کنگنا رناوت نے جاوید اختر کو منالیا؛ 5 سال بعد صلح ہوگئی
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
بالی ووڈ انڈسٹری کا سنسنی خیز مقدمہ پانچ سال بعد بالآخر اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔
کنگنا رناوت بھارتی فلم انڈسٹری میں اقربا پروری یعنی معروف اداکاروں اور شوبز سے وابستہ افراد کی اولادوں کو بطور ہیرو، ہیروئن لانچ کرنے کی ناقد رہی ہیں۔
اس اقربا پروری اور اپنے بچوں کو نوازنے کی روایت کے خلاف آواز اُٹھانے کے دوران کنگنا کئی بار حد سے تجاوز بھی کرگئیں۔
اس مقدمے کا آغاز نومبر 2020 میں ہوا تھا جب معروف قلم کار جاوید اختر نے بے باک اداکارہ کنگنا رناوت پر ہتک عزت کا دعویٰ کیا تھا۔
کنگنا رناوت نے بھی اپنے روایتی انداز کو اپناتے ہوئے صلح صفائی کرنے یا معافی مانگنے کے بجائے مقدمہ کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس مقدمے میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب مدعی جاوید اختر نے عدالت سے کنگنا رناوت کے وارنٹ گرفتاری کی استدعا بھی کی تھی۔
کنگنا رناوت جو اب اداکارہ کے ساتھ ساتھ ایک سیاست دان اور قانون ساز اسمبلی کی رکن بھی ہیں نے ایک حیران کن اعلان کیا ہے۔
سوشل میڈیا شیئر کی گئی پوسٹ میں کنگنا نے لکھا کہ جاوید اختر صاحب کے ساتھ گزشتہ 5 برس سے جاری قانونی جنگ ختم ہوگئی۔
اداکارہ نے مزید بتایا کہ جاوید جی اور میں نے آج ثالثی کے ذریعے اپنا قانونی معاملہ عدالت سے باہر طے کرلیا ہے۔
کنگنا رناوت نے کہا کہ جاوید اختر نے نہ صرف معاف کیا بلکہ میری اگلی فلم کے گانے بھی لکھنے کی ہامی بھری ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کنگنا رناوت جاوید اختر
پڑھیں:
جنگ کیا مسائل کا حل دے گی؟
یکم ستمبر 1939 کو جرمن فوج پولینڈ میں داخل ہوئی اور اسی دن اس جنگ کا آغاز ہوگیا جسے ہم دوسری جنگِ عظیم کے نام سے جانتے ہیں اور جس میں 61 ممالک نے حصّہ لیا (کل دُنیا کی %80) جبکہ یہ جنگ 40 ملکوں کی زمین پر لڑی گئی۔ جنگ کی تباہ کاری کا اندازہ اس سے لگائیں کہ صرف روس کے 70 ہزار گاؤں اور 32 ہزار کارخانے راکھ کا ڈھیر بن گئے تھے۔ 6 سال بعد یہ جنگ اختتام کو پہنچی تو ہیروشیما سے برلن اور لندن سے سٹالن گراڈ تک موت ہی موت تھی۔
جنگ شروع کرنے والے اٹلی کےمسولینی کو اپنے ہی عوام نے 28 اپریل 1945 کو اٹلی میں مار دیا جبکہ 2 دن بعد یعنی 30 اپریل کو اس کے ساتھی جرمنی کے ہٹلر نے بھی خودکشی کر لی لیکن تب تک 5 کروڑ افراد مارے جا چکے تھے۔ دُنیا کے ایک بڑے حصّے خصوصًا یورپ سے دھواں اُٹھ رہا تھا اور سوگواروں کی تعداد لاشوں سےبھی کم رہ گئی تھی۔
22ستمبر 1980 کو ایران عراق جنگ شروع ہوئی جو 20 اگست 1988 تک جاری رہی، سلامتی کونسل کے مستقل ارکان نے ایک قرارداد (598) پاس کی اور جنگ بند کرائی تو ایران کے حصّے میں 5 لاکھ جبکہ عراق کو 3 لاکھ 75 ہزار لاشوں کا حصّہ ملا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایران دُنیا میں تنہا ہوگیا جبکہ صدام حسین اور عراق کا انجام آپ کے سامنے ہے۔
24دسمبر 1979 کو روسی فوج افغانستان میں داخل ہوئی۔ جب 10 سال بعد اس کی شکست کھائی فوجیں اپنے ملک لوٹ رہی تھیں تو نہ صرف وسیع و عریض روس کئی حصّوں میں بٹ چکا تھا بلکہ 14 لاکھ افغانوں کی لاشوں کو گدھ نوچ چکے تھے جبکہ شدید خانہ جنگی اور طویل مہاجرت الگ سے اس جنگ کے میراث ہیں۔
1965 میں امریکا نے اپنے دستے ویتنام میں اُتارے تو 6 سال سے جاری جنگ میں مزید شدّت آگئی بالآخر 10 سال بعد 1975 میں جنگ اختتام کو پہنچی لیکن تب تک 15 لاکھ کے قریب ویتنامی مار دیے گئے تھے جبکہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک بھی اس جنگ سے 3 لاکھ لاشیں وصول کر چکے تھے۔
اس طویل تمہید کو باندھنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ جنگ کسی قوم کی جھولی میں اگر کوئی تحفہ ڈالتی ہے تو وہ صرف لاشیں، بربادی، غربت، مسائل اور تنہائی ہی ہوتے ہیں جو بہت دور تک اور دیر تک پیچھا کرتے ہیں۔
اس لیے اگر ہم ملک کو درپیش خطرناک صورتحال (جنگ کے منڈلاتے بادل) کے پیش نظر بعض حقائق کے ادراک کی طرف مڑیں تو وہ یقیناً ہمیں تدّبر، بصیرت اور احتیاط کے راستے پر ڈال سکتی ہے جو اس ملک کی بقا اور استحکام کی ضامن ہوگی۔
اگر ہم شیخ رشید ٹائپ کی ‘چھوڑُو پریس کانفرنسز’ اور سوشل میڈیا کے نوزائیدہ مجاہدین کی حقائق سے ماورا باتوں کو پس پشت ڈال دیں تو کچھ تلخ حقیقتیں ہمارے سامنے ہیں۔ مثلاً ہم اس وقت سیاسی اور معاشی بحران کے شکار ہیں، ساتھ ہی ساتھ دُنیا کے بیشتر ممالک کو ہمارے بعض معاملات پر تحفظات ہیں۔
اس کے علاوہ ہندوستان کے پاس سوا ارب آبادی کی وجہ سے دُنیا کی چوتھی بڑی فوج ہے، جبکہ پاکستان اس سلسلے میں 11 ویں نمبر پر ہے۔ انڈیا کا دفاعی بجٹ 58 کھرب سے زائد ہے جو امریکا، روس، چین اور سعودی عرب کے بعد پانچواں بڑا دفاعی بجٹ ہے۔ جبکہ پاکستان کا دفاعی بجٹ 10 کھرب سے بھی کم ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین کرنا ہوگی کہ ہمارا دشمن دُنیا کی 7ویں بڑی معیشت ہے اور اس کا جی ڈی پی 2200 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
ہمیں یہ تلخ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہماری بعض نادانیوں کی وجہ سے ہمارا دشمن سفارتی محاذ پر اس کا بھر پور فائدہ اُٹھا رہا ہے۔
لیکن ان تمام تر تحفظات کے باوجود بھی ایسا ہرگز نہیں کہ ہندوستان چڑھ دوڑے گا اور ہمیں (خدانخوستہ) ملیامیٹ کر دے گا کیونکہ یہ ملک نیپال ہے نہ ہماری فوج جواب دینے کی طاقت سے محروم!
تاہم دانشمندی اور تدّبر سے کام لینا ہی بہتر ہے جو نہ صرف ہمارے حق میں اچھا ہے بلکہ ہندوستان کی بقا بھی اس سے وابستہ ہے اور ہاں! حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہمیں نہ صرف اپنے اندرونی معاملات کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا بلکہ سنجیدگی اور تدبر کا دامن بھی تھامنا ہوگا تاکہ کسی بھی مشکل صورتحال میں ہلکی سی دراڑ بھی دکھائی نہ دے۔ ساتھ ساتھ ان لفنگوں کو شٹ اپ کال دینی ہوگی جو حقائق سے بے خبر اپنی سیاست چمکانے میں مگن ہیں (بلکہ ہوسکے تو ان کے ہاتھ میں موجود مائیک ان کے منہ میں گھسیڑ دیا جائے) تا کہ قوم یکسوئی کے ساتھ جنگ ٹالنے اور دانشمندی اپنانے کے سفر میں تیزی لا سکے۔
ساحر لدھیانوی نے کہا تھا
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسائل کا حل دے گی
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں