امن کیوں ضروری ہے WhatsAppFacebookTwitter 0 10 May, 2025 سب نیوز
تحریر: جیپال سنگھ
چھ مئی 2025 کو بھارت نے آپریشن سندور کے تحت پاکستانی علاقوں پر فضائی حملے کیے۔ بھارتی فضائیہ نے رافیل طیاروں اور اسکیلپ میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے بہاولپور، مرادکے، سیالکوٹ، بھمبر، کوٹلی، مظفرآباد اور دیگر علاقوں میں حملے کیے۔ ان حملوں میں 31 پاکستانی شہری جاں بحق اور 46 سے زائد زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ جانی نقصان احمدپور شرقیہ میں ہوا، جہاں ایک مسجد پر حملے میں پانچ افراد جاں بحق ہوئے، جن میں ایک تین سالہ بچی بھی شامل تھی۔ پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں بھارتی فضائیہ کے پانچ طیارے مار گرائے گئے، تاہم بھارت نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ آج کل انڈیا اور پاکستان کے حالات بہت کشیدہ ہیں یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے یہ کئ دہایوں سے چلتا آ رہا ہے اور یہ حالات ایسے ہی رہیں گے کبھی کارگل کی جنگ کی صورت کبھی پٹھانکوٹ کبھی پلوانہ حملہ ہو لیکن پچھلے 15 سال سے جو کچھ ہو رہا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ اس طرح کے حالات ہوئے تھے.
اگر حالات ہوئے بھی تھے لیکن حق کو بند کرنا لوگوں کو دربدر کرنا ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا.پچھلے 15 سال سے انڈیا میں نفرت کی سیاست کی گئی ہے اس سے صرف اور صرف انڈیا کا نقصان ہوا ہے کبھی بیگناہ کشمیریوں کو قتل کیا جاتا ہے تو کبھی بےگناہ مسلمانوں کو یا پھر کوئ بھی بے بنیاد حملہ کر کے پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے لیکن کبھی ثبوت نہیں دیا کہ اس میں پاکستان ملوث ہے یہ چیزیں شعوری ذہنوں کو نفرت کی طرف لی جاتی ہے اور امن کو تباہ کر دیتی ہےاگر دونوں ممالک جنگ کی طرف جاتے ہیں تو اس میں صرف اور صرف تباہی ہو گی دونوں ملک تباہ ہو سکتے ہیں اور سب سے زیادی بڑھ کر وہ لوگ تباہ ہو سکتے ہیں جو غریبت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں
کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسکا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ دو وقت کی روٹی کیسے کمائی جائے اور اولاد کو اچھی تعلیم کیسے دی جائے اس کے علاوہ یہ کچھ سوچتے بھی نہیں پھر جنگ ہونے سے ان کو کیا فائدہ ہو گا ؟یہ تو پہلے سے ہی معاشی طور پر تباہ ہے اور زائدہ تباہ ہو جائیں گے اسی لئے جنگ حل نہیں ہے جنگ خود ایک مسئلہ ہے جو تباہی کی طرف لے جاتی ہے اس جدید دنیا میں اگر جنگ کرنی ہے تو ٹیکنالوجی اور معشیت کے میدانوں میں کریں ہتھیاروں کے ساتھ نہیں اگر جنگ کرنی ہے تو پہلے امن اور محبت قائم کرنے میں کریں کیوں کہ اصلی جیت تو محبت اور امن قائم کرنے میں ہوگی
اب نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ نفرت کی سیاست کو دفن کر دے کیوں کہ اس نے نفرت کی سیاست میں انڈیا کو تباہ کر دیا ہے اور آب کوئی بھی انڈین یہ نہیں چاہتا ہے کہ نفرت کی سیاست چلے اس سے مودی کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن انڈیا کی عوام کو نہیں۔اگر یہ حالات رہے تو انڈیا تباہی کی طرف جائے گا پھر اس تباہی کے بعد آنے والا مستقبل بھی روشن نظر نہیں آ رہا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارت پاکستان کے ساتھ تنازع کو مزید نہیں بڑھانا چاہتا ،سفارتی و عسکری حکام کی بریفنگ یہ فوج ہماری ہے ترکوں کا ہیرو، اپنے گھر میں اجنبی! پہلگام کاخونیں ناٹک !! سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے یکطرفہ اقدامات اور شملہ معاہدے کی معطلی: قانونی نقطہ نظر اور ماں چلی گئی ماں کے بغیر پہلی عید کا کربCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
عدالتوں کو ہتھیار بنا کر ہمیں کیوں نکال رہے ہیں، پی ٹی آئی سینیٹر علی ظفر
اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اور پارلیمانی لیڈر علی ظفر نے اراکین کی نااہلی پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتوں کو ہتھیار بنا کر ہمیں کیوں نکال رہے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت اجلاس میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر علی ظفر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ورکرز پر سزاؤں کی بارش کرنے کے لیے عدالتوں کا استعمال کیا گیا، جھوٹے مقدموں میں سزائیں سنائی گئیں اور فیصلوں کے بعد فوراً الیکشن کمیشن نے اراکین کو نا اہل کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈرز کو نااہل کیا گیا، آرٹیکل 63 ون ایچ کے تحت ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر نااہلی نہیں ہوسکتی، حتمی فیصلے کے بعد ہی نااہلی ہوسکتی ہے۔
نااہلی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیصلہ ابھی ہوا ہی نہیں تھا کہ نااہل کردیا گیا، الیکشن کمیشن آزاد نہیں جانب دار ہے، کون سی ایمرجنسی تھی جس پر فوری نااہل کیا گیا؟ فئیر ٹرائل کہاں گیا؟ سیاسی جلد بازی میں نااہلی کا مقصد یہ تھا کہ اچھے بولنے والوں کو بند کردو، کارروائی کا مقصد سچ بولنے والوں کو روکنا تھا، حکومت کو عوام کی آواز سے ڈر ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت ہمارے سوالات اور گفتگو سے ڈرتی ہے، یہ معاملہ ان ممبران کا نہیں اپوزیشن کا ہے، یہ ایوان اب پورس کی شکل بن چکا ہے جہاں اپوزیشن لیڈر نہیں، اپوزیشن حکومت کی دشمن نہیں ہوتی کیونکہ حکومت اور اپوزیشن مل کر عوام کی خدمت کرتے ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ عدالتوں کو ہتھیار بنا کر ہمیں کیوں نکال رہے ہیں؟ ہم یہاں حادثاتی نہیں عوامی ووٹوں سے آئے ہیں، جلدی بازی میں غیر قانونی سزائیں دے کر ووٹرز کو سزا دے رہے ہیں، یہ معاملہ شبلی فراز وغیرہ کا نہیں ہم سب کا معاملہ ہے کل آپ کی بھی باری آسکتی ہے، سزاؤں کی جو بارش ہمارے اوپر ہورہی ہے کل آپ پر بھی ہوگی۔
رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ایک آدمی کو عہدے سے تو ہٹایا جاسکتا ہے اس کے خیالات سے نہیں ہٹا نہیں سکتے، آپ نے تینوں جگہوں سے ہمارے اپوزیشن لیڈر تو ہٹا دیے لیکن آپ لوگوں کے دلوں سے ہمیں نہیں ہٹاسکتے، ہم سڑکوں اور ایوانوں میں بولیں گے، احتجاج کریں گے، آپ سیٹ تو چھین سکتے ہیں قوم کی آواز نہیں چھین سکتے، آپ جو کررہے ہیں کل آپ کے ساتھ بھی وہی ہوگا۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ناصر بٹ نے کہا کہ آپ نے بھی کل کیا تھا جو آپ کے ساتھ ہورہا ہے، انہوں نے جو کیا ہے وہ کاٹ رہے ہیں، آپ لوگ اپنے گریبان میں جھانکیں۔
اس بات پر ایوان میں شور شرابہ ہوگیا، ناصر بٹ اور پی ٹی آئی اراکین میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ اس کا مطلب ہے میری باتیں آپ کو چبھی ہیں، میں نے آپ کو آپ کا ماضی دکھایا ہے آپ کو آپ کا چہرہ دکھایا ہے۔
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سینیٹر علی ظفر نے ابھی بیان دیا کہ ڈس کوالیفکیشن آخری آرڈر کے بعد ہوتی ہے، میرا خیال ہے جب سزا ہوجاتی ہے تو جب تک اسے ختم نہیں کیا جاتا یا معطل نہیں کیا جاتا ڈس کوالیفکیشن ہوتی ہے، حتیٰ کہ سزا ہوجانے کے بعد اگر ضمانت ہو بھی جائے تو بھی ڈس کوالیفکیشن ہوجاتی ہے، جس لمحے کسی شخص کو سزا ہوجاتی اسی وقت وہ ڈس کوالیفائی ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حنیف عباسی کو لائسنس کوٹا کے باوجود عمرقید کی سزا دے دی گئی، چیئرمین سینیٹ کے بیٹے کو ضمانت کے باوجود سپریم کورٹ کے احاطے سے گرفتار کرلیا گیا، حمزہ شہباز کو دو سال تک جیل میں رکھا گیا۔