دائرے سے خارج کرنا نہ صرف قانونی بلکہ پالیسی کے لحاظ سے درست ہے۔

عدالت نے سخت تشویش کا اظہار کیا کہ متعدد قیدیوں کو اصل سزا سے کہیں زیادہ معافیاں دی گئیں۔ مثال کے طور پر ایک قیدی سونا خان نے صرف 9 سال 4 ماہ سزا کاٹی مگر 15 سال سے زائد معافی حاصل کی، جبکہ امان اللہ نے 8 سال قید کے بعد 9 سال سے زائد رعایت پائی۔ عدالت نے اسے قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات انصاف کے بنیادی اصولوں کو مجروح کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردوں کیلئے معافی یا سزا میں کمی کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں، بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ
  • غزہ معاہدہ، آج صرف جنگ کا نہیں دہشت گردی و انتہا پسندی کا بھی خاتمہ ہوا، ٹرمپ کا اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب
  • غزہ معاہدہ؛ آج صرف جنگ کا نہیں دہشت گردی و انتہا پسندی کا بھی خاتمہ ہوا، ٹرمپ
  • اے ٹی اے کے تحت سزا یافتہ قیدی معافی یا رعایت کے حقدار نہیں، بلوچستان ہائیکورٹ
  • انسداد دہشتگردی ایکٹ کے مجرموں کو معافی غیر آئینی قرار، عدالت عالیہ کا فیصلہ
  • عوام کے جان و مال کا تحفظ، دہشتگردی کا مکمل خاتمہ حکومت کی اولین ترجیح ہے، وزیراعظم
  • عوام کے جان و مال کا تحفظ، دہشت گردی کا مکمل خاتمہ حکومت کی اولین ترجیح ہے، وزیراعظم
  • ریاست اور عوام افغانستان سے اٹھنے والی دہشتگردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے: آئی ایس پی آر
  • عمران خان اور پی ٹی آئی ہر فورم پر دہشت گردوں کے حامی رہے ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات