مشرق وسطیٰ کو تحفظ دیں گے، ایران کے ساتھ معاہدے کے بہت قریب ہیں : ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
دوحہ(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز کہا کہ “ہم جو بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیوں کے سبب مشرق وسطیٰ کو تقریباً کھو بیٹھے تھے”۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ “ہم مشرقِ وسطیٰ کا تحفظ کریں گے”۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ “میرے خیال میں ہم ایران کے ساتھ ایک معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں”۔
" لا أحد يستطيع كسر العلاقة القوية بين أميركا والسعودية".
— العربية عاجل (@AlArabiya_Brk) May 15, 2025
صدر ٹرمپ کا یہ بیان قطر کے دارالحکومت دوحہ کے جنوب مغرب میں واقع صحرائی علاقے میں امریکی فوجی اڈے “العدید” کے دورے کے دوران سامنے آیا۔ یہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کی سب سے بڑی فوجی تنصیب ہے۔
سعودی عرب کے دو روزہ دورے کے بارے میں امریکی صدر نے کہا “امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط تعلق کو کوئی نہیں توڑ سکتا… میری شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے گہری وابستگی ہے”۔
ایران سے متعلق بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ ایران کے ساتھ ایک دیرپا امن معاہدے کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ تہران نے “کسی حد تک معاہدے کی شرائط سے اتفاق کیا ہے”۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ “ہم ایران کے مسئلے کو ایک دانش مندانہ لیکن غیر پر تشدد طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں”۔
یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر بم باری کے بارے میں امریکی صدر نے کہا کہ اگر حوثیوں نے حملہ کیا تو امریکہ “فوجی کارروائیوں کی طرف واپس لوٹ سکتا ہے”۔ ٹرمپ نے واضح کیا کہ “ہم حوثیوں سے نمٹ رہے ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت کامیاب رہا ہے، لیکن اگر کل کوئی حملہ ہوتا ہے، تو ہم دوبارہ حملہ کریں گے”۔
سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں شامی صدر احمد الشرع سے ملاقات کے حوالے سے ٹرمپ نے کہا “شامی صدر ایک مضبوط شخصیت ہیں، اور ہم دیکھیں گے کہ پابندیاں ہٹنے کے بعد کیا ہوتا ہے”۔ انھوں نے مزید کہا “مجھے معلوم نہیں تھا کہ شام اتنے طویل عرصے سے پابندیوں کا شکار ہے”۔
ادھر روس-یوکرین جنگ کے بارے میں ٹرمپ نے کہا کہ “یوکرین کی جنگ بند ہونی چاہیے”۔ امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ “ہمیں معلوم نہیں کہ یوکرین کو دی گئی رقم کہاں گئی… یوکرین کو صدر بائیڈن کے دور میں امریکہ سے 350 ارب ڈالر ملے”۔ ٹرمپ نے پر امید ہو کر یہ بھی کہا کہ “میرا خیال ہے کہ ہم روس اور یوکرین کے ساتھ اچھے نتائج حاصل کریں گے”۔ انھوں نے کہا “اگر مناسب ہوا تو میں ترکیہ میں روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات میں کل شرکت کروں گا”۔ یہ بیان ایسے وقت میں آیا جب روسی وفد استنبول پہنچا ہے تاکہ یوکرین کے ساتھ تین برسوں میں پہلی براہِ راست امن بات چیت میں شریک ہو۔
صدر ٹرمپ نے دوحہ میں تاجروں سے ملاقات کے دوران کہا کہ ان کی خلیجی دورے سے چالیس کھرب ڈالر مالیت کے ممکنہ تجارتی معاہدے اور سمجھوتے حاصل ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا “یہ ایک تاریخی دورہ ہے۔ کسی بھی دورے نے چار یا پانچ دنوں کے اندر 35 سے 40 کھرب ڈالر جمع نہیں کیے”۔
امریکی فوج کے حوالے سے ٹرمپ نے کہا “ہم F-22 لڑاکا طیارے کی نقل تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں… اور ہم آبدوزوں کی تیاری کے شعبے میں بہت آگے ہیں، کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا”۔ انھوں نے مزید کہا “ہم جدید ڈرونز کی تیاری پر کام کر رہے ہیں”۔
ٹرمپ خلیجی ممالک کے دورے پر ہیں، جو سعودی عرب سے شروع ہوا۔ وہ آج دوحہ سے روانہ ہو کر متحدہ عرب امارات جائیں گے جہاں وہ اماراتی صدر شیخ محمد بن زاید آل نہیان اور دیگر رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ امکان ہے کہ مصنوعی ذہانت ان کے اس دورے کے آخری مرحلے کا مرکزی موضوع ہو گا۔
یاد رہے کہ ٹرمپ منگل کے روز خلیجی خطے پہنچے، اور دورے کا آغاز سعودی عرب سے کیا، جہاں انھوں نے بڑی سرمایہ کاریوں اور معاہدوں پر دستخط کیے۔
Post Views: 2ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ٹرمپ نے کہا امریکی صدر انھوں نے ایران کے کریں گے کے ساتھ کہا کہ تھا کہ
پڑھیں:
فرانس، جرمنی اور برطانیہ ایران پر دوبارہ پابندیاں لگانے کے لیے تیار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اگست 2025ء) فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے یہ خط اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش اور سلامتی کونسل کو بھیجا ہے، جس میں تینوں یورپی طاقتوں یا 'ای تھری‘ نے کہا کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے’’اپنے تمام سفارتی ذرائع استعمال کرنے کے لیے پرعزم ہیں‘‘ جب تک کہ تہران ان سے بات کرنے کی آخری تاریخ پوری نہ کر لے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق خط میں تینوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے لکھا، ’’ہم نے واضح کر دیا ہے کہ اگر ایران اگست 2025 کے آخر تک سفارتی حل تک پہنچنے پر تیار نہ ہوا، یا توسیع کے موقع سے فائدہ نہ اٹھایا، تو ای 3 اسنیپ بیک میکانزم کو فعال کرنے کے لیے تیار ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘
ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے اور اس نے جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش سے انکار کیا ہے۔
یہ انتباہ اس وقت آیا ہے جب ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی سے تعاون معطل کر دیا ہے۔ تہران نے اقوام متحدہ کے نگران ادارے کے ساتھ تعاون اس وقت روک دیا جب اسرائیل نے جون میں ایران کے خلاف 12 روزہ جنگ شروع کی، جس میں اعلیٰ فوجی رہنماؤں، سرکردہ سائنسدانوں اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
اس وقت ایران اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں امریکہ سے مذاکرات کر رہا تھا، لیکن بعد میں واشنگٹن نے بھی تنازع کے دوران ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کی۔
خط میں اور کیا لکھا گیا ہے؟ای 3 گروپ کے وزرائے خارجہ نے منگل کو اقوام متحدہ کو خط لکھا، جس میں ''اسنیپ بیک‘‘ پابندیوں کا امکان ظاہر کیا گیا۔ یہ 2015 کے جوہری معاہدے کی ایک شق ہے، جس کے تحت ایران کی جوہری سرگرمیوں میں کمی کے بدلے سلامتی کونسل کی پابندیاں نرم کی گئی تھیں۔
اس معاہدے کے تحت، جو اکتوبر میں ختم ہو رہا ہے، کوئی بھی فریق اگر سمجھے کہ ایران معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو’’اسنیپ بیک‘‘ یعنی پابندیاں بحال کر سکتا ہے۔
یہ خط استنبول میں گزشتہ ماہ ایران کے ساتھ ہونے والی''سنجیدہ، صاف گو اور تفصیلی‘‘ بات چیت کے بعد لکھا گیا، جو اسرائیلی اور امریکی حملوں کے بعد ایرانی جوہری تنصیبات پر ہونے والی پہلی براہ راست ملاقات تھی۔
فرانس، جرمنی اور برطانیہ 2015 کے مشترکہ جامع ایکشن پلان پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل تھے، جن میں امریکہ، چین، روس اور یورپی یونین بھی شامل تھے۔
اس معاہدے کے تحت ایران نے یورینیم افزودگی محدود کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، جس کے بدلے اسے پابندیوں سے راحت ملی۔ ایران اے آئی ای اے کی میزبانی کے لیے تیارسن دو ہزار اٹھارہ میں، اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی اور پابندیاں دوبارہ نافذ کر دیں۔ یورپی طاقتوں نے معاہدے کو برقرار رکھنے کا وعدہ کیا، لیکن اب ان کا دعویٰ ہے کہ ایران نے، بشمول 2015 کی حد سے 40 گنا زیادہ یورینیم ذخیرہ کی، شرائط کی خلاف ورزی کی ہے۔
تاہم، اب تک کوئی شواہد نہیں ملے کہ ایران نے یورینیم کو ہتھیاروں کے معیار کے 90 فیصد تک افزودہ کیا ہو۔
دریں اثناء، ایران نے آئی اے ای اے کے ساتھ بات چیت پر اتفاق کیا ہے اور اقوام متحدہ کے اس جوہری نگران ادارے کے ایک دورے کی میزبانی کی تیاری کر رہا ہے، جو گزشتہ ماہ جون کے تنازع کے بعد ادارے سے تعلقات ختم کرنے کے بعد پہلا دورہ ہو گا۔
ادارت: صلاح الدین زین