data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلا آباد(نمائندہ جسارت) صدر پی ایم اینڈ ڈی سی ڈاکٹر رضوان تاج نے اعتراف کیا ہے کہ میڈیکل کالجز زیادہ فیس لے رہے ہیں، نجی میڈیکل کالجز کی فیسوں میں خود سے اضافے کو سنجیدہ لے رہے ہیں۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کا ڈاکٹر مہیش کمار کی زیر صدارت اجلاس ہوا، وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال، سیکرٹری صحت، ڈی جی، ارکان کمیٹی اور وزارت صحت کے حکام شریک ہوئے۔اجلاس میں ڈاکٹر شاذیہ سومرو نے نجی میڈیکل کالجز کی فیسوں میں اضافے کا معاملہ اٹھادیا۔ ڈاکٹر شازیہ سومرو نے کہا کہ 26 اکتوبر کو ایم ڈی کیٹ کا ٹیسٹ ہوگا، ایک امیداوار کا شناختی کارڈ، نمبر تبدیل ہے، چیئرمین نے کہا کہ فیس 18 لاکھ سے 24 لاکھ روپے ہے، زیادہ فیس کیوں لے رہے ہیں، جواب دیں۔ڈاکٹر رضوان تاج نے کہا کہ نجی میڈیکل کالجز کی فیسوں میں خود سے اضافہ کو سنجیدہ لے رکھا ہے۔صدر پی ایم اینڈ ڈی سی نے اعتراف کیا کہ میڈیکل کالجز زیادہ فیس لے رہے ہیں،12 شوکاز نوٹسز جاری کردیے ہیں، جرمانہ، رجسٹریشن منسوخی ہوسکتی ہے، فہرست جلد کمیٹی کو بھجوادیں گے، کالجز سے جواز مانگ رہے ہیں،معاملہ کمیٹی کو دیں گے۔وزیر صحت مصطفی کمال نے کہا کہ اسلام آبار میں سروے کرالیں اندازہ ہوجائے گا کہ قیمتیں کیوں بڑھی، میڈیکل کالجز 18 لاکھ سے 25 لاکھ روپے تک فیس وصول کرسکتے ہیں، قانون میں فیس بڑھانے کی گنجائش ضرور ہے تاہم جواز دینا ہوگا۔چئیرمین کمیٹی مہیش کمال نے کہا کہ فیس تو 30 لاکھ اور 40 لاکھ وصول کرنے کی بھی شکایات ہیں۔وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے کہا کہ 188 میں سے 122 میڈیکل کالجز پرائیویٹ ہیں،ہم ملک گیر سروے کرائیں گے، اسلام آباد کے تمام میڈیکل کالجز کو نوٹسز بھیجے ہیں، 14 میڈیکل کالجز کو نوٹس جاری کیے۔نئے رجسٹرار پی ایم اینڈ ڈی سی ڈاکٹر ریحان نقوی نے کالجز کے نام کمیٹی میں پیش کردیے، رجسٹرار پی ایم اینڈ ڈی سی نے کہا کہ 14 میڈیکل کالجز کو فیس کی حد کی پابندی کرنا ہوگی۔ڈاکٹر ریحان نقوی نے کہا کہ ہم ذمے دار میڈیکل کالجز کو جرمانوں سمیت تادیبی کارروائی کریں گے۔

نمائندہ جسارت سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پی ایم اینڈ ڈی سی میڈیکل کالجز کو لے رہے ہیں زیادہ فیس نے کہا کہ

پڑھیں:

ملازمین کی ریگولرائزیشن کا بل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پچھلے دنوں ایک اخبار میں ملازمین کے مستقلی والے بل پرایک تحریر پڑھی۔ جس میں لکھا تھا کہ سید خورشید شاہ کی سربراہی میں کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے تقریباً دو دہائیاں قبل ریگولر کیے گئے ملازمین کو قانونی تحفظ دینے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جانا باقی ہے کیونکہ بل کے پیش کرنے والے سید خورشید احمد شاہ ہیں اور وہی بل ایوان میں پیش کریں گے۔ 2008-13 تک پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ڈیلی ویجز اورکنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کو کابینہ کمیٹی نے ریگولر کیا تھا۔ ستمبر 2024 میں، کچھ ملازمین نے سنیارٹی کے معاملے اور دیگر مراعات کو حل کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، لیکن عدالت عظمیٰنے فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC) کو کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے ذریعے بھرتی کیے گئے وفاقی سرکاری ملازمین کی ریگولرائزیشن کا از سر نو جائزہ لینے کی ہدایت کی۔عدالت کے حکم کے تحت ایف پی ایس سی سے ان کنٹریکٹ ملازمین کی اہلیت اور فٹنس کا تعین کرنے کے لیے ٹیسٹ اور انٹرویوز کرنے کا تقاضہ کیا گیا ہے، حالانکہ مختلف تنظیموں کی جانب سے نامکمل معلومات کی وجہ سے اس عمل میں تاخیر ہوئی ہے۔9 مارچ 2025 کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت تمام وزارتوں اور ڈویژنوں نے ریگولر ملازمین کو ایف پی ایس سی میں بھیجنے کے لیے کام شروعکر دیا۔ تاہم کئی مہینوں کے غور و خوض کے بعد قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ نے سید خورشید شاہ کی جانب سے ملازمین کے تحفظ کے لیے پیش کیے گئے بل کی منظوری دے دی اور معاملہ فیصلے کے لیے پارلیمنٹ کو بھجوا دیا۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ پارلیمنٹ کے حتمی فیصلے تک ان ملازمین کے خلاف کوئی منفی کارروائی نہیں ہوگی۔ایم این اے ملک ابرار احمد کی سربراہی میں کمیٹی نے ملازمین کے حقوق کے تحفظ کی بھی ہدایت کی کیونکہ وہ گزشتہ 15 سے 20 سالوں سے کام کر رہے ہیں اور ایک بڑی کمیونٹی کو لگن کے ساتھ ضروری خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ گزشتہ تین ہفتوں سے سید خورشید شاہ کی جانب سے پیش کیا گیا پرائیویٹ ممبر بل بحث کے لیے ایجنڈے میں شامل نہیں ہو سکا۔ ملازمین نے راجہ پرویز اشرف سمیت پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے رابطہ کیا ہے لیکن انہیں بتایا گیا ہے کہ شاہ صاحب خود بل پیش کریں گے۔ دوسری جانب شاہ صاحب علیل ہیں اور انہیں بل پیش کرنے کے لیے اسلام آباد جانا پڑے گا۔ یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں سول سرونٹس کی ملازمت کے تحفظ کا بل دسمبر 2024 پیش کر دیا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے بل پیش کیا تھا، جس پر وزیر قانون نے کہا تھاکہ اس بل میں کئی پیچیدہ پہلو ہیں، اس لیے اسے قانون و انصاف کمیٹی کو بھیجا جائے گا۔ا سپیکر ایاز صادق نے بل کو کابینہ کمیٹی کو ارسال کرنے کا فیصلہ کیا تھااور وزارت قانون کے افسران کو کمیٹی میں شامل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ پیپلزپارٹی کے رہنما نوید قمر نے بل کو کابینہ ڈویژن کی کمیٹی کو بھیجنے کی تجویز دی تھی، تاکہ مزید تفصیلات پر غور کیا جا سکے۔

علی اختر بلوچ گلزار

متعلقہ مضامین

  • ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کے لیے مراکز کا اعلان
  • ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کے لیے مراکز کا اعلان کر دیا گیا
  • ملازمین کی ریگولرائزیشن کا بل
  • قومی ائیر لائن کی نجکاری، ریٹائرڈ ملازمین کے میڈیکل پر لیبر یونینز اور ہولڈنگ کمپنی میں ڈیڈلاک برقرار
  • پی آئی اے کی نجکاری: ریٹائرڈ ملازمین کے میڈیکل پر ڈیڈلاک برقرار، بولی کی تاریخ میں توسیع
  • قومی ائیر لائن کی نجکاری: ریٹائرڈ ملازمین کے میڈیکل پر لیبر یونینز اور ہولڈنگ کمپنی میں ڈیڈلاک برقرار
  • مقبوضہ کشمیر میں ڈاکٹروں، نرسوں کے استحصال کے خلاف احتجاجی مظاہرے
  • بزدار دور کی کرپشن پر تحقیقات کرنے والے افسر کیخلاف ہی کارروائی شروع کر دی گئی
  • جامشورو، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے ہاسٹل سے طالب علم کی گولی لگی لاش برآمد