Express News:
2025-11-27@19:51:26 GMT

دہشت گردی: ابہام کا خاتمہ ضروری ہے

اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT

پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے جمعے کو اہم پریس کانفرنس سے خطاب کیا اورصحافیوں کے سوالات کے جوابات دیے ہیں ۔اپنے خطاب اور صحافیوں کے سوالات میں انھوں نے پاکستان کو درپیش دہشت گردی کے چیلنج کے حوالے سے انتہائی اہم اور فیصلہ کن باتیں کی ہیں۔

انھوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے جسے مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی۔

پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی نے جہاں غیر ملکی عناصراور سرمایہ کار فرما ہے وہاں داخلی طور پر بھی ایسے طبقے موجود ہیں جو انتہائی چالاکی اور عیاری کے ساتھ دہشت گردوںکی پشت پناہی بھی کرتے ہیں اور انھیں گلوریفائی بھی کراتے ہیں‘اس حوالے سے بڑی عیاری کے ساتھ ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے جس کے ذریعے چوں کہ چنانچہ اور اگر مگر کے ذریعے دہشت گردوں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے جب کہ اپنے ملک اور اس کے سیکیورٹی اداروں کو معطون کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں دائیں بازوکی سیاسی جماعتوں خصوصاً مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے حوالے سے ہمیشہ مبہم اور غیر واضح موقف اختیار کیا اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے یہ کوئی بہت بڑا یا سنگین مسئلہ نہیں ہے۔

آج بھی مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل سیاسی گروہ ‘مذہبی طبقے ‘نام نہاد دانشور اسی راہ پر گامزن ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا بیانیہ فروغ پاتا رہا ہے۔ داخلی طور پر دہشت گردوں کی فنانشل لائف لائن کو بھی برقرار رکھنے میں مخصوص مائنڈ سیٹ جو سیاست میں داخل ہوا ‘نے اہم رول ادا کیا ہے۔

دہشت گردوں کے سرپرستوں اور ہینڈلرز نے غیر قانونی دولت اکٹھی کرنے کے لیے مجرمانہ سرگرمیوں کو سپورٹ کیا۔ یوں پاکستان کا انتظامی ڈھانچے اور سیاست میں کرپشن کا وائرس داخل ہوا جس نے پورے ملک کے نظام کو بوسیدہ کر دیا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی میں اضافے کی مختلف وجوہات ہیں جس میں نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل نہ ہونا بھی شامل ہے۔

2014 میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد سیاسی و عسکری لیڈر شپ نے ایک مشترکہ نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا لیکن آج تک اس پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا بلکہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کی جاتی ہے۔انھوں نے سوال اٹھایا کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہی ہے؟اگر دہشت گردوں سے مذاکرات ہی کرنا ہوتے ہیں تو پھر جنگیں کبھی نہ ہوتیں۔

دہشت گردوں کے ساتھ بات چیت کے بیانیے کا جہاں تک تعلق ہے تو اس بیانیے کو بھی کئی دہائیوں سے مسلسل پھیلایا جا رہا ہے۔ آج بھی اس بیانیے کی وکالت کی جاتی ہے۔ لیکن حقائق کو دیکھا جائے تو یہ بیانیہ اپنی اہمیت برسوں پہلے کھو چکا ہے۔

پاکستان میں جو گروہ دہشت گردی کر رہا ہے اور دہشت گردوں کے ہینڈلرز کا مائنڈ سیٹ مذاکرات والا ہے ہی نہیں ‘یہ انتہائی مکارانہ اور دغا بازی پر مبنی ایک حکمت عملی ہے جس کا مقصد ایک آرگنائزڈ اسٹیٹ اور اس کی آرگنائزڈ مشینری کو مذاکرات میں الجھا کر رکھنا ہے تاکہ دہشت گردوں کو سانس لینے کا موقع ملتا رہے۔

یہ حکمت عملی کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔اس معاملے میں افغانستان کے طالبان نے بھیعیارانہ سفارتکاری کر کے ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنزکوبچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج دہشت گردوں کے سارے گروہ افغانستان کی سرزمین میں آزادانہ طور پر نقل و حرکت کر رہے ہیں اور افغانستان میں اپنے کاروبار کر رہے ہیں۔

بڑی ہی چالاکی کے ساتھ یہ تاثر گہرا کیا گیا جیسے ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان کے شہری ہیںحالانکہ اس حوالے سے بھی کئی شکوک و شبہات موجود ہیں۔ٹی ٹی پی کے پلیٹ فارم سے لڑنے والے سارے لوگ افغانستان کے باشندے ہیں جو جعلی شناختی کارڈ حاصل کر کے پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں رہتے رہے ہیں۔

ان کا پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب معاملات بہت واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے اقتدار پر قابض طالبان اور نام نہاد پاکستانی طالبان کے چہرے سے نقاب اتر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود وہ مخصوص گروہ بھی بے نقاب ہو رہا ہے جو ریاست پاکستان اور اس کے عوام کے اجتماعی مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے۔

یہ ایسا گروہ اور طبقہ ہے جو ریاست پاکستان کے وسائل کو استعمال کر رہا ہے۔پاکستان میں کاروبار کر کے پیسے کما رہا ہے۔سرکاری عہدے بھی لے رکھے ہیں‘ملک کا انفرااسٹرکچر بھی استعمال کر رہا ہے۔لیکن پاکستان کے عوام کے مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے۔

پاک فوج کے ترجمان نے دو ٹوک الفاظ میں خبر دار کیا ہے کہ کسی کو بھی ریاست پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کے اقدام کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہم دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں نہ کریں تو کیا کریں جو لوگ اس کے خلاف بیانیہ بنارہے ہیں دراصل وہ ریاست کے خلاف بیانیہ بنانے میں مصروف ہیں، اگر کسی کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ قراردیاجاتاہے تو اسٹیبلشمنٹ توریاست کا نام ہے اور کیا کوئی ریاست کے خلاف ہوتو وہ چل سکتاہے؟

بھارت افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کر رہا ہے جب کہ دوحہ معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ا سے اب روکنا ہوگا کیونکہ آخر کب تک اسے برداشت کیاجائے گا۔

امریکا 7.

2ارب ڈالر کے ہتھیار افغانستان میں چھوڑ گیا جو دہشت گردوں کے ہاتھ لگے اور یہی اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے اپنی سیاست کو دہشت گردی پر مقدم کر دیا ہے،سیاسی مافیا کے لیے ہزاروں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اہم ہیں ،بنیادی طور پر پولیس کا کام بھی فوج کو کرنا پڑا رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے سی ٹی ڈی کی تعداد ہی 3200 رکھی ہوئی ہے تو پھر نتائج کیسے برآمد ہوں گے۔

اگر اسمگلنگ ہوتی رہے گی تو اس کے ساتھ دہشت گردی اور دھماکا خیز مواد بھی آئے گا، یہاں ہونے والی اسمگلنگ کا الزام بھی فوج پر لگا دیا جاتا ہے۔صوبے کی گورنس سے متعلق کوئی بات نہیں کی جاتی۔

کیا فوج کے جوان اپنے سینوں پر اس لیے گولیاں کھا رہے ہیں کہ ان کی سیاست چلتی رہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا، آج یہ بیانیہ کہاں سے آگیا کہ افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھیجنا؟

انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے زمین تنگ کر دی جائے گی، جو خارجیوں کی سہولت کاری کرے گا وہ انجام کو پہنچے گا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ سہولت کاروں کے پاس صرف تین چوائس ہیں۔

سہولت کار خود خارجیوں کو ریاست کے حوالے کر دیں۔سہولت کار خارجیوں کے خلاف ریاست کے ساتھ مل کر لڑیں۔اگر ایسا نہیں کرنا تو سہولت کار پاک فوج کے ایکشن کے لیے تیار ہو جائیں۔ جو خارجیوں کی سہولت کاری کرے گا وہ انجام کو پہنچے گا۔

لہٰذا خارجیوں کے ناسور کو انجام تک پہنچانے کے لیے عوام ساتھ دیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ سعودی عرب سمیت دیگر ممالک نے افغانستان کو سمجھانے کی کوشش کی، افغانستان میں ہر دہشت گرد گروہ کی کوئی نہ کوئی شاخ موجود ہے۔

یہاں دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کی گئی اور معاملے کو الجھایا گیا،دہشت گردی کے 70فیصد واقعات کے پی میں ہوئے ہیں، لوگوں کو الجھایا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کا حل آپریشن نہیں ہے۔

پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی قیادت کا کردار بہت بڑھ گیا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ملک کی مین اسٹریم سیاسی قیادت کو دو ٹوک اور واضح الفاظ میں سیاسی موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

افغانستان پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے ۔لیکن اگر کوئی ہمسایہ حدود سے تجاوز کر جائے تو اس کے ساتھ تعلقات کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں سیاست کرنے والوں کو یہ حقیقت مد نظر رکھنی چاہیے کہ ان کے قول و فعل کا تضاد ‘نظریاتی کنفیوژن اور کم علمی ملک کو بہت بھاری پڑ رہی ہے۔

افغانستان سے کسی قسم کا کوئی گلہ یا شکوہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس ملک کی قیادت کی پالیسی اور ذہنیت قیام پاکستان سے لے کر اب تک تبدیل نہیں ہوئی ہے۔اس لیے اس حوالے سے پاکستانی پالیسی میں ابہام نہیں ہونا چاہیے۔

پاکستان کا کاروباری طبقہ ہو ‘مذہبی سیاست کرنے والے ہوں ‘مین اسٹریم سیاستدان ہوں یا اہل علم ہوں ‘ان کی پہچان پاکستان ہے ‘اگر کوئی گروہ ‘طبقہ یا شخص پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کے برعکس کام کرتا ہے تو اس سے ایسا کرنے کی آئین اور قانون اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ملکی سلامتی اور اس کا اقتدار اعلیٰ اس کی اجازت دیتا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے دہشت گردی کے پاکستان میں پاکستان کے سہولت کار کر رہا ہے حوالے سے ریاست کے انھوں نے کے ساتھ کے خلاف نہیں ہے کی جاتی رہے ہیں جاتی ہے کہ دہشت فوج کے کیا ہے اور ان اور اس

پڑھیں:

26 نومبر احتجاج کیس: علیمہ خان کو پولیس نے تحویل میں لے لیا

نسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی کے حکم پر عمران خان کی بہن علیمہ خان کو عارضی تحویل میں لے لیا گیا۔

انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی میں علیمہ خان سمیت 11 ملزمان کے خلاف 26 نومبر کے احتجاج پر درج مقدمے کی سماعت جاری ہے، علیمہ خان انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہوئیں۔

دوران سماعت علیمہ خان کو عارضی طور پولیس تحویل میں لے لیا گیا، عدالت نے علیمہ خان کو واپس عدالت میں طلب کر لیا، لیڈیز پولیس علیمہ خان کو لے کر دوبارہ کمرہ عدالت پہنچ گئی۔

عدالت نے علیمہ خان کو عارضی تحویل میں لینے کا حکم دیا، علیمہ خان نے استدعا کی کہ 
ہمارے وکیل سپریم کورٹ میں مصروف ہیں ہمیں جانے کی اجازت دی جائے۔

پراسیکیوٹر ظہیر شاہ نے کہا کہ کریمینل پروسیجر کی سیکشن 351 کے تحت ملزمہ عدالتی تحویل میں ہے، ملزم کی ضمانت ہوئی نہیں، عدالت کی اجازت کے بغیر باہر نہیں جاسکتیں۔

علیمہ خان عدالت سے باہر نکلیں تو خواتین پولیس اہلکاروں نے انہیں تحویل میں لے لیا اور  عدالت کے اندر لے گئیں۔

عدالت  نے کہا کہ ملزمہ عدالتی احاطے سے باہر نہ جائیں، اس دوران علیمہ خان کے وکیل فیصل ملک بھی عدالت میں پہنچ گئے، عدالت نے حکم دیا کہ مقدمے کی سماعت تک علیمہ خان کمرہ عدالت میں رہیں۔

عدالت 26 نومبر کے مقدمے میں متعدد بار علیمہ خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر چکی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صدر مملکت اور وفاقی وزیر داخلہ کا ڈی آئی خان میں کامیاب آپریشن پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین
  • دہشت گردی: اسباب اور سہ رخی حل
  • پاکستان اور سعودی عرب کی مشترکہ عسکری مشق کامیابی سے مکمل
  • 26 نومبر احتجاج کیس: علیمہ خان کو پولیس نے تحویل میں لے لیا
  • فیض حمید کا کورٹ مارشل قانونی اور عدالتی عمل ہے ،قیاس آرائیوں سے گریزکریں ،ترجمان پاک فوج
  • دہشت گردوں کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی
  • خیبرپختونخوا حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
  • ہم شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے، پاکستان ہمیشہ اعلانیہ حملہ کرتا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • خیبرپختونخوا: بنوں میں فورسز کے آپریشن میں بھارتی حمایت یافتہ 22 دہشتگرد ہلاک
  • یورپی یونین کا دہشت گردی کے خلاف اعلامیہ