Daily Ausaf:
2025-07-04@18:55:06 GMT

توبہ کا دروازہ کھلا ہے، دیر نہ کریں!

اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT

ہاں حالات توخراب ہیں،بہت خراب،لیکن کیوں ہیں؟میں نہیں جانتا،سوچتاضرورہوں اور میں اس نتیجے پرپہنچاہوں کہ میں اصل نہیں ہوں جعلی ہوں۔ایک کشتی کی بجائے بہت سی کشتیوں میں سوار ہوں۔ایک راستہ چھوڑکربہت سے راستوں پرگامزن ہوں ۔ ادھورا اور نامکمل ہوں میں۔ میں اپنا اعتمادکھوبیٹھاہوں اور سہاروں کی تلاش میں ہوں۔میں اتناتوجانتاہی ہوں کہ بیساکھیوں سے میں چل تولوں گالیکن دوڑنہیں سکوں گاپھربھی بیساکھیوں کاسہارا،میں گلے اور شکوے شکایت کرنے والابن گیاہوں۔مجھے یہ نہیں ملا،میں وہ نہیں پاسکا،ہائے اس سماج نے تومجھے کچھ نہیں دیا،میرے راستے کی دیواربن گیاہے۔
میں خودترسی کاشکارہوں،میں چاہتاہوں کہ ہر کوئی مجھ پرترس کھائے،میں بہت بیچارہ ہوں، میرا کوئی نہیں۔میں تنہاہوں،مجھے ڈس رہی میری اداسی، ہائے میں مرگیا، ہائے میں کیاکروں،میں مجسم ہائے ہوں۔ میں کیاہوں،میں کون ہوں،مجھے کچھ معلوم نہیں۔ عجیب سے مرض کاشکارہوں میں۔ بس کوئی مجھے سہارادے،کوئی میراہاتھ تھامے،کوئی مری بپتاسنے،بس میں اور میری کا چکر۔میں اس گرداب میں پھنس گیاہوں اورنکلنے کی کوشش کی بجائے اس میں غوطے کھارہاہوں۔میں حقائق سے آنکھیں چراکر خواب میں گم ہوں۔ہرشے بس مری دسترس میں ہو،جبکہ میں جانتاہوں کہ میں کن کہہ کرفیکون نہیں دیکھ سکتا ، پھر بھی!
میں اس پرتوکبھی غورہی نہیں کرتاکہ میں نے کیادیالوگوں کو!اس سماج کومیں نے کیادیا!میں دینا جانتا بھی ہوں یامجھے بس لینا ہی آتاہے؟کبھی نہیں سوچا میں نے۔مجھے خودسے فرصت ملے توسوچوں بھی ناں!میں نے کسی سے محبت کادعوی کیا،جینے مرنے کی قسمیں کھائیں اورپھراسے دھوکادیا،اس کے اعتمادسے کھیل گیا!میں اسے کوئی جرم نہیں سمجھتا۔ کسی نے مجھ سے ہمدردی کی،میراساتھ دیا،مجھے اپنے کام میں شریک کیااورمیں نے کیاکیا؟جب میراہاتھ کشادہ ہواتواسے چھوڑ کر دوسروں کے پاس جابیٹھا،میں نے اپنی چرب زبانی سے لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکالے،انہیں سہانے خواب دکھائے،مفلوک الحال لوگوں کوجعلی پلاٹ فروخت کر دیئے، کسی غریب نے قرض لے کرمجھے پیسے دیئے کہ میں اسے باہر بھیج دوں تاکہ اس کاہاتھ کشادہ ہو،میں نے کسی اورکے ہاتھ بیچ ڈالا،اس کا پورا مستقبل تباہ کرڈالا۔ میں نے اپنا پیٹ بھرنے کے لئے ہروہ کام کیاجس پرمجھے شرم آنی چاہیے لیکن میں اترائے پھرتاہوں۔میں نے بڑے لوگوں سے تعلقات بنائے اس لئے کہ وہ میرے کرتوتوں میں میری معاونت کریں۔میں نے غنڈوں اور بدمعاشوں کی فوج تیارکی اورخاک بسرلوگوں کوزندہ درگور کردیا اور پھربھی میں معززہوں۔ میں نے بینکوں سے فراڈکے ذریعے بھاری رقوم کاہیرپھیرکیا اورکئی ایکڑپرمحیط فارم ہاؤس بناکراس میں عیش وعشرت سے رہنے لگا،اپنے جرائم کومیں دیکھتاہی نہیں ہوں۔میں نے قبرستان میں کئی مردے دفن کئے اورخودکبھی نہیں سوچاکہ مجھے بھی یہاں آنا ہے۔ میں نے جعلی ادویات بنائیں،انہیں فروخت کیااور اپنی تجوریاں بھرلیں،میں نے مذہب کوپیسہ کمانے کاذریعہ بنا لیا۔میں ایک بہت اچھابہروپیاہوں جو ایسا روپ دھارتاہے کہ اصل کاگمان ہو۔میں نے لوگوں کی فلاح وبہبودکاکام بھی اس لئے کیا کہ لوگوں میں میری واہ واہ ہواورسماج میں میری وقعت بڑھے اورپھراس کوبھی پیسے کمانے کاذریعہ بنالیا۔میں نے چند روپوں کاراشن تقسیم کیااور اپنی اس سستی شہرت کے لئے اس سخاوت کی تصاویربنواکراخبارات کو جاری کیں،ان کوباربار دیکھ کراپنے نفس کوخوب موٹا کیا۔میں نے رشوت لی،حق تلفی کی،ہرناجائزکام کیااورجائز کام والوں کوراستہ ہی نہیں دیاجب تک میری جیب نہ بھردی انہوں نے۔عجیب ہوں میں،بندہ نفس،بندہ مکروفریب،بندہ حرص وہوا۔
ہم سب مجرم ہیں،کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں،اگرکسی نے مجھے گالی دی میں نے اس کوقتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا اورجب اللہ کے قا نون کوتوڑاگیاتوبس میں تبصرہ کرتارہ گیا ،مسجدیں بموں سے اڑادی گئیں اورمعصوم ویتیم بچیوں کو فاسفورس بموں سے بھسم کردیا اورمیں بس ٹی وی کے سا منے بیٹھادیکھتارہا۔میں نے ملک اور اس میں رہنے والے معصوم لوگوں کے لئے آخر کیا کیا ؟ سوائے جمع زبانی خرچ کے!
پھرجب میں ہلکان ہوگیا،مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہاتھاکہ میں اس عذاب سے جومیں نے اپنی غلط کاریوں کی بدولت خریداہے اس سے نجات کیسے حاصل کروں۔تب میں نے پہلے اقرار کیااپنی خطاؤں کااپنے رب کے سا منے اورپھر عزم کیانہیں اب میں بندہ نفس نہیں،بندہ رب بننے کی کوشش کروں گا۔یہ بہت مشکل ہے،بہت زیادہ،لیکن میں نے اپنے رب کوسہارابنا لیا اور میرے زخم بھرنے لگے،پھرایک دن ایسابھی آیاکہ میں نے تہیہ کرلیاکہ میں اپنے لئے نہیں خلق خداکے لئے زندہ رہنے کے لئے کوشش کروں گا۔
رب کریم کاسہاراپکڑلیں تومشکلیں آسان ہوجاتی ہیں۔بہت الجھن ہونے لگتی تھی کہ میں عذاب اورآزمائش میں فرق کیسے کروں، تب میں نے اپنامسئلہ ان کے سا منے رکھ دیا، بہت دیرتک دیکھتے رہے، مسکراتے رہے اورپھرایک ہی چٹکی میں یہ مشکل بھی حل کر دی۔
دیکھ بہت آسان ہے عذاب اورآزمائش میں فرق رکھنا،جب کوئی پریشانی،مصیبت،دکھ یاکوئی مشکل آئے اوروہ تجھے تیرے رب کے قریب کردے توسمجھ لے یہ آزمائش ہے اور جب کوئی پریشانی،مصیبت،دکھ یاکوئی مشکل تجھے رب سے دورکردے توسمجھ لے یہ عذاب ہے،توبہ کاوقت ہے،ضرورکرتوبہ اورجلدی کراس میں!
خوش نصیب ہیں ہم کہ ایک مرتبہ پھرماہِ رمضان المبارک کی ساعتیں نصیب ہورہی ہیں اوراس کاایک ایک لمحہ بڑاقیمتی ہے،اپنے رب کومنانے میں کابہترین موقع ہے اور رب سے قربت کا طریقہ بھی اس قدرآسان ہے کہ آدمی نیت کرلے کہ مجھے رب کی مخلوق سے محبت کرنی ہے۔میرے رب نے فرمایاہے کہ ساری مخلوق میراکنبہ ہے،تم اس سے محبت کرو، میں تم سے محبت کروں گا۔
کیونکہ رمضان المبارک تونیکیوں کا موسم بہار اورروحانی تربیت کامہینہ ہے۔یہ مہینہ نہ صرف عبادات کادرس دیتاہے بلکہ نفس کی اصلاح،سماجی ہم آہنگی اور قرب الہٰی کابہترین ذریعہ ہے۔رمضان المبارک کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مہینہ رحمت اور مغفرت کامہینہ ہے۔حدیث نبویﷺمیں آیاہے کہ رمضان کے ابتدائی دس دن رحمت، درمیانی دس دن مغفرت اور آخری دس دن جہنم سے رہائی کے ہیں۔یہ مہینہ اللہ تعالی کی رحمتوں کے دروازے کھول دیتاہے اوربندہ اگرسچے دل سے توبہ کرے تواس کے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔
روزے کامقصدصرف بھوکاپیاسارہنانہیں بلکہ اپنے نفس کوقابومیں رکھناہے۔قرآن کریم میں فرمایا گیاہے’’یعنی روزے تم پرفرض کیے گئے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘ یہ مہینہ انسان کواپنی خواہشات پرقابوپانے اور صبروشکرکاسبق دیتاہے۔رمضان المبارک توبہ کا بہترین وقت ہے۔جوشخص اپنے گناہوں پرشرمندہ ہوکراللہ کے حضوررجوع کرتاہے،اللہ اس کے گناہ معاف کردیتاہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے’’من صام رمضان یمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ‘‘ جس نے ایمان کے ساتھ اورثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔ (بخاری)
رمضان المبارک میں زکوٰۃ ،صدقات اور خیرات کاجذبہ عام ہوجاتاہے۔بھوکوں کوکھانا کھلانا، مستحقین کی مددکرنااورحاجت مندوںکاسہارابننا اس مہینے کی نمایاں صفات ہیں۔یہ مہینہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ معاشرے کے کمزوراورضرورت مندافرادکی مدد کرناہمارافرض ہے۔رمضان میں راتوں کوجاگ کر عبادات کرنے کاخاص اہتمام کیاجاتاہے۔تراویح کی نماز، تلاوت قرآن اوردعاو مناجات اس مہینے کاخاصا ہیں۔ لیلتہ القدرکی تلاش اوراس رات کی عبادات ہزارمہینوں سے افضل قرار دی گئی ہیں۔رمضان کے روزے جہاں ایک طرف اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، وہیں یہ آزمائش بھی ہیں کہ بندہ اپنے جذبات اور خواہشات پر قابوپاسکے۔مشکلات اورآزمائشیں انسان کواپنے رب کے قریب کرتی ہیں اورانہیں صبراوراستقامت کادرس دیتی ہیں۔رمضان خوداحتسابی کامہینہ ہے۔یہ وقت ہے کہ بندہ اپنی زندگی کاجائزہ لے کہ اس نے کیا کھویا اورکیاپایا۔اللہ کی طرف رجوع کرے اور اپنی اصلاح کا عزم کرے۔
ہمارے چاروں طرف کیاہورہاہے،ہمیں خود دیکھنااورسوچناچاہیے،ہم اجتماعی آزمائش میں مبتلاہیں یااجتماعی عذاب میں؟ماہِ رمضان شروع ہوچکاہے’’پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت سے انکارکرو گے‘‘۔ مجھے اپنے اندرسے کہیں یہ آوازآ رہی ہے کہ ’’پلٹ آ،یہ جہنم سے رہائی کامہینہ،توبہ کابہترین موقع،گریہ وزاری کرنے کی راتیں،لیلتہ القدرکو ڈھونڈنے کابہانہ، اپنے رب کی طرف پلٹنے کاوقت،جلدی کرنادان،ایسانہ ہوکہ دروازے پرمنادی دینے والاپھرنہ لوٹے!

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: رمضان المبارک یہ مہینہ اپنے رب توبہ کا ہوں میں ہیں یہ نے کیا ہے اور کے لئے ہوں کہ کہ میں

پڑھیں:

ایران اسرائیل کی امکانی استعداد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایران پر اسرائیلی حملوں کا آغاز 13جون کو ہوا اور 24 جون کو جنگ بندی ہوئی، اس میں بلاشبہ تناسب کے اعتبار سے ایران کا نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔ اعلیٰ فوجی قیادت منظر سے ہٹ گئی، بعض ایٹمی مراکز، حساس دفاعی تنصیبات اور شہری مقامات پر اندھا دھند بمباری کی گئی ہے۔ لیکن امریکا، اسرائیل اور اہل ِ مغرب کے تمام تر اندازوں کے برعکس ایران نے ہتھیار نہیں ڈالے، بلکہ جرأت واستقامت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ ایران کی بعض کمزوریاں بھی سامنے آئیں کہ موساد، را اور سی آئی اے کے اشتراک سے دشمن کا جاسوسی نظام اُن کی صفوں کے اندر نفوذ کرچکا تھا حتیٰ کہ ایران کے اندر ڈرون تیار کرنے کا کارخانہ بھی بنالیا گیا تھا۔ اس انٹیلی جنس خامی کے سبب ایران کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، لیکن انہوں نے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ سطورِ ذیل میں ہم ایران اور اسرائیل کی امکانی استعداد کا تقابل کرتے ہیں:
(۱) ایران کا رقبہ پاکستان سے دوگنا یعنی 1648000 مربع کلومیٹر ہے، جبکہ اس کے مقابل اسرائیل کا رقبہ 22145 کلومیٹر ہے، پس ایران کا رقبہ اسرائیل سے تقریباً 75 گنا بڑا ہے۔ ایران کی آبادی تقریباً آٹھ کروڑ نوّے لاکھ اور اسرائیل کی آبادی تقریباً پچانوے لاکھ ہے، پس ایران کی آبادی اسرائیل سے تقریباً ساڑھے نوگنا زائد ہے۔ رقبے کی وسعت اور آبادی کا تناسب ایران کی بہت بڑی قوت ہے۔ ایرانی بھاری نقصان اٹھاکر بھی دوبارہ ابھرسکتے ہیں، طاقت بن سکتے ہیں، کیونکہ ان میں قومی تفاخر کا جذبہ موجود ہے، جنگ کی شدید ترین تباہی و بربادی کے باوجود ایرانیوں کے جلوسوں اور جمعوں کے اجتماعات سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایران سے بھارت کو پہچاننے میں غلطی ہوئی اور اس کا نقصان انہیں اس جنگ میں اٹھانا پڑا۔ اس جنگ کا سبق یہ ہے کہ ایران کو پڑوسی مسلم ممالک پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کرنا چاہیے۔ ایران کا ایک صوبہ آذربائیجان ہے اور اس کے متصل آذربائیجان ایک خودمختار ملک بھی ہے، ایران کے اُس کے ساتھ بھی تعلقات خوشگوار نہیں ہیں، ایران کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(۲) اسرائیل کی آبادی اور رقبہ دونوں محدود ہیں، اگر ایران دس آدمیوں کا نقصان برداشت کرسکتا ہے تو اُس کے مقابل اسرائیل کے لیے ایک آدمی کا نقصان بھی ناقابل ِ برداشت ہے۔ مسلمان کی خوبی یہ ہے کہ وہ موت سے نہیں ڈرتا، کیونکہ اس کا عقیدہ ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے اور وہ ٹلتا نہیں ہے، جبکہ قرآنِ کریم کی شہادتیں موجود ہیں اور ہم ایک گزشتہ کالم میں اُن آیاتِ مبارکہ کے حوالے دے چکے ہیں کہ یہودی موت سے بہت ڈرتا ہے اور یہی اُس کی بڑی کمزوری بھی ہے۔
(۳) ایران کی کمزوری فضائی قوت کا نہ ہونا ہے، کیونکہ اُس کے پاس شاہ کے زمانے کے فرسودہ جنگی ہوائی جہاز ہیں جو جدید دور کے جنگی ہوائی جہازوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اسی سبب اسرائیل کو فضا میں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کیونکہ اسرائیل کے جنگی جہاز جدید ترین ہیں، انہیں پانچویں نسل کے جنگی جہاز کہاجاتا ہے اور موجودہ دور کی جنگوں میں وہی استعمال ہوتے ہیں، الحمدللہ! پاکستان کے پاس بھی جدید ترین جنگی جہاز موجود ہیں اور حالیہ پاک بھارت جنگ میں اُن کی برتری ثابت ہوچکی ہے۔ یہ محض یک طرفہ دعویٰ نہیں ہے، بلکہ عالمی میڈیا نے اسے تسلیم کیا ہے، اگرچہ بھارت کو اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں سبکی محسوس ہورہی ہے۔
(۳) اسرائیل کے پاس فضائی دفاع کا آئرن ڈوم نظام ہے، اس کے ذریعے دشمن کے میزائلوں کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے فضا میں تحلیل کردیا جاتا ہے، جیسا کہ ابتدائی طور پر ایران کے میزائلوں کے ساتھ ہوا۔ لیکن جب ایران نے فتح، خیبر اور سِجِّیْل ہائپر سونک میزائل داغے تو اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام سو فی صد مؤثر نہیں رہا۔ لہٰذا بعض میزائل اپنے اہداف تک پہنچے میں کامیاب ہوگئے، اگرچہ اُن کا حقیقی تناسب ابھی تک سامنے نہیں آیا، کیونکہ زمانۂ جنگ میں قومی اعتماد کو قائم رکھنے کے لیے حقائق کو چھپایا بھی جاتا ہے۔ تاہم یہ ضرور ثابت ہوا کہ میزائل ٹیکنالوجی میں ایران کافی آگے ہے اور شاید اسرائیل، امریکا اور اہلِ مغرب کو بھی ایران کی اس استعداد کا صحیح اندازہ نہیں تھا۔
(۴) اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے میزائل سازی کے کارخانے کو بھی تباہ کردیا ہے۔ اس کی حقیقت تو ہمیں معلوم نہیں ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ ایران نے ایک سے زائد مقامات پر یہ کارخانے لگائے ہوں، لیکن ایران کے سابق وزیر خارجہ نے بجا طور پر کہا ہے کہ آپ میزائل سازی کے کارخانوں اور حساس ایٹمی مراکز تو نقصان پہنچا سکتے ہیں، لیکن آپ علم کو نیست ونابود نہیں کرسکتے۔ جب ہمارے پاس اعلیٰ ٹیکنالوجی، جدید سائنسی اور جوہری علوم کے حامل رِجالِ کار موجود ہوں گے، تو ہم دوبارہ یہ قوت حاصل کرلیں گے۔ جنگ میں اسلحے کی آزمائش بھی ہوتی ہے، اس لیے جنگ کے بعد اس کی تکنیکی کمزوریوں پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ ایران اسرائیل جنگ کے تجربے کا ایک سبق یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی میزائل سازی کی صنعت کو مزید ترقی دینے کی ضرورت ہے، اب ہمیں ہائپر سونک میزائلوں کی طرف جانا ہوگا، نیز آئرن ڈوم کی طرز پر فضائی دفاعی نظام بنانا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
(۵) یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایران نے عالمی پابندیوں اور اقتصادی مشکلات کے باوجود اپنے کافی وسائل شام، لبنان، یمن اور عراق میں اپنے زیر ِ اثر مسلّح گروہ تشکیل دینے پر خرچ کیے، لیکن آخر ِ کار اُن علاقوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ اب انہیں اس امر کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ آیا یہ حکمتِ عملی درست تھی، اس پر کتنے وسائل خرچ ہوئے اور نتائج کیا ملے۔ بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کے لیے ایران نے بہت کچھ کیا، لیکن انجامِ کار اُس کے زوال کو بھی بچایا نہ جاسکا، یہ ایران کے لیے مایوسی اور ندامت کی بات تھی۔ اگر ایران یہ تمام وسائل اپنی فضائی، برّی اور بحری قوت کو منظم کرنے پر خرچ کرتا تو شاید نتائج مختلف ہوتے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاسدارانِ انقلاب اور باقاعدہ افواج کی الگ الگ قیادت اور ذمے داریوں کے نتائج مثبت رہے یا منفی۔
(۶) ایران کی حکمت ِ عملی کی ایک غلطی انقلاب کو برآمد کرنے کا نعرہ تھا، اس سے عرب حکمرانوں کو اپنی سلطنتیں اور حکومتیں بچانے کی فکر لاحق ہوگئی، اس کے نتیجے میں ایران کو دس سال تک عراق کے ساتھ بے نتیجہ جنگ میں اپنے وسائل جھونکنے پڑے۔ فارسی کا مقولہ ہے: ’’مشک آنست کہ خود ببوید، نہ کہ عطار بگوید‘‘، یعنی خوشبو اپنا اشتہار خود ہوتی ہے، عطّار کی تعریف کی محتاج نہیں ہوتی۔ پس اگر انقلاب کے بعد ایران اعلیٰ معیار کا نظامِ حکومت قائم کر دیتا، جہاں ہر سو عدل کا دور دورہ ہوتا، عوام خوشحال ہوتے، عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد و محبت کا رشتہ ہوتا، تو پڑوسی ممالک پر یقینا اس کے اثرات مرتب ہوتے اور اُن کے عوام کے دلوں میں بھی آزادی کی خواہش جنم لیتی۔ انقلاب برآمد کرنے کے نعرے اور بیرونِ ملک اپنے زیرِ اثر گروہ پیدا کرنے سے ایران کے بارے میں ایک توسیع پسندانہ ریاست کا تصور پیدا ہوا۔
(۷) یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایران عراق جنگ کے زمانے میں ہمارے ملک میں بھی بیرونی سرمائے سے اپنے تابع فرمان گروہ پیدا کیے گئے، مسالک کے درمیان مسلّح تصادم ہوئے، اس سے ہمارے ملک کو بہت نقصان پہنچا۔ اگر یہ سلسلے اب موقوف کردیے جائیں تو سب پڑوسی ممالک کے لیے اچھا ہوگا، امارتِ اسلامیہ افغانستان کو بھی ہمارا مشورہ یہی ہے۔ بہر صورت اب جنگ بندی کے بعد ٹھنڈے دل سے اس کے اسباب، نتائج اور حکمت ِ عملی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
(۸) ہمارے ائمہ ٔ مجتہدین نے ہمیشہ اپنے اجتہادات کو قرآن وسنّت کے دلائل سے مزیّن کیا، اسی بنیاد پر بحث وتمحیص کا شِعار رائج کیا، نزاع اور تصادم سے گریز کیا، اس کے نتیجے میں اسلام کو بہت بڑا علمی سرمایہ ورثے میں ملا۔ پس بہتر ہے کہ اپنے اپنے دائرۂ کار میں سب اپنے موقف کو اپنے دلائل سے بیان کریں، دوسروں پرطنز، طَعن وتشنیع، سبّ وشتم، تبرّا اور تحقیر واہانت کا سلسلہ ترک کردیں تو ملک و ملّت کے لیے یہ شعار بہتر ہوگا۔ جب کسی کے علمی اثاثے میں دلائل نہ ہوں تو طاقت کے استعمال کی نوبت آتی ہے اور یہیں سے فساد کا آغاز ہوتا ہے۔ آج ہمارے دفاعی ادارے ایسے ہی طبقات کو فتنۃ الخوارج اور فتنۂ ہند سے تعبیر کر رہے ہیں۔ یہ تقابل ہم نے اپنی فہم کے مطابق نیک نیتی سے کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وفاقی حکومت کا گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے سرکاری افسران کے اثاثے پبلک کرنے کا فیصلہ
  • اسرائیل کا خاتمہ ہمارا ناقابل تبدیل ہدف ہے، شہید حاج رمضان کے کلمات
  • سپاہ قدس کے کماندر حاج رمضان کی تشیع جنازہ
  • 30 سال تک گمنامی میں رہنیوالے قدس فورس کے جنرل شہید حاج رمضان کا آخری وداع
  • نواز شریف اڈیالہ جیل کا دروازہ کھلوا سکتے ہیں، طارق فضل چوہدری کا صحافی کو جواب
  • ’’ٹرمپ مجھے گرفتار اور ملک بدر کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں‘‘، ظہران ممدانی کا الزام
  • پاکستان میں ان ڈرائیو کورئیر پارٹنرز کی تعداد میں 57 فیصد اضافہ
  • جیل اسیران کا کھلا خط
  • ’آئندہ ڈالا کلچر یا اسلحے کی نمائش نہیں کروں گا‘، ٹک ٹاکر کاشف ضمیر نے توبہ کرلی، ویڈیو وائرل
  • ایران اسرائیل کی امکانی استعداد