زنانہ ختنوں کی گھناؤنی روایت میں طبی کارکنوں کے کردار پر تشویش
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 28 اپریل 2025ء) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کے جنسی اعضا کی بریدگی (ایف جی ایم) میں کمی آئی ہے لیکن اب ایک چوتھائی واقعات میں یہ کام پیشہ وارانہ طبی کارکن کرتی ہیں اور اس رجحان کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ ہر جگہ اس ظالمانہ رسم کے پھیلاؤ میں کمی لانے اور متاثرین کو مدد دینے میں طبی شعبے کا اہم کردار ہے۔
تاہم، بہت سے علاقوں میں یہ شعبہ اس سے برعکس عمل کر رہا ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران طبی کارکنوں نے 52 ملین لڑکیوں اور خواتین کے جنسی اعضا کو بریدہ کیا۔ Tweet URL'ڈبلیو ایچ او' میں جنسی و تولیدی صحت و تحقیق کے شعبے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر پاسکل ایلوٹے نے کہا ہے کہ طبی کارکنوں کو اس نقصان دہ رسم کی انجام دہی کے بجائے مثبت تبدیلی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
(جاری ہے)
جنسی اعضا کی بریدگی لڑکیوں کے حقوق کی سنگین پامالی ہے جس سے ان کی صحت کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔'ڈبلیو ایچ او' نے دنیا بھر میں اس رسم کی روک تھام کے سلسلے میں نئی ہدایات جاری کی ہیں جن میں معالجین، حکومتوں اور مقامی سطح پر لوگوں سے کہا گیا ہےکہ وہ 'ایف جی ایم' کے خلاف موثر اقدامات کو یقینی بنائیں۔
'ایف جی ایم' کے رجحان میں کمی'ایف جی ایم' غیرطبی وجوہات کی بنا پر خواتین کے جنسی اعضا کی قطع و برید یا انہیں زخم پہنچانے کا نام ہے اور یہ عمل متاثرین کے لیے معیاری طبی نگہداشت کا تقاضا کرتا ہے۔
حقائق سے ثابت ہے کہ 'ایف جی ایم' کوئی بھی کرے، اس سے نقصان ضرور ہوتا ہے اور پیشہ وارانہ طبی کارکنوں کے ہاتھوں یہ کام کہیں زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ اس طرح زیادہ گہرے زخم آتے ہیں جس سے جسمانی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ایف جی ایم کے مختصر و طویل مدتی طبی اثرات ہو سکے ہیں جن میں ذہنی صحت کے مسائل اور زچگی کی پیچیدگیاں خاص طور پر نمایاں ہیں۔
بعض واقعات میں ایسی لڑکیوں اور خواتین کو جراحت کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔'ڈبلیو ایچ او' کے مطابق، 1990 کے بعد لڑکیوں کے لیے 'ایف جی ایم' کا نشانہ بننے کے خطرات میں تین گنا کمی آئی ہے لیکن اب بھی 30 ممالک میں یہ عمل ہوتا ہے جس سے سالانہ 40 لاکھ لڑکیوں کو خطرہ رہتا ہے۔
ادارے کی جاری کردہ نئی رہنما ہدایات میں متاثرین کو زندگی کے مختلف مراحل میں بہتر سے بہتر نگہداشت مہیا کرنے کے طریقے تجویز کیے گئے ہیں۔
طبی کارکنوں کی ذمہ داری'ڈبلیو ایچ او' اور انسانی تولیدی پروگرام (ایچ آر پی) کے زیراہتمام اس رپورٹ کی تیاری کے لیے کام کرنے والی محقق کرسٹینا پیلیٹو کا کہنا ہے کہ 'ایف جی ایم' کا خاتمہ کرنا ممکن ہے اور بعض ممالک کامیابی سے اس سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہے کہ طبی کارکن اس رسم کے بارے میں رائے عامہ تبدیل کرنے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ 'ایف جی ایم' کی روک تھام اور اس کے خلاف اقدامات کے لیے ڈاکٹروں، نرسوں اور دائیوں کو ساتھ لے کر چلنا بہت ضروری ہے۔
افریقی ملک برکینا فاسو میں 'ایف جی ایم' کے خلاف انتھک اقدامات کی بدولت گزشتہ تین دہائیوں کے دوران اس رسم کا نشانہ بننے والی 15 تا 19 سال عمر کی لڑکیوں کی تعداد میں نصف کمی آئی ہے۔ اسی طرح سیاسی عزم، اس رسم پر پابندی کے نفاذ اور اس کی روک تھام کے لیے تیزرفتار کوششوں کی بدولت سیرالیون میں یہ شرح 35 فیصد اور ایتھوپیا میں 30 فیصد تک گر گئی ہے۔
2022 میں 'ڈبلیو ایچ او' نے بنیادی سطح پر کام کرنے والے طبی کارکنوں کے لیے 'ایف جی ایم' کی روک تھام سے متعلق ایک تربیتی پیکیج شائع کیا تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ 'ایف جی ایم' سے کیسے خطرات لاحق ہوتے ہیں اور اس کی روک تھام کے لیے مقامی سطح پر لوگوں کے ساتھ کیسے کام کیا جا سکتا ہے۔ اس تربیت کا بہت سے ممالک میں 'ایف جی ایم' کے رجحان میں کمی لانے میں اہم کردار رہا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈبلیو ایچ او طبی کارکنوں کی روک تھام ایف جی ایم میں یہ اور اس کے لیے
پڑھیں:
غزہ: خوارک کے یو این ادارے کے ذخائر ختم، قحط پھیلنے کا خدشہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے بتایا ہے کہ غزہ میں اس کے پاس خوراک کے ذخائر ختم ہو گئے ہیں جبکہ دو ماہ سے علاقے میں کوئی انسانی امداد نہیں پہنچی۔
'ڈبلیو ایف پی' نے باقیماندہ امدادی سامان سامان غزہ کے مختلف علاقوں میں کھانا تیار کرنے کے مراکز پر پہنچا دیا ہے جو چند روز میں ختم ہو جائے گا۔
ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اگر خوراک کی فراہمی فوری بحال نہ ہوئی تو اسے غزہ میں اپنا امدادی کام ختم کرنا پڑے گا۔ Tweet URLادارے کی مدد سے بڑے پیمانے پر کھانا تیار کرنے کے مراکز ہی غزہ کے لوگوں کو خوراک کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔
(جاری ہے)
ان مراکز سے تقریباً 10 لاکھ لوگوں کو روزانہ کھانا مہیا کیا جاتا ہے تاہم اس سے ہر گھرانے کی ایک چوتھائی غذائی ضرورت ہی پوری ہوتی ہے۔'ڈبلیو ایف پی' غزہ میں قائم 25 تنوروں کو بھی ضروری سامان مہیا کرتا رہا ہے جو آٹے اور ایندھن کی عدم دستیابی کے باعث 31 مارچ کو بند ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں، پناہ گزین گھرانوں کو خوراک کے تھیلوں کی فراہمی بھی اُسی ہفتے بند ہو گئی تھی۔
غذائی قلت کا خطرہاسرائیل کی جانب سے غزہ میں ہر طرح کی انسانی امداد کی ترسیل پر کڑی پابندیاں عائد ہیں۔
اقوام متحدہ کے اداروں اور اعلیٰ سطحی حکام بشمول سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش متواتر اپیل کرتے آئے ہیں کہ علاقے میں امداد کی فراہمی بحال کی جائے۔
جنگ بندی ختم ہونے کے بعد غزہ میں خوراک کی قیمتوں میں 1,400 فیصد اضافہ ہو گیا ہے جبکہ خام اجناس کی ترسیل انتہائی قلیل رہ گئی ہے۔
اس طرح علاقے میں غذائی قلت بڑھنے کا اندیشہ ہے جس سے بچوں، دودھ پلانے والی خواتین، معمر افراد اور دیگر کمزور لوگوں کی زندگی کہیں زیادہ متاثر ہو گی۔سرحد کھولنے کا مطالبہ'ڈبلیو ایف پی' نے کہا ہے کہ یہ ڈیڑھ سال سے جاری جنگ کے دوران غزہ میں امداد کی فراہمی بند رہنے کا طویل ترین عرصہ ہے۔ ان حالات میں بازار بھی کھانے پینے کی اشیا سے خالی ہو چکے ہیں اور خوراک کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔
ایک لاکھ 16 ہزار ٹن امدادی خوراک چار ماہ سے غزہ کی سرحدوں سے باہر پڑی ہے۔ 'ڈبلیو ایف پی' اور اس کے شراکت داروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے سرحدیں کھولے جانے پر اسے مختصر وقت میں غزہ کے لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
ادارے نے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ شہریوں کی ضروریات کو ترجیح دیں اور بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی پر پابندیاں ہٹائی جائیں۔