پاکستان کی معیشت اس وقت شدید بحران کا شکار ہے اور مہنگائی کا عفریت اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ عوام کی زندگی کے تمام شعبے متاثر ہو چکے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف غریب طبقے تک محدود نہیں رہا بلکہ وہ طبقہ جو کبھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا تھا یعنی درمیانہ طبقہ بھی اس صورتحال سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ اس طبقے کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ اب دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ایک مشکل کام بن چکا ہے۔ حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں اور مراعات میں کمی کرنے کے لیے تیار نہیں اور عوام مسلسل اس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کے شاہانہ سٹائلز دیکھ کر تو دنیا کے بڑے بڑے شہنشاہ بھی گھبرا جائیں۔ ان کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر تو لگتا ہے جیسے یہ کسی غریب ملک کے نہیں بلکہ خلافتِ زمین کے وارث ہوں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی دیکھنے کو مل رہی ہے مگر پاکستان میں عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ 2024ء میں بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں 30 فیصد تک کمی واقع ہوئی جبکہ پاکستان میں اس کا اثر کہیں نظر نہیں آیا، محض برائے نام چند پیسے یا ایک ڈیڑھ روپے کمی سے عوام تک جائز ریلیف نہیں پہنچایا گیا۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق اس کمی کا فائدہ خطے کے دیگر ممالک کے عوام کو پہنچایا گیا۔ بھارت نے پیٹرول کی قیمت میں پندرہ روپے فی لیٹر کی کمی کی جبکہ سعودی عرب نے ڈیزل کی قیمت بیس فیصد تک کم کر دی۔ اس کے برعکس پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسز میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے اور پیٹرول پر ٹیکس کی رقم 60 روپے فی لیٹر سے زائد تک پہنچ چکی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اس رقم کو بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں میں خرچ کیا جائے گا لیکن سابقہ ریکارڈ کی روشنی میں یہ دعوی قابل اعتبار نہیں لگتا کہ آپ عوام کی اکثریت پر ریلیف کا حق کسی ایک صوبے کو بنیاد بنا کر منسوخ کر دیں۔
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ ان کا بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہو جاتا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ترقیاتی بجٹ کا چالیس فیصد حصہ بدعنوانی اور نااہلی کی نذر ہو جاتا ہے۔ بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے میں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اور مختص کردہ فنڈز کا ایک بڑا حصہ صرف کاغذی کارروائیوں میں ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ ایسے میں عوام کے پیسے کو ترقیاتی منصوبوں کے نام پر روکا جانا درحقیقت عوام کے ساتھ ایک مذاق کے مترادف ہے۔ حکمران طبقہ اپنی مراعات میں اضافہ کرنے میں مصروف ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم ہائوس کا سالانہ بجٹ 2.
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ترقیاتی منصوبوں پاکستان میں کے مطابق عوام کی عوام کو عوام کے ہیں اور گیا ہے ہے اور کے لئے
پڑھیں:
معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن سے عوامی سہولت میں اضافہ ہوگا: وزیراعظم
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے صوبائی حکومتوں بشمول گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کو ہدایت کی ہے کہ وہ معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن اور کیش لیس معیشت کے لیے وفاقی حکومت سے مکمل تعاون کریں۔اسلام آباد میں کیش لیس اور ڈیجیٹل معیشت پر ہفتہ وار جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن پلان کو صوبوں اور ان کے اداروں کے تعاون سے مزید مؤثر بنایا جائے تاکہ مقررہ مدت میں اہداف حاصل کیے جا سکیں۔وزیراعظم نے ہدایت کی کہ اس منصوبے میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے بامعنی مشاورت کو مستقل حصہ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن سے شفافیت کو فروغ ملے گا اور اس کا بنیادی مقصد عوام کو بغیر کسی اضافی لاگت کے سہولت فراہم کرنا ہے۔اجلاس میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ نیشنل ڈیجیٹل کمیشن اور پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی قائم کی جا چکی ہے اور اس حوالے سے قواعد بھی وضع کر دیے گئے ہیں۔ اتھارٹی کے چیئرمین اور ارکان کی تقرری کا عمل آخری مراحل میں ہے۔
اشتہار