اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 28 اپریل 2025ء) عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں کے کام پر اسرائیل کی عائد کردہ کڑی پابندیوں کے معاملے کی کھلی سماعت کا آغاز کر دیا ہے۔

عدالت اس سماعت میں 40 رکن ممالک اور چار بین الاقوامی امدادی اداروں کی آراء سننے کے بعد مقبوضہ علاقوں میں قابض طاقت کی حیثیت سے اسرائیل کی ذمہ داریوں کے بارے میں اپنی مشاورتی رائے دے گی۔

Tweet URL

7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں اسرائیل کی متواتر بمباری اور انسانی امداد کی شدید قلت کے تناظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ سال دسمبر میں 'آئی سی جے' سے اپنی رائے دینے کی درخواست کی تھی۔

(جاری ہے)

عدالت سے رجوع کرنے کے لیے جنرل اسمبلی میں رائے شماری کے موقع پر اس کے حق میں 137 اور مخالفت میں 12 ووٹ آئے تھے۔

اگرچہ 'آئی سی جے' کے ججوں کی مشاورتی رائے کی پابندی قانوناً لازم نہیں ہے۔ تاہم اس سے کسی معاملے پر اٹھنے والے قانونی سوالات کی وضاحت ضرور ہوتی ہے۔ جب عدالت کسی معاملے پر اپنی قانونی رائے جاری کرتی ہے تو جنرل اسمبلی دوبارہ اس معاملے کو لے کر مزید اقدامات کا فیصلہ کرتی ہے۔

قابض طاقت کی ذمہ داری

ہالینڈ کے شہر ہیگ میں قائم عدالت میں سماعت کے پہلے روز اقوام متحدہ کی لیگل کونسل ایلینار ہیمرشولڈ نے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کی نمائندگی کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور تمام یرغمالیوں کی فوری رہائی کے مطالبات کو دہرایا۔

ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں اقوام متحدہ کے 13 ادارے کام کر رہے ہیں اور جنگ کے آغاز سے اب تک علاقے میں اس کے 295 امدادی اہلکاروں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔

ایلینا ہیمرشولڈ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اداروں اور ان کے اہلکاروں کو ہر طرح کے حالات میں خصوصی تحفظ اور استثنیٰ حاصل ہوتا ہے جس کی ذریعے انہیں مقبوضہ فلسطینی علاقوں سمیت دنیا بھر میں اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مدد ملتی ہے۔ اس تحفظ اور استثنیٰ کا اطلاق مسلح تنازعات میں بھی ہوتا ہے۔

کسی علاقے پر قابض طاقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس جگہ رہنے والے لوگوں کا فائدہ مدنظر رکھے اور انہیں انسانی امداد کی فراہمی میں سہولت دے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ان ذمہ داریوں کی تکمیل اقوام متحدہ کے تمام اداروں کو مقامی آبادی کے فائدے کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دینے اور ان کے لیے سہولت فراہم کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔'انروا' کے مسائل

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے 'آئی سی جے' میں اس معاملے کی سماعت کا خیرمقدم کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ امدادی ادارے غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

اسرائیل کی پارلیمنٹ میں منظور کردہ قوانین کے تحت اسرائیلی حکام کو 'انروا' کے ساتھ رابطوں سے روک دیا گیا ہے جس سے ادارے کو ضروری امداد اور خدمات کی فراہمی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

یہ اقدام اس لیے خاص تشویش کا حامل ہے کہ ا'نروا' ہی غزہ میں امداد پہنچانے والا سب سے بڑا ادارہ ہے اور اس نے دہائیوں سے فلسطینیوں کو صحت، تعلیم اور دیگر ضروری خدمات مہیا کی ہیں۔

تاہم، جنوری میں پابندیاں نافذالعمل ہونے سے 'انروا' کے بین الاقوامی عملے کو اسرائیل میں داخلے کے لیے ویزے جاری نہیں کیے گئے۔بمباری، بھوک اور موت

غزہ میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے امدادی امور (اوچا) کا کہنا ہے کہ 2 مارچ کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے کا فیصلہ کیے جانے کے بعد لوگوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ جو لوگ بموں اور گولیوں سے بچ جاتے ہیں وہ بھوک اور بیماریوں سے مر رہے ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے امداد اور تجارتی سامان کی غزہ آمد پر عائد کی جانے والی پابندی کے بعد لوگوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں رہا۔

غزہ شہر کی پناہ گاہ میں مقیم مونا کہتی ہیں کہ ان کا خاندان دن میں ایک وقت کھانا کھاتا ہے۔ وہ سونے سے پہلے یہ سوچ رہی ہوتی ہیں کہ اگلے روز انہیں کھانے کو کیا اور کیسے ملے گا۔ انہوں نے کئی روز کے لیے آٹا جمع کر رکھا ہے جسے وہ احتیاط سے استعمال کرتی ہیں۔

جب ان کے پوتے پوتیاں بھوک کی شکایت کرتے ہیں تو وہ اپنے حصے کی روٹی بھی انہیں دے دیتی ہیں۔ ان کی صحت اچھی نہیں ہے لیکن وہ ادویات نہیں لیتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ علاج معالجہ اچھی خوراک کا تقاضا کرتا ہے جو اس وقت انہیں میسر نہیں ہے۔

غزہ شہر کے ایک سکول میں قائم پناہ گاہ میں رہنے والے وفا دو بچوں کے باپ ہیں۔ انہوں ںے بتایا کہ ان کے پاس پھلیوں، چنے اور مٹر کے چند ڈبے اور چند کلو آٹا ہے۔ یہ خوراک آئندہ چار روز میں ختم ہو جائے گی۔ آٹا باسی ہو رہا ہے اور اس سے بدبو بھی آنے لگی ہے لیکن ان کے پاس اسے استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ آخر انہیں یہ ہولناک حالات کب تک جھیلنا پڑیں گے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ اقوام متحدہ کے علاقوں میں اسرائیل کی اور اس اور ان کے لیے کے بعد

پڑھیں:

غزہ کیلئے سویڈن کی امدادی کشتی انسانیت کا روشن استعارہ ہے، علامہ مقصود ڈومکی

اپنے بیان میں علامہ مقصود علی ڈومکی نے اسرائیلی نیول فورسز کیجانب سے پرامن امدادی کاروان کو روکنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام عالمی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ فلسطین پر اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی ضمیر بیدار ہو چکا ہے، سویڈن کی امدادی کشتی انسانیت کا روشن استعارہ ہے۔ امدادی کشتی کو روکنے کا اسرائیلی اقدام عالمی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف اور دیگر بین الاقوامی ادارے اسرائیلی وزیر اعظم اور اس کی دہشت گرد کابینہ کے خلاف فوری قانونی کارروائی کریں۔ اپنے ایک جاری کردہ بیان میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے مظلوم عوام پر جاری ظلم و بربریت نے پوری دنیا کے انسانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب تک 54 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کی قیادت میں یورپی شہریوں نے جس امدادی کشتی کے ذریعے غزہ کے محصورین تک انسانی امداد پہنچانے کی کوشش کی، وہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دنیا اب دو واضح کیمپوں میں تقسیم ہو چکی ہے، ایک طرف مظلوم اور ان کے حامی، دوسری طرف ظالم اور ان کے پشت پناہ ہیں۔

علامہ مقصود علی ڈومکی نے اسرائیلی نیول فورسز کی جانب سے پرامن امدادی کاروان کو روکنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام عالمی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم اور اس کی دہشت گرد کابینہ کے خلاف فوری قانونی کارروائی کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور اسرائیل آج کی دنیا کے فرعون و یزید بن چکے ہیں، اور پوری دنیا کے باضمیر افراد ان کے ظلم و استبداد کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ سویڈن سمیت دنیا بھر کی حکومتوں کو چاہئے کہ اسرائیلی بربریت کی کھل کر مذمت کریں اور امدادی کاروان کے تمام اراکین کی فوری رہائی کا مطالبہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ خود غزہ کو "قحط زدہ علاقہ" قرار دے چکی ہے، اس کے باوجود انسانی امداد کو روکنا نہ صرف غیر انسانی فعل ہے بلکہ بین الاقوامی اصولوں کی تضحیک بھی ہے۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان مظلومین فلسطین کی غیر مشروط حمایت کو اپنا دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ سمجھتی ہے، اور دنیا بھر کے باضمیر انسانوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ مظلوموں کے حق میں اور ظالموں کے خلاف متحد ہو کر عملی کردار ادا کریں۔

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ جنرل اسمبلی: غزہ جنگ بندی قرارداد پر ووٹنگ آج ہوگی
  • امریکہ کی اقوامِ متحدہ کے دو ریاستی حل کانفرنس سے دور رہنے کی اپیل
  • اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی آج غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد پر ووٹنگ کرے گی
  • غزہ:اسرائیلی حملے،امدادی مرکز پر فائرنگ،37 فلسطینی شہید،200 سے زائد زخمی
  • اسرائیلی فورسز کے زیر حراست ترک شہری کی رہائی کا امکان
  • برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اسرائیلی وزرا پر پابندیاں عائد کردیں
  • فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ انسانیت کے خلاف اعلان جنگ ہے‘حسن بلال ہاشمی
  • غزہ کیلئے سویڈن کی امدادی کشتی انسانیت کا روشن استعارہ ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • اسرائیل نے غزہ جانے والی امدادی کشتی کے کارکنوں کو ملک بدر کرنے کی تیاری کر لی
  • اسرائیل نے امدادی کشتی فریڈم فلوٹیلا ’میڈلین‘ کو قبضے میں لے لیا