خاک سے اٹھتے خواب: ایران و پاکستان کا اتحاد
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
شہیدرجائی بندرگاہ نہ صرف ایران کی سب سے بڑی تجارتی بندرگاہ ہے بلکہ یہ ملک کی80 فیصد درآمدات کاذمہ دار مرکزہے۔اس بندرگاہ کی عارضی بندش نے فوری طورپرغذائی قلت اور رسد میں رکاوٹوں کے خدشات کو جنم دیاہے۔یوں یہ دھماکہ ایک انسانی المیہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شدید معاشی بحران کاپیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ معیشت جو پہلے ہی عالمی پابندیوں کے بوجھ تلے کراہ رہی ہے،اب اندرونی زخموں سے بھی چورچورہونے لگی ہے۔یہ سانحہ اس وقت پیش آیاجب ایران اورامریکاکے نمائندے عمان میں ایران کے جوہری پروگرام پراہم مذاکرات میں مصروف تھے کہ جوہری مذاکرات پرپڑنے والے سائے نے ساری دنیاکی توجہ اس کی طرف مبذول کردی ہے۔
ایران نے مذاکرات میں کچھ لچک تو دکھائی ہے،جیسے کہ بعض پابندیوں کوتسلیم کرنے کا عندیہ،مگریورینیم افزودگی پر اپنے حق سے دستبرداری سے انکارواضح طورپرخطے میں تناؤ کو برقراررکھنے کااعلان ہے۔ایران کایہ اصرار کہ اس کا جوہری پروگرام صرف’’شہری مقاصد‘‘ کیلئے ہے،اب مزیدسخت جانچ کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔پھرعالمی مذاکرات پراس کا سیاہ سایہ،ایران کی سیاسی چالوں کوبھی بے نقاب کرتا ہے۔کیاکوئی سنجیدہ ریاست اپنے جوہری موقف کی سچائی ثابت کرنے کے دوران ایسی شرمناک غفلت کی متحمل ہوسکتی ہے؟
آج جب دنیا کی نظریں ایران پرجمی ہوئی ہیں، شہید رجائی کے زخمی ساحل گواہی دے رہے ہیں کہ جہاں عقل وحکمت کے چراغ بجھ جائیں، وہاں صرف ملبے کی فصل اگتی ہے۔
یہ واقعہ مذاکرات پرسوالیہ نشان لگاسکتا ہے، خاص طورپراگریہ ثابت ہوکہ ایران میزائل ٹیکنالوجی پرکام کررہاہے،جو مغربی ممالک کیلئے تشویش کاباعث ہے۔ایران کا اصرار ہے کہ اس کاجوہری پروگرام پرامن ہے، مگر مغرب کوشبہ ہے کہ یہ ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتاہے۔
ہرقوم کی ترقی کی بنیادیں احتیاط اوردانش پر رکھی جاتی ہیں،اورجب اقتدارکی مسندپرتغافل کی دھول جم جائے توسلطنتوں کے ستون لرزنے لگتے ہیں۔شہیدرجائی بندرگاہ کادھماکہ اسی تغافل کی ایک المناک تمثیل ہے۔ایران،جواپنے جوہری پروگرام پرعالمی برادری سے دادودہش کا متقاضی ہے،اپنے داخلی نظم وضبط میں ایسی بھیانک لغزش کامظاہرہ کرے،تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو اپنے گھر کو نہ سنبھال سکے، وہ عالم کو کیا سنوارے گا؟
بیلسٹک میزائلوں کے ایندھن کی کھیپ کو عام تجارتی بندرگاہ پررکھ کرگویاحکمرانوں نے خود اپنے خوابوں کے جسم پرآگ کالباس چڑھا دیا۔ یہ اقدام محض ایک انتظامی غلطی نہیں،بلکہ ایک فکری افلاس کااعلان ہے۔اس حادثے نے ایرانی معیشت کی شہ رگ کوشدیدضرب پہنچائی ہے۔ بندرگاہ کی بندش کامطلب غذائی رسدمیں تعطل اور اقتصادی زندگی کازوال ہے۔ایرانی قوم کے دل میں یہ سوال انگاروں کی طرح دہک رہاہے کہ آخراتنی خطرناک نوعیت کے موادکوتجارتی بندرگاہ جیسے عوامی مقام پربغیرکسی حفاظتی انتظامات کے کیوں رکھاگیا ؟ کیایہ محض ایک افسوسناک غفلت تھی یاکسی گہری سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ؟ ایران میں عوامی سطح پراٹھنے والے یہ سوالات گویا اپنے حاکموں سے یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ:
ہم نے ماناکہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم،تم کوخبرہونے تک
شہید رجائی بندرگاہ پرہونے والایہ حادثہ محض ایک صنعتی غفلت کاشاخسانہ نہیں،بلکہ ایک بڑی تہذیبی علامت ہے ایک ایسی قوم کی جواپنے سائنسی وعسکری خوابوں میں اپنے انسانی تقاضوں کو فراموش کربیٹھی ہے۔یہ واقعہ عالمی برادری کیلئے بھی ایک تلخ یاددہانی ہے کہ علم وطاقت کے زعم میں تغافل،کسی بھی تہذیب کولمحوں میں مٹی میں ملاسکتاہے۔سوال یہ ہے کہ کیااس موقع پریہ ناگہانی حملہ ایک تہذیبی زوال ہے یاپھرایک سیاسی چال؟ شہیدرجائی کاالمیہ،احتیاط کی کوتاہی یا اقتدارکاتغافل؟جب قومیں اپنی داخلی کمزوریوں پرپردہ ڈالنے لگیں اورعسکری قوت کے خوابوں میں احتیاط وحکمت کوبھلادیں،توایسے المناک حادثات ان کامقدربن جاتے ہیں۔شہیدرجائی بندرگاہ پرہونے والا دھماکہ صرف ایک صنعتی حادثہ نہیں بلکہ حکومتی عدم تدبرکی ایک تلخ علامت ہے۔بیلسٹک میزائلوں کے ایندھن جیسے حساس موادکاعوامی تجارتی بندرگاہ پرذخیرہ نہ صرف عقل ودانش سے انحراف تھابلکہ ریاستی اداروں کی غفلت کاکھلا اظہاربھی ہے۔
اس واقعے نے ایران کی معیشت کو لرزا دیاہے اورعالمی سطح پرایک سنگین تاثرچھوڑاہے کہ ایک جوہری طاقت کاخواہاںملک اپنی بنیادی حفاظت کے اصولوں سے بھی ناآشناہے۔یہ لمحہ ایران کیلئے ایک موقع ہے کہ وہ اپنی داخلی ترجیحات اورحکمرانی کے اندازپر ازسرنو غور کرے، وگرنہ آنے والے دنوں میں اسے مزیدسنگین بحرانوں کاسامناکرناپڑسکتاہے۔
یاد رہے کہ بندرگاہ کی بندش سے درآمدات میں 50 فیصد تک کمی کاتخمینہ لگایا جارہا ہے، جس سے اشیاکی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایران گندم،چاول اوردالیں درآمدکرتا ہے۔ بندرگاہ کے بغیر،ذخائرصرف اگلے دوسے تین ہفتے تک چل سکتے ہیں۔ خوراک کی قلت کابھی شدیدسامناکرناپڑے گا۔اگربندرگاہ کی مرمت میں ہفتوں لگتے ہیں،تومعیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو سکتاہے۔
روسی صدرپوتن نے فوری طورپرخصوصی فضائی فائرفائٹنگ طیارے اورسسٹم ایران روانہ کرنے کاحکم دیا،جودونوں ممالک کے فوجی اتحاد کو ظاہرکرتاہے۔یہ اقدام ایران-روس تعلقات کو مزیدمضبوط کرسکتاہے۔جبکہ چین نے اپنے شہریوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی،مگرواقعے کو ’’اندونی معاملہ‘‘قراردیکرسیاسی تبصروں سے گریز کیا۔چین کی وزارتِ خارجہ نے اپنے متاثرہ شہریوں کی خیریت کی اطلاع دی۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات،پاکستان،ترکی،جیسے ممالک نے تعزیتی پیغامات بھیجے،جوخطے میں تناکے باوجود انسانی ہمدردی کی عکاسی کرتے ہیں۔اقوامِ متحدہ اورکئی اہم ممالک نے تعزیتی پیغامات بھیجے ہیں۔یہ بین الاقوامی یکجہتی اپنی جگہ،مگر پسِ پردہ سفارتی چالیں اورجوہری مذاکرات کی حساس فضااس واقعے سے یکسرمتاثرہوچکی ہے۔
تاریخ کے صفحات پرکچھ مقامات اپنے کردار اورعظمت سے چمکتے ہیں۔بندرعباس کے دامن میں پھیلی شہیدرجائی بندرگاہ بھی انہی میں سے ایک ہے،جس نے صدیوں پرانی تجارتی روایات کابوجھ اپنے کاندھوں پراٹھارکھاتھا۔اس خطے میں قافلے آتے تھے،بادبان لہراتے تھے، اور دنیاکے کناروں سے سوداگروں کے قافلے اترتے تھے۔ایران نے جدیددنیا میں اسی روایت کوزندہ رکھنے کی کوشش کی جب1980کی دہائی میں شہید رجائی بندرگاہ کوجدیدخطوط پر استوا رکیا گیا مگر وقت کا جبر دیکھیے کہ یہی بندرگاہ آج اپنی ویرانی پرنوحہ کناں ہے۔
سوڈیم پرکلوریٹ جیسے خطرناک کیمیائی ایندھن کے ذخیرے نے اس مقدس تجارتی گہوارے کوخاکسترکردیا۔کیاہم بھول گئے کہ تہذیبیں مضبوط قلعے یاعسکری ہتھیاروں سے نہیں،
بلکہ حکمت اوراحتیاط سے قائم رہتی ہیں؟ ماضی کے عبرت انگیزمناظریاددلاتے ہیں کہ جب بغدادکی گلیوں میں خون کی ندیاں بہیں یاغرناطہ کے بام ودرپرشکستہ پرچم لہرایا،تویہ صرف عسکری شکست نہ تھی؛بلکہ تدبرکی،بصیرت کی اورسچائی کی شکست تھی۔
شہیدرجائی کاالمیہ ہمیں دوبارہ اسی تاریخ کی طرف متوجہ کررہاہے۔یہ وقت ہے کہ ایران اپنی داخلی کمزوریوں پرنگاہ کرے،ورنہ قافلے چھٹتے دیرنہیں لگتی اوروقت کی گردمیں عظمت کے آثارمٹ جاتے ہیں۔
رہتی دنیاتک ہوگا،وقت کایہ بے رحم سبق
عقل نہ ہوپاس توعلم بھی وبال بن جاتاہے
اے اہلِ ایران!اے صحرائوں اور سمندروں کے وارثو!
آج جب شہیدرجائی کی سرزمین پرراکھ کے انبارہیں،جب فلک زاروں پردھویں کی پرچھائیاں ناچ رہی ہیں،اورجب سمندرکی ماتم میں شریک خاموش موجیں سوال کرتی ہیں کہ کیایہ وہی خواب تھاجوتم نے اپنے اجدادکی قربانیوں سے سینچاتھا؟
اے کاروانِ عباس علمدار کے سپاہیو!
جب بندرعباس کے ساحل پرآگ کے شعلے بلندہوئے،تومحض چالیس جنازے نہیں اٹھے، ہزار زخمی نہیں تڑپے،بلکہ ایک قوم کی ساکھ،اس کی حکمت،اس کاوقار،راکھ کے طوفان میں بکھرگیا۔آپ نے راکٹوں کے ایندھن کوخزانے کی طرح جمع کیا،مگرعقل کے چراغ بجھا دیے۔ آپ نے آسمانوں کوچھونے کے خواب دیکھے، مگر زمین پربکھرتی احتیاط کونظر انداز کر دیا۔کیاآپ نے یہ سوچاتھاکہ سوڈیم پرکلوریٹ کی مہلک سانسوں میں تمہارااپناوجودبھسم ہوجائے گا؟ کیا کبھی یہ نہیں سوچاکہ دشمن کی کھلی آنکھیں یہ سب کچھ دیکھ رہی تھیں اورموقع ملتے ہی انہوں نے وہ کام کردکھایاجس نے آپ کے ہاں ماتم اور سوگواری کاموسم برپاکردیاہے۔
اے ملتِ ایران!تمہیں معلوم ہوناچاہیے کہ قومیں توپوں اورمیزائلوں سے نہیں،عقل وتدبرکی شمشیروں سے سرخروہوتی ہیں۔ تاریخ کی عدالت میں طاقت کے دیوتاپاش پاش ہو چکے ہیں،اورصرف وہی قومیں بچی ہیں جودانش کے خیمے میں پناہ گزیں رہیں۔(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: شہیدرجائی بندرگاہ تجارتی بندرگاہ جوہری پروگرام بندرگاہ کی ہے ایران ایران کی ہیں کہ کہ ایک
پڑھیں:
شاہراہ قراقرم کو حقیقت بنانے والے چینی محنت کشوں کا خاموش قبرستان
اسلام آباد:قراقرم ہائی وے کی تعمیر میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے چینی محنت کش جوکہ پاک چین دوستی کی بنیاد میں سنگ میل بنے گلگت کے تاریخی خاموش قبرستان میں ان کی قبریں صرف ماضی کی یادگار نہیں، بلکہ ان جذبوں کی علامت ہیں۔
چینی محنت کشوں نے دنیا کی بلند ترین سڑک کو حقیقت بنایا، دشوار گزار پہاڑی راستے، شدید سردی اور جان لیوا چٹانیں ان کے حوصلے کمزور اور ارادے متزلزل نہ کر سکے۔
قراقرم ہائی وے محض ایک سڑک نہیں بلکہ پاک چین دوستی کا زندہ اور اٹل نشان ہے، اس کی تعمیر میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے چینی کارکنوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں، جن کی قربانیاں تاریخ کے سینے پر ہمیشہ نقش رہیں گی۔