Express News:
2025-04-26@08:39:00 GMT

نئے صوبے یا خود مختار مقامی حکومتیں

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

پاکستان میں اچھی طرز حکمرانی یا گورننس کے بحران کا واحد حل ایک مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کا نظام ہے۔ آج کی جدید دنیا میں حکمرانی کے نظام میں مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت کے نظام کو فوقیت دی جاتی ہے۔یعنی مرکزیت یا صوبائی سطح کے مقابلے میں مقامی سطح پر سیاسی انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم کو بنیاد بنا کر ہم حکمرانی سے جڑے بحران سے نمٹ سکتے ہیں۔

پاکستان میں 1973 کا دستور بھی تین طرز کی حکومتوں کی تعریف کرتا ہے جن میں وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کی تشکیل شامل ہے۔اسی طرح آئین میں اٹھارویں ترمیم میں یہ اصول طے کر دیا گیا تھا وفاق صوبوں کو اختیارات منتقل کرے گا اور صوبے ضلعوں کی سطح پر سیاسی انتظامی اور مالی سطح کے اختیارات کی تقسیم کو یقینی بنا کر ایک مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کو یقینی بنائیں گے۔لیکن عملی بنیادوں پر ہماری سیاسی قیادت چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو جب وہ اقتدار کی سیاست کا حصہ بنی تو ان کی سیاسی ترجیحات میں ہمیں مقامی حکومت کی اہمیت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔

سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں آ کر صوبائی مرکزیت کے نظام کو مضبوط کیا اور مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانے سے انکار کر دیا ہے۔یہ ہی وجہ ہے آج پاکستان اپنے جمہوری نظام میں مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی کا شکار ہے۔اگر صوبوں نے کسی قسم کے دباؤ پر انتخابات کروائے بھی ہیں اس نظام کو ایک کمزور اور مفلوج قسم کے مقامی حکومتوں کے نظام کی بنیاد پر چلایا جا رہا ہے۔

اصل میں اختیارات کا مرکز مقامی حکومتیں نہیں بلکہ صوبائی حکومتیں بنی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے گورننس کے نظام میں پہلے سے موجود مسائل میں اور زیادہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔دنیا میں جدید حکمرانی کے نظام میں جہاں جہاں حکمرانی کے نظام کی اصلاح ہو رہی ہے وہاں وہاں مقامی خود مختار حکومتوں کو فوقیت دی جا رہی ہے۔کیونکہ اگر ہم مقامی خود مختار حکومتوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے اور اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جائے گا تو اس کا براہ راست فائدہ اضلاع میں موجود کمزور اور محروم طبقات کو ہوگا۔کیونکہ اس نظام سے عام آدمی کی عملارسائی مقامی حکومتوں کے نظام میں آسان اور شفاف ہوگی۔جب کہ اس کے مقابلے میں جو بھی نظام مرکزیت یا صوبائیت کی بنیاد پر موجود ہوگا تو لوگوں کو اس کا کوئی براہ راست فائدہ نہیں ہو سکے گا۔

آج کل سیاسی منظر نامے میں ایک نئی بحث کا آغاز دیکھنے کو مل رہا ہے۔بہت سے اہل دانش انفرادی سطح پر اور ادارہ جاتی سطح پر گورننس کے بحران کا حل نئے صوبوں کی تشکیل کی بنیاد پر دے رہے ہیں۔ان کے بقول پاکستان کے گورننس کے بحران کا حل نئے صوبوں کی تشکیل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔اسی طرح نئے صوبوں کی حمایت کرنے والوں کا ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ اس وقت ترقی صرف وفاقی اور چار صوبائی سطح پر دارالحکومتوں تک محدود ہے اور اس کا حل نئے صوبوں کی تشکیل سے جڑا ہوا ہے۔

اس وقت اگر ہم صوبوں کے معاملات کا جائزہ لیں تو سب سے اہم معاملہ پنجاب کا ہی ہے۔ بہت سے لوگ صرف پنجاب کی تقسیم کی بات کرتے ہیں ، جنوبی پنجاب کے نئے صوبے کے طور پر پیش کیا جاتارہا ہے ، پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے انتخابی منشور میں جنوبی پنجاب صوبہ کی انتظامی بنیادوں پر حمایت شامل ہے۔اسی بنیاد پر جنوبی پنجاب کو انتظامی بنیادوں پر تقسیم بھی کیا گیا ہے۔لیکن ملک کے دیگر صوبوں کی تقسیم کی بات پر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔

لیکن ہمارا بڑا چیلنج یہ ہی ہے کہ حکومتی نظام میں کوئی بھی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل نہیں کرنا چاہتا۔ اس میں بیوروکریسی سمیت عملا سیاستدان یا ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں۔سیاسی جماعتوں میں بہت سے سیاست دان ایسے ہیں جو اس بات کے حامی ہیں کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہونی چاہیے اور وہ اس کو خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ لیکن ان کے بقول ہماری سیاسی جماعتوں کی ترجیحات مختلف ہیں اور وہ اس نظام کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب بھی سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو ان کی عملی طور پر ترجیحات مقامی حکومتیں نہیں ہوتی اور وہ ان کے انتخابات سے گریز کرتی ہیں۔بالخصوص ارکان صوبائی اسمبلی اس نظام کو اس لیے بھی خطرہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بقول ترقیاتی فنڈ کو خود تک محدود کرنے سے ہی ان کی طاقت مضبوط رہ سکتی ہے۔جب کہ بیوروکریسی بھی اضلاع کی سطح پر مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ہم اگر آج بھی اس بنیادی نقطہ پر اتفاق کر لیں کہ ہمیں ایک خود مختار اور مضبوط مقامی حکومتوں کی بنیاد پرآگے بڑھنا ہے تو ہم اگلے چندبرس میں حکمرانی کے نظام میں بہتر اصلاح کر سکتے ہیں۔اس اصلاح سے ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد بھی بحال ہوگا اور نظام کی ساکھ بھی بحال ہو سکتی ہے۔لیکن اس کے برعکس اگر ہم نے دنیا کے تجربات سے سیکھنے کی بجائے بار بار خود سے ایسے تجربات کرنے ہیں جو مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کا بگاڑ ثابت ہوں گے تو ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔ہمیں اس وقت ایک مضبوط سیاسی نظام اور مضبوط جمہوری عملی نظام کے تناظر میں اس بحث کو ایک بڑی مہم کا حصہ بنانا ہوگا کہ پاکستان کا مستقبل اور گورننس کے بحران کا حل مضبوط اور خود مختار مقامی نظام حکومتوں کے نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور یہ ہی ہماری ریاستی اور حکومتی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔

اس میں جہاں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی حمایت درکار ہے وہیں سول سوسائٹی میڈیا اور اہل دانش کے طبقات کی جانب سے بھی یہ آواز اٹھائی جانی چاہیے کہ حکومت صوبوں کے ساتھ ساتھ اضلاع کو زیادہ خود مختار بنائے۔خود مختاری سے مراد سیاسی انتظامی اور مالی تقسیم ہے اور اگر اس تقسیم کو بنیاد بنا لیا جائے تو اس کا براہ راست فائدہ عام آدمی کو ہوگا۔

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جب ملک میں خود مختار اور مضبوط مقامی حکومتیں ہوں گی تو یہ نظام زیادہ شفاف جواب دہی اور احتساب پر مبنی ہوگا ۔اس لیے اہل دانش اس نقطہ کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ کیا وجہ ہے کہ یہاں نئے صوبوں کی بحث تو ہوتی ہے لیکن یہ ہی ریاستی اور حکومتی نظام مقامی حکومتوں کے نظام کو خود مختاری دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔اس لیے اس طرز عمل کی موجودگی میں نئے صوبوں کی تشکیل بھی ایک اچھی حکمرانی کے نظام کو ممکن نہیں بنا سکے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مضبوط اور خود مختار مقامی خود مختار مقامی حکومتوں مقامی حکومتوں کے نظام نئے صوبوں کی تشکیل گورننس کے بحران کا حکمرانی کے نظام مقامی حکومتیں سیاسی جماعتوں کی بنیاد پر کے نظام میں حکومتوں کو کے نظام کو کی تقسیم نظام کی کا حصہ

پڑھیں:

مائنز اینڈ منرلز ایکٹ میں وسائل کسی اور کو دینے کی شق نہیں، وزیر قانون کے پی

خیبر پختونخوا کے وزیر قانون آفتاب عالم نے واضح کیا ہے کہ مجوزہ خیبر پختونخوا مائنز اینڈ منرلز بل میں کوئی ایسی شق موجود نہیں جس کے تحت صوبے کے معدنی وسائل وفاق کے حوالے کیے جا رہے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو حکومت ترمیم کرنے کو بھی تیار ہے۔

پشاور میں وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں وزیر قانون آفتاب عالم نے مائنز اینڈ منرلز بل اور افغان باشندوں کی واپسی کے حوالے وفاقی حکومت کی پالیسی اور خیبر پختونخوا حکومت کے موقف اور پاک افغان مذاکرات میں پیش رفت پر بات کی۔

‘مجوزہ مائنز اینڈ منرلز ایکٹ میں وسائل کسی اور کو دینے کی شق نہیں’

وزیر قانون نے کھل کر مائنز اینڈ منرلز بل کا دفاع کیا اور کہا حکومت اس شعبے میں بہتری لانا چاہتی ہے جس کے لیے قانون بل کو لایا گیا ہے۔ آفتاب عالم نے کہا زیادہ تر لوگوں نے بل کو پڑھا تک نہیں ہے اور خود سے اس کے خلاف پروپیگنڈا اور مخالفت کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا بتایا جائے کہ بل میں کہاں لکھا ہے یا ایسی کون سی شق ہے جس میں وسائل وفاق کو دینے کی بات ہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو بل پر بریفنگ دی گئی اور ان کے تجویز کو محکمہ دیکھ رہا ہے۔ انھوں نے کہا اراکین اسمبلی نے گزشتہ پیر کو اپنے تجویز تحریری طور پر دی ہیں۔

انہوں نے کہا وفاق کی جانب سے صوبے  سے قانونی سازی کے حوالے سے رابطہ کرنا کوئی غلط کام نہیں ہے۔ اور محکمہ قانون کا اس حوالے سے رابطہ ہوتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کی حکومت صوبے کے حقوق کی حفاظت کرے گی۔ اور وسائل پر حق بھی صوبے کے لوگوں کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل کو غلط انداز میں پیش کر کے عوام میں پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔انہوں نے کہا کہ جہاں ضرورت ہو، وہاں ترامیم کی جائیں گی۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بیشتر افراد نے بل کا مطالعہ ہی نہیں کیا اور بغیر معلومات کے محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے مخالفت کر رہے ہیں۔

وزیرا علیٰ گنڈاپور عمران خان کو بریفنگ دیں گے

وزیر قانون نے کہا بل کے حوالے  سے عمران خان سے اجازت لی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور لیگل ٹیم کے ہمراہ جیل میں بانی چئیرمین عمران خان کو بریفنگ دیں گے۔لیکن یہ ملاقات کب ہو گی اب تک کچھ طے نہیں ہوا ہے۔ ‘خان سے ان کی بہنوں کو ملنے نہیں دیا جا رہا جب ملاقات ہو گی تو علی امین آگاہ کریں گے۔’

‘خیبر پختونخوا سے افغان باشندوں زبردستی نکالنے نہیں دیا جائے گا’

وزیر قانون نے افغان سیٹزن کارڈ کے حامل افغان باشندوں کو نکالنے کے احکامات پر وفاق کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت وفاق کے جانب سے افغان باشندوں کو نکالنے کے احکامات پر عمل نہیں کرے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ صوبے میں افغان باشندوں کے خلاف کوئی کریک ڈاؤن نہیں ہو گا۔اگر ایسا ہوا تو  اس سے تعلقات پر منفی اثر پڑے گا۔

وزیر قانون نے کہا کہ  وفاق نے افغان مذاکرت میں خیبر پختونخوا کو اعتماد میں نہیں لیا۔ افغان مذاکرت میں صوبے کو اعتماد میں لینا چاہیے کیونکہ صوبے کے ساتھ طویل بارڈر ہے۔

انہوں نے مزید کیا کہا، جانیے اس ویڈیو میں

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • چاروں صوبے مل کر مودی کو منہ توڑ جواب دیں گے، بلاول بھٹو
  • چار صوبے، چار بھائی مودی کو منہ توڑ جواب دیں گے ؛ بلاول بھٹو
  • مائنز اینڈ منرلز ایکٹ میں وسائل کسی اور کو دینے کی شق نہیں، وزیر قانون کے پی
  • جب تک صوبے مضبوط نہیں بنائیں گے ملک ترقی نہیں کر سکتا: ارباب عثمان
  • وفاقی اور گلگت بلتستان حکومتیں بارش متاثرین کی فوری امداد، بحالی کیلئے اقدام کریں: بلاول
  • وفاق و صوبائی حکومتیں ناکام ہو چکیں، اپوزیشن کا کوئی باضابطہ اتحاد نہیں: فضل الرحمن
  • سلیکٹڈ حکومتیں قوم پر مسلط کی جاتی ہیں، مولانا فضل الرحمان
  • توانائی نفسیات کیا ہے؟
  • دھاندی سے بنی وفاقی و صوبائی حکومتیں ناکام ہوچکیں، کے پی میں حکومت کی رٹ ہی نہیں ، فضل الرحمان
  • اگر صوبے کو پانی میں حق نہیں ملتا تو ہم سندھ کے ساتھ ہیں، علی امین