11 روز سے بند پاک افغان تجارتی گزرگاہیں جلد کھلنے کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
طورخم میں بھی تجارتی گزرگاہ کھولنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی، گاڑیوں کی کلیئرنس کے لیے اسکینر نصب کیے جا چکے ہیں۔ تجارتی گزرگاہ بند ہونے سے کارگو گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کے بعد 11 روز سے بند تجارتی گزرگاہیں جلد کھلنے کا امکان ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق چمن میں پاک افغان بارڈر باب دوستی تجارتی سرگرمیوں کے لیے بند ہے تاہم اسپین بولدک میں پھنسی 500 سے زائد خالی پاکستانی گاڑیوں کی واپسی ہو چکی ہے۔ کسٹمز حکام کے مطابق آج سے صرف افغان باشندوں کو افغانستان لے جانے والی پاکستانی گاڑیوں کو واپسی کی اجازت ہوگی، بندش سے دونوں طرف ویزا پاسپورٹ ٹریولنگ کرنے والوں کی بڑی تعداد پھنسی ہوئی ہے۔ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم 2000 سے زائد افغان باشندوں کو افغانستان منتقل کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب طورخم میں بھی تجارتی گزرگاہ کھولنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی، گاڑیوں کی کلیئرنس کے لیے اسکینر نصب کیے جا چکے ہیں۔ تجارتی گزرگاہ بند ہونے سے کارگو گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں انگور اڈہ، شمالی وزیرستان میں غلام خان اور ضلع کرم میں خرلاچی سرحد بھی 10 روز سے بند ہے۔ ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ بارڈر کی بندش سے 5 ہزار سے زیادہ پاکستانی افغانستان میں پھنسے ہیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: تجارتی گزرگاہ گاڑیوں کی
پڑھیں:
آسٹریلیا نے افغان طالبان پر مالی اور سفری پابندیاں عائد کردیں
آسٹریلیا نے افغانستان میں خواتین اور بچیوں کے حقوق کی بگڑتی صورتِ حال کا حوالہ دیتے ہوئے طالبان حکومت کے 4 سینئر اہلکاروں پر مالی اور سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
عالمی میڈیا کے مطابق آسٹریلیا نے طالبان حکومت کے چار اعلیٰ عہدیداروں پر پابندیاں نافذ کی ہیں، جن میں تین وزراء اور طالبان کے نامزد چیف جسٹس شامل ہیں۔ کینبرا نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ عہدیدار افغانستان میں خواتین اور بچیوں کے بنیادی حقوق کو محدود کرنے اور اچھے طرزِ حکمرانی کو متاثر کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
آسٹریلیا کی وزیرِ خارجہ پیّنی وونگ نے اپنے بیان میں کہا کہ طالبان کی موجودہ پالیسیوں نے خواتین کی تعلیم، ملازمت، آزادانہ نقل و حرکت اور عوامی زندگی میں شرکت کو سخت متاثر کیا ہے۔ ان کے مطابق پابندیوں کا مقصد طالبان پر براہِ راست دباؤ بڑھانا اور افغان عوام کے حقوق کے لیے کھڑے ہونا ہے۔
یہ اقدامات آسٹریلیا کے نئے قانونی فریم ورک کے تحت اٹھائے گئے ہیں، جس کے ذریعے حکومت خودمختار طور پر مخصوص افراد اور اداروں پر پابندی لگا سکتی ہے تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جواب دیا جا سکے۔
یاد رہے کہ طالبان کا موقف ہے کہ وہ اسلامی قانون اور مقامی روایات کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔ طالبان نے 2021 میں دوبارہ اقتدار سنبھالا تو خواتین اور بچیوں کی تعلیم اور کام کرنے پر سخت پابندیاں نافذ کی گئیں، جس پر عالمی سطح پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
آسٹریلیا بھی ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے اگست 2021 میں افغانستان سے اپنی فوجیں نکالیں، جہاں وہ دو دہائیوں تک نیٹو کے زیرِ قیادت مشن کا حصہ رہا۔ طالبان کے دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد آسٹریلیا نے ہزاروں افغان شہریوں زیادہ تر خواتین اور بچوں کو بطور اپنے یہاں پناہ دی۔
آج بھی افغانستان کی بڑی آبادی بنیادی ضروریات کے لیے انسانی امداد پر انحصار کر رہی ہے، جبکہ عالمی برادری طالبان سے خواتین کے حقوق بحال کرنے کا مطالبہ جاری رکھے ہوئے ہے۔