عملی اصلاح کی بابت چند احادیث
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251115-03-7
مفتی منیب الرحمن
نوٹ: ہم نے ’’چند سبق آموز احادیث‘‘ کے عنوان سے آٹھ اقساط پہلے شائع کی ہیں‘ آج کا کالم اسی کا تسلسل ہے۔
قرآن وحدیث میں صغیرہ و کبیرہ گناہوں کا تصور موجود ہے اور احادیث ِ مبارکہ میں کئی گناہوں کو کبیرہ قرار دیا گیا ہے مگر دینی تعلیمات کی روح یہ ہے کہ کسی گناہ کو حقیر نہ سمجھو‘ ورنہ اس کے ارتکاب پر جری ہو جائو گے اور کسی نیکی کو بڑا نہ سمجھو‘ ورنہ اس پر اترانے لگو گے: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’عائشہ! معمولی سمجھے جانے والے گناہوں سے بچے رہو‘ یقینا اْن کی بابت بھی اللہ تعالیٰ کے حضور باز پرس ہو گی‘‘۔ (مسند احمد)۔ سیدنا عبداللہؓ بن مسعود نے ایک رسول اللہؐ سے اور ایک اپنی طرف سے‘ دو حدیثیں بیان کیں: ’’بے شک مومن اپنے گناہوں کو اس طرح سمجھتا ہے جیسے وہ پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہو اور اْسے لگے کہ پہاڑ اس پر گرنے والا ہے۔ (یعنی وہ گناہ کے تصور ہی سے کانپ اٹھتا ہے) اور فاجر اپنے گناہوں کو اس قدر (حقیر) سمجھتا ہے جیسے مکھی اس کی ناک پر بیٹھی ہے اور وہ اپنے ہاتھ کے اشارے سے اْسے اڑا دے گا‘‘۔ (بخاری) الغرض گناہوں کا صغیرہ اور کبیرہ ہونا احکام اور اْن پر مرتب ہونے والے نتائج کے اعتبار سے ہے‘ ورنہ ہرگناہ اپنی جگہ عظیم ہے اور اس سے بچتے رہنا چاہیے۔ سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں: ’’تم ایسے کام کرتے ہو کہ جو تمہاری نظروں میں بال سے زیادہ باریک ہیں (یعنی تم انہیں معمولی سمجھتے ہو)‘ حالانکہ ہم لوگ نبی کریمؐ کے زمانے میں ان کاموں کو مْہلک (ہلاک کر دینے والے) سمجھتے تھے‘‘۔ (بخاری) شیطان انسان کو بہکانے کے لیے کسی چور دروازے کا سہارا لیتا ہے‘ وہ اْن کے سامنے ان بظاہر معمولی گناہوں کو ہلکا کر کے پیش کرتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ ان سے بچنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہے‘ بظاہر سلجھے ہوئے لوگ بھی اس کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں۔ آپؐ نے حجۃُ الوداع کے موقع پر شیطان کے ہتھکنڈوں سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا: سنو! شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ تمہارے ملک میں اب کبھی اْس کی عبادت کی جائے گی‘ البتہ اس سے مایوس نہیں ہوا کہ اْن برائیوں میں اس کی اطاعت کی جائے گی جنہیں تم معمولی سمجھتے ہو۔
راستے کے حق کو فقہی اصطلاح میں ’’حَقّْ المْرْور‘‘ کہتے ہیں‘ یعنی کسی کو عام گزرگاہ پہ دوسروں کا راستہ روکنے کا حق نہیں ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’راستوں پر نہ بیٹھو‘ صحابہؓ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! ہمیں بیٹھنے سے چارہ نہیں‘ ہم یہیں بیٹھ کر آپس میں بات کرتے ہیں تو رسول اللہؐ نے فرمایا: پھر راستے کا حق ادا کرو‘ صحابہؓ کرام نے پوچھا: راستے کا حق کیا ہے‘ آپؐ نے فرمایا: نظریں نیچی رکھنا‘ راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانا‘ سلام کا جواب دینا‘ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے‘‘۔ (بخاری) دوسری حدیث میں فرمایا: ’’ایمان کے ساٹھ اور کچھ یا ستّر اور کچھ شعبے ہیں‘ اْن میں سے سب سے افضل کلمۂ لا الٰہ الا اللہ ہے اور سب سے معمولی راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا اور حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے‘‘۔ (مسلم) نیز آپؐ نے فرمایا: ’’ایسے تین کاموں سے بچو جو لعنت کا سبب بنتے ہیں: ایک پانی کے گھاٹ پر‘ دوسرا راستے میں اور تیسرا سائے کی جگہ (جہاں مسافر کچھ دیر سَستانے کے لیے بیٹھتے ہیں) بول وبراز کرنا‘‘۔ (ابودائود) یعنی جو کوئی بھی ان مقامات پر نجاست دیکھے گا تو وہ ایسا کرنے والے پر لعنت ہی کرے گا۔
آج کل احتجاجی جلوسوں‘ ریلیوں اور دھرنوں کی وجہ سے راستے بند ہو جاتے ہیں اور لوگوں کے لیے شدید اذیت کا باعث بنتے ہیں‘ گھنٹوں ٹریفک رُک جاتی ہے‘ بعض قریب المرگ مریضوں کا ایمبولینس میں انتقال ہو جاتا ہے‘ بعض اوقات زچگی کے عالَم میں راستے یا گاڑیوں میں کسی خاتون کے بچے کی ولادت ہو جاتی ہے‘ اس میں مذہبی اور سیکولر لبرل سب شامل ہیں۔ لازم ہے کہ قومی اتفاقِ رائے سے اس کے لیے کوئی طریقۂ کار وضع کیا جائے۔ ہو یہ رہا ہے کہ اپنی باری پر ہر ایک ان کاموں کے لیے جواز پیش کرتا ہے اور اگر اس کا فریق ِ مخالف یہی کام کرے تو اْس پر طعن کرتا ہے‘ ملامت کرتا ہے اور تبصرے کرتا ہے۔ قوانین اور قواعد وضوابط ایسے ہونے چاہئیں جو سب پر یکساں لاگو ہوں‘ یہ نہیں کہ ایک جماعت کرے تو ٹھیک ہے اور دوسری کرے تو غلط ہے‘ غلط ہر صورت میں غلط ہے اور صحیح ہر صورت میں صحیح ہے‘ الغرض اس کے لیے ایک قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا مْعاذؓ بن انَس بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہؐ کے ہمراہ جہاد میں شریک ہوا تو لوگوں نے پڑائو کی جگہ کو تنگ کر دیا اور راستے بند کر دیے۔ نبی کریمؐ نے ایک شخص کو لوگوں میں اعلان کرانے کے لیے بھیجا کہ جس نے پڑائو کی جگہیں تنگ کر دیں یا راستے کو بند کر دیا تو اس کا جہاد نہیں ہے‘‘۔ (ابودائود) یہ کتنی بڑی وعید ہے کہ ایسا کرنے والا جہاد کے ثمرات سے محروم ہو جاتا ہے۔ سیدنا ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے سات مقامات پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا: (1) کوڑے کا ڈھیر‘ (2) مذبح‘ (3) مقبرہ (کہ قبر کی طرف سجدہ ہونے کی صورت میں بت پرستی کے مشابہ ہوگا)‘ (4) شارعِ عام (کہ لوگوں کے لیے اذیت کا سبب بنے گا)‘ (6) حمّام (6) اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ (کہ نماز کی تقدیس کے منافی ہے)‘ (7) بیت اللہ کی چھت پر (کہ خلافِ ادب ہے)‘‘۔ (ترمذی)۔ شارعِ عام پر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے کہ عامّۃ الناس کے لیے حرج کا سبب بنتا ہے۔ پس جب نماز کے لیے شارعِ عام کو روکنا جائز نہیں ہے تو شادی بیاہ اور تقریبات کے لیے کیسے جائز ہوگا۔ حکومتوں کو چاہیے کہ ہر آبادی میں اس طرح کی تقریبات کے لیے جگہیں مختص کرے تاکہ عام زندگی کے معمولات میں حرج واقع نہ ہو۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’ایک شخص راستے میں جا رہا تھا کہ اس نے کانٹے دار ٹہنی راستے میں دیکھی تو اسے ہٹا دیا‘ اللہ تعالیٰ نے اْس کے اس فعل کو اتنا پسند فرمایا کہ اس کو بخش دیا‘‘۔ (ترمذی) اسی طرح راستے میں پھلوں سبزیوں وغیرہ کے ریڑھے اور ٹھیلے لگا دینا بھی راہگیروں کے لیے اذیت کا باعث ہے اور پیدل چلنے والوں کے لیے جو فٹ پاتھ بنائے گئے ہیں‘ ان کو بھی روکنا قانوناً اور شرعاً جائز نہیں ہے۔
امام غزالی اپنے عہد کے اعتبار سے لکھتے ہیں: ’’پس عام منکَرات میں سے نجی ملکیتی عمارتوں سے متصل ستون اور چبوترے بنانا‘ درخت لگانا‘ بالکونی اور چھجوں کو باہر نکالنا‘ سڑکوں پر لکڑیاں‘ اناج اور کھانے پینے کی چیزیں رکھنا‘ اگر اس سے راستے تنگ ہوتے ہوں اور گزرنے والوں کو اس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو یہ سب ناجائز ہیں اور اگر راستہ کشادہ ہونے کی وجہ سے نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو پھر منع نہیں ہے۔ نیزگھروں تک پہنچانے کے لیے (عارضی طور پر) لکڑیوں اور کھانے پینے کی چیزوں کا رکھنا ایسا امر ہے جس کی ضرورت سب کو ہوتی ہے اور اس سے منع کرنا ممکن نہیں ہے۔ جانوروں کو سڑک پر اس طرح باندھنا کہ اس سے راستہ تنگ ہو‘ راہگیروں کو ناپاک کر دے‘ ناجائز ہے‘ اس سے منع کرنا واجب ہے‘ اس کا سبب یہ ہے کہ راستے پر سب کا حق برابر ہے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کو ضرورت کے سوا اپنے لیے مختص کر دے۔ چراگاہ وہ ضرورت ہے جس کے لیے عام طور پر لوگ دیگر ضروریات کے برعکس سڑکوں پر جاتے ہیں اور سڑکوں پر جانوروں کو لے جانا‘ جبکہ ان پر کانٹے ہوں جو لوگوں کے کپڑوں کو پھاڑ دیتے ہیں‘ تو یہ ناجائز ہے‘ اگر ان کو جمع کرنا اور باندھنا ممکن ہو کہ اس سے نقصان نہ ہو یا اگر ان کو کسی کشادہ جگہ پر منتقل کرنا ممکن ہو تو صحیح‘ ورنہ منع نہیں کیا جائے گا‘ کیونکہ شہر کے سب لوگوں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہاں! ان کو منتقل ہونے کی مدت کے سوا سڑکوں پر نہیں چھوڑا جائے گا‘‘۔ (اِحیائْ علومِ الدِّین‘ تلخیص)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: رسول اللہ گناہوں کو نے فرمایا راستے میں کرتے ہیں سڑکوں پر کرتا ہے نہیں ہے ہے اور کے لیے کا سبب کی جگہ
پڑھیں:
کون اللہ میاں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251115-03-6
شرَفِ عالم
میں: ہم نے ایک موقع پر اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی منصوبہ بند نسل کشُی پر دستاویزی ثبوتوں اور حوالوں کے ساتھ گفتگو کی تھی۔ اس حوالے سے سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اسرائیل اور اس کی حمایت کرنے والوں میں کوئی خوف ِخدا نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں پر ظلم کو کس طرح روا رکھے ہوئے ہیں، ان تہذیب کے علم برداروں کے نزدیک معصوم ومظلوم انسانی جانوں کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے۔ کیوں کہ ظلم کرنے والے ان ممالک کے حکمرانوں کا مذہب کوئی بھی ہو لیکن ان میں سے بیشتر مذاہب کی تعلیمات میں حیات بعدالموت اور آخرت میں جواب دہی کا عقیدہ ضرور پایا جاتا ہے۔
وہ: جہاں تک اسرائیل کی بات ہے تو ان کے نزدیک تو یہ مذہبی عقیدے کی بنیاد پر شاید ان کے سب سے بڑے فریضے کی تکمیل ہے۔ اب اس عقیدے کے جھوٹے یا سچے ہونے کی بحث کو فی الحال یہیں چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ کسی بھی مذہبی عقیدے کی بنیاد پر کسی دیرینہ خواہش یا فریضے کی ادائیگی میں کسی دوسرے مذہبی عنصر یا افراد کی رکاوٹ جیسی صورت حال میں کم وبیش تمام ہی مذاہب کے پیروکار بعض اوقات انسانیت کی تمام حدیں پار کر جاتے ہیں۔ تمہیں یاد ہوگا ۱۹۹۲ء میں جب لاکھوں انتہا پسندوں ہندوئوں نے ایودھیا انڈیا میں تقریباً پانچ سو سال قبل تعمیر کی گئی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا۔ جبکہ اس جگہ رام کی جنم بھومی ہونے کے دعوے کی تصدیق آج تک نہیں ہوسکی۔ اسی طرح حال ہی میں پہل گام مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں معصوم جانوں کی ہلاکتوں کو کوئی بھی مسلمان کیسے حق بجانب کہہ سکتا ہے۔
میں: لیکن میری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ کوئی بھی انسان یا گروہ اپنے مذہبی عقیدے کی پاسداری یا حصولِ حق کے لیے بے گناہ انسانوں کی جان کا پیاسا کیسے ہوسکتا ہے، کیا تمہیں انسانوں کے اس رویے میں تضاد نظر نہیں آتا، کہ ایک اللہ کو ماننے والے مسلمان اور شرک کے غلُوکے ساتھ خدا اور بھگوان کا تصور لیے دیگر مذاہب کے پیروکار اس بنانے والے کے احکام پر کتنے عمل پیرا ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ آج کی دنیا میں مسلم اور غیر مسلم کی تخصیص کے بغیر ہمارا انفرادی اور مجموعی سماجی رویہ خدا اور اس کے احکامات سے بے پروائی کی گواہی دے رہاہے۔ خدا کے منکروں کو کیا کہنا ایمان والے بھی اپنی زبان سے نہ سہی مگر عمل سے اسی کا پرچار کررہے ہیں کہ ’’میں ہوں، میں ہوں اور صرف میں ہوں اور میری اس زندگی میں یہ اللہ میاں کہاں سے آگئے! کون اللہ میاں‘‘۔
وہ: تم نے ایک ایسے نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے جو اس وقت پوری انسانیت کے لیے لمحہ ٔ فکر ہے اور اگر انسان اس بات کو سمجھتے ہوئے ادراکِ ذات کے رستے پر چل کر رب کائنات کی پہچان کرلے تو ہر پل یہی کہتا نظرآئے۔ ’’اللہ ہے، اللہ ہے اور صرف اللہ ہے اور اللہ کی دی ہوئی اس زندگی میں یہ میں کہاں سے آگیا! کون میں‘‘۔ اس موقع پر ابن عربی کا وہی قول یاد آرہا ہے جو شاید ہم نے اس سے پہلے بھی اپنی کسی گفتگو میں شامل کیا ہے۔ ’’جس انسان کو اپنی تخلیق پر حیران ہوکر خود پر سوال اٹھانا چاہیے تھا اس نے اپنے پیدا کرنے والے اپنے خالق کی ہستی پر سوالیہ نشان لگادیا‘‘۔
میں: کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ انسان کی یہ بے خدائی گزشتہ چند صدیوں پر محیط جدیدیت کی اس سوچ کا پیش خیمہ ہے جس کے زیر اثر انسان نے اپنے گزرے ہوئے کل کو یکسر فراموش کردیا، سرمایہ داریت کے لبادے میں لپٹے مغربی نظریات کے سامنے تمام پرانے خیالات اور بیانیے دقیانوسی قرار پائے اور اس سوچ کا منطقی انجام یہ ہوا کہ انسان نے مادی اشیاء کے حصول کے ذریعے نفسانی خواہشات کی تکمیل کو اپنی زندگی کا واحد مقصد بناتے ہوئے خدا کے ساتھ صدیوں سے جڑے اپنے اس رشتے کو بھی پرانا سمجھ کر توڑ دیا جو خواہشات کے پورا ہونے پر ہی نہیں، نہ ہونے پر بھی مقام شکر اور اس کا واحد سہارا ہوا کرتا تھا۔
وہ: تمہاری بات سو فی صد درست ہے، اس خدا لامرکزیت کی وجہ سے انسان نے خود اپنی ذات کو اپنا مالک ومختار بنا لیا اور نتیجتاً مذہب اور اس کے احکامات چند ظاہری عبادات اور کسی حد تک محض سماجی مجبوری بن کے رہ گئے۔ اور یوں دنیا کے کم وبیش ہر سماج نے کہیں احساس کمتری کی وجہ سے، کہیں اپنے ماضی پر شرمندہ ہوکر اور کہیں عقل کی کسوٹی پر پورا اُترتے سائنسی علوم کو معاشرتی ترقی کی واحد بنیاد بنا کر مِن وعن اختیار کرلیا۔ وہ دل جس کے کسی نہ کسی گوشے میں خدا موجود تھا نت نئی خواہشات اور مادی اشیا کے حصول کی آماج گاہ بن کر رہ گیا۔
میں: لیکن اگر صرف مسلمانوں کے حوالے سے بات کی جائے تو آج روزہ، نماز، اعتکاف، حج وعمرہ کرنے والوں کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
وہ: شاید تعبیر کی یہی وہ غلطی ہے جسے سب کچھ مان کر ہم نے سجود وقیام، ذکرو اذکار کا ہر سامان تو اپنے لیے میسر کرلیا، مگر ہم بحیثیت ایک فرد اور ایک امت دنیا کے کسی بھی سماج کے لیے میسر نہ ہوسکے۔ کسی دوسرے سماج کے لیے مفید ہونے کا سوال تو بعد میں اُٹھے گا پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا ہم صرف اپنے سماج کے لیے بھی کسی طرح سود مند ثابت ہو رہے ہیں۔ یہاںکسی کی نیت اور ایمان پر اپنی رائے دینے اور اسے شک کی نگاہ سے دیکھنے کا مجھے اور تمہیں کیا کسی کو بھی کوئی حق حاصل نہیں لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آج کا مسلمان، مسلمان دکھنا چاہتا ہے، بننا نہیں چاہتا۔ من حیث القوم اور امت جن خرابیوںکی نشاندہی اقبالؔ ایک صدی قبل کرگئے تھے وہ مسلمانوں میں پہلے سے کہیں زیادہ راسخ ہوگئی ہیں، یہ ہمارے رویوں اور عادات وخصائل میں ایسے نفوذ کرگئی ہیں کہ اب شاید واپسی کا دروازہ تقریباً بند ہوچکا ہے۔
میں: واپسی کا دروازہ بند ہونے سے تمہاری کیا مراد ہے؟ اگر ربّ کی بارگاہ میں توبہ کرنے کی بات ہے تو اللہ میاں نے یہ دروازہ تو ہمیشہ کھلا رکھا ہے۔
وہ: واپسی سے مراد اللہ میاں کی واپسی ہے۔ ہمارے بنجر دلوں میں، سُونے گھروں میں، انصاف کے کٹہرے میں، قانون سازی کے احاطے میں، سیاست کے میدان میں، منصف کے قلمدان میں، ہماری صبح اور شام میں، روزانہ کے ہر کام میں۔۔۔ جب اللہ میاں پھر سے لوٹ آئیںگے تو مظلوم کو زبان ملے گی، ہنرمند کو پہچان ملے گی، ہر چوراہے پر احترام انسانیت کی نئی داستان ملے گی، ہر غریب کو مشکل میں بھی زندگی آسان ملے گی۔
میں: میری سمجھ میں تمہارا اصل مدعا ابھی بھی پوری طرح نہیں آیا۔
وہ: بات فقط اتنی سی ہے کہ آج کی سائنسی ترقی اور زندگی میں سماجانے والی ٹیکنالوجی کو اس کی تمام حشر سامانیوں کو اختیار کرنے کے باوجود بھی اللہ میاں کے احکامات اور اس کے نظام کو اپنے سماج، اپنی سیاست، اپنی معیشت، اپنی عدالت اور اپنی پوری زندگی میں شامل کرکے انسان خود اپنا اور اس پوری دنیا کا قبلہ سیدھا کرسکتا ہے۔ مجھے اس موقع پر مغربی تہذیب کے خلاف اردو کے پہلے مزاحمتی شاعر اکبر الہ آبادی یاد آگئے جسے ہم نے محض ایک مزاحیہ شاعربنا کر کھڈے لین لگادیا۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں