Express News:
2025-11-05@03:18:54 GMT

نئے صوبے یا خود مختار مقامی حکومتیں

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

پاکستان میں اچھی طرز حکمرانی یا گورننس کے بحران کا واحد حل ایک مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کا نظام ہے۔ آج کی جدید دنیا میں حکمرانی کے نظام میں مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت کے نظام کو فوقیت دی جاتی ہے۔یعنی مرکزیت یا صوبائی سطح کے مقابلے میں مقامی سطح پر سیاسی انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم کو بنیاد بنا کر ہم حکمرانی سے جڑے بحران سے نمٹ سکتے ہیں۔

پاکستان میں 1973 کا دستور بھی تین طرز کی حکومتوں کی تعریف کرتا ہے جن میں وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کی تشکیل شامل ہے۔اسی طرح آئین میں اٹھارویں ترمیم میں یہ اصول طے کر دیا گیا تھا وفاق صوبوں کو اختیارات منتقل کرے گا اور صوبے ضلعوں کی سطح پر سیاسی انتظامی اور مالی سطح کے اختیارات کی تقسیم کو یقینی بنا کر ایک مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کو یقینی بنائیں گے۔لیکن عملی بنیادوں پر ہماری سیاسی قیادت چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو جب وہ اقتدار کی سیاست کا حصہ بنی تو ان کی سیاسی ترجیحات میں ہمیں مقامی حکومت کی اہمیت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔

سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں آ کر صوبائی مرکزیت کے نظام کو مضبوط کیا اور مقامی حکومتوں کے نظام کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانے سے انکار کر دیا ہے۔یہ ہی وجہ ہے آج پاکستان اپنے جمہوری نظام میں مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی کا شکار ہے۔اگر صوبوں نے کسی قسم کے دباؤ پر انتخابات کروائے بھی ہیں اس نظام کو ایک کمزور اور مفلوج قسم کے مقامی حکومتوں کے نظام کی بنیاد پر چلایا جا رہا ہے۔

اصل میں اختیارات کا مرکز مقامی حکومتیں نہیں بلکہ صوبائی حکومتیں بنی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے گورننس کے نظام میں پہلے سے موجود مسائل میں اور زیادہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔دنیا میں جدید حکمرانی کے نظام میں جہاں جہاں حکمرانی کے نظام کی اصلاح ہو رہی ہے وہاں وہاں مقامی خود مختار حکومتوں کو فوقیت دی جا رہی ہے۔کیونکہ اگر ہم مقامی خود مختار حکومتوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے اور اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جائے گا تو اس کا براہ راست فائدہ اضلاع میں موجود کمزور اور محروم طبقات کو ہوگا۔کیونکہ اس نظام سے عام آدمی کی عملارسائی مقامی حکومتوں کے نظام میں آسان اور شفاف ہوگی۔جب کہ اس کے مقابلے میں جو بھی نظام مرکزیت یا صوبائیت کی بنیاد پر موجود ہوگا تو لوگوں کو اس کا کوئی براہ راست فائدہ نہیں ہو سکے گا۔

آج کل سیاسی منظر نامے میں ایک نئی بحث کا آغاز دیکھنے کو مل رہا ہے۔بہت سے اہل دانش انفرادی سطح پر اور ادارہ جاتی سطح پر گورننس کے بحران کا حل نئے صوبوں کی تشکیل کی بنیاد پر دے رہے ہیں۔ان کے بقول پاکستان کے گورننس کے بحران کا حل نئے صوبوں کی تشکیل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔اسی طرح نئے صوبوں کی حمایت کرنے والوں کا ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ اس وقت ترقی صرف وفاقی اور چار صوبائی سطح پر دارالحکومتوں تک محدود ہے اور اس کا حل نئے صوبوں کی تشکیل سے جڑا ہوا ہے۔

اس وقت اگر ہم صوبوں کے معاملات کا جائزہ لیں تو سب سے اہم معاملہ پنجاب کا ہی ہے۔ بہت سے لوگ صرف پنجاب کی تقسیم کی بات کرتے ہیں ، جنوبی پنجاب کے نئے صوبے کے طور پر پیش کیا جاتارہا ہے ، پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے انتخابی منشور میں جنوبی پنجاب صوبہ کی انتظامی بنیادوں پر حمایت شامل ہے۔اسی بنیاد پر جنوبی پنجاب کو انتظامی بنیادوں پر تقسیم بھی کیا گیا ہے۔لیکن ملک کے دیگر صوبوں کی تقسیم کی بات پر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔

لیکن ہمارا بڑا چیلنج یہ ہی ہے کہ حکومتی نظام میں کوئی بھی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل نہیں کرنا چاہتا۔ اس میں بیوروکریسی سمیت عملا سیاستدان یا ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں۔سیاسی جماعتوں میں بہت سے سیاست دان ایسے ہیں جو اس بات کے حامی ہیں کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہونی چاہیے اور وہ اس کو خود مختار مقامی حکومتوں کے نظام سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ لیکن ان کے بقول ہماری سیاسی جماعتوں کی ترجیحات مختلف ہیں اور وہ اس نظام کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب بھی سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو ان کی عملی طور پر ترجیحات مقامی حکومتیں نہیں ہوتی اور وہ ان کے انتخابات سے گریز کرتی ہیں۔بالخصوص ارکان صوبائی اسمبلی اس نظام کو اس لیے بھی خطرہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بقول ترقیاتی فنڈ کو خود تک محدود کرنے سے ہی ان کی طاقت مضبوط رہ سکتی ہے۔جب کہ بیوروکریسی بھی اضلاع کی سطح پر مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ہم اگر آج بھی اس بنیادی نقطہ پر اتفاق کر لیں کہ ہمیں ایک خود مختار اور مضبوط مقامی حکومتوں کی بنیاد پرآگے بڑھنا ہے تو ہم اگلے چندبرس میں حکمرانی کے نظام میں بہتر اصلاح کر سکتے ہیں۔اس اصلاح سے ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد بھی بحال ہوگا اور نظام کی ساکھ بھی بحال ہو سکتی ہے۔لیکن اس کے برعکس اگر ہم نے دنیا کے تجربات سے سیکھنے کی بجائے بار بار خود سے ایسے تجربات کرنے ہیں جو مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کا بگاڑ ثابت ہوں گے تو ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔ہمیں اس وقت ایک مضبوط سیاسی نظام اور مضبوط جمہوری عملی نظام کے تناظر میں اس بحث کو ایک بڑی مہم کا حصہ بنانا ہوگا کہ پاکستان کا مستقبل اور گورننس کے بحران کا حل مضبوط اور خود مختار مقامی نظام حکومتوں کے نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور یہ ہی ہماری ریاستی اور حکومتی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔

اس میں جہاں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کی حمایت درکار ہے وہیں سول سوسائٹی میڈیا اور اہل دانش کے طبقات کی جانب سے بھی یہ آواز اٹھائی جانی چاہیے کہ حکومت صوبوں کے ساتھ ساتھ اضلاع کو زیادہ خود مختار بنائے۔خود مختاری سے مراد سیاسی انتظامی اور مالی تقسیم ہے اور اگر اس تقسیم کو بنیاد بنا لیا جائے تو اس کا براہ راست فائدہ عام آدمی کو ہوگا۔

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جب ملک میں خود مختار اور مضبوط مقامی حکومتیں ہوں گی تو یہ نظام زیادہ شفاف جواب دہی اور احتساب پر مبنی ہوگا ۔اس لیے اہل دانش اس نقطہ کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ کیا وجہ ہے کہ یہاں نئے صوبوں کی بحث تو ہوتی ہے لیکن یہ ہی ریاستی اور حکومتی نظام مقامی حکومتوں کے نظام کو خود مختاری دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔اس لیے اس طرز عمل کی موجودگی میں نئے صوبوں کی تشکیل بھی ایک اچھی حکمرانی کے نظام کو ممکن نہیں بنا سکے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مضبوط اور خود مختار مقامی خود مختار مقامی حکومتوں مقامی حکومتوں کے نظام نئے صوبوں کی تشکیل گورننس کے بحران کا حکمرانی کے نظام مقامی حکومتیں سیاسی جماعتوں کی بنیاد پر کے نظام میں حکومتوں کو کے نظام کو کی تقسیم نظام کی کا حصہ

پڑھیں:

بنیادی  انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی میں ٹریفک کے نظم و نسق کو بہتر بنانے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے نافذ کیے گئے ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (ٹریکس) نے شہریوں، ماہرین اور سیاسی حلقوں میں شدید تحفظات کو جنم دیا ہے۔

27 اکتوبر سے نافذ العمل ہونے والے اس ڈیجیٹل ای چالان نظام کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ شہر میں ٹریفک سے متعلق بنیادی انفرا اسٹرکچر کا تباہ حال ہونا ہے۔ اربن پلانرز اور سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کی 60 فیصد سے زائد سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جب کہ اندازاً 80 فیصد سے زائد شاہراہوں پر ٹریفک کے اشارے (سگنلز) اور علامات نصب ہی نہیں ہیں، یا درست کام نہیں کررہے۔ ایسے میں ٹریفک مینجمنٹ قائم کیے بغیر جدید ترین مصنوعی ذہانت   پر مبنی یہ خودکار نظام (ٹریکس) کس طرح کامیابی سے کام کرے گا، یہ ایک بڑا سوال ہے۔

شہری حلقوں کی جانب سے تحفظات کا دوسرا اہم نکتہ جرمانوں کی غیر معمولی حد تک زیادہ شرح ہے، جو 5 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک مقرر کی گئی ہے۔ شہریوں کی جانب سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ بے روزگاری اور کم آمدنی والے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے بھاری جرمانے کیسے ادا کر پائیں گے۔

قانون دانوں اور سیاسی رہنماؤں نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ جب ملک کے دیگر شہروں مثلاً  لاہور  میں چالان کی شرح بہت کم ہے تو کراچی کے شہریوں پر اتنا بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے، جو آئینی طور پر ایک ملک میں دو قوانین کی موجودگی پر سوال کھڑا کرتا ہے۔

سیاسی جماعتوں نے اس نظام کو ظالمانہ رویہ قرار دیتے ہوئے نہ صرف عوامی احتجاج بلکہ عدالتوں میں قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کر دیا ہے، جس کے بعد اس نظام کا مستقبل اب سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے سے منسلک ہو گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صدر زرداری کی سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ سے ملاقات، خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام پر زور
  • پنجاب میں ای چالان نظام کا دائرہ 19 شہروں تک وسیع
  • غزہ کا سیاسی و انتظامی نظام فلسطینی اتھارٹی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے: استنبول اجلاس کا اعلامیہ جاری
  • ایم کیو ایم نے مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانے کیلئے آرٹیکل 140-A میں ترمیم کی قرارداد سندھ اسمبلی میں جمع کرادی
  • بنیادی  انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان
  • مقامی حکومتوں کے لیے آئین میں تیسرا باب شامل کیا جائے، اسپیکر پنجاب اسمبلی
  • وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں (ن) لیگی وفد کی آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ملاقات، آئینی ترمیم پر حمایت کی درخواست
  • سیاست سہیل آفریدی کا حق، اپنے صوبے کے معاملات دیکھنا بھی ان کی ذمہ داری: عطا تارڑ
  • جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
  • سہیل آفریدی کے سیاسی قائدین سے رابطے‘ قیام امن کیلئے مل کر چلنے کی پیشکش