اٹارنی جنرل آفس نے دو لاء افسران کے تبادلے کر دیئے
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
اٹارنی جنرل آفس اسلام آباد نے ہائیکورٹ میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے فرائض سر انجام دینے والے لاء افسر کا سپریم کورٹ تبادلہ کردیا جبکہ سپریم کورٹ میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے عہدے پر تعینات لاء افسر کو اسلام آباد ہائیکورٹ بھیج دیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ اٹارنی جنرل آفس نے 2 لاء افسران کے تبادلے کر دیئے۔ ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے فرائض سر انجام دینے والے منور اقبال دوگل کا سپریم کورٹ تبادلہ کردیا جبکہ سپریم کورٹ میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے عہدے پر تعینات عمر اسلم خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ بھیج دیا گیا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ دونوں لاء افسران کے تبادلے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کورٹ میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے اٹارنی جنرل آفس اسلام آباد سپریم کورٹ
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد:صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔