ترکیہ میں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے خاتمے کیلیے براہِ راست مذاکرات
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والی جنگ کے خاتمے کی کوششوں میں امید کی کرن پیدا ہو گئی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق روس اور یوکرین کے درمیان آج جمعرات کے روز ترکیہ کے شہر استنبول میں ایک طویل وقفے کے بعد براہِ راست مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ترکیہ میں اس ملاقات کی تجویز دی تھی تاہم وہ خود مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گے۔
دوسری جانب یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی ترک صدر طیب اردوان سے ملاقات کے لیے انقرہ پہنچ گئے۔
میڈیا سے گفتگو میں یوکرینی صدر کا کہنا تھا کہ ترکیہ اور امریکا کی کوششوں کے پیشِ نظر وہ وزیر دفاع کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی وفد استنبول روانہ کریں گے۔
امریکی صدر کے ایلچی اسٹیو وٹکوف اور کیتھ کیلوگ بھی مذاکرات کے لیے استنبول پہنچ رہے ہیں جس سے بین الاقوامی سطح پر ان مذاکرات کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
دوسری جانب روس نے ولادیمیر میدنسکی کی سربراہی میں ایک نسبتاً نچلی سطح کا وفد بھیجا ہے۔ ولادیمیر میدنسکی 2022 کے مختصر مذاکرات میں بھی شامل تھے۔
جس پر یورپی ممالک نے کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ روس امن مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔
یاد رہے کہ یہ مذاکرات 2022 کے بعد روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والے پہلے براہِ راست مذاکرات ہوں گے۔
ادھر ترک وزیرِ خارجہ نے نیٹو کے ایک اجلاس کے بعد پُرامید لہجے میں کہا تھا کہ اگر فریقین اپنے مؤقف میں ہم آہنگی پیدا کر لیتے ہیں اور باہمی اعتماد قائم ہو جاتا ہے تو یہ امن کی طرف ایک بہت اہم قدم ہو گا۔
یاد رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان 2014 سے وقفے وقفے سے جنگ ہوتی رہی ہے اور 2022 سے مسلسل جاری ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: روس اور یوکرین کے درمیان
پڑھیں:
ٹرمپ کی منظوری سے سعودی عرب کیلیے جدید ایف۔35 طیاروں پر مشتمل بڑا دفاعی پیکیج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے لیے ایک بڑے دفاعی پیکیج کی منظوری دے دی ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بتایا کہ اس نئے فوجی تعاون میں نہ صرف جدید ترین ایف-35 لڑاکا طیاروں کی فراہمی شامل ہے بلکہ دیگر اہم عسکری ساز و سامان بھی اس ڈیل کا حصہ ہے۔
امریکی انتظامیہ کے مطابق اس اقدام کے بعد دونوں ممالک کے درمیان قائم اسٹریٹجک شراکت مزید گہری ہوگی اور خطے میں طاقت کا توازن نئی ترتیب اختیار کرے گا۔
ترجمان وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں بتایا گیا کہ سعودی عرب امریکا سے تقریباً 300 جدید ٹینک بھی خریدنے جا رہا ہے۔ اس وسیع دفاعی حکمت عملی کا مقصد نہ صرف سعودی دفاعی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے بلکہ خطے میں امریکی اثر و نفوذ کو مزید تقویت دینا بھی ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان جاری قریبی تعاون کے تناظر میں امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ معاہدے خطے کے دفاعی افق پر دور رس اثرات مرتب کریں گے۔
واضح رہے کہ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان مختلف شعبوں میں کئی اہم مفاہمتی دستاویزات پر دستخط کیے جا چکے ہیں، جس میں وہ تاریخی ایم او یو بھی شامل ہے جو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے تبادلے سے متعلق ہے۔
یہ اہم سمجھوتا نہ صرف توانائی کے شعبے میں تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا جا رہا ہے بلکہ اسے خطے کی تکنیکی خود کفالت کے لیے بھی اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ واشنگٹن اور ریاض کے درمیان نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا اشتراک مستقبل میں توانائی کے تحفظ، صنعتی بنیادوں کی مضبوطی اور سائنسی تحقیق کے فروغ میں معاون ثابت ہوگا۔
ترجمان وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر اور سعودی ولی عہد کی ملاقات کے دوران سرمایہ کاری کے موضوع پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی۔
دونوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ولی عہد کے آئندہ دورۂ واشنگٹن میں سعودی عرب کی امریکا میں سرمایہ کاری کو سابقہ 600 ارب ڈالر سے بڑھا کر 1 کھرب ڈالر تک لے جانے کے امکانات پر عملی پیش رفت ہوگی۔
امریکی حکام کے مطابق سرمایہ کاری کے اس منصوبے سے نہ صرف دونوں ممالک کی معیشتوں پر مثبت اثرات پڑیں گے بلکہ ٹیکنالوجی، توانائی، صنعت اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔