امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر اسٹیو بینن نے کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے سہ ریاستی حل (تھری اسٹیٹ سلوشن) کی ضرورت ہے، جس میں یروشلم کے مقام پر ایک ’عیسائی ریاست‘ کا قیام بھی شامل ہو۔

یہ بھی پڑھیں:یروشلم میں امریکی سفارتخانے کے باہر مظاہرہ، اسرائیل کی حمایت پر امریکا کے خلاف نعرے

اپنے پوڈکاسٹ ’وار روم‘ میں گفتگو کرتے ہوئے بینن نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کا ’گریٹر اسرائیل‘ منصوبہ ناکام ہو چکا ہے۔

ان کے بقول یہ منصوبہ خود اسرائیل کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ اب وقت آگیا ہے کہ 3 ریاستوں کا حل اپنایا جائے، جن میں سے ایک عیسائی ریاستِ یروشلم ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں مقدس سرزمین میں ایک عیسائی ریاست درکار ہے تاکہ آئندہ 20 یا 30 سال میں اس خطے میں استحکام پیدا کیا جا سکے۔

بینن نے ماضی میں بھی اسی نوعیت کے خیالات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان اکیلے امن ممکن نہیں۔ تاہم انہوں نے واضح نہیں کیا کہ عیسائی ریاست کے قیام کا طریقہ کار کیا ہوگا اور اس سے خطے میں استحکام کیسے آئے گا۔

یہ بھی پڑھیں:حماس سمیت فلسطینی گروپس کا غزہ کا انتظام ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے سپرد کرنے پر اتفاق

بینن کے مطابق اسرائیل اب دراصل امریکہ کا محافظ اور تابع ریاست بن چکا ہے، جبکہ حماس ایک ’ثانوی کردار‘ ادا کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قطر غزہ کی تعمیرِ نو میں مالی مدد دے گا اور ترکی اس کی ’سیکورٹی فورس‘ کے طور پر کام کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ٹرمپ کے امن منصوبے میں فلسطینی ریاست کا براہِ راست ذکر نہیں کیا گیا، مگر اس میں ایک ’ابتدائی فلسطینی ریاست‘ کا تصور شامل ہے، جسے واشنگٹن آئندہ کسی مرحلے پر باضابطہ طور پر تسلیم کر سکتا ہے۔

بینن کے بیان پر عالمی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یروشلم میں کسی نئی ’مذہبی ریاست‘ کے قیام کی تجویز نہ صرف بین الاقوامی قانون کے منافی ہے بلکہ اسرائیل، فلسطین اور عیسائی برادریوں کے درمیان مزید مذہبی تناؤ پیدا کر سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹیو بینن عیسائی ریاست مسلمان مشیر ٹرمپ یروشلم یہودی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسٹیو بینن عیسائی ریاست یہودی عیسائی ریاست

پڑھیں:

بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی ریاستی دہشت گردی کو چھپانے کیلئے خود کو ‘دہشت گردی کا شکار’ظاہر کر رہا ہے، ماہرین

ماہرین کے مطابق انسداد دہشت گردی کے بارے میں مغربی طاقتوں کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے تعاون کا مقصد بنیادی طور پر مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم و بربریت کو چھپانا اور کشمیریوں کی حق پر مبنی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت اور امریکہ انسداد دہشت گردی مشترکہ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے دوران دہشت گردی سے متاثرہ ملک ہونے کے بھارت کے دعوے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کے اپنے ریکارڈ اور پاکستان کے خلاف جارحانہ عسکری عزائم کی وجہ سے بے نقاب ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بھارت اور امریکہ نے مشترکہ طور پر انسداد دہشت گردی کے اقدامات کے طور پر متعدد تنظیموں پر اضافی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، آبادی کے تناسب کو بگاڑنے اور سیاسی اختلاف کو دبانے میں ملوث ہے۔ماہرین کے مطابق انسداد دہشت گردی کے بارے میں مغربی طاقتوں کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے تعاون کا مقصد بنیادی طور پر مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم و بربریت کو چھپانا اور کشمیریوں کی حق پر مبنی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرنا ہے۔ کشمیری بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے حق خودارادیت کے حصول کیلئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

حالیہ دنوں میں کشمیر سے متعلق اہم پیش رفت بھارت کے بیانیے کو مزید کمزور کرتی ہے۔ بھارت نے پارلیمنٹ میں اعتراف کیا ہے کہ کالے قانون یو اے پی اے کے تحت مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ 2019ء میں 227، 2022ء اور 2023ء میں 1,200 سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان گرفتاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیری سیاسی کارکنوں، طلباء اور عام شہریوں کو مجرم بنانے کے لیے اس کالے قانون یو اے پی اے کو نافذ کیا گیا ہے۔ بھارتی پولیس کے سربراہ نے کشمیریوں کے قاتل ولیج ڈیفنس گارڈز کو ضم کرنے کے مطالبہ کیا ہے جس سے کشمیریوں کو مقبوضہ علاقے میں بڑے پیمانے پر ظلم و تشدد اور قتل عام کا سلسلہ دوبارہ شروع کئے جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپ 2019ء کے بعد سے مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ بھارتی فوجی مقبوضہ علاقے میں کشمیریوں کے جعلی مقابلوں اور دوران حراست قتل میں ملوث ہیں۔ ادھر بھارت نے مقبوضہ علاقے میں بڑے پیمانے پر عسکری کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

معروف بھارتی صحافی منیش پرساد کے مطابق بھارتی وزیر دفاع بارڈر روڈز آرگنائزیشن کے 125 نئے منصوبوں کا افتتاح کریں گے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا ہے کہ ان میں تزویراتی طور پر حساس شیوک ٹنل کا منصوبہ بھی شامل ہیں اور یہ منصوبے کشمیریوں کو سہولتوں کی فراہمی یا علاقے کے مفاد کے لیے نہیں ہے۔ ماہرین نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب سے لداخ کے ساتھ جنگی نقطہ نظر پر مبنی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، پاکستان کے کے بارے میں اس کا جارحانہ طرز عمل اور مقبوضہ کشمیر میں اس کے نوآبادیاتی منصوبوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کا اصل چیلنج دہشت گردی نہیں بلکہ اس کے اپنے توسیع پسندانہ عزائم ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر دنیا جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی خواہاں ہے، تو اسے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور انسانیت کے خلاف جرائم پر بھارت کو جوابدہ ٹھہرانا ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • فلم ’دھُرندھر‘ کے متنازع ڈائیلاگ پر چوہدری اسلم کی اہلیہ کا سخت ردعمل
  • غزہ کی صورتحال دوسری جنگ عظیم سے بھی بدتر ہے، UNRWA
  • بانی اور بہنوں کے متنازع بیان سے پی ٹی آئی کا اظہارِ لاتعلقی، ذاتی رائے قرار دے دیا
  • غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کا آغاز کب ہوگا؟ حماس کا بیان سامنے آگیا
  • صبا قمر نے اپنے بارے میں دیے لائبہ خان کے متنازع بیان پر کیا کہا؟
  • نائیجیریا میں اغوا کیے گئے 100بچے رہا کرالیے گئے
  • ایک اور افریقی ملک میں فوجی بغاوت؛ صدر کے باغی اور وفادار اہلکار آمنے سامنے
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی ریاستی دہشت گردی کو چھپانے کیلئے خود کو دہشت گردی کا شکار ظاہر کر رہا ہے، ماہرین
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی ریاستی دہشت گردی کو چھپانے کیلئے خود کو ‘دہشت گردی کا شکار’ظاہر کر رہا ہے، ماہرین
  • جرمنی بھی فلسطین کے دو ریاستی حل کا حامی، ریاست کا قیام اور امن مذاکرات ناگزیر قرار