پاکستان نے طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے حالیہ بیانات پر سخت ردعمل دیتے ہوئے انہیں افغانستان کے اندرونی معاملات پر توجہ دینے کا مشورہ دیا ہے۔ ساتھ ہی پاکستانی عوام نے بھی ترجمان افغان حکومت کے بیان کو آڑے ہاتھوں لیا۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان میں مذہبی جماعت کے احتجاج پر تبصرہ کرتے ہوئے شرپسندے کے دوران مبینہ طور پر ہلاک ہونے والے افراد کے لیے اظہار تعزیت کیا تھا۔  جس پر عقیل مصطفیٰ نامی صارف نے کہا کہ ’اگر افغانستان تعزیتی پیغام بھیج رہا ہے تو اس کا پھر واضح مطلب یہی ہے کہ ٹی ایل پی ایک ملک دُشمن اسلحہ بردار جتھہ ہے جو ملک میں انارکی اور فساد چاہتا ہے۔
ایک صارف نے طنزیہ انداز میں لکھا، آپ لوگوں کو اتنا ہی درد ہے تو ٹی ایل پی کو افغانستان لے جاؤ یا کم از کم اپنے مہاجر ہی واپس لے جاؤ ’۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما فواد چوہدری نے ذبیح اللہ مجاہد کے بیان کو پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے سراہے جانے پر لکھا کہ ’تحریک انصاف کا ایک حصہ اگر سمجھتا ہے کہ جمہوریت کی جدوجہد کیلئے لبیک اور طالبان جیسے شدت پسند حلیف ہو سکتے ہیں تو ان کی عقل پر رویا ہی جا سکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ فاشسٹ گروہ ہیں اور ہر جمہوریت پر یقین رکھنے والے شخص کو ان گروہوں سے دوری رکھنی چاہیے، جن کی سیاست نفرت، سفاکی ، تشدد اور قتل کی بنیادوں پر استوار ہو ان سے ہمدردی رکھنا بھی قابل مذمت ہے‘۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’جمہوریت کی جدوجہد سیاسی جماعتوں سے مل کر کی جا سکتی ہے دہشت گردوں سے ہمدردی دکھا کر نہیں‘۔
حالیہ سرحدی جھڑپ اور بڑے پیمانے پر جانی نقصان اٹھانے کے بعد پہلی بار پاکستان کے انتہائی اندرونی معاملات سے متعلق افغان حکومت کے بیان پر سینئیر صحافی ضیغم کان کا کہنا تھا کہ ’طالبان قطر، سعودی عرب یا چین کے پاس جائیں اور انہیں ضامن بنا کر پاکستان سے بات کریں اور معاملات حل کریں۔ ریاستوں کے جرگے اس طرح ہوتے ہیں۔‘
ذبیح اللہ مجاہد کا بیان سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے بھی اسے پاکستان کا اندرون معاملہ قرار دیا اور سوال اٹھایا کہ ’مودی کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کو دھمکیاں دینے والی امارات اسلامی افغانستان کو ٹی ایل پی کا احساس کب سے ہونے لگا؟‘
ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ طالبان حکومت کے ترجمان کی جانب سے پاکستان کے داخلی معاملات پر دیے گئے حالیہ بیانات ہمارے نوٹس میں ہیں۔ افغان ترجمان کو چاہئے کہ وہ اپنے ملک کے اہم مسائل پر توجہ دیں اور ان امور پر تبصرہ کرنے سے گریز کریں جو ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔
دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ بین الاقوامی سفارتی اصولوں کے مطابق دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول پر عمل کیا جانا چاہئے، اور پاکستان کو اپنے اندرونی معاملات پر کسی بیرونی مشورے یا مداخلت کی ضرورت نہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ طالبان حکومت سے توقع ہے کہ وہ دوحہ عمل کے دوران عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں اور ذمہ داریوں پر عمل کرے۔
دفتر خارجہ کے مطابق طالبان حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ ترجمان نے کہا کہ افغان حکومت کو بے بنیاد پراپیگنڈے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ایک جامع اور حقیقی نمائندہ حکومت کے قیام پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: اندرونی معاملات ذبیح اللہ مجاہد طالبان حکومت حکومت کے کہا کہ

پڑھیں:

طالبان خطے اور دنیا کیلئے مسئلہ بن رہے ہیں

اسلام ٹائمز: یورپی یونین کے تمام ممالک، خطے کے تمام ممالک اور اب امریکہ بھی بڑی تعداد میں افغانستانیوں کو نکالنے کی تیاری کر رہا ہے۔ پاکستان میں جلد "کے پی کے" سے بھی بڑی تعداد میں افغانستانیوں کی واپسی شروع ہو جائے گی، جن کو سنبھالنا اور روزگار فراہم کرنا طالبان حکومت کے لیے مشکل تر ہوتا جائے گا۔ افغان طالبان کو دوست بڑھانے چاہیں، مگر افسوس انہوں نے اپنے واحد دوست ملک پاکستان کو دشمن بناکر ٹی ٹی پی کو چنا اور انڈیا سے دوستی کی پینگیں ڈالنا شروع کی ہیں۔ ویسے طالبان قیادت کو ارشد مدنی کا بیان ضرور سنوانا چاہیئے، جس میں وہ شکوہ کر رہے ہیں کہ یہاں مسلمان چانسلر تک نہیں لگ سکتا۔ ہم بنئے کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں، جب وہ ڈز لگائے گا تو تم گھر کا راستہ بھول جاو گے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستان سمیت خطے کے ممالک کے لیے بڑی خوشی کی خبر تھی کہ امریکہ خطے سے نکل رہا ہے۔ قارئین کرام یہ بات یاد رکھیں کہ کوئی بھی ملک یہ پسند نہیں کرتا کہ دنیا کی کوئی بھی سپر پاور اس کے بارڈر پر بیٹھی ہو۔ امریکہ کا معاملہ اس حوالے سے اور بھی خطرناک ہے کہ وہ اپنا نام نہاد ورلڈ آورڈر رکھتا ہے اور اسے لالچ، دھونس، حقوق اور جب کوئی نہ مانے تو پابندیوں اور جبر یہاں تک کہ حملوں کے ذریعے منوانا چاہتا ہے۔ اس لیے جب امریکہ افغانستان پر حملے کے لیے پر تول رہا تھا تو افغانستان میں اس وقت کی طالبان حکومت کو بہت سمجھایا گیا کہ حکمت سے کام لیں، کچھ لوگوں کے لیے پورے ملک اور خطے کو آگ میں نہ جھونکیں۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو لے کر امریکی رائے عامہ مکمل طور پر تیار کر لی گئی تھی کہ جہاں مرضی حملہ کر لیا جائے، کوئی مقامی مخالفت نہیں ہوگی اور بیرونی مخالفت کی امریکیوں کو پرواہ نہیں تھی۔

عام فہم الفاظ میں یہ طالبان کی اس وقت کی حکومت کی سادگی تھی کہ امریکہ کو خطے میں آنے کا موقع فراہم کیا اور مسلسل بیس سال خطہ جنگ کی آگ میں جھلستا رہا۔ خطے نے تاریخی مزاحمت کی اور امریکہ کو بے آبرو ہو کر خطے سے نکلنا پڑا۔ امریکی افواج کے جانے پر ہر آزادی پسند نے خوشیاں منائیں کہ جان چھوٹ گئی، اب خطے میں امن آئے گا اور جنگ و جدال کے بجائے روابط قائم ہوں گے۔ روس تک سارا خطہ باہم منسلک ہو جائے گا اور اقبال نے جس افغانستان کو ایشیا کا دل کہا تھا، اب وہ وقت آگیا ہے کہ دل درست انداز میں کام کرے اور ایشیاء یورپ و امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کرے۔ آج بھی پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا ٹویٹ ریکارڈ کا حصہ ہے، جس میں انہوں نے امریکہ کے نکلنے پر لکھا تھا: "طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے۔" یہ اس  بات کا اعلان تھا کہ پاکستان خطے میں امریکی موجودگی کو پسند نہیں کرتا تھا اور اب دنیا کی سپر پاور کے دعویدار کو جانا پڑ رہا ہے تو اس بات کی علامت ہے کہ اصل طاقت خدا والوں کی ہے۔

خیر جیسے ہی افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوئی، پاکستان میں شدت پسند حملے بڑھ گئے، شروع شروع میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ بھی بارڈر پر چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ پاکستان میں فیصلہ سازوں کا خیال رہا ہے کہ انڈیا ہمیں افغانستان میں الجھانا چاہتا ہے، اس لیے ہم نے ہر صورت میں افغانستان میں اپنی دوست حکومت کو سپورٹ کرنا ہے۔ پوری دنیا پاکستان کو طالبان کا سپورٹر کہہ کر پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیتی تھی، مگر پاکستان اسی خیال سے ڈٹا رہا کہ ہم نے افغانستان میں امریکہ کے لیے زمین گرم کرنی ہے اور وہاں طالبان کی صورت ایک دوست حکومت قائم کرنی ہے۔ ایک بنیادی بات یہ بھی تھی کہ افغان طالبان کا نعرہ وطنیت کی بجائے مذہب تھا، پاکستان کا ریاستی بیانیہ بھی مذہبی ہے، اس لیے خیال یہ تھا کہ ایک مذہبی ریاست کو دوسری مذہبی ریاست سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ مگر ساری امیدیں ٹوٹ گئیں اور سہانے خوابوں پر پانی پھر گیا، جب  حملوں کی تعداد دن بدن بڑھنے لگے۔

پھر اچانک ایسا ہوا کہ افغانستان سے ایک آدھ حملہ آور کی بجائے پچاس پچاس، سو سو افراد کی تشکیلیں آنے لگیں۔ حالات تباہی کی طرف جانے لگے۔ پاکستان میں موجود ایسے علمائے کرام جو طالبان کے ہمدرد تھے، انہیں بھجوایا گیا، مگر مسئلہ جوں کا توں رہا، بلکہ آئے دن بڑھتا رہا۔ اب صورتحال یہ ہوگئی کہ پاکستان پر افغانستان کے بڑے عہدیداروں کے قریبی عزیز حملوں میں مارے جانے لگے۔ پاکستانی فیصلہ ساز ادارے اس نتیجے پر پہنچے کہ افغانستان نئے انداز میں پاکستان پر حملہ کرچکا ہے، اس لیے پاکستان نے اس کا جواب دینا شروع کیا، جس سے باقاعدہ جنگ کی صورتحال پیدا ہوگئی، جس میں قطر اور ترکی نے اپنا کردار ادا کیا اور جنگ رک گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وہی خواجہ آصف جو کل تک اس کامیابی کو خدا کی طاقت سے تعبیر کر رہے تھے، اب کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کابل سے کوئی امید نہیں رہی اور جس انداز میں افغان طالبان نے انڈیا کے دورے کیے ہیں اور ہر طرح سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں، جسے نظر انداز کر دیا جائے۔

اب پاک افغان تعلقات کو ریورس گئر لگ چکا ہے، اب تمام تجارتی راستے پاکستان نے یہ کہہ کر بند کر دیئے ہیں کہ خون اور تجارت ایک ساتھ نہیں چل سکتی۔ اس کے ساتھ لینڈ لاک ممالک کے لیے جس راہ داری کے خواب دیکھے جا رہے تھے، وہ اپنی موت آپ مرتی نظر آرہی ہے۔ افغانستان کا پاکستان پر انحصار ہے اور پاکستان ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرکے بھی افغانستان کو ٹرانزٹ کی سہولت فراہم کر رہا تھا، مگر اب لگتا ہے کہ یہاں بھی کچھ فیصلے دو جمع دو چار کی طرح لے لیے گئے ہیں۔ پاکستان کی ریاست کی پالیسی سافٹ سے ہارڈ سٹیٹ کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، ہر طرح کی مخالفت کرنے والے اور ریاست کو بلیک میل کرکے مطالبات منوانے والوں کے دن جا چکے ہیں۔ افغان طالبان کے آنے سے افغانستانیوں کو جن اچھے دنوں کی امید لگی تھی، اب لگتا ہے کہ طالبان کے دشمن ساز رویئے سے دور جا چکے ہیں۔ پاکستان کی ریاست اور ریاستی ادارے بڑے طاقتور ہیں۔ پاکستان کے لیے افغان بارڈر پر ایک لاکھ مزید فوج تعینات کرنا مشکل ضرور ہے، مگر کر گزریں گے اور فوج میں اتنے اہلکاروں کا اضافہ جلد کر دیا جائے گا۔ ٹیکنالوجی بالخصوص ڈرون ٹیکنالوجی معاملات کو کافی آسان کر رہی ہے۔

دنیا افغان طالبان کے مقابل پاکستان کی پالیسی کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس پر حملے کے بعد تمام افغانوں کے لیے جاری امیگریشن پالیسی بند کر دی ہے۔ لاکھوں وہاں پہنچ جانے والے اور ہزاروں یہاں مقیم اس سے متاثر ہوں گے۔ یورپی یونین کے تمام ممالک، خطے کے تمام ممالک اور اب امریکہ بھی بڑی تعداد میں افغانستانیوں کو نکالنے کی تیاری کر رہا ہے۔ پاکستان میں جلد کے پی کے سے بھی بڑی تعداد میں افغانستانیوں کی واپسی شروع ہو جائے گی، جن کو سنبھالنا اور روزگار فراہم کرنا طالبان حکومت کے لیے مشکل تر ہوتا جائے گا۔ افغان طالبان کو دوست بڑھانے چاہیں، مگر افسوس انہوں نے اپنے واحد دوست ملک پاکستان کو دشمن بناکر ٹی ٹی پی کو چنا اور انڈیا سے دوستی کی پینگیں ڈالنا شروع کی ہیں۔ ویسے طالبان قیادت کو ارشد مدنی کا بیان ضرور سنوانا چاہیئے، جس میں وہ شکوہ کر رہے ہیں کہ یہاں مسلمان چانسلر تک نہیں لگ سکتا۔ ہم بنئے کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں، جب وہ ڈز لگائے گا تو تم گھر کا راستہ بھول جاو گے۔

متعلقہ مضامین

  • چیف آف دی ایئر اسٹاف سرینا ہوٹلز بین الاقوامی اسکواش چیمپئن شپ
  • پی ٹی آئی ملک دشمن بیانیہ ترک، ریاستی و عوامی مفاد مقدم رکھے: عطاء تارڑ
  • عمران خان سے ہر شخص کی ملاقات کراتے ہیں جیل کے باہر کے معاملات کے ذمہ دار نہیں، جیل انتظامیہ
  • مشعال یوسف زئی کی علامہ ناصر عباس پر سخت تنقید، اپوزیشن اجلاس کی اندرونی کہانی سامنےآگئی
  • امریکا میں فائرنگ، تاجکستان میں ڈرون حملے کی ذمہ دار افغان حکومت ہے، ترجمان دفتر خارجہ
  • امریکا فائرنگ اور تاجکستان ڈرون حملہ—دفترِ خارجہ نے ذمہ داری افغان حکومت پر ڈال دی
  • سال نو پر بل گیٹس کا زندگی بدل دینے والی 5 کتب کو پڑھنے کا مشورہ
  • حکومت پنجاب نے پتنگ بازی کی اجازت دینے کا فیصلہ کر لیا
  • طالبان خطے اور دنیا کیلئے مسئلہ بن رہے ہیں
  • ریڈ لائن منصوبہ تاخیر کا شکار، رپورٹ عدالت میں جمع