Juraat:
2025-10-18@09:52:13 GMT

ظلم کے خلاف آزادی قلم صحافت کے مجاہد ہیروز

اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT

ظلم کے خلاف آزادی قلم صحافت کے مجاہد ہیروز

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

صحافت محض پیشہ نہیں، یہ ضمیر کی صدا اور عوام کی امانت ہے جو سچائی کے چراغ کو جلائے رکھے ، وہی اصل صحافی ہے ۔اسی جدوجہد میں اُس کا وقار، اُس کا ایمان، اور اُس کی پہچان چھپی ہے ۔ ‘سچ لکھنے والا ہمیشہ طاقت کے مراکز کے نشانے پر ہوتا ہے’ ۔وہ اکثر طاقتور حلقوں کی ناراضی مول لیتا ہے ۔دنیا میں سچ کہنا ہمیشہ آسان نہیں رہا۔ لفظ کبھی تلوار سے زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے ، اور وہ لوگ جو سچ کو حرفوں میں ڈھالتے ہیں، اکثر خود تاریخ کے صفحوں پر خون کے داغ بن کر رہ جاتے ہیں۔ رواں برس 2025ء میں آزادیٔ صحافت کی تاریخ نے ایک نیا باب رقم کیا ہے ، جب دو عالمی اداروں انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ IPI))اور انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ IMS))نے سات بہادر صحافیوں کو ورلڈ پریس فریڈم ہیروز کے عالمی اعزاز سے نوازا۔ ان میں وہ فلسطینی خاتون بھی شامل ہیں جو غزہ کی تباہ شدہ گلیوں میں اپنے کیمرے کے ساتھ شہید ہوئیں۔
یہ اعزاز اُن صحافیوں کو دیا جاتا ہے جو شدید خطرات کے باوجود سچ بولنے سے باز نہیں آتے ۔ اس سال کے ایوارڈ یافتگان کا تعلق جارجیا، امریکا، غزہ، پیرو، ہانگ کانگ، یوکرین اور ایتھوپیا سے ہے ۔ ان سب نے ظلم، سنسرشپ، قید اور دھمکیوں کے باوجود صحافتی اصولوں کی حفاظت کی اور عوام کے حقِ جاننے کو مقدم رکھا۔سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آئی پی آئی اور آئی ایم ایس کون سے ادارے ہیں اور ان کی حیثیت کیا ہے ۔
انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ (IPI)کا قیام 1950ء میں صحافیوں اور مدیران کے ایک عالمی اجتماع کے نتیجے میں ہوا۔ اس کا صدر دفتر آسٹریا کے شہر ویانا میں ہے ۔آئی پی آئی آزادیٔ اظہار، آزاد میڈیا اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے اقوامِ متحدہ کے اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے ۔ یہ ادارہ ہر سال مختلف ممالک میں صحافت پر ہونے والے دباؤ، قتل، قید، سنسرشپ اور جبر کی نگرانی کرتا ہے ، اور انہی بنیادوں پر ان صحافیوں کا انتخاب کرتا ہے جنہوں نے جرات کی مثال قائم کی۔ آئی پی آئی کے ورلڈ پریس فریڈم ہیروز ایوارڈ کو صحافت کی دنیا میں سب سے باوقار تمغہ مانا جاتا ہے ، جو 1996ء سے ہر سال دیا جا رہا ہے ۔دوسرا ادارہ انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ (IMS)ہے ، جس کا صدر دفتر کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں ہے ۔ IMS 2001ء میں قائم ہوا اور اس کا بنیادی مقصد دنیا کے اُن خطوں میں صحافت کا تحفظ کرنا ہے جہاں جنگ، آفات یا سیاسی جبر کے باعث میڈیا خطرے میں ہو۔ آئی ایم ایس صحافیوں کی تربیت، قانونی معاونت، اور آن لائن و فزیکل سکیورٹی پروگرام چلاتا ہے ۔ یہ ادارہ آزادیٔ اظہار کو انسانی حق مانتے ہوئے میڈیا اداروں کے لیے پالیسی سطح پر اصلاحات کی حمایت کرتا ہے ۔ 2020ء کے بعد سے آئی ایم ایس نے آئی پی آئی کے ساتھ مل کر یہ عالمی اعزاز مشترکہ طور پر دینا شروع کیا، تاکہ آزادیِ صحافت کے تحفظ کی جدوجہد کو عالمی سطح پر مضبوط کیا جا سکے ۔
اب اگر اس سال کے سات ہیروز پر نظر ڈالی جائے تو ہر نام اپنے آپ میں ایک داستان ہے ۔جارجیا سے Mzia Amaglobeli نے روسی دباؤ اور داخلی پابندیوں کے باوجود آزاد میڈیا کو زندہ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ خواتین صحافیوں کے لیے جرات اور تحفظ کی علامت بن چکی ہیں۔امریکا سے Martin Baron نے واشنگٹن پوسٹ اور بوسٹن گلوب کے ادارتی سربراہ کے طور پر تحقیقاتی صحافت کی نئی بنیاد رکھی۔ ان کے دور میں امریکی سیاست اور حکومت میں شفافیت کے کئی نئے در وا ہوئے ۔غزہ کی Mariam Abu Dagga وہ نام ہے جس نے دنیا کو دکھا دیا کہ سچائی کے راستے میں بمباری بھی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ وہ فلسطینی فوٹو جرنلسٹ تھیں، جو پناہ گزین کیمپوں میں انسانی المیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کر رہی تھیں۔ اسرائیلی حملے کے دوران وہ رپورٹنگ کر رہی تھیں جب ایک فضائی حملے نے ان کی جان لے لی۔ ان کی شہادت نے دنیا بھر میں آزاد صحافت کے لیے ایک نئے جذبے کو جنم دیا۔ IPI اور IMS نے انہیں بعد از مرگ (Posthumously)یہ اعزاز دیا۔
لفظ "Posthumously” (پوسْتھیومَسلی) ایک انگریزی اصطلاح ہے ،جس کا مطلب ہے "وفات کے بعد” یا "مرنے کے بعد”۔یعنی جب کسی شخص کو ایوارڈ، اعزاز، یا درجہ اُس کے انتقال کے بعد دیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ اعزاز اسے posthumously awarded کیا گیا۔پیرو سے Gustavo Gorriti نے منشیات مافیا اور بدعنوان سیاست دانوں کے خلاف اپنی قلمی جنگ سے حکومتوں کو ہلا دیا۔ کئی بار قید ہوئے ، لیکن قلم نہیں چھوڑا۔ہانگ کانگ کے Jimmy Lai، جو ایپل ڈیلی کے بانی ہیں، چین کے دباؤ میں آکر بھی اپنی آزادیِ رائے پر قائم رہے ۔ انہیں جیل میں ڈالا گیا، اخبار بند ہوا، لیکن وہ آج بھی دنیا بھر کے صحافیوں کے لیے مثال بنے ہوئے ہیں۔یوکرین کی Viktoriia Roshchyna نے روسی حملوں کے دوران محاذِ جنگ سے رپورٹنگ کی۔ گرفتار ہوئیں، تشدد کا نشانہ بنیں، مگر جنگ کے بیچ بھی سچ کی خبریں دنیا تک پہنچاتی رہیں۔ایتھوپیا کے Tesfalem Waldyesنے ایک ایسے نظام میں آزاد میڈیا کے حق میں آواز بلند کی جہاں اظہارِ رائے کو جرم سمجھا جاتا ہے ۔ انہوں نے میڈیا آزادی کے قوانین کے لیے مہم چلائی، جس کے نتیجے میں کئی نئے آزاد ادارے قائم ہوئے ۔یہ سب وہ نام ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ملک میں خطرے کے باوجود وہی کیا جس کے لیے صحافت وجود میں آئی سچ بولنا، چاہے اس کی قیمت جان ہی کیوں نہ ہو۔ آئی پی آئی اورآئی ایم ایس کے مطابق ان ہیروز کا انتخاب اُن کے اخلاقی استقلال، عوامی خدمت کے جذبے ، اور آزادیٔ اظہار کے غیر متزلزل یقین کی بنیاد پر کیا گیا۔ان اداروں کی مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں پچھلے دو سالوں میں 150سے زائد صحافی قتل یا لاپتہ ہوئے ، جبکہ 1200سے زیادہ کو قید یا مقدمات کا سامنا ہے ۔ ان اعداد و شمار نے یہ ثابت کیا ہے کہ آزادیٔ صحافت اب صرف جمہوری اصول نہیں بلکہ عالمی انسانی حق بن چکی ہے ۔
غزہ میں گزشتہ سال اسرائیلی حملوں کے دوران 70 سے زیادہ فلسطینی صحافی شہید ہوئے ، جن میں خواتین کی نمایاں تعداد شامل تھی۔ مریم ابو دقہ ان میں ایک چمکتا ہوا نام تھیں، جنہوں نے دنیا کو دکھایا کہ کیمرہ بندوق سے زیادہ طاقتور ہو سکتا ہے ۔ ان کی قربانی نے ورلڈ پریس فریڈم ہیروز 2025ء کو ایک تاریخی رنگ دیا۔یہ ایوارڈ صرف افراد کو نہیں بلکہ ایک نظریے کو دیا گیا ہے وہ نظریہ کہ سچ کبھی نہیں مرتا۔ انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ اور انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ کی یہ کوشش انسانیت کے لیے امید کا پیغام ہے کہ اگرچہ جبر بڑھ رہا ہے ، مگر سچ لکھنے والے اب بھی زندہ ہیں۔
ضرورت اب اس امر کی ہے کہ عالمی برادری صرف خراجِ تحسین پر اکتفا نہ کرے بلکہ عملی اقدامات کرے ۔ اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ عالمی سطح پر ایک ”انٹرنیشنل پروٹیکشن چارٹر فار جرنلسٹس” منظور کرے ، جس کے تحت جنگی علاقوں میں صحافیوں کے خلاف کسی بھی کارروائی کو جنگی جرم قرار دیا جائے ۔ ساتھ ہی ہر ملک میں ”پریس فریڈم کمیشن” قائم کیا جائے جو میڈیا اہلکاروں کی سلامتی، قانونی مدد اور نفسیاتی بحالی کے لیے ذمہ دار ہو۔یہ ساتوں ہیرو اس بات کا ثبوت ہیں کہ آزادیٔ صحافت کوئی مغربی تصور نہیں بلکہ انسانی ضمیر کی زبان ہے ۔ جب قلم جھکنے سے انکار کرتا ہے تو دنیا بدل جاتی ہے ۔ مریم ابو دقہ، جمی لائی، مارٹن بارون، مزیا اماگلوبیلی، گستاوو گوریتی، وکٹوریا روشچینا اور تسفالم ولدیس وہ نام ہیں جو آنے والی نسلوں کو یاد دلاتے رہیں گے کہ اندھیرے جتنے بھی گہرے ہوں، سچائی کی روشنی کبھی بجھ نہیں سکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: آئی ایم ایس پریس فریڈم صحافیوں کے آئی پی آئی کے باوجود سے زیادہ کرتا ہے جاتا ہے کے بعد کے لیے اور ان

پڑھیں:

امریکی وزیر دفاع کی پالیسی سے اختلاف، صحافیوں نے پینٹاگون خالی کردیا

درجنوں صحافیوں نے امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کی نئی میڈیا پالیسی پر عمل کرنے سے انکار کرتے ہوئے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون میں اپنے دفاتر خالی کر دیے.

اس تاریخی واک آؤٹ کی وجہ نئی میڈیا پالیسی ہے جس کے تحت میڈیا کو حساس مواد شائع نہ کرنے کا حلف نامہ دینے کا پابند کیا تھا، اس پالیسی کے تحت پینٹاگون کسی بھی صحافی کو ذمہ داریاں ادا کرنے سے بھی روک سکتا ہے۔

طویل عرصے تک پینٹاگون سے رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ اگر ہم چبھتے سوالات نہیں کرسکتے یا معلومات حاصل نہیں کر سکتے تو ہم رپورٹر نہیں سٹینوگرافر ہیں۔

30 بڑے میڈیا آؤٹ لیٹس نے پالیسی پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اسے نرم سنسرشپ کی ایک شکل سے تشبیہ دی ہے۔

دوسری طرف پینٹاگون اپنے فیصلے کا دفاع کرتا ہے، حکام کا اصرار ہے کہ نئی پالیسی کا مقصد حساس مواد کے لیک ہونے کو روکنا ہے، لیکن آزاد پریس کے حامی اسے یہ ایک سرخ لکیر کے طور پر دیکھتے ہیں۔

صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی کا کہنا ہے کہ آزادانہ طور پر معلومات اکٹھا کرنے اور شائع کرنے کا حق آئینی ضمانت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جرائم اور طاقت کی دنیا عام انسان کو اتنی پرکشش کیوں لگتی ہے؟
  • پشاور پولیس کیخلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنیوالوں کے گرد گھیرا تنگ
  • سجل علی احد رضا میر کی ٹوئٹر فولوور ، سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی
  • کیا فاطمہ ثنا نے بھارتی کھلاڑی کے پاؤں چھوئے تھے؟ تصویر وائرل 
  • امریکی وزیر دفاع کی پالیسی سے اختلاف، صحافیوں نے پینٹاگون خالی کردیا
  • پشاور پولیس کیخلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ، سخت کارروائی کا فیصلہ
  • مقاومت نے آزادی، عزت اور وقار کا نیا باب کھول دیا، حماس رہنماء
  • سجل علی اور احد رضا میر سے متعلق سوشل میڈیا پر نئی قیاس آرائیاں شروع
  • آزادیٔ اظہار سے ہی ملک میں ترقی ہوتی ہے: ماہرین و اینکرز کی رائے