Daily Ausaf:
2025-06-14@16:29:59 GMT

متوسط طبقے کی خاموش اذیت

اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT

پاکستان کی معیشت اس وقت شدید بحران کا شکار ہے اور مہنگائی کا عفریت اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ عوام کی زندگی کے تمام شعبے متاثر ہو چکے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف غریب طبقے تک محدود نہیں رہا بلکہ وہ طبقہ جو کبھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا تھا یعنی درمیانہ طبقہ بھی اس صورتحال سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ اس طبقے کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ اب دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ایک مشکل کام بن چکا ہے۔ حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں اور مراعات میں کمی کرنے کے لیے تیار نہیں اور عوام مسلسل اس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کے شاہانہ سٹائلز دیکھ کر تو دنیا کے بڑے بڑے شہنشاہ بھی گھبرا جائیں۔ ان کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر تو لگتا ہے جیسے یہ کسی غریب ملک کے نہیں بلکہ خلافتِ زمین کے وارث ہوں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی دیکھنے کو مل رہی ہے مگر پاکستان میں عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ 2024ء میں بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں 30 فیصد تک کمی واقع ہوئی جبکہ پاکستان میں اس کا اثر کہیں نظر نہیں آیا، محض برائے نام چند پیسے یا ایک ڈیڑھ روپے کمی سے عوام تک جائز ریلیف نہیں پہنچایا گیا۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق اس کمی کا فائدہ خطے کے دیگر ممالک کے عوام کو پہنچایا گیا۔ بھارت نے پیٹرول کی قیمت میں پندرہ روپے فی لیٹر کی کمی کی جبکہ سعودی عرب نے ڈیزل کی قیمت بیس فیصد تک کم کر دی۔ اس کے برعکس پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسز میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے اور پیٹرول پر ٹیکس کی رقم 60 روپے فی لیٹر سے زائد تک پہنچ چکی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اس رقم کو بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں میں خرچ کیا جائے گا لیکن سابقہ ریکارڈ کی روشنی میں یہ دعوی قابل اعتبار نہیں لگتا کہ آپ عوام کی اکثریت پر ریلیف کا حق کسی ایک صوبے کو بنیاد بنا کر منسوخ کر دیں۔
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ ان کا بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہو جاتا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ترقیاتی بجٹ کا چالیس فیصد حصہ بدعنوانی اور نااہلی کی نذر ہو جاتا ہے۔ بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے میں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اور مختص کردہ فنڈز کا ایک بڑا حصہ صرف کاغذی کارروائیوں میں ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ ایسے میں عوام کے پیسے کو ترقیاتی منصوبوں کے نام پر روکا جانا درحقیقت عوام کے ساتھ ایک مذاق کے مترادف ہے۔ حکمران طبقہ اپنی مراعات میں اضافہ کرنے میں مصروف ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم ہائوس کا سالانہ بجٹ 2.

5 ارب روپے ہے اور سال دو ہزار چوبیس۔ پچیس کے بجٹ میں ایوان صدر و ہائوس کے لئے کل 2ارب 28کروڑ 1لاکھ 5ہزار روپے مختص کئے گئے۔ ایوان صدر، وزیر اعظم ہائوس اور اسمبلیوں سمیت وزارت خزانہ اور وفاقی و صوبائی وزارتوں اور محکموں کے ملازمین سمیت قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ملازمین کو سال میں چار چار مرتبہ بونس اس لئے دئیے جاتے ہیں کہ یہ محض ایک روایت بن چکی ہے اور صرف حکمران اپنی چاپلوسی اور خوش آمد کے لئے یہ عمل بار بار دہرانے پر مجبور ہیں۔یہ بونس حکومتی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور ملازمین کے درمیان ایک واضح تفریق پیدا کرنے کا باعث بھی ہیں۔ اراکین اسمبلی کی مراعات میں گزشتہ تین سالوں میں کئی سو فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی کے مطابق پینتیس فیصد درمیانے طبقے کے افراد ڈپریشن کا شکار ہیں اور معاشی دبا کی وجہ سے گھریلو تشدد میں پچیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔حکومت عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے پر تلی ہوئی ہے۔ ملک کی سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں سے ٹال ٹیکس کے نام پر بغیر کسی اطلاع کے خاموشی سے کئی سو گنا اضافہ کر دینا ظلم وزیادتی کی انتہا ہے۔ صرف چھ ماہ میں دو گنا اضافہ کر دیا گیا ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔ یہ کھلا استحصال ہے اور اس کے نتیجے میں عام آدمی کا سڑکوں پر سفر کرنا بھی عذاب بن کر رہ گیا ہے۔ سڑکوں پر سفر کرنے والے مسافر اسی اضافے کے باعث حکومت کو برا بھلا کہتے اور کوستے دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت شائد یہ بھول گئی ہے کہ یہ سڑکیں عوام کے ٹیکسوں سے بنی ہیں اور اب انہی عوام کو ان پر چلنے کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ اس ناانصافی پر خاموشی ظلم کو دعوت دینے کے مترادف ہے ، اب وقت آ گیا ہے کہ لوگ آواز اٹھائیں اور اس معاشی بربریت کو مسترد کریں۔حکومت کو فوری طور پر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کرنی چاہیے اور ٹیکسوں کے بوجھ میں نمایاں کمی لانی چاہیے۔ بے روزگاری کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں۔ حکمرانوں کی غیر ضروری مراعات اور عیاشیوں پر پابندی عائد کی جائے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کے بجٹ میں فوری اضافہ کیا جائے تاکہ عوام کی بنیادی ضروریات پوری ہو سکیں۔ ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ وسائل کا صحیح استعمال ہو۔عوام کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ خاموشی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ سوشل میڈیا اور پرامن احتجاج کے ذریعے اپنی آواز بلند کی جائے۔ مہنگائی کے موضوع کو لے کر پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت جماعت اسلامی کافی سرگرم رہی ہے مگر امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان اب پاکستانی عوام کے لئے مہنگائی کے معاملے پر نہ جانے کیوں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ؟ مہنگائی اور ناانصافی کے خلاف معاشی بائیکاٹ جیسی حکمت عملی اپنائی جانے کی ضرورت ہے۔عوام اپنے اصل مسائل کے لئے ضرور آواز بلند کریں، کسی سیاسی جماعت کی سیاست کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ اگر آج ہم خاموش رہے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ اب وقت ہے کہ ہر شہری اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں جو ظلم پر خاموش رہتی ہیں کبھی ترقی نہیں کرتیں۔ اگر ہم نے آج قدم نہ اٹھایا تو مہنگائی کا یہ جن ہمیں نگل جائے گا۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ترقیاتی منصوبوں پاکستان میں کے مطابق عوام کی عوام کو عوام کے ہیں اور گیا ہے ہے اور کے لئے

پڑھیں:

جب تک حکمران طبقہ اپنے مفادات کی نفی نہیں کرے گا عام عوام کو ریلیف نہیں ملے گا‘مولانا فضل الرحمان

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 جون2025ء)جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ جب تک حکمران طبقہ اپنے مفادات کی نفی نہیں کرے گا عام عوام کو ریلیف نہیں ملے گا‘جب کاروبار کرنے والے کا کاروبار محفوظ نہیں ہوگا تو اپنا پیسہ بیرون ملک لے جائے گا ‘ قوم پرست،وطن پرست اور پاکستان پرست لوگوں کو سامنے آنا ہوگا ۔

کراچی میں قیصر شیخ کی رہائش گاہ پر کاروباری برادری سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کسی زمانے میں فری ٹیکس بجٹ بہت قابل تحسین ہوا کرتا تھا ‘آج ٹیکس پہ ٹیکس لگا کر بھی بجٹ کو قابل تحسین کہا جارہا ہے ‘افراط زر اور ملک کی مجموعی پیداوار تیس سال پہلے کیا تھی اور آج کیا ہے ‘چین، بھارت، بنگلہ دیش اور ایران کی جی ڈی پی اوپر جبکہ ہم نیچے جارہے ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ قومی اور ملی زندگی میں اسلام کی دو ترجیحات ہیں امن اور معیشت‘ ملکی اقتصاد کے حوالے سے کاروباری برادری کی بات ہی سند رکھتی ہے ‘ کسی زمانے میں فری ٹیکس بجٹ بہت قابل تحسین ہوا کرتا تھا ‘آج ٹیکس پہ ٹیکس لگا کر بھی بجٹ کو قابل تحسین کہا جارہا ہے ‘افراط زر اور ملک کی مجموعی پیداوار تیس سال پہلے کیا تھی اور آج کیا ہے ‘چین، بھارت، بنگلہ دیش اور ایران کی جی ڈی پی اوپر جبکہ ہم نیچے جارہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان جی ڈی پی کو منفی بھی دیکھا ہے۔جب تک حکمران طبقہ اپنے مفادات کی نفی نہیں کرے گا عام عوام کو ریلیف نہیں ملے گا ۔ کاروباری طبقہ کی جانب سے عام آدمی کا احتساب بعد میں ہوتا ہے اقتصاد پہلے ہوتا ہے ۔ہم اقتصاد چلنے نہیں دیتے اور احتساب پہلے شروع کر دیتے ہیں ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ نیب کے قانون کے مطابق پاکستان کا ہر شہری پیدائشی مجرم ہے ‘جب کاروبار کرنے والے کا کاروبار محفوظ نہیں ہوگا تو اپنا پیسہ بیرون ملک لے جائے گا ‘ ہم معاشی طور پر آج بھی غلام ہیں ‘نوآبادیاتی نظام کہتے ہیں ختم ہوگیا لیکن اس کی جگہ بین الاقوامی اداروں نے لے لی ہے ۔

امیر جے یو آئی نے کہا کہ ہماری معیشت، اقتصاد پر عالمی اداروں کا کنٹرول ہے ‘میں نے پارلیمنٹ میں خود دیکھا ہے کہ یہ قانون سازی ہم ایف اے ٹی ایف کے کہنے پر کررہے ہیں ‘سیاسی، آئینی اور قانونی سطح پر بھی اقوام متحدہ جیسے اداروں کے قانون لاگو ہوتے ہیں ‘دفاعی لحاظ سے بین الاقوامی معاہدات ہیں ‘فوج، اسلحہ میزائل ہمارے لیکن ان پر کنٹرول بین الاقوامی معاہدوں کا ہے ‘کیا آزادی کی جنگ مکمل ہوچکی اور واقعی ہم آزاد ہیں انہوں نے کہا کہ قوم پرست،وطن پرست اور پاکستان پرست لوگوں کو سامنے آنا ہوگا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مذہب کا نام استعمال کرنا آسان لیکن مسائل کے حل کے لیے صرف مذہب کا نعرہ کافی نہیں ‘دائرہ اختیار سے اور دائرہ اقتدار آتا ہے ‘جب سے پاکستان بنا ہے فوجی، بیوروکریسی کے ساتھ صنعتکار اور جاگیر ہی کھلاڑی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جب تک حکمران طبقہ اپنے مفادات کی نفی نہیں کرے گا عام عوام کو ریلیف نہیں ملے گا‘مولانا فضل الرحمان
  • بے زبانوں کی اذیت: پاکستان میں جانور بے یارو مددگار کیوں ہیں؟
  • کراچی کو بجٹ میں نظرانداز کیے جانے پر جماعت اسلامی کا احتجاج کا اعلان
  • بجٹ عوام دشمن،مسلط ٹولے نےاپنی تنخواہوں میں کئی سو گنا اضافہ کیا: مسرت جمشید چیمہ
  • وفاقی بجٹ دکھاوا ہے، عوام کو ریلیف نہیں ملا، صدر سپریم کورٹ بار
  • بابر اعظم اور رضوان ناقدین کو خاموش کرا دیں گے: سابق کرکٹرز پرامید
  • تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے: حافظ نعیم الرحمان
  • حیدرآباد میں نصب اپنے مجسمے کو دیکھ کر وسیم اکرم خاموش نہ رہ سکے، سوشل میڈیا پر کیا کہا؟
  •  بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو سب سے زیادہ ریلیف دیا گیا: عطاء تارڑ 
  • گزشتہ 4 بجٹ کے مقابلے میں اس بار ریلیف تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیا گیا، عطا تارڑ