Daily Sub News:
2025-10-04@14:03:51 GMT

امن کیوں ضروری ہے

اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT

امن کیوں ضروری ہے

امن کیوں ضروری ہے WhatsAppFacebookTwitter 0 10 May, 2025 سب نیوز

تحریر: جیپال سنگھ

چھ مئی 2025 کو بھارت نے آپریشن سندور کے تحت پاکستانی علاقوں پر فضائی حملے کیے۔ بھارتی فضائیہ نے رافیل طیاروں اور اسکیلپ میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے بہاولپور، مرادکے، سیالکوٹ، بھمبر، کوٹلی، مظفرآباد اور دیگر علاقوں میں حملے کیے۔ ان حملوں میں 31 پاکستانی شہری جاں بحق اور 46 سے زائد زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ جانی نقصان احمدپور شرقیہ میں ہوا، جہاں ایک مسجد پر حملے میں پانچ افراد جاں بحق ہوئے، جن میں ایک تین سالہ بچی بھی شامل تھی۔ پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں بھارتی فضائیہ کے پانچ طیارے مار گرائے گئے، تاہم بھارت نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ آج کل انڈیا اور پاکستان کے حالات بہت کشیدہ ہیں یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے یہ کئ دہایوں سے چلتا آ رہا ہے اور یہ حالات ایسے ہی رہیں گے کبھی کارگل کی جنگ کی صورت کبھی پٹھانکوٹ کبھی پلوانہ حملہ ہو لیکن پچھلے 15 سال سے جو کچھ ہو رہا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ اس طرح کے حالات ہوئے تھے.

اگر حالات ہوئے بھی تھے لیکن حق کو بند کرنا لوگوں کو دربدر کرنا ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا.پچھلے 15 سال سے انڈیا میں نفرت کی سیاست کی گئی ہے اس سے صرف اور صرف انڈیا کا نقصان ہوا ہے کبھی بیگناہ کشمیریوں کو قتل کیا جاتا ہے تو کبھی بےگناہ مسلمانوں کو یا پھر کوئ بھی بے بنیاد حملہ کر کے پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے لیکن کبھی ثبوت نہیں دیا کہ اس میں پاکستان ملوث ہے یہ چیزیں شعوری ذہنوں کو نفرت کی طرف لی جاتی ہے اور امن کو تباہ کر دیتی ہےاگر دونوں ممالک جنگ کی طرف جاتے ہیں تو اس میں صرف اور صرف تباہی ہو گی دونوں ملک تباہ ہو سکتے ہیں اور سب سے زیادی بڑھ کر وہ لوگ تباہ ہو سکتے ہیں جو غریبت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں

کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسکا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ دو وقت کی روٹی کیسے کمائی جائے اور اولاد کو اچھی تعلیم کیسے دی جائے اس کے علاوہ یہ کچھ سوچتے بھی نہیں پھر جنگ ہونے سے ان کو کیا فائدہ ہو گا ؟یہ تو پہلے سے ہی معاشی طور پر تباہ ہے اور زائدہ تباہ ہو جائیں گے اسی لئے جنگ حل نہیں ہے جنگ خود ایک مسئلہ ہے جو تباہی کی طرف لے جاتی ہے اس جدید دنیا میں اگر جنگ کرنی ہے تو ٹیکنالوجی اور معشیت کے میدانوں میں کریں ہتھیاروں کے ساتھ نہیں اگر جنگ کرنی ہے تو پہلے امن اور محبت قائم کرنے میں کریں کیوں کہ اصلی جیت تو محبت اور امن قائم کرنے میں ہوگی

اب نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ نفرت کی سیاست کو دفن کر دے کیوں کہ اس نے نفرت کی سیاست میں انڈیا کو تباہ کر دیا ہے اور آب کوئی بھی انڈین یہ نہیں چاہتا ہے کہ نفرت کی سیاست چلے اس سے مودی کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن انڈیا کی عوام کو نہیں۔اگر یہ حالات رہے تو انڈیا تباہی کی طرف جائے گا پھر اس تباہی کے بعد آنے والا مستقبل بھی روشن نظر نہیں آ رہا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارت پاکستان کے ساتھ تنازع کو مزید نہیں بڑھانا چاہتا ،سفارتی و عسکری حکام کی بریفنگ یہ فوج ہماری ہے ترکوں کا ہیرو،  اپنے گھر میں اجنبی! پہلگام کاخونیں ناٹک !! سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے یکطرفہ اقدامات اور شملہ معاہدے کی معطلی: قانونی نقطہ نظر اور ماں چلی گئی ماں کے بغیر پہلی عید کا کرب TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

سمجھ کیوں نہیں آتی کہ امریکہ ناقابل اعتبار ہے

اسلام ٹائمز: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فیول ٹینکرز کی یہ غیر معمولی نقل و حرکت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ممکنہ طور پر کوئی بڑی فضائی کارروائی یا طویل فوجی آپریشن زیرِ غور ہے۔ ان ٹینکروں کی موجودگی لڑاکا طیاروں کو زیادہ وقت تک فضا میں رہنے اور دور دراز اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران پر حملے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاسداران انقلاب نے کہا ہے کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں ہم پہلے سے زیادہ سخت جواب دیں گے۔ کچھ خدشات یہ بھی ہیں کہ اہل غزہ کو سینا منتقل کرنے کی تیاری ہے، جس کے خلاف کسی بھی ردعمل کو روکنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ کے خلاف اقدامات کے بارے میں بھی باتیں کی جا رہی ہیں۔ جنگ بندی محض لولی پاپ تھا، اصل منصوبہ آٹھ ممالک کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ تمہیں مذاکرات پر لگا کر مزید کشت و خون کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

اقوام متحدہ میں سربراہان مملکت کی ہر سال حاضری ہوتی ہے، کافی مدت سے میں اسے بین الاقوامی رہنماوں کے وقت کا ضیاع سمجھتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عصر حاضر میں اقوام متحدہ بین الاقوامی مسائل میں کوئی بھی کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ یوکرین سے لے کر کشمیر تک اور فلسطین سے لے کر شام تک کسی مسئلے میں اس کا کوئی مثبت بلکہ منفی کردار بھی نہیں رہا۔ امریکہ پہلے اقوام متحدہ کا نقاب اوڑھ کر ممالک کا استحصال کرتا تھا۔ اب اس نے تمام نقاب اتار پھینکے ہیں اور پوری بربریت کے ساتھ سامنے آگیا ہے۔ بعض فیصلے ممالک کی فکر کے عکاس ہوتے ہیں، مثلاً اب امریکہ نے منسٹری آف ڈیفنس کا نام تبدیل کرکے منسٹری آف وار، یعنی وزارت جنگ رکھ دیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم تک اکثر ممالک میں وزارت جنگ ہوتی تھی، دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کا نام تبدیل کرکے وزارت دفاع کر دیا گیا تھا۔ اب امریکہ دوبارہ اپنی اصل کی طرف پلٹ گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ امریکی معیشت جنگی معیشت ہے، یہ جنگ چاہتی ہے۔ اگر کچھ عرصے کے لیے جنگ رک جائے تو یہ امریکی معیشت کے لیے موت ہوگی۔ اسی لیے دیکھیے امریکہ دنیا میں جنگ ختم نہیں ہونے دیتا۔ ایک ختم ہوتی ہے تو دوسری شروع کرا دیتا ہے۔ پاکستان اور چند دوسرے ممالک کو لگنے لگا ہے کہ شائد امریکہ تبدیل ہوچکا ہے اور اب اس پر اعتماد کرتے ہوئے غزہ کے حوالے سے کوئی بہتر فیصلہ کرایا جا سکتا ہے۔ اسی نیت سے پاکستان اور دیگر ممالک نے امریکی صدر سے ملاقاتیں کیں اور ہمارے وزیراعظم نے تو بغیر دیکھے امریکی صدر کے پیس پلان کا خیر مقدم کر دیا۔ یہ اصطلاحات کا دھوکہ ہے، یہ پیس پلان نہیں، غزہ پر مکمل قبضہ ہے، جس کی تصدیق بھی اہل غزہ سے لینی ہے کہ جو قبضہ کیا گیا ہے، وہ درست ہے۔ آپ نے حمایت کا اعلان کر دیا، اب پتہ چل رہا ہے کہ یہ تو وہ نکات ہی نہیں، جن پر اتفاق رائے ہوا تھا، ویسے حماقت کی حد ہے۔

وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار آج کل میڈیا پر فلسطین کے موضوع پر بہت بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے وادیلا کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے میں جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور جبری بے دخلی کے خاتمے جیسے اہم نکات شامل نہیں ہیں، اس لیے پاکستان اس کی تائید نہیں کرتا اور واضح کیا کہ یہ ہماری دستاویز نہیں ہے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو اور امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات کے دوران منصوبے میں ترامیم کی گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں اسرائیلی فوج کی واپسی مخصوص شرائط سے مشروط کر دی گئی اور بعد ازاں ایک حفاظتی زون کی تجویز بھی شامل کی گئی۔ ڈار صاحب کے بقول ان تبدیلیوں کے باعث وہ تمام ترامیم شامل نہیں ہوسکیں، جو پاکستان نے سات دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر پیش کی تھیں اور جن پر صدر ٹرمپ نے قابلِ عمل حل دینے کا وعدہ کیا تھا۔

ڈار صاحب امریکی صدر اتنا ہی قابل اعتبار ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے پوچھا کہ ڈار صاحب نیتن یاہو کی ضمانت کون دے گا۔؟ کیا آپ ٹرمپ پر بھروسہ کرتے ہیں کہ وہ اس کی پاسداری کرائیں گے۔؟ ڈار صاحب نے کہا کہ گارنٹی کون دے سکتا ہے۔؟ اسی وجہ سے ہم نے اسرائیل سے براہِ راست رابطہ نہیں کیا، یورپی کوششیں ناکام رہیں۔ اب چوائس یہ ہے کہ مزید فلسطینیوں کی جانیں خطرے میں ڈالیں یا فوری طور پر بچاؤ کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدر ٹرمپ کے ذریعے بہتر طریقے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جی وہی صدر ٹرمپ جس نے آپ کو کوئی اور معاہدہ دکھا کر حمایت وصول کر لی اور اب وہ معاہدہ ہی تبدیل کر ڈالا۔ امریکہ کا ماضی یہی بتاتا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے معاہدے کی پاسداری نہیں کرتا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مذاکرات میں تھا، جب ایران پر براہ راست حملہ کر دیا۔

اسرائیل کی بربریت جاری ہے۔ بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے لیے کسی بھی حالت میں خوراک نہ دینے کا اعلان کیا۔ گلوبل صمود فلوٹیلا کے بحری جہازوں کو کسی بھی حالت میں غزہ پہنچنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ابھی ابھی اطلاعات آرہی ہیں کہ فوٹیلا پر حملہ ہوگیا ہے اور اسرائیلی فورسز نے قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بین الاقوامی ایڈ ورکرز کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ عمل بتا رہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کسی بھی قانون ضابطے کی روشنی میں قابل اعتبار نہیں ہیں۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ امریکی فضائیہ کے درجنوں فیول ٹینکر طیارے (KC-135 اور KC-46) اس وقت مشرقِ وسطیٰ کی فضاؤں میں سرگرم ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایک غیر معمولی فضائی سرگرمی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ یہ طیارے بڑی تعداد میں خطے کی جانب روانہ ہوچکے ہیں اور ان میں سے کئی قطر میں "العدید ایئر بیس" پر اتر بھی چکے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فیول ٹینکرز کی یہ غیر معمولی نقل و حرکت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ممکنہ طور پر کوئی بڑی فضائی کارروائی یا طویل فوجی آپریشن زیرِ غور ہے۔ ان ٹینکروں کی موجودگی لڑاکا طیاروں کو زیادہ وقت تک فضا میں رہنے اور دور دراز اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران پر حملے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاسداران انقلاب نے کہا ہے کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں ہم پہلے سے زیادہ سخت جواب دیں گے۔ کچھ خدشات یہ بھی ہیں کہ اہل غزہ کو سینا منتقل کرنے کی تیاری ہے، جس کے خلاف کسی بھی ردعمل کو روکنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ کے خلاف اقدامات کے بارے میں بھی باتیں کی جا رہی ہیں۔ جنگ بندی محض لولی پاپ تھا، اصل منصوبہ آٹھ ممالک کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ تمہیں مذاکرات پر لگا کر مزید کشت و خون کا انتظام کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب کیلئے آواز اٹھانے پر کبھی معافی نہیں مانگوں گی، وزیراعلیٰ مریم نواز
  • انڈیا پر پابندیوں کے بعد پاکستانی چاول امریکی مارکیٹوں میں نظر آنا شروع ہو گیا، سینیئر صحافی انور اقبال
  • معاہدہ نہ ہوا تو ایسی قیامت برپا ہو گی جو دنیا نے کبھی نہیں دیکھی ہو گی
  • ایشیا کی دوسری بہترین ٹیم کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے، افغان کپتان کا شکوہ
  • ایشیا کی دوسری بہترین ٹیم کے لقب پر افغان ٹیم کے کپتان ناراض
  • پالیسی سازی میں معمر افراد کی آراء مدنظر رکھنا ضروری، گوتیرش
  • عوام کےہاتھ میں کشکول نہیں دےسکتی،کبھی معافی نہیں مانگوں گی،مریم نواز
  • مریم نواز کبھی معافی نہیں مانگے گی میرا کام ہی پنجاب کے لیے آواز اٹھانا ہے، وزیراعلی پنجاب
  • سمجھ کیوں نہیں آتی کہ امریکہ ناقابل اعتبار ہے
  • صمود فلوٹیلا سے دو اہم پاکستانی کیوں واپس ہوئے؟ جانئے حقائق