Nai Baat:
2025-06-13@15:51:18 GMT

یوکرین سے فلسطین

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

یوکرین سے فلسطین

بلاضرورت جنگوں نے دنیا کے اہم ترین ممالک کی اقتصادیات کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جن کی دہشت دنیا پر طاری رہی، اب ان کا وہی حال ہے جو غریب پسماندہ یا ترقی پذیر ملکوں کا ہے، بس بھرم سا ہے کچھ کا تو وہ بھی نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کے صدور وزرائے اعظم بلکہ بعض کے تو آرمی چیف بھی ان ممالک کے مارکیٹنگ منیجر کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکی صدر بھی اب اسی شمار میں آ گئے ہیں ان کا انداز قدرے مختلف ہے۔ وہ دو سو سے زائد ڈائریکٹو جاری اور ان پر عملدرآمد کرنے کے بعد اب ان لوگوں کی طرف دیکھ رہے ہیں، جنہوں نے ان کا ایک پیغام موصول ہونے کے باوجود اپنے عہدوں سے استعفے نہیں دیئے۔ دیکھنا ہے وہ برطرف کر دیئے جاتے ہیں یا ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی بعض سرگرم سیاسی شخصیات ان کے لے کام جاری رکھنے کا پروانہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہیں۔

امریکی صدر نے اپنی ایک تقریر میں سعودی عرب کی طرف سے امریکہ میں چھ سو ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کو ناکافی قرار دیا ہے۔ اس انویسٹمنٹ کا اعلان کچھ عرصہ قبل ایک خلیجی اخبار نے کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ انویسٹمنٹ کم ہے۔ وہ ایک ٹریلین ڈالر کی انویسٹمنٹ چاہتے ہیں۔ سعودی عرب کے لیے یہ بھی کوئی بہت بڑی رقم نہیں ہے، اس کے وسائل بہت زیادہ ہیں۔ وہ دنیا کے مختلف ممالک میں انویسٹمنٹ کرتا ہے لیکن اپنی پالیسی کے مطابق صدر ٹرمپ کی طرف سے اس فرمائش کے فوراً بعد ’’جذبہ خیرسگالی‘‘ کے طور پر ان کی طرف سے ایک ٹریلین ڈالر انویسٹمنٹ کا اعلان سامنے آ سکتا ہے۔ امریکی صدر نے اپنے گزشتہ زمانہ اقتدار میں سعودی ولی عہد کے لیے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کرائون پرنس کو پسند کرتے ہیں۔ اس مرتبہ اپنی فرمائش کے اظہار کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے احسانات بھی جتلائے ہیں لیکن بڑی طاقتیں اور ان حکومتوں کے سربراہ ان احسانات کا کبھی ذکر تک نہیں کرتے جو یہ ملک امریکہ پر کرتے ہیں، مثلاً وہ پاکستان کی ان قربانیوں کا ذکر کریں گے جو ان کی حمایت میں ان کے مخالفین سے ہم نے جنگیں لڑیں بالخصوص ان سے جن سے ہمارا کوئی جھگڑا نہ تھا۔ ان جنگوں میں پاکستان کو بھاری جانی اور اقتصادی نقصان اٹھانا پڑا جبکہ اس حوالے سے دی گئی امداد کا جو چرچا کیا جاتا ہے اس میں کافی مبالغہ ہے۔ پاکستان میں وہ سڑکیں اُدھڑ کر رہ گئیں جہاں سے اسلحہ کے ٹرالر گزر کر افغانستان جاتے تھے۔ ڈرون اٹیک کی زد میں آ کر پاکستانی مرد و زن بھی نشانہ بنتے رہے۔ ملک کو حالت جنگ میں دیکھ کر اس قدر انویسٹمنٹ پاکستان نہ آئی جو پُرامن پاکستان میں آسکتی تھی۔ یہ تمام قربانیاں کم نہیں ہیں۔

امریکی صدر سعودی عرب سے تیل کی قیمتیں فوری طور پر کم کرانا چاہتے ہیں۔ یہاں بھی وہ یہ شکوہ نہیں بھولے کہ اب تک تو یہ قیمتیں کم ہو جانا چاہیے تھیں کیونکہ روس نے قیمتیں کم کر کے اپنی سیل بڑھا لی، یوں اسے کثیر آمدن کے سبب یوکرین کی جنگ جاری رکھنے میں مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ٹرمپ کے خیال میں اگر سعودی عرب کی طرف سے تیل کی قیمتیں گزشتہ برس ہی کم کر دی جاتیں تو اب تک یوکرین کی جنگ ختم ہو چکی ہوتی۔ حیرت کی بات ہے انہوں نے یورپی ممالک اور بالخصوص امریکہ کی طرف سے دوران جنگ اسرائیل کو کی جانے والی اسلحہ کی ترسیل اور دی جانے والی اربوں ڈالر امداد کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا، ان میں کچھ امدادی پیکیج تو ایسے تھے جن کے لیے خصوصی طور پر کانگریس سے منظوری حاصل کی گئی۔ یہ امداد نہ ہوتی تو فلسطین میں جنگ جلد بند ہو جاتی۔ یوکرین میں جنگ جلد ختم ہو جائے گی۔ اس جنگ کے خاتمے سے بعض ملکوں کی اقتصادیات پر منفی اثر پڑے گا جو اسلحہ فروخت کرنے کے علاوہ بعض دیگر اہم اشیا براہ راست یا بالواسطہ متحارب ممالک کو فراہم کر رہے تھے لیکن دنیا اس بات پر متفق ہے کہ یہ جنگ توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل اور مخالف پر گہری نظر رکھنے کے لیے شروع ہوئی جس میں بعض دیگر ممالک امریکہ کے اتحادی ہونے کے سبب یا اس کی شہ پر اس میں کود پڑے، رسوا ہوئے اور پھر اس جنگ سے نکل گئے۔

کوریا کی جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کو آزاد ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اس کی اقتصادی حالت بھی اتنی اچھی نہ تھی لیکن پاکستان کے کچھ بااثر خاندانوں ان کی کمپنیوں نے اس میں سپلائی کے کام میں خوب مال کمایا۔ انہی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بعض افراد حکومتوں میں شامل تھے لہٰذا پالیسیاں ایسی ہی بنیں جن میں ان پر ٹیکس کا زیادہ بوجھ نہ پڑا یوں یہ خاندان اس دور میں ارب پتی ہو گئے۔ جب کسی نے کروڑ روپے کا ذکر نہ سنا تھا۔

امریکی صدر ٹرمپ بنا کسی لگی لپٹی کے اپنے خیالات کا اظہار کر دیتے ہیں۔ انہوں نے الوداعی تقریب میں سابق صدر جوبائیڈن کے سامنے انہیں امریکہ کا کمزور ترین صدر کہا۔ وہ کئی روز سے جوبائیڈن اور اس کی حکومت سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں، چند روز قبل انہوں نے وہ تمام قلم تلف کرنے کا حکم دیا جن سے جوبائیڈن نے مختلف احکامات جاری کیے۔ دنیا ان کے اس طرز عمل سے متفکر نظر آتی ہے کہ ٹرمپ ان کی لیڈرشپ سے کیا برتائو کریں گے۔ امریکی صدر نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد دنیا کے جن چار ممالک کے اہم افراد سے ملاقات کی ہے ان میں بھارت اور آسٹریلیا کے اہم سفارتکار شامل ہیں۔ ان ملاقاتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان ممالک کی ٹرمپ کی نظر میں کیا اہمیت ہے۔ دنیا بھر کے سفارتکار اپنے اپنے مقاصد کے پیش نظر واشنگٹن میں موجود ہیں۔ ہمارا سفارتخانہ اور اس سے منسلک سفارتی شخصیات کیا کر رہی ہیں، کسی کو اس کی کچھ خبر نہیں۔ گمان ہے امریکہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی شخصیت کی جگہ کوئی اور لے سکتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہ ہو گی بلکہ اسے معمول کی تبدیلی ہی سمجھنا چاہئے۔ پاکستان اور امریکہ میں حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ ایسی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں امریکی سفیر گزشتہ ماہ امریکہ جا چکے ہیں۔
امریکی صدر کے قریبی حلقے ٹرمپ کے دنیا کو بدلنے کے ارادوں کی بات کرتے ہیں لیکن یاد رہے امریکہ کے علاوہ اور بھی ممالک ہیں جو دنیا کو اپنے انداز سے چلانا چاہتے ہیں۔ ان میں روس چین اور ان کے اتحادی ہیں۔ ٹرمپ کی پہلی توجہ یوکرین اور دوسری ترجیح اسرائیل کا قیام ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی عرصہ دراز سے دو ریاستی حل کے حق میں بیشتر مسلمان ممالک کو اپنا ہمنوا بنا چکے ہیں۔ فلسطین کے قیام کے بعد کسی کے پاس اس کو نہ ماننے کا جواز بچے گا؟ فلسطین آزاد نہیں تقسیم ہو رہا ہے جس طرح سوڈان ہوا۔ اس آئینے میں ہر ملک کا کردار واضح ہے بالخصوص مسلمان ممالک کا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: امریکی صدر کی طرف سے انہوں نے ان ممالک نے اپنے کے لیے

پڑھیں:

بلاول کی دانشمندانہ تجویز

نوجوان سیاست دان، پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور امریکا میں پاکستان کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے والے وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے واشنگٹن میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے ایک معقول تجویز پیش کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ "ISI-RAW cooperation could reduce terrorism"۔ انھوں نے اپنے اس نئے بیانیے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اس بات کا کامل یقین ہے کہ پاکستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیز کے حکام ایک دوسرے سے رابطہ کریں تو دونوں ممالک میں دہشت گردی کا قلع قمع ہوسکتا ہے۔ عالمی برادری کو اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان تصادم خطرناک صورتحال اختیارکرسکتا ہے۔

بلاول بھٹو نے اس موقعے پر یہ بھی کہا کہ عالمی برادری، خاصوصاً صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی مداخلت سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہوگئی تھی مگر یہ پہلا خوش آیند اقدام تھا۔ بلاول نے اس بات پر خصوصی زور دیا کہ یہ محض پہلا قدم ہے۔ بلاول بھٹو نے امریکا کے دورہ کے دوران مستقل اس بیانیہ پر زور دیا کہ بات چیت اور ڈپلومیسی ہی امن کی طرف جانے والا واحد راستہ ہے اور پاکستان بھارت سے تمام مسائل پر جن میں دہشت گردی شامل ہے، جامع مذاکرات کرنے کا خواہاں ہے۔

اس کے ساتھ ہی وزارت خارجہ نے وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان کو حقیقت سے دور قرار دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ سمیت تمام معاہدے ختم ہوچکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت 1948کے وقت کشمیر میں ہونے والی جنگ بندی کی صورت حال کے قریب ہیں۔ وزارت خارجہ کے ذرایع نے ایک غیر رسمی اعلامیہ میں واضح کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ماضی میں ہونے والے معاہدے موجود ہیں۔

 2008میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں صدر آصف زرداری نے اپنی پہلی تقریر میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے تجویز پیش کی تھی کہ بھارت اور پاکستان کے درمیانی سرحدی علاقوں میں صنعتی زون قائم کیے جائیں گے۔

کچھ عرصہ کے بعد ممبئی میں دہشت گردی کی سنگین واردات ہوئی جس میں 72 کے قریب افراد ہلاک ہوئے، پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے عالمی واقعات کے تناظر میں فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کی خفیہ عسکری ایجنسی کے ڈی جی کو نئی دہلی بھیجا جائے تاکہ ممبئی دہشت گردی کی تحقیقات کا رخ شفاف طریقے سے ہو اور اس سانحہ کے ذمے داروں کو قرار واقعی سزا ہوسکے مگر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی یہ دانش مندانہ تجویز طالع آزما قوتوں کو گراں گزری، مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل صحافیوں نے بھی اس تجویزکے خلاف واویلا کرنا شروع کردیا۔

یوں ایک جذباتی ماحول پیدا ہوگیا۔ مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے بھی اس تجویز کی مخالفت کردی۔ یوں حکومت کو یہ تجویز واپس لینا پڑی مگر اس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا۔ بھارت نے امریکا کی مدد سے پاکستان کو ایشیا اور مشرق بعید کی Financial Action Task Force کی گرے فہرست میں شامل کر ادیا ۔ پاکستان کو FATFکی سفارشات پر عملدرآمد کرنا پڑا ۔

 پاکستان اور بھارت کے درمیان 1947 سے کشمیر کے مسئلے پر پیدا ہونے والے تنازع کی بناء پر دو بڑی جنگیں اور پانچ سے زیادہ چھوٹی جنگیں ہوچکی ہیں۔ 1971 کی جنگ کے بعد اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کی بصیرت کی بنا پر شملہ معاہدہ ہوا۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات دوبارہ قائم ہوئے۔ شملہ معاہدہ میں یہ طے ہوا کہ دونوں ممالک تمام تنازعات پرامن بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔

اس مقصد کے لیے سیکریٹریوں کی سطح پر بات چیت کے علاوہ وزراء خارجہ کی سطح پر بات چیت اور دونوں ممالک کے سربراہوں کی بات چیت پر اتفاق کیا گیا۔ شملہ معاہدہ کے تحت صرف اسلام آباد اور نئی دہلی میں ہی دونوں ممالک کے ہائی کمیشن نے کام شروع کیا بلکہ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ کراچی اور ممبئی میں قونصل خانے کھولے جائیں گے۔ اس فیصلے کے تحت کراچی میں بھارت کا قونصل خانہ کھل گیا مگر بعض تکنیکی مسائل کی بناء پر ممبئی میں پاکستان کا قونصل خانہ قائم نہ ہوسکا۔ یوں دونوں ممالک کے شہریوں کو ویزے کے حصول میں آسانی ہوئی اور پھر دونوں ممالک کے درمیان تجارت شروع ہوگئی۔ بھارت نے پاکستان کو تجارتی شعبہ میں انتہائی پسندیدہ ملک Most Favourite Nationکا درجہ دیا۔

اس معاہدے کی روح کے مطابق وزیر اعظم واجپائی دوستی بس کے ذریعے لاہور آئے اور مینارِ پاکستان پر حاضری دی مگر کارگل جنگ نے معاملات الٹ دیے، وزیر اعظم نواز شریف کی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کو نقصان ہوا۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں میں مصروف رہے۔

صدر پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو وہ آگرہ گئے مگر آگرہ سربراہ کانفرنس ناکام ہوگئی۔ اس وقت کے بھارت کے وزیر اعظم واجپائی نے کہا تھا کہ صدر مشرف کو تاریخ کا ادراک نہیں ہے مگر جب صدر مشرف نے پاکستان کی روایتی خارجہ پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے 6نکات پیش کیے تو بھارت کی حکومت فوری طور پر فیصلہ نہ کرسکی۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے دوبارہ اقتدار میں آتے ہی بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات کیے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی لاہور آئے ۔ لیکن اندرونی خلفشار کے نتیجے میں میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا۔

 بلاول بھٹو نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس میں یہ درست مؤقف اختیارکیا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے پانی کو روکنے کے لیے سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا ہے جو آبی جارحیت ہے ، یہ تنازع ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی یہ تجویز درست ہے کہ مذاکرات اور ڈپلومیسی ہی مسائل کے حل کا طریقہ کار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی قوتیں امریکا اور چین مستقل مذاکرات کے عمل میں مصروف رہتی ہیں۔ صدر ٹرمپ مستقل چین پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے لیے تیار رہتے ہیں مگر پھر بھی صدر ٹرمپ اور چین کے مرد آہن Liqiang نے دیر تک ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ بلاول بھٹو کی دانش مندانہ تجویز پر بھارت کو مثبت ردعمل کا اظہار کرنا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • جرمن وزیر دفاع کا دورہ کییف، فوجی امداد کا وعدہ
  • کب کوئی بلا صرف دُعاؤں سے ٹلی ہے
  • چین اور امریکہ کے مابین ایک دوسرے کے تجارتی خدشات کو دور کرنے میں نئی پیش رفت
  • سفارتی تعلقات مفادات پر مبنی ہوتے ہیں، جذبات پر نہیں،حسین حقانی
  • امریکہ بھارت کو کان سے پکڑ کر بات چیت کیلئے لائے، دنیا کے مفاد میں ہو گا: بلاول
  • بلاول کی دانشمندانہ تجویز
  • اسرائیل کیخلاف بات نہ کرو، دنیا کے ممالک سے امریکہ کی فرمائش
  • یوکرین نے اپنے 1212 فوجیوں کی لاشیں واپس لے لیں
  • امریکہ کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہوگا، بلاول
  • امریکہ غیرقانونی صیہونی قبضے کو مستحکم کرنا چاہتا ہے، جمیل مزھر