Express News:
2025-07-03@14:50:31 GMT

ہشیار رہئے!!

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

’’ باجی… ‘‘ لمبی سی سر کے ساتھ کسی نے مجھے مخاطب کیا تھا۔ میں نے پلٹ کر سوالیہ نظر سے دیکھا۔ سر تا پا برقعہ نما لباس میں ملبوس، آواز سے نوجوان لڑکی محسوس ہوئی تھی مگر دل میں خیال آیا کہ وہ اس بھیس میں لڑکا بھی ہو سکتا تھا۔ باجی!!! کہنے کا انداز بھی بھکاریوں جیسا مخصوص انداز تھا۔ ’’ باجی مجھ سے کنگھی خرید لیں، دو دن سے میرے ہاں چولہا نہیں جلا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ چولہا جلانے والی گھر میں نہ ہو گی تو چولہا کیونکر جلے گا۔

’’ پہلے مجھے یہ بتائیں بیٹا کہ آپ یہاں داخل کیسے ہوئیں؟‘‘ مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ اس قسم کی gated اور walled سوسائٹی میں وہ اندر آئی کس طرح تھی جہاں پر بغیر پاس کے یا شناختی کارڈ جمع کروائے کوئی داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ ’’ میں چیک کرتی ہوں کہ آپ کس طرح اندر آ گئی ہیں۔ میں نے اپنے پرس میں سے جتنی دیر میں فون نکالا، اتنی دیر میں وہ یوں غائب ہوئی جیسے کہ وہ تھی ہی نہیں۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا کہ مجھے شاید کوئی خواب آیا تھا، یوں جاگتے ہوئے اور دن دیہاڑے۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی، میں دکان سے کچھ خرید کر نکلی تو اسی نوعیت کی ایک اور خاتون قریب آئی، میں اس وقت گاڑی میں سامان رکھ کر پلٹی تھی۔ میںنے غور سے دیکھا، وہ فرق خاتون تھی۔ ’’ میڈم جی… ‘‘ اسی مخصوص انداز میں اس نے آغاز لیا، ’’ کچن کی صفائی والے کپڑے لے لو جی!!‘‘

’’ اچھا کتنے کا ہے؟ ‘‘ میںنے گاڑی کی ڈگی میں سامان رکھ کر پلٹ کر سوال کیا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میں اس سے درشتی سے سوال کروں کہ وہ یہاں کیسے داخل ہوئی تھی اور وہ غائب ہو جائے ۔ میرے سوال نے اسے کچھ امید دلائی تھی، یہی میں نے چاہا تھا۔

ساٹھ روپے کا ایک ہے جی اور اگر آپ چار لیں تو میں دو سو میں دے دوں گی۔‘‘ اس نےbuy four and get 70% off    جیسی پیش کش کی۔ پرس میں سے کچھ تلاش کرنے کی اداکاری کرتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے پاس ہزار روپے کا چھٹا تھا کہ نہیں۔ اسی دوران میں نے پرس میں رکھے فون سے صاحب کو پیغام بھیجا اور اپنا حدود اربعہ بتاتے ہوئے مختصراً مسئلہ بھی بتایا۔ اس نے بتایا کہ اس کے پاس چھٹا تھا۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ یا تو وہ اتنا چھٹا ساتھ لے کر آئی تھی یا صبح سے اس نے صفائی والے اتنے کپڑے بیچ لیے تھے۔ ’’ چلو پانچ سو بھی شاید مل جائیں۔‘‘ میں نے اسی طرح پرس میں کچھ تلاشنے کی اداکاری کی ۔ ’’ کہاں سے آتی ہوں بیٹا؟‘‘ میںنے سوال کیا تو اس نے ایک قریبی قصبے کا بتایا، ’’ اچھا اندر کیسے آتے ہیں آپ لوگ، پہلے بھی ایک لڑکی مجھے ملی ہے وہ کنگھیاں بیچ رہی تھی؟‘‘ میںنے کہا تو اس نے خوشی سے بتایا کہ وہ بھی اسی کے ساتھ آتی تھی، ’’ یہاں اس کالونی میں اندرکیسے آجاتے ہو آپ لوگ؟‘‘

’’ میرا واسطہ اس سے پہلے بھی ایسی خواتین سے پڑ چکا ہے جو پہلے کچھ بیچنا چاہتی ہیں مگر جب اس سے کچھ خریدا نہ جائے تو وہ بھیک مانگنے لگتی ہیں۔‘‘ میں نے اس سے کہا۔ مجھے اتنی ہی دیر میں نظر آ گیا تھاکہ ہماری کالونی کی سیکیورٹی کا نمایندہ وہاں پہنچ چکا تھا، جب تک میں اس سے بات چیت کر رہی تھی، اسے یہی امید تھی کہ میں اس سے چار رومال لے لوں گی۔

سیکیورٹی کے نمایندے نے اس کے پاس پہنچ کر اپنی بائیک کھڑی کی اور اس سے اس کا پاس مانگا۔ اس نے پاس نکال کر دکھایا اور اس پر معمول کی کارروائی شروع ہوئی، اس کا پاس ضبط کر لیا گیا۔ جس حد تک ممکن ہو ان کے سامنے رقوم ، زیورات، اپنی جائیدادوں اور مہنگی اشیاء کی قیمتوں کی باتیں نہ کریں۔ اللہ کی ذات پر توکل کریں ضرور مگر اس سے پہلے اپنا اونٹ باندھ لیں، یہ بڑی دانائی کی بات ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سے کچھ

پڑھیں:

وہ خاموش نہیں رہیں گی

تہران کی سڑکوں پر دوڑتی ہوئی لڑکیاں ہاتھوں میں بینر، آنکھوں میں آنسو اور دلوں میں آگ کوئی احتجاج کر رہی ہے ،کوئی خاموش کھڑی ہے مگر سب کی نگاہیں کسی بہترکل کی متلاشی ہیں۔ ایران میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ فقط ایک ملک کی اندرونی سیاست نہیں بلکہ عورت کے وجود اس کی خود مختاری کی بات ہے۔

دو سال قبل ایک نوجوان لڑکی مہسا امینی صرف اس لیے ماری گئی کہ اس کے اسکارف کا انداز ایران کی اخلاقی پولیس کو پسند نہیں آیا۔ اس ایک موت نے ایک صدی کی خاموشی توڑ دی۔

زن زندگی آزادی فقط نعرہ نہیں رہا ،یہ احتجاج یہ فریاد یہ دعا بن چکا ہے۔مگر آج جب ہم ان بہادر بیٹیوں کی جدوجہد کو خراج دے رہے ہیں تو ضروری ہے کہ ایک بات کو واضح کیا جائے عورت کی آزادی اور فحاشی میں فرق ہے۔ میں عورت کی آزادی کی حامی ہوں، اس کے لباس، رائے زندگی اور خوابوں پر اس کا حق مانتی ہوں۔ مگر میں اس آزادی کے نام پر کسی بھی بے راہ روی، تجارتی جنسیت یا ثقافتی سطحیت کی وکالت نہیں کرتی۔ ہم نے آزادی کی قیمت چکائی ہے، فکری دیوالیہ پن اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح یہ مسئلہ صرف ایران یا کسی مسلمان اکثریتی ملک کا نہیں۔ اگر فرانس میں پولیس ایک لڑکی کے سر سے زبردستی اسکارف اتارتی ہے تو میں اس کے خلاف بھی اسی شدت سے لکھتی ہوں۔ لباس کا انتخاب عورت کا حق ہے، چاہے وہ اسکارف ہو یا اسکارف نہ پہننے کا فیصلہ۔ یہ اختیار نہ مولوی کو ہونا چاہیے نہ مغربی سیکولر ریاست کو۔

سوال صرف ایک ہے کیا ہم عورت کو جیتے جاگتے انسان کے بجائے اب بھی ایک چیز سمجھتے ہیں؟ ریاست ،مذہب، بازار تینوں نے عورت پر قبضہ جمانے کی کوشش کی ہے۔

کہیں اس کا بدن پردے میں قید کر کے تو کہیں اسے نیم برہنہ اشتہارات میں بیچ کر۔ہم عورت کو دیوی بھی کہتے ہیں اور فاحشہ بھی۔ وہ ماں ہو تو قابلِ احترام محبوبہ ہو تو شک کی سزا وار اور اگر وہ احتجاج کرے تو ریاست کا ہدف۔ مگر وہ خاموش کیوں رہے؟ اس کے لہجے میں آگ کیوں نہ ہو؟ایران کی بیٹیاں آج چیخ رہی ہیں کہ ہمیں جینے دو۔ وہ اخلاقی پولیس کے ہاتھوں نہیں اُس سوچ کے ہاتھوں قتل ہو رہی ہیں جو عورت کو سانس لیتا ہوا وجود نہیں مانتی۔ مگر دوسری طرف ہم نے یورپ میں بھی دیکھ لیا کہ جب ایک مسلمان لڑکی حجاب پہننا چاہے تو سیکولر ازم کے علمبردار اس سے بھی خائف ہو جاتے ہیں۔

یہ کیسی دنیا ہے؟ جہاں اگر عورت خود فیصلہ کرے تو وہ مجرم ٹھہرے؟ یہ فیصلہ کوئی مولوی کرے یا کوئی فرانس کا پولیس افسر دونوں غلط ہیں۔ عورت کی آزادی اُس کی مرضی ہے۔ اس کی تعلیم نوکری لباس محبت سب کچھ اس کے اختیار میں ہونا چاہیے۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں فریاد نہیں۔

امریکی سیاہ فام شاعرہ Maya Angelou کی نظم I Still Rise ایک ایسی نظم ہے جو ایران، افغانستان، پاکستان، فلسطین، فرانس اور پوری دنیا کی عورتوں کی بازگشت ہے۔

میں پھر بھی اٹھتی ہوں

مایا اینجلو

ممکن ہے کہ تم مجھے تاریخ میں نیچ دکھاؤے

اپنے تلخ، الجھے ہوئے جھوٹوں سے

ہوسکتا ہے تم مجھے خاک میں روند ڈالو

لیکن، پھر بھی، میں بگولے کی مانند آٹھ آؤں گی

کیا میری شوخی تمہیں پریشان کردیتی ہے؟

تمہیں اداسی نے کیوں گھیر لیا ہے؟

اس لیے کہ میں یوں چل رہی ہوں گویا میرے پاس تیل کے کنویں ہیں

جو میری بیٹھک میں تیل خارج کرے ہیں

ہزار چاند اور سورج کی مانند،

مدوجزر کے تیقن کے ساتھ،

جیسے امیدیں امنڈتی ہیں موجوں کی طرح،

میں پھر اٹھتی ہوں۔

کیا تم مجھے ہوا دیکھنا چاہتے تھے؟

سر جھکا ہوا اور نگاہیں زمیں پہ جمی؟

کندھے آنسوؤں کی مانند گرتے ہوئے

میری آہ وزاری سے شکستہ۔

کیا میری سرکشی سے تمہاری توہین ہوتی ہے؟

اسے زیادہ سنجیدگی سے نہ لو

کیونکہ میں یوں ہنستی ہوں گویا میرے پاس

سونے کی کانیں ہوں جو میں نے اپنے آنگن میں کھودی ہیں۔

ممکن ہے تم اپنے الفاظ سے مجھے ہلاک کر ڈالو

اپنی نگاہوں کی کاٹ سے ٹکڑے ٹکڑے کردو

اپنی نفرت سے میری جان لے لو

لیکن، تب بھی، میں صبا کی مانند آٹھوں گی۔

(اس نظم کا اردو ترجمہ ہماری دوست زینت حسام نے کیا ہے۔)

یہ نظم صرف کسی ایک عورت کی نہیں بلکہ یہ ہم سب کی ہے۔ ایران کی آہو دریائی کی، پاکستان کی مختاراں بی بی کی اور فلسطین کی ان بیٹیوں کی جو بارود کے سامنے اپنی آنکھیں بند نہیں کرتیں۔ دنیا کو عورت سے ڈر لگتا ہے کیونکہ جب وہ اپنی آنکھ کھولتی ہے تو سچ بولتی ہے۔ جب وہ قدم اٹھاتی ہے تو روایتیں ہل جاتی ہیں۔ جب وہ لکھتی ہے تو نسلیں جاگتی ہیں۔

ایران کی موجودہ تحریک جو مہسا امینی کی شہادت سے شروع ہوئی، اب صرف لباس کے انتخاب کی جنگ نہیں رہی۔ یہ ایک گہرے سماجی سیاسی اور ثقافتی بحران کی نمایندہ بن چکی ہے۔ ایرانی خواتین برسوں سے اس جبر کا سامنا کر رہی ہیں جو ایک طرف مذہبی انتہا پسندی کے نام پر ان کے جسم اور ذہن پر قبضہ چاہتا ہے اور دوسری طرف ایک ایسی ریاست جو تنقید کو بغاوت سمجھتی ہے، وہ ان سے سانس لینے کا حق بھی چھیننا چاہتی ہے۔ یہ لڑکیاں صرف اس لیے گرفتار کی گئیں کہ وہ ہنستے ہوئے بازار چلی گئیں یا انھوں نے اپنا اسکارف ڈھیلا کر لیا۔ کسی کے ناخنوں پر سرخ پالش تھی تو کسی نے اپنی سالگرہ کی خوشی میں موسیقی بجالی اور اس سب کی سزا کیا ملی؟ کوڑے قید اور خاموشی کی تلقین۔

اس تحریک میں سب سے متاثر کن بات یہ ہے کہ اس کی قیادت نوجوان لڑکیاں کر رہی ہیں۔ وہ جنھوں نے آنکھ کھولی تو آنکھ پر نقاب تھا جن کے ہونٹوں پر پہلا لفظ خاموش لکھا گیا مگر اب وہ چیخ رہی ہیں، گاتی ہیں اور لکھتی ہیں۔ انھوں نے سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور اپنی آواز پوری دنیا تک پہنچائی۔ ان کی بہادری کی گونج نیویارک، برلن، لاہور اور استنبول تک سنائی دی۔یہ وہ لڑکیاں ہیں جو جانتی ہیں کہ شاید انھیں کل زندہ نہ رہنے دیا جائے مگر وہ آج سچ بولنا چاہتی ہیں۔ انھوں نے اپنے خوف کو پگھلا کر آگ بنا لیا ہے۔ وہ جل رہی ہیں مگر روشنی دے رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’ ہمیں مت بتاؤ کہ ہمیں کیا پہننا ہے،ہمیں یہ بتاؤ کہ تمہیں عورت سے اتنا خوف کیوں ہے؟‘‘یہ سوال صرف ایران کے لیے نہیں، پوری دنیا کے لیے ہے۔

یہ بھی نہ بھولیں کہ ایرانی معاشرے میں خواتین نے ہمیشہ علمی ادبی اور ثقافتی میدانوں میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ فوروق فرخ زاد جیسی شاعرہ سیمین دانشور جیسی ادیبہ اور نسرین ستودہ جیسی وکیل اس بات کی دلیل ہیں کہ جبر کے سائے میں بھی روشنی پیدا کی جا سکتی ہے۔ آج کی نسل انھی چراغوں سے روشنی لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ صرف مظلوم نہیں مزاحمت کی علامت بھی ہیں اور یہی مزاحمت تاریخ کو بدلتی ہے۔ ایران کی بیٹیاں آج کی دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کربلا اور کربلا والے!
  • جنگ… کل اور آج
  • وائے می ناٹ
  • حق کی تلوار اور ظلم کا تخت
  • پی ٹی آئی کا وجود خطرے میں نظر آ رہا ہے، شیر افضل مروت
  • وہ خاموش نہیں رہیں گی
  • کوئی بتائے نہ بتائے، چیٹ جی پی ٹی بتائے گا
  • صحت اَن مول ہے۔۔۔!
  • !!…وہ ایک موبائل جسے تو
  • بڑھتی ہوئی عمر پر تنقید؛ ماہرہ خان کو ماں نے کیا مشورہ دیا