چین اور امریکہ وسیع مشترکہ مفادات اور تعاون کی وسیع گنجائش رکھتے ہیں، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
چین اور امریکہ وسیع مشترکہ مفادات اور تعاون کی وسیع گنجائش رکھتے ہیں، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 7 March, 2025 سب نیوز
بیجنگ :”آج دنیا کے سب سے بڑے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ملک کی حیثیت سے ، چین اور امریکہ کو ایک طویل عرصے تک اسی سیارے پر رہنا ہے ، لہذا انہیں پرامن طور پر ایک ساتھ رہنا چاہئے۔” سی پی سی سینٹرل کمیٹی کے پولیٹیکل بیورو کے رکن اور وزیر خارجہ وانگ ای نےقومی عوامی کانگریس اور چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کی پریس کانفرنس میں چین امریکہ تعلقات کا تعین ان الفاظ میں کیا ۔چین امریکہ امریکہ تعلقات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
چائنا میڈیا گروپ سی جی ٹی این کی جانب سے دونوں ممالک میں 18 سے 45 سال کی عمر کے 4003 نوجوان جواب دہندگان پر کیے گئے ایک سروے کے مطابق، باہمی احترام اور باہمی مفاد کی بنیاد پر جیت جیت ،جواب دہندگان کا عمومی اتفاق رائے ہے۔سروے میں شامل دونوں ممالک کے نوجوان جواب دہندگان کا ماننا ہے کہ باہمی مفاد اور جیت جیت معاشی اور تجارتی مسائل کا بنیادی حل ہے ، 87.
چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے، 66.4 فیصد چینی نوجوانوں نے “تعاون اور مسابقت ساتھ رہنے ” کا انتخاب کیا،جبکہ 17.7 فیصد نے کہا کہ یہ “مسابقت” ہے. 43.1 فیصد امریکی نوجوانوں نے “تعاون اور مسابقت” کا انتخاب کیا ، اور 22.7فیصد نے “مسابقت” کا انتخاب کیا۔ سروے میں شریک نوجوانوں نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات میں ساختی مسائل کو سنجیدگی سے دیکھا جائے ، بات چیت پر عمل پیرا رہا جائے اور انہیں مناسب طریقے سے حل کیا جائے ۔ درحقیقت، چین اور امریکہ وسیع مشترکہ مفادات اور تعاون کی وسیع گنجائش رکھتے ہیں اور باہمی کامیابی اور مشترکہ خوشحالی کے حصول کے لیے شراکت دار بن سکتے ہیں۔ سروے میں 98.2 فیصد چینی نوجوانوں اور 92.6 فیصد امریکی نوجوانوں نے اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ وہ دوطرفہ تعلقات کی صحت مند اور مستحکم ترقی دیکھنے کے منتظر ہیں۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: چین اور امریکہ
پڑھیں:
مغربی رہنما سرد جنگ کے دور کی “زیرو سم” سوچ میں جکڑے ہوئے ہیں، چینی میڈیا
مغربی رہنما سرد جنگ کے دور کی “زیرو سم” سوچ میں جکڑے ہوئے ہیں، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 30 June, 2025 سب نیوز
بیجنگ :گزشتہ G7 سربراہی اجلاس میں یورپی کمیشن کی صدر نے “چین شاک تھیوری” کو زور و شور سے پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ “جب ہم شراکت دار ممالک کے درمیان ٹیرف مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں تو ہماری توجہ اصل چیلنج سے ہٹ جاتی ہے جو ہم سب کے لیے خطرہ ہے – اور وہ ہے چین”۔ ان کا تجویز کردہ حل یہ ہے کہ G7 معیشتیں عالمی GDP کا 45 فیصد اور دانشورانہ ملکیت کی آمدنی کا 80 فیصد سے زائد حصہ رکھتی ہیں – اگر یہ ممالک متحد ہو کر چین کے خلاف کھڑے ہوں تو یہ ان کے لیے میدان مارنے کا موقع ہوگا۔افسوس! امریکہ کی طرف سے مسلسل ذلت آمیز سلوک کے باوجود یورپی یونین نے خود احتسابی کی بجائے دوسروں پر بدنصیبی کا سبب بننے کی احمقانہ اور بری کوششیں کی۔ ہم ایسی یورپی یونین کی بدقسمتی پر ماتم ہی کر سکتے ہیں اور اس کی بزدلی اور حماقت پر غصہ ۔ بندر کی طرح تاج پہن کر خود کو بادشاہ سمجھنے کا یورپی یونین کا یہ تماشہ انتہائی شرمناک ہے۔یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب یورپی یونین نے ٹرمپ کو چین کے خلاف اتحاد کی تجویز پیش کی۔ گزشتہ مہینوں میں یورپی تجارتی کمشنر چین کے خلاف مشترکہ موقف تلاش کرنےکے لئے متعدد بار امریکہ گئے ۔افسوس کی بات ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے مکمل تجارتی جنگ کے اعلان کے بعد، جبکہ یورپ کو سٹیل اور آٹوموبائل ٹیرفس اور معطلی کی میعاد ختم ہونے کا سامنا ہے، یورپی یونین نے پھر بھی ذلت آمیز انداز میں ٹرمپ کو قائل کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ”آپ درست کہہ رہے ہیں،
مسئلہ موجود ہے مگر وہ ہم نہیں بلکہ چین ہیں۔ ہم سب شکار ہیں، ہمیں مل کر چین کو نشانہ بنانا چاہیے”۔G7 اجلاس میں پیش کردہ “چین شاک تھیوری” درحقیقت بعض مغربی سیاستدانوں کی تنگ نظری کی آئینہ دار ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر کے بیانات نہ صرف عالمی معاشی حقائق کا سنگین غلط اندازہ ہیں بلکہ تاریخی ارتقاء کے اصولوں سے بھی متصادم ہیں۔ اکیسویں صدی میں جب دنیا باہم گہرے طور پر جڑ چکی ہے، بعض مغربی رہنما اب بھی سرد جنگ کے دور کی “زیرو سم” سوچ میں جکڑے ہوئے ہیں۔ G7 ممالک کے عالمی GDP اور IP رائلٹیز میں حصے کو “گروپ بندی” کی تعمیر کے لیے استعمال کرنا ناصرف فرسودہ سوچ ہے بلکہ انتہائی خطرناک بھی ۔ یہ نہ صرف معاشی عالمگیریت کے رجحان کے خلاف ہے بلکہ دنیا بھر کے عوام کی ترقی کی خواہشات کو بھی نظرانداز کرتی ہے۔تاریخ بہترین استاد ہے۔دریافت کے زمانے میں عالمی تجارت کے آغاز سے لے کر صنعتی انقلاب کے نتیجے میں بین الاقوامی تقسیم کاری کے قیام تک ؛ برٹن ووڈز سسٹم سے لے کر چین کے کھلے پن اور عالمی معیشت میں انضمام تک ، انسانی معاشی ترقی کی تاریخ درحقیقت رکاوٹوں کو توڑنے اور تعاون کو گہرا کرنے کی داستان ہے۔
موجودہ عالمی معاشی نظام میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، مغربی مرکزیت پر مبنی پرانا نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ IMF کے اعداد و شمار کے مطابق خریداری کی طاقت کے تناسب کے حساب سے ابھرتی ہوئی معیشتیں عالمی GDP کا 58.3 فیصد حصہ رکھتی ہیں جو ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہے۔ اس رجحان کے باوجود یورپی یونین نہ صرف نئے عالمی توازن میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام ہے بلکہ امریکہ کی تابع دار بن کر اپنے مسائل کا ذمہ دار چین کو ٹھہرا رہی ہے۔ یہ رویہ نہ تو یورپی یونین کے ساختی مسائل (جیسے صنعتی مسابقت اور اختراعی صلاحیتوں کی کمی) کو حل کر سکے گا، نہ ہی گلوبل ساوتھ ممالک کے اجتماعی عروج کو روک پائے گا۔ یورپی یونین کے مسائل کی جڑ اس کی اپنی صنعتی ترقی میں تاخیر ہے، نہ کہ فرضی “چین شاک” نظریہ ۔ داخلی مسائل کو بیرونی خطرے کے طور پر پیش کرنے کی یہ سوچ یورپی یونین کو اسٹریٹجک خودمختاری کے راستے سے بھٹکا دے گی۔انسانی ترقی کبھی بھی اجارہ داری اور دباؤ کے ذریعے حاصل نہیں ہوئی۔قدیم شاہراہ ریشم پر اونٹوں کی گھنٹیوں سے لے کر ڈیجیٹل دور کے بٹس (bits) تک ، تہذیبیں تبادلے سے ہی رنگین ہوتی ہیں اور معیشتیں کھلے پن سے ہی خوشحال ہوتی ہیں۔ مغربی سیاستدانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آج کی دنیا میں چند ترقی یافتہ ممالک انسانی تقدیر کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ چین کی ترقی موقع ہے ۔
یہ کوئی خطرہ نہیں ۔ 1.4 ارب چینیوں کی جدید کاری سے نہ صرف بڑے پیمانے پر طلب پیدا ہوگی بلکہ اختراعی سرگرمیوں کو بھی تقویت ملے گی۔ ہم یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک سے پرانی سرد جنگ کی سوچ ترک کرنے، چین کے ساتھ مل کر عالمی سپلائی چین کو مستحکم کرنے اور مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کی اپیل کرتے ہیں۔ مساوات، باہمی فائدہ، کھلا پن اور رواداری ہی انسانیت کو روشن مستقبل کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ دیواریں کھڑی کرنے والے اپنے آپ کو تنہا کر لیں گے، جبکہ متقبل راستے کھولنے والوں کا ہی ہو گا ۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسی پی سی سینٹرل کمیٹی کی جانب سے ’’ فیصلہ سازی، غور و خوض اور کوآرڈینیشن کے ادارے کے امور سے متعلق قواعد و ضوابط‘‘ پر نظر ثانی سی پی سی سینٹرل کمیٹی کی جانب سے ’’ فیصلہ سازی، غور و خوض اور کوآرڈینیشن کے ادارے کے امور سے متعلق قواعد و... کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے ارکان کی کل تعداد 10 کروڑ سے تجاوز کر گئی پاکستانی پویلین کا چین-یوریشیا ایکسپو میں افتتاح غریب عوام پر پٹرول بم گرانے کی تیاری، قیمتوں میں بڑے اضافے کا امکان اوگرا نے گھریلو صارفین کیلئے گیس کی قیمت میں بڑا اضافہ کردیا،نوٹیفکیشن جاری وفاقی حکومت نے 285 اشیا پر دوبارہ ڈیوٹیز عائد کرنیکی منظوری دیدیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم