جنگوں کا سوداگر، چاپلوسی کا تاج
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
میر بابر مشتاق
دنیا میں اگر منافقت کی کوئی سرحد مقرر کی جائے تو شاید عالمی سیاست اس سے کئی میل آگے نکل جائے۔ یہاں قاتل امن کے پیامبر قرار پاتے ہیں، اور غلام لیڈر ’’دوراندیش رہنما‘‘ کہلاتے ہیں۔ طاقتور کی مسکراہٹ کو سفارت سمجھا جاتا ہے اور کمزور کی غیرت کو ضد۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس منافقانہ نظام کی ایک علامت ہے، اور شہباز شریف اس کے خوشامدانہ سیاسی کردار کی ایک زندہ مثال۔ ٹرمپ وہ شخص ہے جس نے مشرقِ وسطیٰ کے امن کو تیل کی آگ میں جھونکا۔ جس کے دور میں اسرائیل کی جارحیت کو قانون اور فلسطینی مزاحمت کو جرم قرار دیا گیا۔ اس نے ’’ابراہم معاہدوں‘‘ کے نام پر مسلم دنیا کے دل میں خنجر گھونپا اور پھر اسے امن کا نام دے دیا۔ اس نے ایران پر ایسی معاشی پابندیاں لگائیں جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو غربت، بھوک اور موت کے کنارے پہنچا دیا۔ لیکن مغربی دنیا کے نزدیک وہ امن کا علمبردار ہے — کیونکہ اس نے جنگیں جیتی نہیں، بیچیں۔
اب ذرا دوسری طرف دیکھیے، جہاں پاکستان کا وزیر ِاعظم مغربی طاقتوں کی خوشنودی کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنائے بیٹھا ہے۔ شہباز شریف کی سیاست میں خودداری نہیں، صرف ڈپلومیٹک مسکراہٹ ہے۔ ان کے نزدیک سفارت کاری کا مطلب یہ ہے کہ طاقتور کو خوش رکھو، چاہے اس کے ظلم پر خاموشی ہی کیوں نہ اختیار کرنی پڑے۔ مغربی رہنما کی ایک تصویر کے نیچے ’’پرامن تعلقات‘‘ لکھ دینا ان کے نزدیک کامیاب خارجہ پالیسی ہے۔
یہ وہی سوچ ہے جو پاکستان کو ایک خوددار قوم سے بدل کر ایک تابع ریاست بنا چکی ہے۔ کبھی ہم امت ِ مسلمہ کے ترجمان کہلاتے تھے، آج ہمیں عالمی سیاست میں ایک کمزور آواز سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے قومی وقار کو مغربی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ قرض، امداد اور تصویری مسکراہٹ — بس یہی تین عناصر اب ہماری خارجہ پالیسی کے ستون بن چکے ہیں۔
شہباز شریف کی سیاست کا جوہر چاپلوسی ہے۔ وہ اپنے مخالفین کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ ’’سب کے لیے قابل ِ قبول‘‘ ہیں، اور بیرونی طاقتوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ’’ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘۔ یہی وہ دوغلاپن ہے جو قومی عزت کو کھا گیا۔ کبھی ٹرمپ کی چاپلوسی، کبھی بائیڈن کی تعریف، کبھی آئی ایم ایف کے سامنے جھکاؤ۔ ہر جگہ وہی لہجہ، وہی عاجزی، وہی مسکراہٹ جو عزت نہیں، ضرورت کی علامت بن چکی ہے۔ یہ عجب تضاد ہے کہ جس ملک کا سربراہ اپنی قوم کو مہنگائی، بدامنی اور بدعنوانی سے نجات نہ دلا سکا، وہ دنیا کو امن کا درس دینے نکلتا ہے۔ جس نے اپنے عوام کو انصاف نہیں دیا، وہ عالمی انصاف کی بات کرتا ہے۔ جس نے اپنے ملک میں اداروں کو غلام بنا رکھا ہے، وہ دنیا میں جمہوریت کے نعرے لگاتا ہے۔ چاپلوسی اب ہمارے نظام کا جزوِ لازم بن چکی ہے۔ ہم نے اپنے حکمرانوں کو سکھا دیا ہے کہ ’’خودداری نقصان دیتی ہے‘‘ اور ’’جھک جانا دانشمندی ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے سامنے خاموشی اب پالیسی بن چکی ہے۔ فلسطین میں بچوں کے لاشے گر رہے ہوں، کشمیر میں عورتیں چیخ رہی ہوں، مگر ہماری وزارتِ خارجہ کے بیان میں ’’تشویش‘‘ سے آگے کچھ نہیں۔ کیونکہ طاقتور ناراض ہو سکتا ہے۔
یہ وہی سوچ ہے جس نے پاکستان کو ایک کردار سے محروم ملک بنا دیا۔ اب ہماری سیاست محض اقتدار کی دوڑ ہے، اور ہماری خارجہ پالیسی محض امداد کے گرد گھومتی ہے۔ شہباز شریف جیسے حکمران اسی نظام کے نمائندے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عالمی طاقتوں کی چاپلوسی ہی ترقی کا راستہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چاپلوسی کبھی عزت نہیں دلاتی، صرف وقتی مسکراہٹیں دیتی ہے۔
ٹرمپ کی جنگی معیشت اور شہباز کی چاپلوسی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ ایک نے خون بیچا، دوسرے نے ضمیر۔ ایک نے تباہی سے ڈالر کمائے، دوسرے نے غلامی سے تعریف۔ دونوں نے انسانیت کا سودا کیا۔ صرف قیمت کا فرق تھا۔ مغربی دنیا کے سامنے سر جھکانے والوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ عزت دی جاتی ہے، مانگی نہیں جاتی۔ جو قوم اپنی خودداری کھو دیتی ہے، وہ اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔ ہم نے اپنے نوجوانوں کو یہ سبق نہیں سکھایا کہ قومیں چاپلوسی سے نہیں، جرأت سے بنتی ہیں۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ترقی کا مطلب قرض ہے، اور خارجہ پالیسی کا مطلب اطاعت۔ چاپلوسی کا یہ وائرس صرف سیاست تک محدود نہیں۔ یہ بیوروکریسی، میڈیا، حتیٰ کہ عام رویوں تک پھیل چکا ہے۔ جو طاقتور کی تعریف کرے، وہ ’’سمجھدار‘‘ کہلاتا ہے۔ جو سچ بولے، وہ ’’انتہا پسند‘‘ یا ’’غیر ذمے دار‘‘ قرار پاتا ہے۔ یہ وہ ذہنی غلامی ہے جو قوموں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ٹرمپ جیسے لیڈر دنیا کو دھوکے میں رکھتے ہیں، مگر شہباز جیسے رہنما اپنے عوام کو۔ ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ کو ’’امن‘‘ کے نام پر جلایا، اور شہباز نے پاکستان کو ’’ترقی‘‘ کے نام پر گروی رکھا۔ دونوں کے چہرے مختلف، مگر ارادے ایک جیسے ہیں۔ طاقت کے سامنے جھکنا اور کمزوروں کو قربان کر دینا۔
آج پاکستان کو اصل خطرہ بیرونی دشمنوں سے نہیں، بلکہ اندرونی غلامی سے ہے۔ ہم نے اپنی زبان سے پہلے اپنی سوچ کو غلام بنا لیا ہے۔ ہم اب یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ’’نہیں‘‘۔ ہر فیصلہ واشنگٹن، لندن یا دبئی کے اشاروں پر ہوتا ہے۔ ہماری قیادت کی خودمختاری اب ایک تاثر سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ وہی وقت ہے جب ایک قوم کو خود سے سوال کرنا چاہیے: کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ یا ہم نے آزادی کو پروٹوکول کے بدلے بیچ دیا ہے؟ جب حکمرانوں کے لیے عزت کا معیار عالمی تصویریں اور بیرونی مبارکبادیں ہوں، تو سمجھ لیجیے کہ قوم غلامی کے دورِ جدید میں داخل ہو چکی ہے۔ چاپلوسی وقتی فائدہ دیتی ہے، مگر دائمی نقصان۔ جو لیڈر طاقتور کی خوشنودی کے لیے اپنی قوم کی عزت بیچ دیتا ہے، وہ تاریخ میں کبھی معاف نہیں کیا جاتا۔ شہباز شریف کو شاید اقتدار مل جائے، بیرونی تعریف بھی، مگر تاریخ میں ان کا نام ایک خوددار رہنما کے طور پر نہیں، بلکہ ایک خوشامدی سیاستدان کے طور پر لکھا جائے گا۔
یہ قوم جب تک چاپلوسی کو سیاست کا فن سمجھتی رہے گی، تب تک خودداری خواب ہی رہے گی۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ مغرب کی تقلید سے نہیں، اپنے وقار کی حفاظت سے ترقی ہوتی ہے۔ طاقتور کے آگے جھکنے والے کبھی طاقتور نہیں بن سکتے۔ دنیا کے سیاسی منظرنامے پر آج بھی وہی چیری بلاسم کھلا ہوا ہے۔ خوبصورت، مگر ہمیشہ جھکا ہوا۔ یہ درخت طاقتور کی ہوا کے ساتھ جھولتا ہے، مگر اپنی جڑوں سے غافل ہے۔ شہباز شریف اسی چیری بلاسم کی طرح ہیں۔ ہر موسم میں مسکراتے ہوئے جھکنے والے، مگر اپنی مٹی سے کٹے ہوئے۔ آخر میں بس اتنا کہنا کافی ہے: ٹرمپ نے جنگوں سے کمائی کی، اور شہباز شریف نے ان جنگوں کے تاجروں کو سلامی دی۔ ایک نے بارود بیچا، دوسرے نے ضمیر۔ دونوں نے امن کے نام پر انسانیت کا سودا کیا اور ہم اب بھی تالی بجا رہے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: خارجہ پالیسی پاکستان کو شہباز شریف طاقتور کی اور شہباز کے نام پر کے سامنے نے اپنے دیتی ہے دنیا کے ہیں کہ چکی ہے
پڑھیں:
شیخ زید بن ہمدان کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں؛ وزیراعظم شہباز شریف
سٹی 42 : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ نجی شعبہ کاروبار چلائے گا اور حکومت کاروباروں کے فروغ کے لیے ہر طرح کی سہولت فراہم کرے گی، فرسٹ ویمن بینک نجکاری کے بعد نئی مینجمنٹ کے تحت تیزی سے ترقی کرے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے متحدہ عرب امارات کی انٹرنیشنل ہولڈنگ کمپنی اور حکومت پاکستان کے درمیان فرسٹ ویمن بینک کی نجکاری کے معاہدے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شیخ زید بن ہمدان کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔
فیصل آباد میں مقیم 119 افغان مہاجروں نے رضا کار انہ طور پر پاکستان چھوڑ دیا
وزیراعظم نے صدر یو اے ای شیخ محمد بن زاید النہیان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد شیخ زاید بن سلطان النہیان پاکستان کے سچے اور مخلص دوست تھے، شیخ محمد زید ہمیشہ پاکستان کیلئے سوچتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ شیخ محمد زید منصوبے اور تجارت کا فروغ چاہتےتھے، اور شیخ محمد بن زید النہیان کا دل بھی پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ فرسٹ ویمن بینک آف پاکستان کی نجکاری بارش کا پہلا قطرہ ہے اور یہ ہمارے طویل اقتصادی تعلقات کے فروغ ، جوائنٹ وینچرز، اور مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی جانب ایک خوشگوار سفر کا آغاز ثابت ہوگی، جس سے دونوں فریقین کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مجھےامید ہے کہ اب فرسٹ ویمن بینک انتہائی پیشہ ورانہ مینجمنٹ اور ویژنری لیڈرشپ کے تحت تیزی سے ترقی کرے گا۔
وفاقی حکومت کا سلمان بٹ پر عائد پابندی کا نوٹس، اعلیٰ سطحی انکوائری کا حکم
شہباز شریف نے کہا کہ یہ دو برادر ممالک کے درمیان ترقی و خوشحالی اور خوشی کے سفر کا آغاز ہے، مجھے معلوم ہے کہ دونوں ٹیموں کے مابین متعدد منصوبے زیرغور اور پائپ لائن میں ہیں، اور آنے والےدنوں میں ہم اس نوع کی مزید تقاریب کا انعقاد کررہے ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا پورٹ فولیو ہے جس پر میری گہری نظر ہے کیونکہ ہمیں اپنے ریاستی کاروباری اداروں کو مکمل طور پر ری اسٹرکچر کرنا ہے، جو صحیح طور پر نہیں چل پارہے۔
ایف بی آر ملازمین کی کارکردگی کا پول کھل گیا
انہوں نے مزید کہا کہ نجی شعبہ کاروبار چلائے گا اور حکومت کاروباروں کے فروغ کے لیے ہر طرح کی سہولت فراہم کریں گے، مگر خود کاروبار نہیں کرے گی۔